گیان،دھیان کے رستوں پر اب اور نہ مجھ کو رول
میرے مالک! مجھ پر میرا ساتواں دَر بھی کھول
ایک نئے آدم کی پھر تشکیل ہے میٹھے پانی!
جذب ہو میری مٹی میں یا مجھ کو خود میں گھول
دنیا کو سمجھائیں کیسے، آخر کیسے سمجھے
باتیں اپنی سچی،سیدھی اور دنیا ہے گول
قیمت اپنی کچھ بھی نہیںتھی، شان ہے اُس پیارے کی
یاروں نے بے مول کیا تھا، اُس نے کیا اَنمول
کب اپنی پہچان کے سارے بھید کھلے ہیں خود پر
جھانک ابھی کچھ اور بھی اندر،من کو اور ٹٹول
کتنی اور زمینیں تیرا رستہ دیکھ رہی ہیں
اس دھرتی سے آگے چل،اب اُڑنے کو پر تول
دُکھ اور سُکھ کے اتنے ہی میلے تھے بس قسمت میں
جیون کے اس کھیل میں اپنا اتنا ہی تھا رول
راضی ہوں تیری مرضی پر لیکن بھید کھلے بھی
تیری مرضی کیا ہے یارا، کچھ تو کھل کر بول
ہجر کی رُت میں بھی پیغام وصال کا آیا حیدر
دیکھ! بُلاوا آیا ہے تو مت کر ٹال مٹول
٭٭٭