بخشی تھی ہجر نے جو تب و تاب لے گیا
اس جسم کو تو وصل کا سیلاب لے گیا
خوابوں سے بڑھ کے پیار کی تعبیریں بخش کے
جاتے ہوئے وہ میرے سبھی خواب لے گیا
دامن کو میرے بھر گیا چَین و قرار سے
بدلے میں وہ مِرا دلِ بے تاب لے گیا
کر دی ہیں ماند رونقیں دریائے جان کی
رقصاں تھے اس میں جتنے بھی گرداب لے گیا
تاکہ کسی سفر پہ نکل ہی نہ پاؤں اب
ہمراہ اپنے وہ مِرا اسباب لے گیا
پہلے تو اس نے کی تھیں عنایات بے شمار
پھر جو بھی میرے پاس تھا نایاب، لے گیا
سیراب کر کے ، پیاس کی لذّت کو چھین کر
صحرا کے ضابطے، ادب آداب لے گیا
جگنو ، ستارے، اشک، محبت کے ہم سفر
میرے تمام ہجر کے احباب لے گیا
اک روشنی سے بھر گیا حیدر مِر ا وجود
بے شک وہ میرے سورج و مہتاب لے گیا
٭٭٭