(حیدر قریشی کی تخلیقات اور تحریروں کی روشنی میں)
ڈاکٹرنذر خلیق(خانپور)
ڈاکٹر نذر خلیق کے لیے ہوئے ایک پرانے اورطویل انٹرویو
میں سے شاعری سے متعلقہ حصہ یہاں دیا جا رہا ہے۔(ح۔ق)
نذر خلیق: میں کوشش کروں گا کہ انٹرویو کے روایتی سوالوں سے بچ کر ایسے سوال کر سکوں جن سے آپ کے فن کی مختلف جہتوں کو سمجھنے میںآپ کے جوابوں سے کچھ مدد مل سکے۔تو میں آپ کی شاعری سے بات شروع کرتا ہوں۔ کیاآپ سمجھتے ہیں کہ آپ نے شاعری کے حوالے سے تما م امکانات کو پا لیا ہے اور آپ کی شاعری کے بارے میں جو کا م ہوا ہے یا جو رائے دی جا رہی ہے مکمل اور جامع ہے ؟
حیدر قریشی: ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ میں کہوں میں اپنی شاعری کے سارے امکانات کو پا چکا ہوں۔ہاں کچھ عرصہ سے شاعری کی روانی قائم نہیں رہی۔لیکن یہ کوئی تشویش کی بات نہیں ہے۔میرا پہلا شعری مجموعہ ”سلگتے خواب“ شاعری شروع کرنے سے ۲۰سال کے بعد شائع ہوا۔ اور چوتھا شعری مجموعہ”دعائے دل“ چار سال کے عرصہ میں مکمل ہو گیا،جبکہ اس کی زیادہ تر شاعری ۱۹۹۵ءاور ۱۹۹۶ء کے دو برسوں کی ہے۔اب پانچ مجموعوں کی کلیات مکمل کرنے کے بعدایسا لگتا ہے کہ شاعری میں کچھ ٹھہراؤ سا آگیا ہے۔لیکن مجھے معلوم ہے کہ یہ سب عارضی وقفے ہوتے ہیں۔ویسے ممکن ہے میری نثر کی طرف اور انٹرنیٹ کی طرف توجہ زیادہ دینے کی وجہ سے شاعری نظر انداز ہو رہی ہو۔باقی میری شاعری پر جتنا کام ہوا ہے،ہر جائزہ لینے والے کے اپنے مزاج کی بات ہے۔ممکن ہے کچھ اور لکھنے والے کسی اور زاویے سے بھی جائزہ لے سکیں۔
نذر خلیق: آپ غزل،نظم اور ماہیے میں سے کسے ترجیح دیں گے،کسے زیادہ اہم کہیں گے؟
حیدر قریشی: در اصل شاعری ہو یا دوسری نثری اصناف ہوں یہ سب اظہار کے مختلف پیمانے ہیں اورمیں جب کوئی تخلیقی اظہار کرتا ہوں تو اس کی نوعیت کے مطابق اس کا پیمانہ از خود اسی فارم کی صورت میں آجاتا ہے۔ اس لئے کسی کو بھی ترجیح نہیں دی جا سکتی۔البتہ یہ بات میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اب پھر کہہ رہا ہوں کہ شاعری میری پہلی محبت ہے۔اس میں غزل اظہار کا پہلا پیمانہ تھا۔اس کے باوجودکسی صنف کو کسی دوسری پر ترجیح دینا میرے لئے ممکن نہیں ہے۔
نذر خلیق: میں ابھی صرف شاعری تک محدود رہ کر بات کرنا چاہتا ہوں۔آپ نے شاعری کے لئے صرف ان تین اصناف کو ہی چنا ہے۔متعدد دوسری نئی اور پرانی اصناف میں کچھ کہنامناسب نہیں سمجھا اس کی کیا وجہ ہے؟
حیدر قریشی: آپ پہلے سوال کو پھر گھما لائے ہیں۔میں نے جن اصناف میں اظہار کیا ہے وہی میرے مزاج سے مطابقت رکھتی تھیں۔باقی اصناف شاید میرے مزاج اور میرے تخلیقی تجربے سے میل نہ کھاتی ہوں گی۔کئی بار ایسا ہوا کہ مجھے کسی دوست کا خط آیا میں فلاں صنف کا ایک انتخاب ترتیب دے رہا ہوں۔آپ فوری طور پر اتنی رباعیات،یا اتنی کہہ مکرنیاں،یا کچھ اور بھیج دیں۔ ان سارے دوستوں کی پر خلوص پیش کش کے جواب میں ہمیشہ میں نے معذرت کی ہے۔اگر کبھی اندر سے لہر اٹھے تو ہو سکتا ہے میں وہ شاعری بھی کر لوں جس کی مجھ سے فرمائش کی گئی تھی۔لیکن اگر اندر سے لہر نہیں اٹھتی تو محض چھپنے کے لئے یا کسی انتخاب میں شامل ہونے کے لئے ایسی فرمائشی شاعری کرنا میرے لئے مشکل ہے۔
نذر خلیق : اپنی غزلوں کے معیار کے سلسلے میں آپ کس حد تک مطمئن ہیں؟
حیدر قریشی: اگرچہ اپنے اظہار کے لئے میں اس حد تک مطمئن ہوں کہ جو کہنا چاہتا ہوںکسی نہ کسی رنگ میں کہہ لیتا ہوں،تاہم مجھے کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ طبیعت کی موزونیت کے باوجود مجھے کوئی اچھا رہنما مل جاتا تو عروض کی تھوڑی سی سوجھ بوجھ میرے لئے مفید ثابت ہوتی۔مجھے کبھی کبھی اپنی اس کمی کا احساس ہوتا ہے۔
نذر خلیق: لیکن ماہیے کے اوزان کے سلسلے میں تو آپ نے خاصی عروضی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔
حیدر قریشی: نہیں یار۔۔وہ تو ماہیے کی لَے کو برقرار رکھنے کے لئے مجبوراََ تھوڑی شد بد حاصل کرنا پڑی۔اس میں بھی میں نے لَے کو بنیاد مان کر اس کی رینج میں آنے والے سارے معین اوزان اور مختلف اوزان کو یکجا کیا ہے۔بلکہ اس عمل کے دوران عروضی میدان میں اپنی کم علمی کا احساس اور بڑھ گیا ہے۔البتہ جب میں کئی اپنے جیسے عروض سے نابلد لوگوں کو بڑے ناز کے ساتھ ماہرِ عروض کے طور پر بولتے اور لکھتے دیکھتا ہوں تو ان کی بہادری پر حیرت بھی ہوتی ہے اور شرمندگی بھی۔
نذر خلیق: آپ کی ذاتی زندگی کا عکس آپ کی شاعری میں بہت دکھائی دیتا ہے۔ڈاکٹر شفیق احمد صاحب نے تو اس وجہ سے اپنے مضمون میں اس کا تفصیلی ذکر بھی کیا ہے۔
حیدر قریشی: شاعری کا ایک دور وہ تھا جب میں شعری روایات کے زیر اثر بیت برائے بیت کہہ رہا تھا۔لیکن یہ میری شاعری کا عبوری دور تھا جسے میں نے جلد عبور کر لیا۔اس کے بعد میری شاعری میرے گہرے مشاہدے یا ذاتی تجربات کا پر تو ہے۔اسی لئے اس میں میری ذاتی زندگی موجود ہے۔میری زندگی میں موجود لوگ بھی دکھائی دیتے ہیں۔
نذر خلیق: کیا اس لحاظ سے آپ ترقی پسندوں اور حقیقت پسندوںکے قریب نہیں آجاتے جو شاعری اور ادب کو زندگی کا عکاس قرار دیتے ہیں؟
حیدر قریشی: شعرو ادب محض زندگی کے عکاس نہیں ہیں۔اس سے سوا بھی بہت کچھ ہیں ۔تاہم جہاں تک ترقی پسندی کی اس روایت کا تعلق ہے کہ یہ زندگی کی بات کرتی ہے تو یقیناً میری شاعری اس لحاظ سے ترقی پسند روایت سے قریب ہے۔
نذر خلیق: لیکن آپ ڈاکٹر وزیر آغا کے زیر اثر ترقی پسند وں سے خاصے دور ہیں؟
حیدر قریشی: مزیدار سوال ہے۔دراصل میری ذاتی زندگی ایک مزدورکی زندگی ہے جس کی ترجمانی ترقی پسند کرتے ہیں۔ظاہر ہے میں ترقی پسندی کے اس سارے عمل سے پوری زندگی گزرا ہوں۔استحصالی قوتوں سے ہر قدم پر لڑائی لڑی ہے۔اگر میں ادبی سطح پر ترقی پسند حلقے میں شامل ہوتا تو اس کے نتیجہ میںمیرے ہاں بلند آہنگ نعرہ بازی کی حد تک آجاتا۔اس لحاظ سے وزیر آغا کی فکر میرے لئے بہت بابرکت ثابت ہوئی کہ میں عملی زندگی میں ترقی پسند ہو کر خارجی محاذ پر لڑتا رہا اور ادبی طور پرمیں نے خارج کے بجائے اپنے داخل پر توجہ مرکوز کی۔یوں میرے ہاں داخلیت اور خارجیت کا ایک توازن فطری طور پر آگیا۔
نذر خلیق: لیکن داخلیت کی اہمیت کو ماننے والے تو ایک قدم آگے بڑھ کر باہر کو بھی اندر کا ہی ایک حصہ قرار دیتے ہیں۔
حیدر قریشی: بھائی!یہ تو ادبی مباحث ہیں چلتے رہتے ہیں۔ہر علمی نکتہ میں کوئی نہ کوئی مفید یا مزے کی بات ہوتی ہے۔میں سلطان باہو کو پڑھ رہا تھا ۔جب ان کے اس مصرعہ پر پہنچا ظاہر باطن عین ایانی ہُو ہُو پیا سنیوے ہُو۔۔۔۔تو مجھے لگا کہ داخل اور خارج کی بحث اپنی علمی اہمیت کے باوجود تخلیق کی اعلیٰ اور صوفیانہ سطح پرجاکر بے معنی ہو جاتی ہے۔لیکن ایسا صرف صوفیانہ تجربے جیسے تخلیقی لمحہ میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھر وہی مباحث ہیں اور ان پر سب کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔اور ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔