اسی طریقے سے دونوں گزارا کرتے ہیں
ہم ان کو اور ہمیں وہ گوارا کرتے ہیں
اگر ہے دل میں تذبذب سا کچھ ابھی تک تو
تشفّی کے لیے پھر استخارا کرتے ہیں
بساطِ منظر و ناظر بچھانے والے اب
ہمارے کھیل کا خود بھی نظارا کرتے ہیں
کبھی جو دل سے تری یاد ہمکلام ہوئی
تو چشمِ نَم کو ستارے پکارا کرتے ہیں
نئے زمانے۔۔نئے آسمان سے آکر
نئی زمینوں کی جانب اشارا کرتے ہیں
ستارے جس پہ نچھاور تو کہکشاں ہو فدا
ہم ایسی دھرتی پہ سورج کو وارا کرتے ہیں
ہمیں تو اپنے ہی شہروں کی بات کرنی ہے
وہ اور ہیں جو بخارا، بخارا کرتے ہیں
نئے کچھ اور کی خواہش بھی اب نہیں دل میں
نہ اپنے پہلے کیے کو دوبارا کرتے ہیں
تمام خواہشیں حیدر کبھی کی چھوڑ چکے
کہو تو خود سے بھی اب ہم کنارا کرتے ہیں
٭٭٭