جتنے سیاہ کار تھے نردوش ہو گئے
ہم سر جھکا کے شرم سے خاموش ہو گئے
فریاد جتنا شورِ قیامت اُٹھا گئی
منصف ہمارے اور گراں گوش ہو گئے
جب باغیانہ ہمت و جرأت نہیں رہی
شہرِ ستم گراں میں ستم کوش ہو گئے
اہلِ خرد جو ہونے لگے اور ہوشیار
دیوانے بھی سیانے و باہوش ہو گئے
نیکی ہماری ایک بھی ان کو رہی نہ یاد
سب زود رنج، زود فراموش ہو گئے
اب کے شرابِ غم میں کچھ ایسا سرور تھا
چکھتے نہ تھے جو،وہ بھی بَلا نوش ہو گئے
دل کی تو کیا خود اپنی خبر بھی نہیں ملی
جس دن سے میرے دل میں وہ روپوش ہو گئے
ہجر و وصال ہو گئے یکجا کچھ اس طرح
جذبات پھر سے جاگ اُٹھے،پُر جوش ہو گئے
حیدر جب اس نے چاہ سے غم کر دئیے عطا
تو ہم بھی والہانہ غم آغوش ہو گئے
٭٭٭