بے تاب ہوئے جاتے ہیں جذبات کے جنگل
اُگ آئے ہیں آنکھوں میں بھی صدمات کے جنگل
ہر شعر درختوں کی گھنی چھاؤں کا پیکر
اب کے ہیں گھنے کتنے خیالات کے جنگل
یہ فاصلے دُوری کے کوئی چیز نہیں ہیں
پھیلے ہیں مگر راہ میں لمحات کے جنگل
سورج کوئی اس دھرتی کے سینے پہ اتارو
کھا جائیں گے ورنہ اسے اس رات کے جنگل
منڈلاتے رہے ذہن پہ آسیب انا کے
اور چاٹ گئے مجھ کو مری ذات کے جنگل
٭٭٭
عکاس ۔خان پور۔دسمبر ۱۹۸۱ء