پہنچائی گرچہ آپ نے ہر ممکنہ گزند
اک سرنگوں کو کر دیا مولا نے سر بلند
جو جتنا رب کے شکر سے لبریز ہو گیا
اللہ نے کردیا اسے کچھ اور ارجمند
اِتنے ہی ہم مزاج تھے،اِتنے ہی مختلف
جو مجھ کو ناپسند تھا،اُس کو رہا پسند
اُس کے خیال میں اُڑی مچھلی ہوا میں، تو
ہم نے لگائی ایڑ،سمندر میں تھا سمند
مسجد میں ہم گئے تو وہ جائیں گے چرچ میں
ہم قادیاں گئے تو وہ جائیں گے دیو بند
اک بائبل کہے تو کہے وید دوسرا
قرآن ایک لائے تو لے آئے ایک ژند
قسمت میں تھا یہی کہ پلٹ کر نہ جا سکیں
ہم بام تک پہنچ گئے،ٹوٹی نہیں کمند
پھر بھی نباہ ہو گیا،جیسے بھی ہو گیا
ہم مستِ حالِ فقر تو وہ سخت خود پسند
دونوں گناہگار ہی کچھ لاڈلے سے تھے
دونوں نے مل کے کھولا تھا بابِ قبول بند
اک دوسرے کو زخم بھی دیتے ہیں پیار سے
اک دوسرے کے واسطے دونوں ہیں دردمند
٭٭٭