ہم نے بھی تو بھائی صاحب کی عندلیب لی ہے، وہ ہمارا بھی خیال کریں۔‘‘ امی کے لہجے میں عجیب سا تاثر تھا، ابو ایک دم سنجیدہ ہو گئے تھے۔
’’رشتے مقدروں سے بنتے ہیں، بھائی صاحب اور بھابی بیگم کی خواہش تمہارے سامنے ہے۔ بار بار ایک ہی بات مت کیا کرو۔ رہ گئی عندلیب بیٹی! وہ ہماری بہو ہے اور ہم نے کسی لالچ میں رشتہ نہیں کیا تھا، آئندہ ایسی بات مت دہرانا۔ رشتوں میں غرض شامل ہو جائے تو خالص پن ختم ہو جاتا ہے۔ عبید اور عندلیب خوش ہیں، ہمیں اور کیا چاہیے۔ فوزیہ نہ سہی چھوٹی سہی، بات تو ایک ہی ہے نا۔‘‘ ابو نے گویا بات ہی ختم کر دی تھی، مریم نے گہرا سانس لیا تو ایک دو پل بعد ہی عمر رکشا لیے آیا، امی ابھی بھی عمر کو دیکھ رہی تھیں۔ مریم نظر ہٹا کر سامنے سیاہ تار کول کی بل کھاتی ہوئی سڑک کو دیکھتی رہی۔
’’شکریہ بیٹا!‘‘ ابو عمر کا کندھا تھپتھپا کر رکشا کی طرف بڑھے تھے۔
’’میں کرایہ ادا کر چکا ہوں، آپ نہیں دیجیے گا۔‘‘ عمر کی بات پر امی بولیں۔
’’یہ اچھی بات تو نہیں بیٹا۔‘‘
’’کوئی تکلیف نہیں۔‘‘ امی اور ابو مسکرا کر بیٹھ گئے تو وہ بھی اپنی طرف دیکھتے عمر سے نظر بچا کر رکشا کی طرف بڑھی۔ تبھی دوپٹے کے کونے کو کھنچائو لگنے سے وہ پلٹی تھی۔
’’سنو…‘‘ وہ جو سمجھی تھی کہ دوپٹہ کسی چیز سے اُلجھ گیا ہے، عمر کو کونا تھامے دیکھ کر ٹھٹکی اور پھر گھبرا کر امی ابو کو دیکھا وہ رکشا میں بیٹھ کر اب اس کے بیٹھنے کے منتظر تھے۔
’’میں رات کال کروں گا، پک نہ کی تو نتائج کی ذمہ دار تم خود ہو گی۔‘‘ سرسراتی سرگوشی کان کے قریب گونجی تو اس نے گھبرا کر پھر امی ابو کو دیکھا وہ متوجہ نہ تھے۔ ساتھ ہی عمر نے اس کے ہاتھ میں کوئی چیز دبا دی تھی۔
’’بیٹھو مریم! کیا ہوا ہے؟ کیوں کھڑی ہو؟‘‘ امی کی پکار پر وہ خفت سے دو چار ہوئی، بغیر عمر کی طرف دیکھے مٹھی دبا کر فوراً رکشا کی طرف پلٹی تھی۔
’’بس دوپٹہ اُلجھ گیا تھا۔ بیٹھنے لگی تھی۔‘‘ اپنا دوپٹہ کھینچ کر وہ اندر بیٹھ گئی تھی۔ اس کے بیٹھتے ہی رکشا والے نے رکشا اسٹارٹ کر لیا تھا۔
پھر جب تک رکشا سٹارٹ ہو کر نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا وہ یونہی کھڑا دیکھتا رہا تھا اور پھر اس کے اوجھل ہونے کے بعد وہ ایک طرف کھڑی اپنی بائیک کی طرف بڑھا تھا۔
گھر آ کر اس نے سب سے پہلے اپنے کمرے کا رُخ کیا آمنہ اور فوزیہ پیچھے پیچھے تھیں۔
’’کیا ہوا؟ کیسا رہا تمہارا یہ ناگہانی دورہ… رشتہ مہم تلاش…‘‘ اسے الماری میں سر دئیے کھڑے دیکھ کر فوزیہ بھی پیچھے آ کھڑی ہوئی تھی اس نے سرعت سے ہاتھ میں دبی چیز کپڑوں میں گھسائی اور چادر اُتار کر تہ کر کے الماری میں رکھ کر پٹ بند کر دیا۔
’’بتائو نا کیا ہوا؟‘‘ آمنہ بھی خاصی بیقراری سے پوچھ رہی تھی اس نے اپنی ہتھیلی کو دیکھا جو پسینے سے تر تھی، اس نے دوپٹے کے پلو سے ہتھیلی رگڑی۔
’’بہت ہی بُرا! کچھ نہ پوچھو، آئیں ذرا یہ خالہ خیرن، اللہ کی قسم ایسی خبر لوں گی کہ ہمارے گھر آئندہ قدم رکھنے کا بھی نہ سوچیں گی۔‘‘ بستر پر بیٹھ کر وہ اب سینڈل اُتارنے لگی تھی۔ فوزیہ اور آمنہ دائیں بائیں بیٹھ گئیں۔
’’لڑکا کیسا تھا؟‘‘ آمنہ نے خاصے تجسس سے پوچھا تو اس کا منہ بن گیا۔
’’لڑکا… اسے لڑکا کہنا لڑکوں کی توہین ہے۔ یہ موٹا بھاری جسم، بدمعاشوں والی مونچھیں اور سرخ انگارہ دہکتی آنکھیں۔‘‘ مریم نے نقشہ کھینچتے ہوئے پہلے سے زیادہ ہولناکی دکھائی تھی۔ آمنہ اور فوزیہ نے فوراً جھرجھری لی۔
’’مائی گاڈ! کیا واقعی وہ ایسا لگ رہا تھا؟‘‘ فوزیہ کی شکل اُتر چکی تھی۔
’’لڑکا نہیں لگ رہا تھا۔‘‘
’’مگر تصویر تو اچھی خاصی تھی۔‘‘ آمنہ حیرت سے گویا ہوئی۔
’’اسی لیے تو ہم دھوکا کھا گئے، نجانے کون سے سال کی تصویر تھی، بہرحال ہم لوگ صاف جواب دے آئے ہیں شکر ہے ان لوگوں کو گھر بلانے کی مشقت نہیں کرنا پڑی۔‘‘
’’اور گھر بار کیسا تھا؟ خالہ خیرن تو بتا رہی تھیں کہ بہت پیارا خوبصورت ماربل لگا گھر ہے۔‘‘ آمنہ نے پوچھا جبکہ فوزیہ اب خاموش تھی۔
’’گھر… اڑھائی مرلے کا گھر کیا ڈربہ خانہ تھا۔ جس میں چھوٹے چھوٹے تین کمرے تھے، اس سے بہتر تو ہمارا یہ بیس مرلے کا خوبصورت گھر ہے۔ خالہ خیرن نے صاف جھوٹ بولا ہے ہمارے ساتھ۔ لڑکے کی تعلیم صرف میٹرک اور وہ جو پانچ دکانوں والی بات تھی وہ بھی جھوٹ تھی، ایک دکان ہے کپڑے کی، جو دونوں بھائی مل کر چلاتے ہیں۔
’’اسی لیے تو میں امی کو منع کر دیتی ہوں، اتنا جھوٹ ہے آج کل کے لوگوں میں۔ کیا کمی ہے مجھ میں، اچھا کما رہی ہوں، کھا رہی ہوں، کسی پر بوجھ تھوڑی ہوں۔‘‘ فوزیہ ساری صورتحال سن کر ایک دم بھڑک اُٹھی تھی۔
’’یہی تو امی کو سمجھاتی ہوں میں بھی۔‘‘ آمنہ کو بھی اس ناکام مہم سے خاصا دُکھ ہوا تھا۔
’’اسی لیے تو امی مجھے کہیں لے کر نہیں جاتیں اس بار بھی ابو کے کہنے پر لے گئی تھیں پھر میں بھی خاموش نہیں رہی۔ جواباً امی کی خاصی سننا پڑ گئی تھیں۔‘‘ اس نے وہاں ہونے والی تمام صورتحال بتائی تو آمنہ اور فوزیہ بھی ہنس دیں۔
’’تمہارا بھی کوئی جواب نہیں اور عمر کا کیا ری ایکشن تھا؟‘‘ آمنہ نے ہی پوچھا۔
’’وہی جو میرا تھا، امی کے ڈانٹنے پر فوراً سمجھانے لگا، ابو نے بھی امی کو سمجھایا تو امی کا غم کچھ کم ہوا ورنہ بہت دُکھی ہو رہی تھیں۔‘‘
’’ظاہر ہے ایسی صورتحال تو انہوں نے سوچی تک نہ ہو گی۔ کتنی آس دلائی تھی خالہ خیرن نے۔‘‘ فوزی بھی ڈس ہارٹ ہوئی تھی۔
’’آئیں اس دفعہ ساری خبر لوں گی میں بھی۔‘‘ اس نے اپنے عزائم کا اظہار کیا تھا۔
’’اور کھلایا پلایا کیا ان لوگوں نے؟‘‘ آمنہ نے مزید پوچھا۔
’’بھئی لڑکے والے تھے، وہ خالی گلاس بھی لا کر رکھ دیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ لڑکے والوں کے لیے میز انواع و اقسام کی اشیاء سے بھر دینا لڑکی والوں کا شیوہ ہے۔ کوک کے چار گلاس تھے۔‘‘
’’صرف…؟‘‘ فوزیہ کو بھی حیرت ہوئی تھی۔
’’تمہارا کیا خیال ہے ہمارے گھر میں کچن سے ڈرائنگ روم تک اور بازار سے گھر تک کی جو لمبی پریڈ ہوتی ہے وہ لڑکے والے بھی کرتے۔ پیزا ہٹ کا تازہ پیزا، تمہارے ہاتھ سے تیار کردہ دہی بھلے، کباب، سموسے، چائے، مشروب، بسکٹ، نمکو وغیرہ۔ یار! لڑکے والے تو بری الذمہ ہوتے ہیں وہ کیوں اتنا خرچہ کریں، انہیں کون سا لڑکی دکھانی ہے ان کا بھی لڑکا ہے۔ جو مرضی پلا دیں کھلا دیں۔‘‘ آمنہ اور فوزیہ نے ایک دوسرے کو دیکھا اور گہرا سانس لیا۔
’’ٹھیک کہہ رہی ہے مریم!‘‘ فوزیہ ہاتھ جھاڑتے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
’’اُٹھو… امی ابو کو پانی وغیرہ پلائو۔ یہ انوسٹی گیشن اب بند کرو، اگلے چند دنوں میں اب یہی ٹاپک ڈسکس ہونا ہے ہمارے گھر میں۔‘‘ فوزیہ کہہ کر باہر نکل گئی تو آمنہ بھی افسردگی سے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ آمنہ کے باہر نکلتے ہی وہ تیزی سے اُٹھ کر الماری کی طرف آئی تھی۔ کاغذ کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا سارے راستے اس کے ہاتھ کی مٹھی میں دبا رہا تھا۔ اس نے نکالا تو چرمرا گیا۔ امی ابو کی وجہ سے دیکھ ہی نہ پائی تھی اور گھر آتے ہی یہ دونوں نازل ہو گئیں۔
’’میں رات کو فون کروں گا، کال ضرور پک کرنا۔‘‘ کاغذ کی سلوٹیں درست کیں تو وہی الفاظ منہ چڑا رہے تھے۔
’’بدتمیز…‘‘ اسے ایک دم غصہ آیا۔ اس نے کاغذ کے ٹکڑے کر کے کمرے کے کونے میں رکھے ڈسٹ بن میں ڈال دئیے۔
عمر کی پسندیدگی سے وہ واقف تھی۔ شروع میں تو نہیں مگر دو سال پہلے جب تائی اور تایا نے اس کو عمر کے لیے مانگا تھا اور امی کا غصہ ایک دم بڑھ گیا تھا، ان کا خیال تھا کہ تائی ضرور فوزیہ یا آمنہ میں سے کسی کو مانگیں گی، مگر مریم کے لیے سن کر ان کا نہ صرف دل خراب ہوا تھا بلکہ وہ اندر ہی اندر تائی بیگم کی طرف بے بدظن ہو چکی تھیں۔ تائی کی بڑی بیٹی رمشاء اپنے ماموں زاد کے ساتھ بیاہ کر اسلام آباد جا چکی تھی، دوسری عندلیب کی شادی انہوں نے عبید بھائی سے کر دی تھی۔ عبید بھائی سعودیہ جا چکے تھے، چند ماہ پہلے انہوں نے عندلیب کو بھی وہیں بلا لیا تھا۔ عندلیب اور عبید بھائی بہت خوش تھے، ایسے میں امی کو فوزیہ کا جوڑ عمر سے جوڑنے کا بڑا اشتیاق تھا جبکہ ابو کے لیے فوزیہ اور مریم دونوں ایک جیسی تھیں، انہیں کوئی فرق نہ پڑتا تھا جبکہ امی نے تائی کو مریم کی کم عمری کا کہہ کر ٹال دیا تھا۔ دو سال پہلے وہ ایف ایس سی کر رہی تھی اور اسی سال وہ بی ایس سی کے ایگزیمز دے کر فارغ ہوئی تھی، آج کل رزلٹ کا انتظار کر رہی تھی جبکہ فوزیہ ایم اے انگلش لٹریچر کے بعد گھر کے ایک حصے کو اکیڈمی کے طور پر سیٹل کر کے بڑی کامیابی سے اپنی اکیڈمی چلا رہی تھی۔ فوزیہ سے بڑی ستارا کی شادی خالہ زاد دائود بھائی سے ہو چکی تھی، ان کی ایک پیاری سی بیٹی بھی تھی جبکہ آمنہ یونیورسٹی جا رہی تھی، وہ میتھ میں ماسٹرز کر رہی تھی اور اس سے چھوٹا وقار بھا جو پری انجینئرنگ میں ایف ایس سی کر رہا تھا اس کا ارادہ آگے انجینئرنگ کالج میں جانے کا تھا۔
شروع میں تو اس نے تائی بیگم کے رشتہ مانگنے پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا کہ ابھی عمر ہی کیا تھی مگر جس طرح امی دل میں عمر کے رشتے کی بات لیے گاہے بگاہے اپنے خیالات کا اظہار کرتی رہتی تھیں، اس سے کوئی بات چھپی نہ رہی تھی۔ امی کا خیال تھا کہ تائی بیگم عمر اور فوزیہ کے لیے مان جائیں تو باقی آمنہ اور مریم کا تو کہیں نہ کہیں دیکھ ہی لیں گی اور اپنی امی کے تمام تر خیالات اور عمر کی پیش قدمیوں کے باوجود مریم اپنی جگہ بہت پُرسکون اور مطمئن تھی۔ اس نے اگر امی کی باتوں پر دھیان نہیں دیا تو عمر کے جذبات اور رویوں کو بھی یکطر نظر انداز کر رہی تھی۔ وہ کسی کے بھی حق میں نہ تھی، امی کے نہ ہی عمر کے۔ اس کا یقین تھا کہ رشتہ آسمانوں پر بنتے ہیں جس کا جہاں مقدر ہو گا ایک طے شدہ مدت میں ہو ہی جائے گا مگر آج کل جس طرح عمر کی حرکتیں تھیں وہ کچھ بے سکون سی ہو گئی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ امی یا دوسرے لوگ اس کی طرف مشکوک ہوں اور وہ کوئی ایسی حرکت کر گزرے جس کی وجہ سے امی ابو کو کسی کے سامنے سر جھکانا پڑے جبکہ عمر کے تیور دن بہ دن بدلتے جا رہے تھے، بعض اوقات وہ اس کے رویوں پر اُلجھ جاتی تھی تو کبھی ہنس کر ٹال جاتی تھی۔
عمر پڑھا لکھا نوجوان تھا ایم بی اے کے بعد ایک فرم میں اچھی خاصی پوسٹ پر حال ہی میں عہدہ سنبھالا تھا۔ تایا کی فیملی بھی انہی لوگوں کی طرح متوسط سی تھی۔ عمر کی تین بہنیں اور عمر سے چھوٹا ایک بھائی تھا۔ بڑی دونوں بہنیں شادی شدہ تھیں۔ چھوٹی ردا اس کے ساتھ ہی بی ایس سی کے ایگزیمز کے بعد فری تھی۔ عمر سے چھوٹا سکندر تھا جو ابھی یونیورسٹی لیول میں تھا۔
فوزیہ کے لیے یہ رشتہ خالہ خیرن لے کر آئی تھیں ابو نے تایا کو بھی ساتھ چلنے کا کہا تھا مگر انہیں ایک ضروری کام سے کہیں جانا پڑ گیا تو عمر اپنے آفس سے سیدھا ان کے ساتھ ادھر گیا تھا اور پھر ان لوگوں کے واپس آنے کے بعد وہ دوبارہ اپنے آفس چلا گیا تھا۔ رات ہونے میں ابھی چند گھنٹے تھے اسے کیا کرنا تھا وہ آرام سے طے کر کے کمرے سے نکل آئی تھی۔