اگلے دن وہ دونوں صبح ہی آ گئی تھیں ردا اس سے بہت سخت خفا تھی۔ اسے منتیں کرنا پڑیں تو تب کہیں جا کر وہ مانی مگر موڈ پھر بھی آف رکھا۔
تایا نے خاصا انتظام کر ڈالا تھا۔ اسلام آباد سے رمشاء باجی اپنی ساس اور نند کے ساتھ کل ہی آ گئی تھیں۔ ردا کے ماموں اور خالہ کی فیملی بھی آ چکی تھی اُس کے علاوہ ان دونوں کی مشترکہ پھوپھیاں بھی آ گئی تھیں۔ تایا کے گھر میں خاصی رونق تھی۔ کھانے پینے کا انتظام ریڈی میڈ تھا۔ تین بجے کے قریب لڑکے والے بھی پہنچ گئے تھے۔ مریم کو وہ فیملی اچھی خاصی لگی۔
ردا دلہن بن کر بہت جچ رہی تھی۔ رسم کے بعد کھانے کا دور چلا تھا، یہ ہنگامہ شام تک جاری رہا تھا۔ چونکہ ردا کے سسرال والے دور سے آئے تھے، سو رات نو بجے کے قریب رخت سفر باندھا تھا، اپنی گاڑیاں تھیں سوتا یا لوگوں کے رات رُک جانے کے مشورے کو ٹال گئے تھے اور ان لوگوں کے رُخصت ہوتے ہی باقی رشتہ دار بھی جانا شروع ہو گئے تھے۔
صبا کی والدہ اور والد چلے گئے تھے جبکہ صبا کو ردا نے زبردستی روک لیا تھا ادھر سے یہ تینوں ہی رُک گئی تھیں جبکہ وقار امی اور ابو چلے گئے تھے۔ مریم نے کئی بار جانا چاہا تھا مگر ردا کی دھمکیوں باقی لوگوں کے اصرار کے آگے اس کی ایک نہ چلی تھی۔
اور اس وقت وہ سب ردا کے کمرے میں دھما چوکڑی مچائے ہوئے تھے۔ ہر کوئی ردا کے سسرال والوں پر کمنٹس پاس کر رہا تھا اور ردا شرمائی لجائی سب کی باتیں سن رہی تھی۔
’’ویسے سسرال تو بہت اچھی ہے، مجھے بہت پسند آئی ہے تمہاری سسرال۔‘‘ صبا جو اتنا سارا کھانا دیکھ کر کچھ بھی نہ کھا پائی تھی اب پلیٹ تھامے قورمہ اور بریانی تناول فرما رہی تھی۔
’’لڑکا تو اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔ تصویر تو دیکھی تھی نا۔‘‘ رمشاء باجی نے کہا۔
’’ہوں… کمال کی شخصیت ہے۔‘‘ آمنہ نے فوراً سر ہلایا تھا۔
’’کمال کی نہیں اسجد صاحب کی شخصیت کہو۔‘‘ کھاتے ہوئے صبا نے لقمہ دیا۔ آمنہ نے ’’ہونہہ‘‘ کہہ کر سر جھٹکا۔
’’مجموعی طور پر فنکشن بہت اچھا اور شاندار تھا خصوصاً منگنی کا کھانا۔ یار! قورمہ تو بہت ہی لذیذ ہے اور بریانی کی کیا بات ہے۔‘‘ صبا نے پھر ٹانگ اڑائی تھی۔
’’تمہیں کیا ہوا ہے؟ بڑی چپ بیٹھی ہو مریم صاحبہ! تمہاری کسی سے لڑائی ہو گئی ہے کیا؟‘‘ رمشاء باجی کا بالکل خاموش بیٹھی مریم کی طرف دھیان ہوا تو ٹوکا۔
’’اس نے آج کل چپ شاہ کا روزہ رکھا ہوا ہے اسے مت چھیڑیں۔ یہ منگنی پر آ گئی ہے یہ بھی بڑا غنیمت سمجھیں۔‘‘ ردا نے ناراضی سے جتایا۔
’’ہیں یہ کیا معاملہ ہے؟‘‘ رمشاء باجی نے تعجب سے اسے دیکھا۔
’’کوئی معاملہ نہیں۔ بس یونہی موڈی ہو رہی ہے آج کل۔‘‘ فوزیہ جو حریم کے احساسات سے باخبر تھی اس نے ٹالا۔
’’پھر بھی کوئی وجہ تو ہو نا؟‘‘
’’موڈ نہیں ہے محترمہ کا اور موڈ ایک منٹ میں بناتی ہوں میں آج ڈھولک منگوائیں اگر ہمیں زبردستی روکا ہے تو اب بور مت کریں۔ آج رُت جگا منائیں گے۔‘‘ صبا جو کھانے سے فارغ ہو چکی تھی وہ فوراً قالین پر فوزیہ، آمنہ کے درمیان آ بیٹھی تھی۔
’’زبردست… آئیڈیا اچھا ہے۔ ڈھولکی کا کیا ہے ابھی منگوا لیتے ہیں۔‘‘ رمشاء باجی فوراً تیار ہو گئی تھیں۔
اور پھر تھوڑی دیر بعد سکندر نے کہیں سے ڈھولک لا دی تھی اور اب سب چھوٹے بڑے کمرے میں بیٹھے ڈھولک کے جائز ناجائز استعمال سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ایسے ماحول میں مریم خود کو بہت دیر لاتعلق نہیں رکھ پائی تھی۔ صبا ڈھولک بجا رہی تھی، آمنہ چمچہ اور باقی لوگ تالیاں پیٹ رہے تھے۔ سکندر فارم میں آ کر بھنگڑا ڈال رہا تھا جبکہ باقی سب کے قہقہے چھت پھاڑ تھے۔ دادی دونوں پھوپھیاں ان کے بچے تایا، تائی، عمر سبھی ادھر ہی تھے۔
ڈھولک میں تال ہے پائل میں چھن چھن
گھونگھٹ میں گوری ہے سہرے میں ساجن
جہاں بھی یہ جائیں بہاریں ہی چھائیں
خوشیاں ہی پائیں میرے دل نے دُعا دی
میری دوست کی شادی ہے
ہماری دوست کی شادی ہے
صباح اور مریم کی مشترکہ آواز نے گیت کا حُسن دوبالا کر دیا تھا اور سب نے تالیاں پیٹ پیٹ کر خوب داد دی۔
’’اچھا وہ والا گائو نا؟‘‘ رمشاء باجی کی نند نے گانا مکمل ہونے پر کہا۔
’’کون سا؟‘‘ اس نے صبا کے کان میں کہا تو اس نے ڈھولک کی لے بدلی۔
’’تجھ کو ہی دلہن بنائوں گا
ورنہ کنوارہ مر جائوں گا
دونوں نے مل کر تان اُڑائی تو سکندر مریم کو دھکیل کر درمیان میں آ بیٹھا۔
’’کیا ہے؟‘‘
’’یہ گانا میں بھی گائوں گا۔‘‘ مریم کی گھوری پر کہا گیا۔
’’یہ منہ اور مسور کی دال۔‘‘ اس نے لتاڑا۔
’’جا کے جوگن بن جائوں گی
سنگ تیرے نہ میں آئوں گی
سب سے میں یہ کہہ جائوں گی
تجھ کو نہ دولہا بنائوں گی
چاہے کنواری مر جائوں گی
دو سُریلی آوازوں میں ایک مردانہ آواز سے گیت درمیان میں ہی رہ گیا تھا اور سب ہنس دی تھیں جبکہ عمر مریم کے جھلملاتے چمکتے چہرے کو تکے گیا۔
’’سکندر باز آ جائو ورنہ مار کھائو گے۔‘‘ رمشاء باجی نے ٹوکا۔
’’نہ جی میں دلہن کا برابر کا بھائی ہوں۔ ساتھ ساتھ گائوں گا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں رمشاء باجی! بیٹھنے دیں ابھی اس کی بھی شامت لے آتے ہیں۔‘‘ مریم جس کا موڈ بہت فریش ہو چکا تھا، رمشاء باجی سے کہہ کر صبا کے کان میں کچھ کہنے لگی اور پھر دونوں ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسی تھیں۔
’’یہ سازش میرے خلاف ہوئی ہے نا؟‘‘ اس نے پوچھا جبکہ ادھر کون متوجہ تھا۔
’’نہیں دلہن کے بھائیوں کے خلاف۔‘‘ صبا نے ڈھولک بجائی تو مریم نے شرارت سے سکندر کو دیکھا۔
’’وہ تو عمر بھائی ہیں۔‘‘ اس نے دہائی دی مگر سنتا کون؟
ہم سب منگنی پر آئے شاوا
یہاں پر لڑکے دیکھے شاوا
کچھ تھے کالے کلوٹے شاوا
کچھ تھے لنگڑے لولے شاوا
ہم نے جو غور سے دیکھا شاوا
وہ تو لڑکی کے بھائی نکلے شاوا
شاوا بھئی شاوا ، شاوا بھئی شاوا
چاروں طرف سے ہنسی کا ایک فوارہ پھوٹ پڑا تھا، عمر بھی بے اختیار ہنس دیا۔
’’عمر بھائی دیکھ رہے ہیں۔‘‘ سکندر نے عمر کو مخاطب کیا۔
’’یہ زیادتی ہے، میں اپوزیشن کی طرف سے شدید احتجاج کرتا ہوں۔‘‘ سکندر دہائیاں دے رہا تھا مگر ادھر پرواہ کسے تھی۔
’’ہم منگنی پر آئے شاوا
یہاں پر لڑکے دیکھے شاوا
کچھ تھے غنڈے لوفر شاوا
ہم نے غور سے جو دیکھا شاوا
وہ تو اپوزیشن والے نکلے شاوا
شاوا بھئی شاوا ، شاوا بھی شاوا
عمر تو ایک طرف سکندر خود بے اختیار ہنس دیا تھا۔ اس کے بعد رات گئے تک ڈھولک بجتی رہی تھی، عمر نے کئی بار مریم کے ہنستے مسکراتے چہرے کو دیکھا اور پھر مسکرا دیا اور رات بہتی چلی گئی۔
ابھی ردا کی منگنی سے فراغت ہی نصیب ہوئی تھی کہ ٹھیک تین دن بعد رشتہ کروانے والی کا فون آ گیا کہ وہ چند لوگوں کو لے کر آنے والی ہے۔ لڑکا نیک تھا، معقول لوگ تھے امی جی کے تو ہاتھ پائوں پھول گئے۔ گھر میں امی نے فوراً ایمرجنسی نافذ کر ڈالی تھی، صفائی ستھرائی کھانے پینے کے انتظامات وقار کی بازار اور بیکری دوڑ فوزیہ سخت اُکتائی ہوئی تھی تو مریم اس نئی افتاد پر بے چین تھی، آج کل صبا کی کزن کرشمہ صاحبہ خالہ کے گھر آئی ہوئی تھی اور اس کی انٹری ادھر منع تھی، بقول صبا کے کھیل وائنڈپ ہونے والا تھا، وہ دونوں طرف سے بھرپور انداز میں کھیل رہی تھی۔ کرشمہ بی بی اور صبا کی والدہ کی اپنی اپنی جگہ دونوں کی ایک دوسرے سے ٹھن چکی تھی۔ وہ ایک منہ پھٹ بدتمیز بگڑی ہوئی کرشمہ کو دیکھ کر حیران و پریشان ہو رہی تھیں تو دوسری طرف کرشمہ صاحبہ نامعلوم ماریہ نامی لڑکی کی فون کالز سے ملنے والی ہدایات پر عمل کرتے اپنے امیر کبیر ہونے کا رُعب و دبدبہ جمانے کے چکر میں خالہ کی اصلیت ظاہر کرتے کرتے ان کی نگاہوں سے آئوٹ ہوتی جا رہی تھی۔ بس فائنل رائونڈ رہ گیا تھا آج کل سیمی فائنل چل رہا تھا اب جبکہ کامیابی کے امکانات روشن تھے ایسے میں رشتہ… مریم کے ہاتھ پائوں پھول گئے تھے۔
شام کو وہ مہمان آ گئے تھے فوزیہ بددلی سے امی کی ہدایت پر تیار ہو گئی تھی جبکہ مریم کے دل کی رفتار تیز تر ہو چکی تھی۔
امی نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی آمنہ اور مریم کو مہمانوں کے سامنے آنے پر کرفیو نافذ کر دیا تھا جبکہ اس نے دل ہی دل میں کوئی اور پلان بنا رکھا تھا۔
امی جی مہمانوں کے پاس تھیں آج ابو جی بھی جلدی آ گئے تھے، کچھ دیر بعد وقار، امی کا پیغام لیے چلا آیا کہ فوزیہ چائے لے کر اندر چلی جائے۔
’’فوزیہ باجی ! لائیں میں لے جاتی ہوں۔‘‘ اس نے کہا تو فوزیہ نے حیرانی سے دیکھا۔
’’امی سے جوتیاں کھانی ہیں۔ امی کی ہدایت بھول گئی ہو کیا؟‘‘
’’جوتیاں کھانی ہیں نہ کچھ بھولی ہوں۔ کچھ نہیں ہوتا، آپ بعد میں آ جائیے گا میں ذرا دیکھ کر آئوں کیسے لوگ ہیں پلیز…‘‘ اس نے مسکین سی صورت بنا لی۔
’’اگر امی خفا ہوئیں تو مجھے مت کہنا۔‘‘
’’نہیں کہوں گی۔‘‘ وہ ٹرالی گھسیٹتے باہر نکل آئی تھی جبکہ فوزیہ کے ہاتھ پیر پھول گئے۔
’’مریم… مریم…‘‘ اس نے روکنا چاہا مگر اب بے سود تھا۔ مریم بی بی اپنے پلان پر عمل درآمد کر چکی تھیں۔
’’السلام علیکم!‘‘ وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو امی کا حیرت سے منہ کھلا رہ گیا۔
’’تم…؟‘‘
’’و علیکم السلام!‘‘ مہمان خواتین مکمل طور پر متوجہ ہو چکی تھیں اب امی کچھ نہیں کر سکتی تھیں اور اسے پروا بھی نہ تھی، امی سے نظریں چرا کر مسکرا کر مہمانوں کو دیکھا اور پھر آگے بڑھ کر نہایت سلیقے سے برتن ٹیبل پر سجانے لگی۔ سب اسے ہی دیکھ رہے تھے ابو جی بھی حیران ہوئے تھے مگر ٹال گئے کہ شاید فوزیہ بعد میں آئے۔ اس نے باری باری چائے کپوں میں اُنڈیل کر سب کو دئیے لوازمات پیش کرنے کے بعد امی کو دیکھا وہ کینہ توز نظروں سے گھور رہی تھیں، اس نے سوچا اب بھاگ لے اس سے پہلے کہ اپنی سوچ پر عمل درآمد کرتی سامنے بیٹھی خاتون نے روک لیا۔
’’کیا نام ہے بیٹا آپ کا؟‘‘
’’جی مریم!‘‘ وہ رُک گئی تھی۔
’’ماشاء اللہ! کیا ایجوکیشن ہے آپ کی۔‘‘ اگلا سوال تھا خواتین خاصی معقول اور شائستہ اطوار کی مالک لگ رہی تھیں، اس کا اعتمادل بحال ہوا۔
’’جی میں بی ایس سی کے ایگزیمز دے کر ابھی فری ہوں۔ ایم ایس سی کرنے کا ارادہ ہے۔‘‘ دونوں خواتین نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا۔
’’معافی چاہتی ہوں مگر ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ لڑکی ایم اے انگلش ہے۔‘‘ پہلی خاتون نے سنبھل کر پوچھا۔
ان خاتون کی یادداشت کمال کی تھی، اس نے ستائشی نظروں سے انہیں دیکھا شاید یہی لڑکے کی والدہ تھیں۔
’’جی وہ فوزیہ آپی ہیں میری بڑی بہن۔‘‘
’’کیا؟‘‘ وہاں موجود ہر فرد چونکا تھا، امی نے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔
وہ ایک ایسی بدشگونی کی مرتکب ہو چکی تھی جو ناقابل معافی تھی۔
’’جائو مریم! فوزیہ کو بھیجو۔‘‘ معاف کیجیے گا یہ میری چھوٹی بیٹی ہے۔‘‘ امی جی کا ضبط بھی یہیں تک تھا اسے اشارہ کر کے معذرت کی۔
کچھ دیر بعد مہمان رُخصت ہوئے تو لڑکے کی والدہ نے امی جی کے ہاتھ تھام کر کہا۔
’’بہن! ماشاء اللہ آپ کی دونوں بچیاں ہی بہت پیاری اور سلجھی ہوئی ہیں۔ ہم جلد ہی فیصلہ کر کے جواب دیں گے۔‘‘ اور امی ’’دونوں بچیاں‘‘ سن کر ہی بھول گئی تھیں ان لوگوں کے جانے کے بعد امی اس کے سر ہو گئی تھیں۔
’’یہ کیا حرکت تھی، جب میں نے کہہ دیا تھا کہ فوزیہ کے علاوہ کوئی ادھر بھٹکے گا بھی نہیں تو تمہیں ہمت کیسے ہوئی ادھر آنے کی۔‘‘ امی جی کا غصے سے بُرا حال تھا، وہ فوراً ابو کے کندھے سے جا لگی۔
’’میں نے کچھ غلط تو نہیں کیا، میں مہمانوں کو دیکھنا چاہتی تھی۔‘‘ ایک دم آنکھوں میں آنسو بھر لائی تھی، امی جی نے اپنا ماتھا پیٹ لیا۔
’’کیوں خفا ہوئی ہو، بچی ہے۔ ویسے بھی کوئی نامعقول حرکت نہیں کی اس نے کہ تم اتنا شور مچائو۔‘‘ ابو جی نے ہمیشہ کی طرح اس کی طرف داری کی۔
’’آپ کے اسی لاڈ پیار نے اسے خود سر اور ضدی بنا ڈالا ہے۔‘‘ وہ ابو جی پر بھی گرم ہوئیں۔
’’امی جی کیا ہو گیا ہے، کیوں پریشان ہو رہی ہیں۔‘‘ فوزیہ بھی اس کی حمایت میں بولی تھی۔
’’خوا مخواہ پریشان نہیں ہو رہی، اس لڑکے کی ماں کی نیت بدل گئی ہے، وہ جس طرح جاتے ہوئے دونوں بچیاں کہہ کر گئی ہے میرا دل ہول رہا ہے… میں صاف کہہ رہی ہوں کہ اگر ایسا واقعی ہوا نا تو پھر میں صاف انکار کر دوں گی۔ اگر مجھے چھوٹی کا ہی کرنا ہے تو عمر بُرا ہے کیا؟‘‘ امی شروع ہو چکی تھیں۔
کرشمہ ادھر آ چکی تھی وہ آزاد خیال کی مالک خاصی منہ پھٹ آئوٹ آف اسپوکن لڑکی تھی۔ آج کل تو ویسے ہی خالہ کے خلاف ثبوت ڈھونڈنے آئی تھی۔ اوپر سے نامعلوم ماریہ نامی لڑکی کی کالز اور خصوصی بریفنگ سونے پر سہاگہ تھا۔
ان چند دنوں میں ہی خالہ پر اس کے جوہر کھلنا شروع ہو گئے تھے۔
ان چند دنوں میں ہی کرشمہ کے طور طریقے دیکھتے انہیں ہول اُٹھنے لگے تھے۔ کہاں وہ بہت ماڈرن بننے کی کوشش کے باوجود شلوار قمیص سے ہٹ کر ساڑھی جیسے لباس تک نہیں آ سکی تھیں اور کہاں محترمہ کرشمہ صاحبہ کا لباس ہی جینز شرٹ، لانگ شرٹ کے علاوہ ٹرائوزر تھا۔
ایک دن انہوں نے ٹوک دیا انہیں ایسا لباس پسند نہیں، خیال تھا کہ بہو پر ابھی اس کے لباس کی طرف سے اپنی پسند نا پسند واضح کر دی جائے، مگر کرشمہ کو ناگوار گزرا۔
’’آپ اتنی دقیانوس ہیں آنٹی! آپ جانتی ہیں یہ لباس تو میرا فیورٹ ہے، آپ مجھے شلوار قمیص پہننے کو کہہ رہی ہیں ایسا پینڈو لباس تو میں مر کر بھی نہ پہنوں۔‘‘
امیر کبیر لائق فائق پڑھی لکھی بہو یہ صاف جواب، ان کی آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگے تھے۔ آج تک ان کی اولاد کی مجال نہ ہوئی تھی کہ انہیں پلٹ کر جواب دے دے اور بھانجی صاحبہ اُٹھتے بیٹھتے ان کے پینڈوپن پر طنز فرما رہی تھیں۔
بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھا کھانے پینے، سونے جاگنے تک کے معمولات تک ان لوگوں سے متضاد تھے خاور ان کا اکلوتا بیٹا تھا، انہیں اپنا بڑھاپا عذاب اور گھر کا مستقبل تاریک ہوتا لگ رہا تھا۔ محترمہ کو کچن کے کانوں میں چائے تک بنانا نہیں آئی تھی اور گھریلو امور میں اس کی معلومات صرف اس حد تک تھی کہ کام والی کو پیسے دے کر گھر چمکا لو بھلے وہ کام والی صفائی کے ساتھ ساتھ گھر کا ہی صفایا کر جائے۔
اس دن تو حد ہو گئی وہ کرشمہ کے کمرے کے دروازے سے کان لگائے اندر کی صورتحال کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی تھیں۔
صبا، مریم کے ہاں گئی تھی کرشمہ گھر پر ہی تھی۔ ایسے میں اس کی ٹوہ کرنا اچھا موقع تھا۔
’’دیکھنا اس بڑھیا کو کیسے مزا چکھاتی ہوں۔ وہ سمجھتی کیا ہے خود کو، نجانے کس چیز کا غرور ہے۔ میری ڈریسنگ پر تنقید کر لی تھی ماریہ! تو میں نے بھی سیدھا جواب منہ پر مارا۔ نوکروں والے کاموں کی مجھ سے توقع کرتی ہے میں نے بھی مزا نہ چکھایا تو میرا نام بھی کرشمہ نہیں۔ بس میرے ہاتھ پُرانی منگنیوں یا چند لوگوں سے متعلق ثبوت لگ جائیں تو پھر دیکھنا میں ماما، پاپا کے سامنے کیسے سارا کچا چٹھا کھولتی ہوں۔‘‘ کرشمہ خاصے جوش سے کہہ رہی تھی، انہوں نے تھوڑے سے کھلے دروازے سے دیکھا، وہ بستر پر دراز تھی دروازے کی طرف پشت تھی۔ اپنے متعلق نادر خیالات سن کر ان کا جلالی غصہ ایک دم ان کی عقل پر حاوی ہوا۔ جی چاہا کہ ابھی اندر جائیں اور اس کی چوٹی پکڑ لیں۔
’’مجھے کون سی رشتوں کی کمی ہے، رشتوں کی لائن ہے جو حاضر ہے۔ ماما کو بھی بس بہن کی محبت کا بخار چڑھا تھا، اب واپس جا کر ان کی اصلیت بتائی تو دیکھنا کیسے صاف انکار کرتی ہیں میری ماما۔‘‘ وہ حیرت سے گنگ تھیں یہ ان کی پسند ان کی بھانجی تھی جس کی دولت و جائیداد کے لالچ میں اپنے انتہائی فرمانبردار ہیرے جیسے بیٹے کے دل کا خون کر کے اپنی من مانی کی تھی، ان کا غرور ان کو منہ چڑا رہا تھا۔
’’بس ڈراپ سین باقی ہے یار! بہت اچھا کیا تم نے مجھے گائیڈ کیا اگر میں اپنے اصلی حلیے میں اس عورت کے سامنے آتی تو اس کی اصلیت کب کھلنی تھی؟ تمہاری ہدایت پر عمل کیا تو اس عورت کا اصل روپ بھی سامنے آ گیا۔ میں نے اپنے گھر میں کبھی ہل کر پانی کا گلاس نہیں پیا اور بڑی بی کہہ رہی تھیں کہ شادی کے بعد مجھے نا صرف گھر بار سنبھالنا ہو گا بلکہ کچن بھی دیکھنا ہو گا اور دیکھو ماما نے مجھے یہ لالچ دیا تھا کہ ان کی بہن ان سے مرعوب ہے، انہیں دولت کی لالچ دے کر شادی کر لیتے ہیں اکلوتا بیٹا ہے، نند کی تو شادی ہو جائے گی کون سا وہ میری ذمہ داری ہو گی کبھی کبھار آئے گی، لڑکے کو گھر داماد بنا لیں گے۔ ماں نے زیادہ شور کیا تو مہینے کے مہینے خرچہ دے دیا کریں گے، اب آ کر ماما اپنی ڈکٹیٹر بہن کو دیکھیں تو کانوں کو ہاتھ لگائیں اور کبھی پلٹ کر ادھر کا رُخ نہ کریں۔ میرا حوصلہ ہے جو میں یہ سب برداشت کر رہی ہوں محض اس عورت کی اصلیت ظاہر ہونے تک۔‘‘
ان کا حوصلہ بس یہیں تک تھا ایک دم دھڑام سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تھیں۔
’’اے لڑکی! کیا ہے اصلیت میری، ذرا بتائو مجھے بھی۔ یہ میرا حوصلہ ہے جو اتنے دن تمہیں برداشت کر لیا۔ جس میں حیا نہ شرم۔ میں نے دولت لے کر چاٹنی ہے خالی۔ تم جیسی لڑکی پر میں لاکھ بار لعنت بھیجتی ہوں، میرا ہیرے جیسا بیٹا تمہاری جیسی منہ پھٹ بدلحاظ، بدتمیز، جاہل لڑکی کے بھلا قابل ہی کب ہے۔ یہ تو میری عقل گھاس چرنے چلی گئی تھی، جو تم جیسی لڑکی کے متعلق سوچا۔ میں سو بار تم پر لعنت بھیجتی ہوں۔‘‘ ان کے الفاظ دوسری طرف صبا اور اسپیکر آن ہونے کی وجہ سے مریم نے بھی سنے تھے۔