اظہار کی اِس دل نے اس بار تو حد کر دی
ہر بات مگر اُس نے اِس بار بھی رد کر دی
جو کام نہ ہونا تھا،وہ ہو ہی گیا آخر
کچھ ہم نے بھی ہمت کی،کچھ اس نے مدد کر دی
اس درد سمندر میں اک جزر تھا مدّت سے
اس درد سمندر میں کیوں آپ نے مد کر دی
جو مانتے ہیں دل سے وہ کھل کے نہیں کہتے
یاروں کے رویے نے توثیقِ حسد کر دی
اعداد ہوئے غالب تو آج کی دنیا نے
ہر حرف کی حرمت ہی اب زیرِ عدد کر دی
وا گود رکھی اس نے،بیداری رہی جب تک
جب نیند کا وقت آیا ،گود اس نے لحد کر دی
نکلے تھے ازل سے جواک لہرمیں،سو ان کی
قسمت نے مسافت بھی تاحدِ ابد کر دی
تھے زیر و زبر دونوں،اک زیر ہوا آخر
پھر آخری لمحے میں اس زیر نے شد کر دی
شدت کا رویہ ہی عادت سی رہی اس کی
نفرت بھی بلا کی تھی،چاہت بھی اشد کر دی
جب عشق کیا حیدر معیار بنا ڈالا
اور ایسی محبت کی،دنیا میں سند کر دی
٭٭٭