یہ کون دے گیا ہے مجھ کو بے طلب اداسیاں
کہاں سے آگئی ہیں مجھ میں بے سبب اداسیاں
نہ جن کا کوئی رنگ ہے،نہ جن کا کوئی نام ہے
رگوں میں جگمگا اُٹھی ہیں کچھ عجب اداسیاں
تمام رات رتجگوں کا زہر چاٹتے رہے
نہ جانے اور ڈھائیں دل پہ کیا غضب اداسیاں
میں تب یقیں کروں کہ پیار میں اسیر ہے کوئی
کسی کی روح میں بھی تَیر جائیں جب اداسیاں
تمام حرف ہوں گے سُرخرو اب انتظار کے
بس اور تھوڑی دیر کہ ہیں جاں بلب اداسیاں
٭٭٭
عکاس ۔خان پور۔دسمبر ۱۹۸۱ء