نئی رُتوں کے جو منتظر تھے،اُجڑ گئے وہ گلاب چہرے
عذاب کی ایسی آندھیاں تھیں کہ بجھ گئے آفتاب چہرے
خموشیوں کی اُداس جھیلوں میں جھلملائے ہیں عکس ایسے
کہ جیسے میری سوال آنکھوں میں تَیرتے ہوں جواب چہرے
گداز جسموں کی ہر صدا میں جواں گناہوں کا ہے تقدّس
وہی تقدس کہ جس کے صحرا میں دور تک ہیں سراب چہرے
میں وقت کے بہتے پانیوں پر نقوش چہروں کے کھینچتا ہوں
کوئی تو سمجھائے آکے مجھ کو کہ کب رُکے ہیں برآب چہرے
نہ پڑھ سکے داستان اپنی،نہ سوچ پائے کسی کی سوچیں
بکھر گئے لفظ لفظ حیدر،ورق ورق ہیں کتاب چہرے
٭٭٭
مرتب کردہ کتاب ”کرنیں“۔مطبوعہ ۱۹۸۰ء