کوئی آوارہ ہے یا بھٹکی ہوئی ہے زندگی
موت کی نظروں میں جو کھٹکی ہوئی ہے زندگی
شور سنتے تھے بہت لیکن حقیقت اور ہے
ایک ہی تو سانس پر اٹکی ہوئی ہے زندگی
کربلا کی خاک پر روندی گئی ہے اور کبھی
نفرتوں کی دار پر لٹکی ہوئی ہے زندگی
دھوپ میں ٹھنڈک،تمازت گھل گئی ہوں جس طرح
ایسے سارے دہر میں چھٹکی ہوئی ہے زندگی
رنگ و خوشبو کا کوئی جادو اسی کے دَم سے ہے
گلشنِ ہستی میں جو چٹکی ہوئی ہے زندگی
یہ تو بس موّاج لہروں کا انوکھا کھیل ہے
کب کسی ساحل،کسی تٹ کی ہوئی ہے زندگی
اور تھے حیدر جو اس کی چاہ میں مرتے رہے
ہم نے الٹے ہاتھ سے جھٹکی ہوئی ہے زندگی
٭٭٭