نہ جانے کیوں تمناؤں کی طغیانی میں رکھا ہے
ابھی تک دل نے خود کو عہدِ نادانی میں رکھا ہے
یہ کیسا آئنہ رُو اب کے میرے روبرو آیا
مجھے جس نے مسلسل ایک حیرانی میں رکھا ہے
کوئی خواہش ہو،اب کہتے ہی فوراً مان لیتا ہے
ستم گر نے مجھے اب بھی پریشانی میں رکھا ہے
عنایت میں بھی اک طرزِ ستم محسوس ہوتا ہے
نہ لاؤں تاب جس کی ایسی تابانی میں رکھا ہے
دکھائی شانِ فقراپنی تمہاری بادشاہی میں
فقیری عجز اپنے عہدِ سلطانی میں رکھا ہے
ہے میری روح میرے جسم کے ہر ذرّہ میں پنہاں
تو اپنے جسم کو اک شہرِ روحانی میں رکھا ہے
دیارِ حُسن میں خیرات کی خواہش نہیں رہتی
بخیلوں نے بخیلی کو فراوانی میں رکھا ہے
بہت سی بے نیازی اور اک یادوں بھری گٹھڑی
بڑا سامان اپنی خستہ سامانی میں رکھا ہے
یہاں سے رونقیں دکھ درد کی جاتی نہیں حیدر
دکھوں کا ایسا میلہ اپنی ویرانی میں رکھا ہے
٭٭٭