یہ کیا ہوا کہ دعاؤں کے ہاتھ چھوٹ گئے
نئے دنوں کی صداؤں کے عکس ٹوٹ گئے
ہوا پہ لمس دھنک کے اتارنے والے
جواں رُتوں کے بدن خوشبوؤں کو لوٹ گئے
مجھے یقین ہے اک روز لَوٹ آئے گا
وہ جس کی یاد کے بھی حرف مجھ سے روٹھ گئے
میں اپنی کرچیاں اب کس طرح سمیٹوں گا
کرن کرن مِری آنکھوں کے خواب پھوٹ گئے
وہ بے قصور تھا،میری منافقت ہی سہی
چلو خلوص کے جھوٹے بھرم تو ٹوٹ گئے
٭٭٭
عکاس ۔خان پور۔دسمبر ۱۹۸۱ء