وہ کسی اندھے ہیولے سے بھی کم تر نکلا
میں جسے آئنہ سمجھا تھا وہ پتھر نکلا
خواب کا ٹوٹنا تو خیر مقدر تھا مگر
خواب ٹوٹا تو پھر آنکھوں سے بکھر کر نکلا
بے لحاظی سے کچھ اس کے بھی حجاب اترے ہیں
کچھ عقیدت کا مِرے دل سے بھی اب ڈرنکلا
خود کو دیکھا تو کوئی شاعرِ کم مایہ تھا
سوچنے بیٹھا تو جذبوں کاقلندر نکلا
گو ترے چاہنے والے تھے ہزاروں پیارے
سُرخرو عشق میں لیکن ترا حیدر نکلا
٭٭٭
عکاس ۔خان پور۔دسمبر ۱۹۸۱ء