دردِ دل کی ہمیں اب کے وہ دوائی دی ہے
اپنے دربار تلک سیدھی رسائی دی ہے
اک جھماکا سا ہوا روح کے اندر ایسے
نوری برسوں کی سی رفتار دکھائی دی ہے
کیسے زنجیر کا دل ٹوٹا یہ اُس نے نہ سُنا
وقت نے قیدی کو بس فوری رہائی دی ہے
اک نئی لمبی مسافت کا زمیں زاد کو حکم
اور اس بار مسافت بھی خلائی دی ہے
جب بھی جانا ہے پلٹ کر نہیں دیکھیں گے کہیں
اپنے اندر سے یہ آواز سنائی دی ہے
جتنے دکھ درد تھے،دل میں ہی ڈبو ڈالے ہیں
ہم نے فریاد کبھی کی نہ دُہائی دی ہے
اُن فقیروں کے لیے ایک خدا کافی ہے
اہلِ دنیا کو جنہوں نے یہ خدائی دی ہے
اک عجب عالمِ برزخ میں ہی رکھا اس نے
نہ کبھی قرب ہی بخشا نہ جدائی دی ہے
کسی الزام کا اقرار بھی حیدر نہ کیا
نہ بریت کے لیے کوئی صفائی دی ہے
٭٭٭