چلے تھے جستجوئے بے حدی کی حد کے لیے
ازل سے محوِ سفر ہیں ترے ابد کے لیے
ترے خیال کی تجرید کے یہ متلاشی
رُکے نہیں ہیں کسی ظاہری کے رد کے لیے
ابھی سکوت سا طاری ہے دل پہ بوجھل سا
کہ تیرہ دن ہیں ابھی پورے جزرو مد کے لیے
قبولیت کی اچانک گھڑی میں وقت نہ تھا
کسی مزید تقاضے یا ردو کد کے لیے
کفن مِرے لیے دامانِ یار ٹھہرے گا
چلوں گا کوچہ دلدار میں لحد کے لیے
ہم اپنے صفر زمانے میں مست تھے حیدر
وہ ناز کرتے رہے اپنے ہر عدد کے لیے
٭٭٭