افلاک کی لگن میں زمیں کے نہیں رہے
یارانِ تیز گام کہیں کے نہیں رہے
دنیا سمیٹنے میں ہی دنیا سے کٹ گئے
جب دین کو سمجھ گئے دیں کے نہیں رہے
دل کی زمیں کو چاند ستاروں سے بھر لیا
ہم صرف ایک ماہ جبیں کے نہیں رہے
حُسنِ ازل کی چاہ میں بھٹکے ہیں جابجا
ویسے تو ہم کسی بھی حسیں کے نہیں رہے
دو گز کی ایک قبر بھی قسمت کی دین سے
باقی مکاں کسی بھی مکیں کے نہیں رہے
صحراؤں میں بھی رونقیں شہروں کی آگئیں
ہم بادیہ نشیں تو کہیں کے نہیں رہے
قدموں سے حیدر اُن کے لپٹتے ہیں اس طرح
جیسے یہ سجدے میری جبیں کے نہیں رہے
٭٭٭