عمر ردا کے رویے سے پریشان ہو چکا تھا، جس طرح اس نے فوراً گھر واپسی کی ضد پکڑی تھی وہ اُلجھ گیا تھا۔ وہ مریم سے ملے اور بات کیے بغیر نہیں آنا چاہتا تھا مگر مریم ملنا تو ایک طرف سلام دُعا کرنے تک آئی تھی اور وہ مریم کے رویے سے بھی اُلجھ چکا تھا۔ وہ بھی پہلے بھی اس کے جذبات و احساسات کا مثبت جواب نہیں دیتی تھی، اب وہ خاصی بدلی ہوئی تھی اوپر سے ردا کا رویہ… سارا راستہ وہ خاموش رہی تھی۔
’’کیا بات ہے؟ مریم سے کوئی بات ہوئی تھی کیا؟‘‘ گھر آ کر اس نے پوچھا تو جواباً اس نے مریم کی تمام گفتگو کہہ سنائی۔
’’اوہ اتنی سی بات ہے میں سمجھا نجانے کیا ہو گیا ہے۔‘‘ وہ کچھ مطمئن سا ہوا۔
’’یہ اتنی سی بات نہیں ہے وہ سراسر ہمیں قصور وار ٹھہرا رہی ہے کہ فوزیہ باجی کا رشتہ نہ لے کر ہم نے زیادتی کی ہے۔ اس کے نزدیک آپ کے جذبات و احساسات کوئی معنی نہیں رکھتے بقول اس کے کہ اس نے آپ کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی، یہ سراسر آپ کی حماقت ہے اس کا ہیڈک نہیں۔‘‘ عمر ہنس دیا۔
’’وہ اپنی سوچ اپنے فیصلے، اپنے ہر معاملے میں آزاد ہے یار! وہ ایک اچھی لڑکی ہے اور اس کا ری ایکشن بالکل بجا ہے۔ اپنے والدین اور گھریلو مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی سوچ غلط نہیں ہے۔ فوزیہ کے ہوتے ہوئے ہم نے مریم کا نام لیا۔ یہ واقعی زیادتی ہے۔‘‘
’’کیسی زیادتی… آپ اسے پسند کرتے ہیں، آپ کے دل کا معاملہ ہے پھر زبردستی کیوں۔ چچی جان خوا مخواہ اس کو ضد اور انا کا معاملہ بنا رہی ہیں۔‘‘ عمر کے بہت ہی پُرسکون انداز پر وہ خاصی بھنا کر بولی تھی۔
’’یہ اس کے دل کا معاملہ نہیں ہے اس لیے اس کا ری ایکشن بالکل درست ہے۔ ڈونٹ وری میں پھر کسی دن چکر لگائوں گا اس سے بات کروں گا۔ فون پر تو وہ اب ملتی نہیں، کیا کہا جا سکتا ہے۔‘‘ عمر کی بات پر وہ چپ ہو گئی تھی۔
اگلے دن عمر آفس سے جلدی اُٹھ گیا تھا، عموماً وہ چچا کے گھر شام کے بعد ردا وغیرہ کے ساتھ ہی چکر لگاتا تھا، مگر آج وہ اکیلا ہی چلا آیا تھا۔ مریم کوئی میگزین لیے فوزیہ کے بستر پر لیٹی ورق گردانی کر رہی تھی جبکہ آمنہ اپنی کتابیں لیے چلی آئی، پرسوں اس کا چوتھا پیپر تھا۔ وہ صحن میں بیٹھی تیاری کر رہی تھی۔
’’عمر بھائی آئے ہیں، امی کہہ رہی تھیں کہ چائے بنا دو۔‘‘ اس پیغام پر اس نے چونک کر اسے دیکھا، کل سے ردا کی کوئی کال میسج کچھ بھی نہیں آیا تھا اور اب اس شخص کی آمد؟‘‘
’’یہ عمر بھائی لگتا ہے بہت فارغ ہیں آج کل۔‘‘ اس بے وقت کی آمد پر اس کو سخت کوفت نے آ لیا۔
’’مجھے کیا پتا پوچھ لینا، پلیز چائے بنائو تو مجھے بھی ایک کپ دے دینا، صبح سے پڑھ پڑھ کر اب سر دُکھنے لگا ہے۔‘‘ اس کا جی چاہا کہ صاف انکار کر دے مگر پھر کچھ سوچ کر کچن میں آ گئی۔
چائے بنا کر اس نے فریج میں جھانکا، نمکو، بسکٹ، کباب ہر چیز موجود تھی۔ اس نے نمکو، بسکٹ نکال کر ٹرے تیار کی، آمنہ کے لیے کپ بھی اس میں رکھ دیا تھا۔
’’یہ ٹرے تیار ہے، اندر لے جانا میں صبا کے ہاں جا رہی ہوں، امی پوچھیں تو بتا دینا۔‘‘ واپس اپنے کمرے میں آ کر ٹرے آمنہ کے سامنے کی۔
’’مگر صبا تو ابھی تک واپس نہیں آئی اُدھر کیوں جا رہی ہو؟‘‘ وہ اُدھر صرف صبا کے لیے ہی جاتی تھی۔
’’پرسوں رات فون پر بات ہوئی تھی، کہہ رہی تھی کہ صبح آ جائوں گی ہو سکتا ہے آ گئی ہو۔ میں نے کل چکر لگایا نہ ہی آج… اب سوچ رہی ہوں کہ دیکھوں تو سہی آئی ہے کہ نہیں۔ تم یہ ٹرے لے جانا۔‘‘ وہ اسے زبردستی ٹرے تھما کر نکل آئی تھی، باہر گیٹ سے صبا کے ہاں جانے کے بجائے وہ سیڑھیاں چڑھتے چھت پر آ گئی تھی۔ صبا اور ان کے گھر کی چھت ساتھ ساتھ تھی، درمیان میں تقریباً چھ فٹ لمبی دیوار تھی، وہ اور صبا ہمیشہ ایک دوسرے کے گھر آنے جانے کے لیے اسی بائونڈری وال کو کراس کیا کرتی تھیں۔
دیوار کے سوراخوں میں پائوں پھنسا کر دیوار پر چڑھ کر وہ دوسری چھت پر کود گئی تھی۔ چھت کراس کر کے وہ سیڑھیاں اُتر رہی تھی جب خاور بھائی نے رستے میں ہی روک لیا۔ وہ سیڑھیاں چڑھتے اوپر آ رہے تھے شاید۔
’’خوش آمدید… خوش آمدید… یہ سواری باد بہاری ہمارے گھر درشن دینے کیسی آ گئی بھلا؟‘‘ وہ اسے سامنے دیکھ کر حقیقتاً خوش ہوئے تھے۔ وہ ہنس دی۔
’’سلام نہ دُعا، ایک دم اعتراض کر ڈالا ہے۔ رات کو مجھے اطلاع ملی تھی کہ آپ آئے ہوئے ہیں، کہیے کیسے ہیں آپ؟‘‘
’’و علیکم السلام! میں ٹھیک ہوں، تم سنائو؟ آج ادھر کیسے نازل ہوئی ہو۔‘‘ ان کا وہی انداز تھا۔
’’میں بھی ٹھیک ہوں، نازل تو مصیبتیں ہوتی ہیں میں تو رحمت کی دیوی بن کر سیڑھیوں سے اُتری ہوں۔ میں نے سوچا ہمسائیوں نے تو منہ دکھانا بند کر دیا ہے میں خود ہی جا کر بھائی صاحب کا رُخ روشن کا دیدار کر آئوں۔ ویسے کامرے سے کب لوٹے۔‘‘ اس کی خوش دلی پر خاور بھائی ہنس دئیے۔
’’کل صبح لوٹا تھا، ایک خاصی ظالم خبر سنی تھی سوچا ظالم خبر کی تصدیق بھی کرتے چلیں۔‘‘ وہ مسکرا دی ان کی بات اس کے پلے نہیں پڑی تھی۔
’’کیسی ظالم خبر؟‘‘
’’جانے دو، سنا ہے بلا سر سے ٹل گئی ہے اب۔‘‘ وہ کچھ نہ سمجھی تھی۔
’’آپ کی یہ باتیں میرے سر سے گزر جاتی ہیں۔‘‘
’’ابھی تو عقل مکتب ہو سسٹر! ذہن پر زور ڈالنے کا فائدہ بھی نہیں۔ تمہارا اوپر والا چیمبر خالی ہے پھر حاصل جستجو کا فائدہ۔‘‘ انہوں نے اپنے دماغ پر انگلی رکھ کر چھیڑا، وہ فوراً مان گئی۔
’’لگتا ہے اس دفعہ خاصے پَر لگ گئے ہیں آپ کو۔ ویسے کیپٹن صاحب کوئی اسٹار وغیرہ بھی لگا ہے یا نہیں۔‘‘
’’ہاں اسٹار تو لگتے رہتے ہیں، رہ گئے پَر تو جو تھے وہ بھی کٹ گئے۔ اب تو اُڑنے کی سکت تک نہیں۔‘‘ اس نے گھورا۔ بھرپور ایکٹنگ والا انداز تھا۔ لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ تھی۔
’’سنا ہے آج کل خالہ جان تمہاری ہمشیر محترمہ کے رشتے کی مہم شروع کیے ہوئے ہیں پھر کوئی ملا معقول سا پرپوزل جو تمہاری ذہین فطین بہن صاحبہ کے شایانِ شان بھی ہو۔‘‘ ان کا انداز اب بھی چھیڑنے والا تھا مگر انہوں نے گویا اس کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ وہ گہری سانس لے کر رہ گئی۔
’’کہاں خاور بھائی! جو چند ایک دیکھے بھی تو وہ بھی اتنے بکواس کہ حد نہیں۔ یہ رشتہ تلاش مہم مجھے لگتا ہے اب مسئلہ کشمیر بنتی جا رہی ہے سچ مچ۔‘‘
’’اوہ آئی سی…‘‘ خاور بھائی نے ہونٹ سکیڑے۔
’’آپ بتائیں کب شادی کروا رہے ہیں، اب تو منگنی کو بھی ایک سال ہو رہا ہے۔ آنٹی تو روز تیاریاں کر رہی ہوتی ہیں۔ ہر آئے گئے کو بتا رہی ہوتی ہیں کہ اب جب بھی آپ کے گھر کا چکر لگا وہ تاریخ فائنل کر دیں گی۔ لگتا ہے اب اسی ارادے سے چکر لگایا ہے۔‘‘ خاور بھائی عبید بھائی کے ہم عمر تھے، ان کے کلاس فیلو، وہ انجینئرنگ میں چلے گئے تو وہ آرمی ہیں۔ وہ سعودیہ میں کسی کمپنی میں اچھے عہدے پر جاب کر رہے تھے، شادی ہو چکی تھی جبکہ یہ ابھی تک فارغ البال تھے۔ تاہم ان کی منگنی ان کی خالہ زاد سے ہو چکی تھی۔
’’میری شادی کبھی نہیں ہو گی۔‘‘ وہ اچانک قطعیت سے کہتے سیڑھیاں پھلانگتے اوپر چلے گئے تھے اور ان کے اس ری ایکشن پر وہ حیرت سے کھڑی رہ گئی تھی۔ ان کا انداز بڑا عجیب سا تھا وہ چند پل کھڑی رہی پھر سر جھٹکتی نیچے آ گئی۔
’’السلام علیکم آنٹی!‘‘ خاور بھائی کی والدہ سامنے ہی براجمان تھیں۔
’’و علیکم السلام!‘‘ انہوں نے اپنے مخصوص پُرغرور انداز میں جواب دیا تو وہ گہرا سانس لے کر رہ گئی۔
خاور بھائی کی والدہ بھی اپنی ذات میں ایک کردار تھیں۔ اپنی ذات میں خود پرست، شوہر نے ساری عمر باہر کمانے میں گزار دی۔ ایک بیٹا خاور اور بیٹی صبا تھے، ایک خوش باش پُرسکون زندگی گزاری تھی۔ عیش و عشرت والی، خوبصورت شاندار یہ محل جیسا گھر اور اوپر سے دولت کی ریل پیل۔ انکل اب بزنس کرتے تھے جبکہ خاور بھائی آرمی میں تھے مگر جو کچھ بھی تھا وہ بیٹے اور بیٹی کا ہی تو تھا۔ صبا نے ایک دفعہ ذکر کیا تھا کہ خاور بھائی کسی کو پسند کرتے ہیں مگر آنٹی نے ان کی پسند جاننے کے بجائے ہمیشہ کی طرح اپنی ضد پوری کی تھی۔ وہ ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ان کا میکہ بہت دولت مند تھا اور ان کا خواب ایک پڑھی لکھی دولت مند بہو لانے کا تھا سو بیٹے کی خواہش جانے بغیر منگنی کر دی تھی، پہلے تو کئی سالوں سے صرف زبانی کلامی بات طے تھی پچھلے سال باقاعدہ منگنی بھی ہو گئی تھی۔ خاور بھائی اپنی ماں سے بُری طرح برگشتہ ہو کر ناراض ہو کر چلے گئے تھے۔ کئی کئی ماہ بعد گھر کا چکر لگاتے تھے۔ جان بوجھ کر ماں کو تنگ کرنے کو، دور دراز کے علاقوں میں اپنی پوسٹنگ کرواتے تھے اب کئی ماہ بعد گھر کا چکر لگا تھا، ان سے بات کر کے مریم کو اچھی طرح اندازہ ہو گیا تھا کہ آنٹی اور خاور بھائی کے درمیان ہونے والی رسہ کشی ابھی تک برقرار تھی۔
’’صبا آئی نہیں ابھی تک۔‘‘ اس نے گفتگو کا آغاز کیا۔ آنٹی سے گفتگو کرنا بھی گویا اپنی شامت بلانے کے مترادف تھا۔
’’اگر آئی ہوتی تو تمہیں نظر نہ آتی۔‘‘ وہی تیکھا، روکھا لہجہ۔
’’میں نے سمجھا کہ شاید وہ سلیمانی ٹوپی پہن کر غائب ہو گئی ہو گی۔‘‘ آنٹی نے بے تاثر نظروں سے دیکھا تو اس کے اندر بھی اُبال تھا۔
’’فون پر بات ہوئی تھی کہہ رہی تھی کہ کل صبح آ جائوں گی۔ میں سمجھی کہ محترمہ کل صبح آ گئی ہوں گی۔‘‘
’’اگر آئی ہوتی تو اپنے گھر سے پہلے وہ تمہارے ہاں قدم رکھتی۔‘‘ آنٹی کا لہجہ اب کے جھنجلایا ہوا تھا، اسے ہنسی آ گئی۔
’’خاور بھائی آئے ہوئے ہیں۔‘‘ اس نے موضوع بدلا۔
’’کیوں سیڑھیوں پر ملاقات نہیں ہوئی؟‘‘ اپنوں نے سر اُٹھا کر خاصی تیکھی نگاہوں کے تیر چلائے تو وہ سٹپٹا گئی یعنی آنٹی کو سب خبر تھی۔
’’وہ تو ہوئی تھی، خاور بھائی آ گئے ہیں تو لگتا ہے اس دفعہ شادی کروا کر ہی جائیں گے۔‘‘ اس نے بُرا مانے بغیر ان کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا انہوں نے خاصا تپ کر غصیلی نگاہوں سے اس کا پوسٹ مارٹم کرنا چاہا جب کے وہ مسکرا کر ان کا منہ چرا گئی۔
’’کیوں؟ تمہیں اور کوئی کام نہیں ان کن سوئیوں کے علاوہ۔‘‘ وہ ہنس دی یعنی وہ ٹھیک جا رہی تھی، وہ آنٹی کو ایسے ہی تپاتی تھی۔
’’یونہی پوچھ رہی تھی، جنرل نالج کے طور پر۔ خاور بھائی کی عمر کے تمام لڑکوں کی شادی ہو چکی ہے، میں نے سوچا کہ شاید اس دفعہ کی آمد شادی کے سلسلے میں ہی ہوئی ہے۔‘‘ آنٹی نے بغیر جواب دئیے گھورنے پر ہی اکتفا کیا تھا۔ ان کی چپ پر وہ شرمندہ سی ہو گئی، بہرحال وہ بڑی تھیں، ان کی یوں دل آزاری بھی مقصد نہ تھی۔
’’اچھا میں چلتی ہوں۔‘‘ ایک منٹ کی خاموشی سے گھبرا کر وہ کھڑی ہو گئی تھی۔
’’بیٹھو…‘‘ انہوں نے مروتاً کہا، وہ نفی میں گردن ہلا گئی۔ وہ عمر سے بھاگ کر ادھر آئی تھی اب ادھر سے بھاگ کر کہاں جاتی۔
’’فوزیہ کے رشتے کا کیا بنا؟‘‘ اس کے اُٹھتے قدم رُک گئے۔
’’اب تو کوئی خاص پروگریس نہیں ہوئی۔‘‘
’’پر جو چند دن پہلے ایک ڈاکٹر کا رشتہ آیا تھا؟‘‘ انہیں ساری رپورٹ تھی وہ مسکرا دی۔
’’وہ ہم سے لاکھ درجے اچھی فیملی تھی۔ ہمارا گھر دیکھ کر انہوں نے ناک منہ چڑھایا تھا بعد میں ہم نے بھی کوئی توجہ نہ دی۔‘‘ اسی ہفتے آنے والے تازہ ترین پروپوزل کے متعلق اس نے سہولت سے بتایا۔
’’ہاں لوگوں کی ڈیمانڈ بھی تو بہت اونچی ہو گئی ہے۔ ورنہ کیا کمی ہے فوزیہ میں۔‘‘
تبھی سیڑھیاں اُترتے خاور بھائی پر نگاہ پڑی تو وہ کنفیوژ ہو گئیں، فوراً سٹپٹا کر بولیں۔
’’ویسے عمر بھی تو خاصی ہو گئی ہے۔ ڈیمانڈز لوگوں کی جو بھی ہوں مگر ہر کوئی اپنے فائدے دیکھتا ہے۔‘‘ خاور بھائی غصے سے ماں کو دیکھتے تیز تیز قدم اُٹھاتے باہر نکل گئے تھے۔ مریم کے لیے ان کا رویہ اُلجھا دینے والا تھا یقینا وہ اپنی ماں سے ناراض تھے۔
’’اب اتنی زیادہ عمر بھی نہیں، لوگوں کی لڑکیاں تو بتیس سے زیادہ کی ہو جاتی ہیں مگر والدین کو ذرا فکر نہیں ہوتی۔ آپ کے میکے میں کئی لڑکیاں ہوں گی، آپ کے بھائی کی بیٹی کی شادی مجھے یاد پڑتا ہے پینتیس سال کی عمر میں ہوئی تھی پچھلے سال۔‘‘ آئینہ دکھانے میں وہ کون سا کم تھی فوراً حساب برابر کیا تھا، ان کے چہرے پر ناگواری ایک دم واضح تھی۔
’’امیر لوگوں کی بیٹیوں کی عمر کوئی نہیں دیکھتا، لمبا چوڑا جہیز اور بینک بیلنس دیکھتے ہیں سب۔‘‘ اب کے مریم چپ سی رہ گئی۔ جی تو چاہا کہ ایسا جواب دے کہ آئندہ وہ بات کرنا بھول جائیں مگر وہ لب کھینچ گئی۔ اسے یوں لب بھینچے دیکھ کر آنٹی کو دلی سکون حاصل ہوا۔
’’تماری ماں بتا رہی تھیں کہ تمہاری تائی نے تمہارا عمر اور آمنہ کا سکندر کے لیے رشتہ مانگا ہے۔‘‘ اس نے خود کو بحال کر کے گہرا سانس لیا۔
’’جی بالکل ٹھیک سنا آپ نے۔ مگر امی کا فی الحال کہیں بھی بات طے کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، بھئی ہماری کون سی عمریں نکلتی جا رہی ہیں۔ ابھی تو ہم دونوں کو ڈھیر سارا پڑھنا ہے، رہ گئی فوزیہ تو امی پریشان ہیں ورنہ اس کو رشتوں کی کیا کمی بھلا؟ ہو سکتا ہے ہم عمر بھائی کے ساتھ ہی بات طے کر دیں، ویسے بھی ردا کی منگنی کے بعد شادی کریں گے وہ لوگ انہیں گھر سنبھالنے والی ہستی چاہیے اور میرا اپنی تعلیم کی قربانی دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘‘ کچھ دیر پہلے والی تکلیف اب سکون سے ادھر منتقل کر رہی تھی۔ انہوں نے ناگواری سے اسے دیکھا وہ مسکرا کر دیکھ رہی تھی۔
’’چلتی ہوں۔‘‘ وہ پلٹ آئی جس رستے سے آئی تھی اسی پر ہو لی۔
دونوں گھروں کی دیوار سے اپنے گھر کی چھت پر کودتے ہوئے وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکی تھی، اس نے دیوار تھامنے کی کوشش کی تھی مگر سیدھی پکی چھت کے فرش پر جا سجدہ ریز ہوئی۔ بہت سنبھلنے کی کوشش میں بھی اس کا پائوں مڑ گیا تھا، اوپر سے گرنے کا بے ساختہ خوف۔
’’یا اللہ…‘‘ اس کی چیخ بے ساختہ تھی۔
’’ہائے امی جی…‘‘ وہ زمین پر اپنا پائوں تھامے دہائیاں دے رہی تھی۔