دانش میری بات کو آرام سے سننا احسان صاھب نے کہا دانش نے سر ہلا دیا
تم جانتے ہو کہ تمہارے دادا نے دو شادیاں کی تھیں
میری ماں کے مرنے کے ایک سال بعد ہی شہر کی اک عورت سے شادی کر لی
تب میں بارہ سال کا تھا
مجھے اپنی ماں کی جگہ کوئی دوسری عورت برداشت نہیں تھی لیکن بابا اس سے بہت پیار کرتے تھے اس عورت کی وجہ سے ہی بابا نے میری پھپو سے بھی لڑائی کر لی تھی پر ناراضگی کے باوجود پھوپو مجھ سے ملنے اتی تھیں مجھے سمجھا تھی تھیں کہ اس عورت پر ہر گز بھروسہ نہیں کرنا
اس عورت نے ہر کوشش کی میرا دل جیتنے کی پر میں نے ہر دفع اسے جٹھک دیا
میری نفرت اس سے مزید تب بڑھی جب میرا سوتیلا بھائی پیدا ہوا
تب مجھے پھپو نے بتایا کہ یہ مجھ سے میرا حق چھین لے گا انہیں ڈر تھا کے کہیں بابا ساری جائداد ان کے نام نہ کر دیں انہوں نے میرے دماغ میں بھی یہ بات ڈال دی
اس لئے میں نے اس کو مارنے کا سوچا پر اسی وقت بابا آ گئے انہوں نے مجھے خوب ڈانٹا اور پہلی دفع مارا بھی اس دن میں نے سوچ لیا تھا کہ جس کی وجہ سے بابا نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا تھا اسے کبھی چین سے نہیں رہنے دوں گا
وقت گزرتا گیا میں نے ہر موقه پر اسے نیچا دکھایا اس کی شخصیت تباہ کرنے کی پوری کوشش کی پر پھر بھی وہ میری عزت کرتا تھا لیکن مجھ سے ڈرتا نہیں تھا ایسے ہی وقت کا پہیہ مزید گھوما بہت کچھ بدلہ لیکن میری ان لوگوں کے لئے نفرت میں کمی نہیں ای
بابا نے ہم دونوں کی شادی اکھٹی ہی کروائی تھی تمہاری پیدائش سے کچھ دن پہلے بابا گزر گئے
جائداد کے تین حصے انہوں نے وصیت میں کیے اک اس عورت کے نام اک اس کے بیٹے کے نام اور اک میرے نام ابھی بھی میں ہی گھاٹے میں تھا
اب مجھے کسی بھی طرح ساری جائداد اپنے نام کروانی تھی تمہاری پیدائش کے اک ہفتے بعد اسکے یہاں بیٹی پیدا ہوئی میں جتنی خوشی مناتا کم تھا
میں نے فوراً خود پر اچھائی کی چادر اوڑھ لی اور اسکے پاس مٹھائی لے کر پہنچ گیا
اس دن پہلی دفع اس عورت کو ماں کہا وہ تو اسی وقت پگھل گئی
پھر کچھ دن ایسے ہی گزر گئے میں نے اچھائی کا وہ تماشا بڑی کامیابی کے ساتھ جاری رکھا
پھر اک دن میں نے اس سے تمہاری اور اسکی بیٹی کی شادی کی بات کی وہ بہت خوش ہوا تھا
لیکن وہ بچپن میں ہی اپنی بیٹی کا نکاح نہیں کرنا چاہتا تھا میں نے بڑی مشکل سے اسے منایا تھا اور پھر بڑی دھوم دھام سے تم دونوں کا نکاح کرا دیا
سب کچھ میری مرضی کے مطابق ہو رہا تھا
لیکن اک دن یوں ہوا کہ باتوں ہی باتوں میں میں نے تمہاری ماں کو اپنا مقصد بتا دیا
لیکن بدقسمتی سے اسکی بیوی نے سن لیا اور جا کر اسکو بتا دیا اگلے دن وہ میرے پاس آیا اور نکاح ختم کرنے کی بات کی اب وقت آ گیا تھا کہ میں اچھائی کی چادر کو اپنے اوپر سے اتار دیتا میں نے اسے صاف صاف که دیا کہ اب میں کسی بھی صورت میں یہ رشتہ ختم نہیں ہونے دوں گا یا تو اسکی بیٹی میری بہو بن کر رہے گی یا کسی قبر میں مردہ پائی جائے گی
لیکن میری دھمکی کام نہیں ائی تھی وہ پھر بھی میری بات نہیں مان رہا تھا
اس وقت ہم کھیتوں کے پاس کھڑے تھے پاس ہی نہر تھی اسکی بیٹی اور تم وہیں کھیل رہے تھے میں نے اسکی بیٹی کو اٹھا کر نہر میں پیھنک دیا
لیکن اک ہاتھ سے اس کا بازو پکڑے رکھا وہ وہیں ڈوب رہی تھی اگے نہیں بہ رہی تھی میں نے اس سے پھرپوچھا وہ مجھ سے کبھی نہ ڈرنے والا اس وقت ڈر گیا تھا اس کے دل سے میرے لئے عزت ختم ہو گئی تھی وہاں اب ڈر بیٹھ گیا تھا اس نے اپنی بیٹی کی زندگی کے لئے مجھ سے وعدہ کر لیا کہ وہ یہ نکاح نہیں ختم کراے گا اسی پل میں نے اسکی بیٹی کو پانی سے نکال دیا تھا اس طرح یہ بات ختم ہوئی اور میں مطمئن ہو گیا پر اس سے اگلے ہی دن وہ میری سوتیلی ماں اور اپنی بیوی اور بیٹی کو لے کر وہاں سے غائب ہو گیا میرے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ ساری جائیداد اب مجھ اکیلے کی ہی تھی
بابا یہ اپ نے کیا کیا صرف جائیداد کے لئے اپ اس حد تک کیسے جا سکتے ہیں دانش غصے سے اٹھ کھڑا ہوا
خدیجہ بیگم خاموشی سے روتی رہیں
احسان صاھب پلٹے نہیں بلکہ کھڑکی کی طرف رخ کر کے کھڑے رہے
بابا بتائیں اپ اس حد تک کیوں چلے گئے کیا جائداد اور یہ روپیہ پیسہ رشتوں سے بڑھ کر ہوتا ہے کیا واقعی یہ جائیداد اتنی قیمتی تھی کہ اس کے لئے اپ نے اپنی ماں اپنے بھائی اور ان کے خاندان کو یوں رسوا کیا ان کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا انہیں فرار ہونے پر مجبور کر دیا
اپ نے صرف ان کے ساتھ نہی بلکہ میرے ساتھ بھی برا کیا ہے بابا
پہلے جب مجھ سے کوئی پوچھتا تھا کہ تم کس کے بیٹے ہو تو میں بڑے فخر سے اپکا نام لیتا تھا لیکن بابا اب میں کبھی فخر سے اپکا نام نہیں لے سکوں گا
اک باپ کے لئے اس سے زیادہ برا وقت نہیں ہو سکتا کہ جب اسے اپنی جوان اولاد کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے اور نہ اس سے زیادہ تکلیف دہ الفاظ ہو سکتے ہیں کہ اسکی اولاد کو اسکی وجہ سے شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے
احسان صاھب کو بھی بہت تکلیف ہوئی لیکن وہ جانتے تھے کہ یہ تکلیف اس تکلیف کے موقابلے میں بہت کم ہے جو ان کی وجہ سے دوسروں کو ملی اس دفع وہ پلٹے چہرہ آنسوں سے بھیگا ہوا تھا
اب کی بار تکلیف دانش کو ہوئی وہ جیسے بھی تھے اسکے باپ تھے دانش فوراً اگے بڑھا اور انہیں گلے لگا لیا تھوڑی دیر پہلے والا غصہ اک پل میں غائب ہو گیا اب بس دکھ بچا تھا
بابا مجھے معاف کر دیں میں نے گھستاخی کی دانش نے الگ ہوتے ہووے ہاتھ جوڑ دیے
تم مجھے معاف کر دو بیٹا میں نے واقعی میں غلط کیا
بابا اپ کو مجھ سے نہیں بلکہ چچا اور انکی فیملی سے معافی مانگنی چائیے
احسان صاھب کا سر اک دفع پھر جھک گیا وہ اک دفع پھر گویا ہووے
بہت عرصے سے میں انہیں ڈھونڈ رہا تھا پر انکا کہیں کوئی پتا نہی چل سکا میں نے جن آدمیوں کو اس کی تلاش کی ذمےداری سونپی تھی انہیں وہ کچھ ماہ قبل مل گیا میں نے اس کا فون نمبر پتا کروایا اور اک دن اسے کال کی پر وہ میری کوئی بات سننے کو تیار نہی تھا وہ اب بھی مجھ سے ڈرتا ہے
پھر اک دفع میں اسکے آفس بھی گیا پر اس نے مجھ سے ملنے کے لئے انکار کر دیا مجھے بہت غصہ آیا تھا کہ وہ مجھے معافی کا کوئی موقع ہی نہیں دے رہا
پھر میں نے سوچا کہ اگر وہ مجھ سے ڈرتا ہے تو اسی ڈر سے فائدہ اٹھا کر اس سے معافی مانگ لوں اور ان سب کو منا لوں
میں نے اسے فون کر کہ ڈرایا کہ مجے میری امانت اب واپس چاہیے یہی اک طریقہ تھا اب ٹوٹے ہووے رشتوں کو جوڑنے کا
مجھے نہیں پتا میں نے سہی کیا یا غلط پر میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا اس لئے میں نے اسکی ۔۔۔
بڑے صاھب بی بی جی کو ہوش آ گیا ہے ملازمہ نے آ کر اطلاح دی انکی بات بیچ میں ہی رہ گئی
دانش نے سوالیہ نظروں سے انہیں اور خدیجہ بیگم کو دیکھا
یوں کہ حویلی میں صرف تین لوگ ہی تو رہتے تھے احسان صاھب انکی بیوی اور اکلوتا بیٹا پھر یہ ملازمہ کس تیسرے فرد کی بات کر رہی تھی
بیٹا تمہاری منکوحہ یہیں ہے اسی کی بات کر رہی ہے احسان صاھب نے نظریں چراتے ہووے کہا دانش کو اک دفع پھر حیرت کا جھٹکا لگا
بابا کیا چچا لوگ آ گئے ہیں
نہیں ابھی صرف ووہی ای ہے انہوں نے بتایا
کیا میں اس سے مل سکتا ہوں دانش نے سنجیدگی سے پوچھا
رات بہت ہو گئی ہے صبح مل لینا انہوں نے کہا
نہیں بابا میں ابھی ملنا چاہتا ہوں دانش نے ضد کی اسے اپنی منکوحہ کے دیدار کا شوق نہیں تھا وہ بس اسکی راے جاننا چاہتا تھا اور اسے اپنی پسند بھی تو بتانا تھی
انہوں نے سر ہلا دیا
دانش کچھ جھجکتا ہوا اس کے کمرے کی طرف چل دیا دستک دی پر کوئی جواب نہ پا کر خودی دروازہ کھول کر اندر آ گیا
لیکن اسکے بڑھتے قدم یک دم ہی جیسے کسی نے جکڑ لئے تھے اسکا دل اک لمحے کے لئے دھڑکنا بھول گیا تھا
آنکھیں جو کچھ دیکھ رہیں تھیں دماغ فوری طور پر اسے قبول نہیں کر رہا تھا
اک سیکنڈ دوسرا سیکنڈ اور اسی طرح نہ جانے کتنے سیکنڈ گزر گئے پر وہ یقین نہ کر پایا دماغ آنکھوں پر بھروسہ نہیں کر رہا تھا اس نے زبان کو حکم دیا کشمالہ تم یہاں اس نے پوچھا
سامنے والا بھی تو اسی کیفیت میں تھا اسے بھی بولنے میں وقت لگا دانش تم یہاں دانش تم آگے پلیز مجھے بچا لو پلیز جلدی مجھے یہاں سے لے چلو
وہ جلدی سے بولی کہ کوئی آ نہ جائے وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہوش میں یی تھی اسے نہیں پتا تھا کے وہ کہاں ہے دانش کا دماغ اب آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا جٹھلانے کے قابل نہیں رہا تھا اس نے حقیقت کو مان ہی لیا
یہ کشمالہ ہی تھی اسکی دوست۔۔
اسکے چچا کی بیٹی۔۔۔
اور اب شائد اسکی منکوحہ بھی
کشمالہ بہت ڈری ہوئی تھی اور بار بار اسے یہاں سے چلنے کو کہ رہی تھی
پر وہ کچھ نہیں بول سکا وہ کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں رہا تھا
دانش آخر تم اس طرح کیوں کھڑے ہو گئے ہو۔۔ وہ لوگ آ جایئں گے پلیز جلدی چلو یہاں سے۔۔۔ اس نے روتے ہووے کہا
دانش کو بتانا ہی پڑا کشمالہ تمیں کوئی نقصان نہیں پہنچاۓ گا تم اس وقت میرے گھر میں ہو اس نے دھیمے لہجے میں کہا
تمہارے گھر میں پر میں یہاں کیا کر رہی ہوں مجھے تو مری میں کسی نے اغوا کیا تھا نہ کشمالہ نے حیرانی سے پوچھا
کشمالہ پلیز مجھ سے کچھ مت پوچھو میں انکل کو کال کرتا ہوں وہ یہیں آ جایئں گے اور تمھیں سب کچھ بتا دیں گے تم بس تب تک آرام کرو اور فکر مت کرنا تم یہاں بلکل محفوظ ہو اس نے کہا اور کمرے سے باہر چلا گیا
کشمالہ حیرانی سے اسے جاتا دیکھتی رہی اسے بلکل سجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے
دانش سیدھا بابا کے پاس آیا
بابا کیا اپ نے کشمالہ کو اغوا کروایا ہے
انہوں نے سر جھکا لیا
دانش سر تھام کے وہیں بیٹھ گیا
بابا اپ نے اک بڑی غلطی کو سدھارنے کے لئے دوسری بڑی غلطی کر دی اس نے افسردگی سے کہا
بیٹا تم پریشان نہ ہو میں صبح ہی سلمان کو کال کر کے کہ دوں گا کہ اپنی بیٹی کو لینے آ جائے اور پھر اس سے معافی مانگ لوں گا
صبح نہیں بابا ابھی انہیں فون کریں اور یہاں آنے کا کہیں
انہوں نے خاموشی سے فون ملا دیا
---------------------------------------------------------------
جہانزیب بیٹا گھر آ جاؤ ان کا فون آ گیا ہے انہوں نے کشمالہ کو لے جانے کا کہا ہے
جہانزیب ابھی تک مسجد میں ہی تھا خوشی سے اک سجدہ شکر اس نے اپنے رب کے حضور کیا اور گھر آ گیا
سلمان صاھب اور وہ کشمالہ کو لینے کے لئے چلے گئے لیکن جہانزیب کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس اغواہ کا آخر مقصد کیا تھا اغوا کاروں نے کوئی رقم بھی نہیں مانگی تھی
اس نے انکل سے ساتھ پولیس لے جانے کا کہا بھی کے کہیں یہ کوئی ٹریپ نہ ہو پر انہوں نے انکار کر دیا
ساڑھے چار بجے کے قریب وہ اس گاؤں پہنچے گاؤں درمیانے درجے کا تھا نہ زیادہ قدیم اور نہ ہی زیادہ جدید پر جہانزیب کو لگا بہت سی کمیوں کے باوجود یہ گاؤں مکمل تھا کیوں کہ یہاں اس گاؤں میں اسکی کشمالہ تھی
کاش وہ یہ جان سکتا کہ جس کشمالہ کو وہ اپنا سمجھتا تھا وہ تو اسکی تھی ہی نہیں وہ تو کسی اور کی امانت تھی
جس کشمالہ سلمان سے اس نے اظہار کیا تھا وہ تو کشمالہ سلمان تھی ہی نہیں وہ تو کشمالہ دانش تھی کاش وہ جان سکتا
پر بہت جلد وہ یہ سب جاننے والا تھا
اب دیکھنا یہ تھا کہ محبت کی اس آزمائش پر وہ پورا اترنے والا تھا یا نہیں
بظاھر تو اس وقت سورج طلوح ہو رہا تھا لیکن اسکی زندگی پر دکھ کے کالے بادل منڈلا رہے تھے یا تو یہ بادل جم کر برسنے والے تھے اور اتنا برسنے والے تھے کے تباہی سے کم کچھ بھی نہی ہونا تھا یا پھر یہ بادل بس گرج کر چھٹ جانے والے تھے
جہانزیب اور سلمان صاھب اس وقت حویلی کے باہر کھڑے تھے
سلمان صاھب نے اک بھرپور نظر حویلی پر ڈالی اور پھر جہانزیب کو بتایا کہ یہاں میرا بھائی رہتا ہے
جہانزیب نے حیران نظروں سے انہیں دیکھا
وہ ان سے پوچھنا چاہتا تھا کہ ہم تو کشمالہ کو لینے آے تھے پھر آپکے بھائی کے گھر کیوں آے ہیں کیا کشمالہ یہاں ہے۔۔۔ تو کیا کشمالہ کو اسکے چچا نے اغوا کیا تھا پر وہ پوچھ نہ سکا کیوں کے وہ یہ بتا کر اندر کی طرف بڑھ چکے تھے جہانزیب بھی جلدی سے ان کے پیچھے چل دیا
------------------------------------------------------------------
دانش نے کشمالہ کے کمرے کا دروازہ کھٹکایا
کون! اندر سے اسکی سہمی ہوئی آواز ائی
میں ہوں دانش, دروازہ کھولو کشمالہ
کشمالہ نے یہ سنتے ہی دروازہ کھول دیا۔۔۔ دانش یہ سب آخر کیا ہو رہا ہے مجھے بتاؤ میں یہاں کیسے ائی کشمالہ کا پریشانی سے برا حال تھا وہ سوچ سوچ کر تھک گئی تھی پر کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا
کشمالہ بیٹھو یہاں دانش نے بیڈ کی طرف اشارہ کیا وہ چپ چاپ بیڈ پر آ کر بیٹھ گئی دانش بھی اسکے پاس بیڈ پر ہی آ کر بیٹھ گیا
تمہاری زندگی میں میری کیا جگہہ ہے اس نے سننہیں
ی سے پوچھا
کشمالہ اس سوال پر حیران ہوئی یہ کیسا سوال ہے اور یہ کیا وقت ہے مجھ سے یہ پوچھنے کا?
یہی سہی سوال ہے اور یہی سہی وقت تم بس جواب دو دانش نے اک دفع پھر کہا
تم میرے اچھے دوست ہو دانش کشمالہ نے کچھ نہ سمجھتے ہووے بھی سنجیدگی سے جواب دیا
کیا تم مجھ پر بھروسہ کرتی ہو اس نے اک اور سوال کیا
ہاں کرتی ہوں کشمالہ نے کہا
دانش کشمالہ کے جواب سے مطمئن ہو کر اٹھ کھڑا ہوا کشمالہ بس حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی
تمہارے بابا آ گئے ہیں آؤ ان کے پاس چلتے ہیں دانش نے کہا کشمالہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی
----------------------------------------------------------------