ترا مقصود ہو کر رہ گیا ہے
یہ دل محدود ہو کر رہ گیا ہے
جو ناموجودیت میں بیکراں تھا
وہ بس موجود ہو کر رہ گیا ہے
جہاں ملنے تھے اپنے دل،وہ رستہ
بہت مسدود ہو کر رہ گیا ہے
زیاں کے شوق میں نکلے تھے لیکن
زیاں بھی سود ہو کر رہ گیا ہے
بڑی ”مقبولیت“ حاصل تھی اس کو
بڑا مردود ہو کر رہ گیا ہے
کسی پر آگ ٹھنڈی ہو گئی ہے
کوئی نمرود ہو کر رہ گیا ہے
سدا انکار تھی پہچان جس کی
سراپا جُود ہو کر رہ گیا ہے
بہت ہی پیار وہ کرتا ہے مجھ سے
وہ کب معبود ہو کر رہ گیا ہے
کبھی شعلۂ جوّالہ تھا، حیدر
یہ دل اب دُود ہو کر رہ گیا ہے
٭٭٭