برستے رنگ نگاہوں میں بھر کے لایا ہوں
سلگتے خواب بجھانے بھی خود ہی آیا ہوں
میں بے لباس خیالوں میں اس کو اپناؤں
کوئی تو مجھ کو یہ سمجھائے میں پرایا ہوں
ادھورے شہر کے اک بے صدا دریچے میں
یہ میں ہوں یا کوئی بے چہرگی کا سایا ہوں
وہ پڑھ سکا کبھی مجھ کو،نہ مجھ کو سوچ سکا
میں جس کی روح کا ہر لفظ جھانک آیا ہوں
میں ٹوٹ کر بھی ہوں پہچان وقت کی حیدر
کہ ٹوٹتے ہوئے لمحوں میں آسمایا ہوں
٭٭٭
جدید ادب خانپور۔شمارہ نمبر ۳۔ سال۱۹۷۹ء