رقص کناں ہے جس کے اندر ازل، ابد کا مور
وہ ہے اک بے انت خلا سا جس کی اور نہ چھور
اک دل کا پھیلا صحرا ، خاموشی سے معمور
اک کم ظرف سمندر ،جس میں خالی خولی شور
سارے حوالے برکت والے نور بھرے دربار
کوٹ مٹھن،اجمیر شریف اور دہلی ، اور لاہور
حال،دھمال سے تن من روشن،روشن ہو گئی جان
جگمگ کر اٹھی ہو جیسے ایک اندھیری گور
اپنی اڑانیں، ساری شانیں،تیرے دَم سے یار
تیرے ہاتھ ہوائیںساری تیرے ہاتھ میں ڈور
رشتے ناطے اور تعلق کیسے میرے یار!
کب کچھ مان کسی پر اپنا، کب کچھ اپنا زور
مَن سے لے کر بُکل تک ہوں ویران و حیران
چوری کرناچھوڑ گئے ہیں میرے سارے چور
سات سمندر سے تو اپنے پاپ نہیں دُھل پائے
تو ہی بھیج اب دل کے صحر ا کوئی گھٹا گھنگھور!
حیدرنے پہچان کے تجھ کو جانا تیرا بھید
”بلہے شاہ اساں مرنا ناہیں، گور پئے کوئی ہور“
٭٭٭