افطاری اور کھانے کے بعد رسم کا شور اُٹھا تھا۔ اچھے خاصے مہمان تھے۔ کبھی بھی کسی بھی حال میں نہ گھبرانے والی مریم اس وقت اچھی خاصی کنفیوژ ہو چکی تھی۔ وہ مسلسل سر جھکائے ہوئے تھی۔ باہر مخصوص پلاٹ میں بہت اچھا انتظام کیا گیا تھا لائٹنگ کھانے کا بھرپور انتظام کے علاوہ اسٹیج بڑی خوبصورتی سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا۔
بڑوں کے کہنے پر رمشا اور عندلیب ان سجی سنوری دلہنوں کو لے کر اسٹیج پر چلی آئی تھیں۔ کمبائن فنکشن تھا۔ ویسے یہ خاندان کا یادگار فنکشن تھا جس میں بڑے بڑے خیالات بدلتے لڑکا لڑکی کی ایک ہی جگہ منگنی کر رہے تھے۔
’’میرا دل بڑا گھبرا رہا ہے۔‘‘ عندلیب نے جب لا کر اسے بٹھایا تو اس نے روہانسے لہجے میں کہا۔ عندلیب نے چونک کر اسے دیکھا۔ اس کا رنگ زرد ہو رہا تھا۔
’’کیا ہوا ہے؟ جوس منگوا دوں۔ افطاری کے بعد تو تم نے کچھ کھایا بھی نہیں۔ کمزوری ہو رہی ہو گی۔‘‘ اس کے سرد ہاتھ کی کپکپاہٹ بڑی واضح تھی مریم کی آنکھوں کی نمی گہری ہوئی۔
’’میری طبیعت خراب ہو رہی ہے، بس جلدی سے کمرے میں لے جائیں۔‘‘ عندلیب نے گھبرا کر دیکھا تو اپنی اپنی مائوں کے پہلو میں چاروں دولہا اسٹیج پر آ رہے تھے۔
’’تھوڑی دیر بیٹھ جائو، رسم ہوتے ہی میں لے جاتی ہوں۔‘‘ عندلیب تسلی دے کر نیچے اُتر گئی تھی۔ مریم نے سر مزید جھکا لیا۔ آنکھوں میں آئی نمی سے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
پہلے خاور نے فوزیہ کو انگوٹھی پہنائی تھی پھر سکندر نے آمنہ کو اب اس کی باری تھی۔ اس کے سرد ہاتھ مزید سرد ہوئے۔
’’مریم ہاتھ آگے کرو۔‘‘ ثوبان انگوٹھی تھامے اس کی طرف ہاتھ بڑھائے بیٹھا تھا مگر اس کے وجود میں ذرا بھی ہلچل نہ ہوئی تو کہیں سے آواز آئی تھی مگر اس کی کنڈیشن اتنی خراب ہو رہی تھی کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے ہاتھ میں پکڑے کلچ (پرس) پر اس کی گرفت مزید سخت ہوئی تھی۔
’’دلہن شرما رہی ہے۔‘‘ کہیں سے شوخ آواز گونجی اور پھر قہقہے، اس کا وجود مزید سرد ہوا۔
’’محترمہ ہاتھ آگے کر دیں انگوٹھی پہنانی ہے، آپ کے بعد ابھی کسی اور کی بھی باری ہے۔‘‘ شوخ آواز پر وہ چونکی مگر یہی کہ آواز کہیں اور سے آئی ہے۔
یقینا وہ اردگرد ہی تھا۔ اب اس نے اب بھینچ لیے اور سر مزید جھکا لیا اب صرف سجدہ کرنے کی کسر رہ گئی تھی۔
’’دلہن سجدے میں چلی گئی ہے۔‘‘ پھر وہی شوخ آواز۔
’’ہو سکتا ہے دلہن کو دلہا پسند نہ آیا ہو۔‘‘ یہ سکندر کی شوخ آواز تھی اس کے آنسو بہہ نکلے۔
’’ہو سکتا ہے بینک منیجر کا ڈر سر پر سوار ہو۔ محترمہ ہاتھ دیں انگوٹھی پہنانی ہے ورنہ ہمارے بڑے ابھی پہنچ جائیں گے کہ میں خوا مخواہ لیٹ کروا رہا ہوں۔‘‘
اب کے وہ الفاظ، لہجے اور آواز پر چونکی تھی۔ یہ تو عمر کی آواز تھی اور کہیں دور سے نہیں بلکہ اس کے انتہائی قریب سے اُبھری تھی۔ اس نے یکدم سر اُٹھا کر دیکھا۔
وہ واقعی عمر تھا۔ اپنی مسکراتی آنکھوں میں ڈھیر ساری چمک لیے وہ انگوٹھی تھامے منتظر تھا۔
’’تم…‘‘ جھلملاتی آنکھوں سے وہ کچھ بھی نہ سمجھ پائی تھی کہ یہ کیا قصہ ہے۔ عمر کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔
’’جی جناب میں عمر! بذاتِ خود بنفس نفیس آپ کے سامنے حاضر ہوں۔ کیا اب انگوٹھی پہنا سکتا ہوں۔‘‘ خاصا شریر مسکراتا لہجہ تھا۔ مریم کو لگا اس کے حواس ساتھ چھوڑنے والے ہیں۔‘‘
’’مریم جلدی کرو ہاتھ دو۔‘‘ رمشاء نے عقب سے جھک کر اس کا ہاتھ تھام کر اپنے بھائی کے آگے کر دیا تھا۔ وہ بت بنی ساکت سی عمر کو دیکھ رہی تھی۔ عمر نے انگوٹھی پہنا دی تھی۔ مبارک سلامت کی آواز بلند ہوئی تو مریم کو لگا کہ بس وہ کسی بھی لمحے گرنے والی ہے۔ اس نے اپنا چکرایہ سر تھام لیا۔
’’امی…‘‘ آنکھوں کی تاریکی گہری ہوئی تو اس کے لب پھڑپھڑا کر رہ گئے۔
اس سے پہلے کہ کوئی کچھ سمجھتا وہ بے دم سی ہو کر ایک طرف لڑھک گئی تھی۔
اس کی آنکھیں کھلیں تو خود کو آرام دہ بستر پر لیٹے پایا۔ اردگرد سبھی چہرے تھے متفکر پریشان وہ خالی الذہنی سے سبھی کو دیکھے گئی۔ آمنہ، فوزیہ، صبا، سادہ لباس میں ملبوس تھیں۔ خاور بھائی، عمر، سکندر، وقار، عندلیب بھابی، رمشاء اور بھی چند چہرے تھے۔ امی ابو، تائی بیگم اور تایا ابو کے علاوہ خاور بھائی کے والدین تھے۔ اس کی نگاہیں ثبان کے چہرے پر پڑیں تو وہ چونکی۔ ذہن نے ایک دم کام کرنا شروع کر دیا۔
’’مریم! کیسی طبیعت ہے اب؟‘‘ اسے ہوش میں آتے دیکھ کر امی جی نے فوراً پوچھا وہ اس کے سرہانے بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس نے اُٹھنے کی کوشش کی۔
’’لیٹی رہو طبیعت ٹھیک نہیں ہے تمہاری۔ اتنا تیز بخار ہے اوپر سے یہ مسلسل بیہوشی پورے تین گھنٹے بیہوش رہی ہو تم۔‘‘ فوزیہ بھی قریب آ گئی تھی۔ تو رونے لگی۔
’’رونا نہیں اب بالکل ٹھیک ہو تم۔‘‘ یہ تائی بیگم کی شفیق آواز تھی۔ امی نے اس کے آنسو صاف کیے مگر رونا کم ہی نہیں ہو رہا تھا۔ مسکارا اور لائنر بہہ نکلا تھا۔ فوزیہ نے ٹشو سے اس کا چہرہ صاف کیا۔ کچھ دیر رونے کے بعد جی ہلکا ہوا تو بغیر کسی کی طرف دیکھے اس نے آنکھوں پر بازو رکھ لیے۔
’’شکر ہے اللہ کا ہوش آ گیا، اب یہ ٹھیک ہے تم لوگ بھی اب ادھر سے ہٹو باہر کئی کام ہیں وہ دیکھو، مہمان تو رُخصت ہو ہی گئے ہیں۔ ہوٹل سروس والے بیٹھے ہیں ان کو بھی فارغ کرنا ہے۔‘‘ ابو جی، تایا ابو کا ہاتھ تھام کر چل دئیے تو باقی لوگ بھی مطمئن ہو کر باہر نکلتے چلے گئے تھے جبکہ ینگ جنریشن ابھی بھی ادھر موجود تھی۔
’’مریم۔‘‘ یہ صبا کی آواز تھی۔ ساتھ ہی اس نے اس کا بازو بھی آنکھوں سے ہٹا دیا۔
’’ایم سوری یار! یہ سب ڈرامہ تھا۔ محض تمہیں سرپرائز دینا تھا۔ دیکھو اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں، یہ عمر بھائی کا ڈرامہ ہے، ان سے پوچھو۔‘‘ صبا کہہ رہی تھی اس نے خاموشی سے سب کو دیکھا اور پھر عمر کو اس کے ساتھ کھڑے ثوبان کو، عمر اس کے دیکھنے پر مسکرا کر آگے بڑھا۔
’’ناراض ہو۔‘‘ اس نے لب بھینچ کر آنکھیں میچ لیں۔ وہ اس شخص سے بات تک نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ پچھلے کئی دنوں سے کس قدر اذیت میں رہی تھی کاش کوئی اندازہ لگا سکتا اور خصوصاً یہ صبا اور عمر تو ہر وقت اسے اذیت دیتے طعنے بازی کرنے کو تیار رہتے تھے۔
’’مریم۔‘‘ یہ خاور بھائی کی پُرشفقت آواز تھی۔ ’’گڑیا آنکھیں کھولو پلیز۔‘‘ اس نے آنکھیں کھول دیں۔
’’ایم سوری یار! ڈرامہ سارا یہ ہے کہ تم نے جس طرح پُرخلوص ہو کر میرے اور فوزیہ والے معاملے میں صبا کی مدد کی تھی اس نے تمہاری امی کے انکار کے بعد مجھے فون پر سب بتا دیا اور پھر میں گھر چلا آیا۔ ادھر امی مانیں تو ادھر تمہاری والدہ صاحبہ ہماری اور فوزیہ کی بات طے ہوئی تو صبا نے بتایا کہ عمر کا پرپوزل تمہارے لیے آیا ہے۔ مگر تم انکاری ہو۔ وجہ کوئی خاص نہ تھی مگر جس طرح ثوبان کی امی تمہارے لیے چکر لگا رہی تھیں عین ممکن تھا کہ چچی جان ثوبان کے لیے ہاں کر دیتیں مگر اسی دن جب عمر کی امی اور دادی آئے ہوئے تھے تو تمہیں یاد ہو گا کہ اسی دن ثوبان کی والدہ بھی آ گئی تھیں۔‘‘ خاور بھائی بتاتے بتاتے رُکے تو وہ آہستگی سے اُٹھ بیٹھی۔ وہ ابھی تک منگنی والے لباس میں ملبوس تھی۔ میک اپ بہہ چکا تھا مگر منے منے نشان تھے۔
’’اور آنٹی سے رشتہ مانگ رہی تھیں۔ تائی بیگم اپنا حق جتا رہی تھیں اور چچی جان انا کی وجہ سے انکاری تھیں۔‘‘ اب صبا بول رہی تھی۔
’’انہوں نے تائی بیگم کے حق جتانے پر خاصے غصے سے کہا۔ ہم فوزیہ کے لیے اتنا عرصہ پریشان رہے۔ آپ کے سامنے ہی تھا آپ نے تب بھی مریم کا ہی نام لیا۔ جب فوزیہ کا کر دیا ہے تو آپ کو بھی ہمارے گھر چکر لگانا یاد آ گیا ہے۔ اب میری مرضی ہے کہ میں اپنی بیٹی کو کہاں بیاہتی ہوں۔‘‘ چچی خاصے غصہ سے کہہ رہی تھیں اور تبھی تائی بیگم نے کہا مجھے تو کوئی اعتراض نہیں میرے لیے تینوں لڑکیاں ایک جیسی ہیں۔ ہم بار بار مریم کے لیے اس لیے کہہ رہے تھے کہ میرا بیٹا عمر اسے چاہتا ہے۔ وہ مریم کو پسند کرتا ہے اور اس کی خواہش پر بار بار مریم کا نام لیا۔ تمہیں پہلے کبھی اس لیے نہ کہا کہ لڑکیوں کی ماں ہو کہیں کچھ غلط نہ سمجھ بیٹھو۔‘‘ صبا کہہ کر خاموش ہوئی۔
’’چچی کی کنڈیشن خاصی پریشان کن تھی یہ انکشاف سن کر عمر اور مریم وہ بار بار پوچھ رہی تھیں میٹنگ روم میں یکدم خاموشی چھا گئی تھی۔ نتیجہ نجانے کیا نکلنے والا تھا اور میں خوفزدہ ہو کر وہاں سے بھاگی کہ تم سب لوگوں کو آنے والے خطرے سے آگاہ کرتی ہوں۔‘‘ صبا چپ ہو گئی تو ثوبان مسکرا کر آگے بولا۔
’’تبھی انٹری ہوئی ہماری یعنی بینک منیجر صاحب کی۔‘‘ وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا۔ مریم نے محض اس شخص کی تصویر دیکھ رکھی تھی اب روبرو پہلی ملاقات تھی۔
’’اور صبا جس طرح کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح بھاگتی ہم سے ٹکرائی ہم تو وہیں گم سم ہو گئے۔ ہماری والدہ کو کون سی لڑکی پسند ہے ہم بھول گئے اور یہ بھی بھول گئے کہ ہم یہاں کیوں بلوائے گئے ہیں۔ بس اپنی بہن صاحبہ کو دل کی بات بتائی اور اسی شام امی اور باقی گھر والوں کے ہمراہ ہم خاور کے گھر پر موجود تھے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ وہ اب تک بالکل خاموش تھی اب حقیقتاً چونکی۔
’’صبا، ثوبان کی امی کو بھی بہت پسند آئی اور یوں آناً فاناً رشتہ طے پا گیا۔‘‘ یہ فوزیہ تھی۔ مریم کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
’’اور اسی شام امی جی نے ہتھیار ڈال دئیے سکندر اور آمنہ کے ساتھ ساتھ تمہارے اور عمر کے پروپوزل کو بھی قبول کر لیا۔‘‘ فوزیہ مزید مسکرا کر انکشاف کر رہی تھی۔
’’تبھی عمر بھائی نے ہم سب کو اپنا پروگرام بتایا۔ پہلے تو ہم میں سے کوئی بھی نہ مانا اگر بڑوں تک بات پہنچ جاتی تو خاصی کھنچائی ہو جانی تھی مگر عمر کے بار بار اصرار پر ہم لوگ راضی ہو گئے۔‘‘ صبا ہنس کر کہہ رہی تھی۔
’’عمر بھائی تمہیں سرپرائز دینا چاہتے تھے نا۔‘‘ آمنہ بھی ہنس کر بولی۔
’’اور ساتھ یہ بھی چیک کرنا چاہتا تھا کہ عمر بھائی کی طرف سے برتی جانے والی بے پروائی اور نوکیئر والا انداز محض اوپر سے ہے یا حقیقتاً تمہیں ان سے کوئی لگائو نہیں۔‘‘ یہ سکندر تھا اس نے کھا جانے والی نظروں سے عمر کو دیکھا جو اس سارے وقت میں سینے پر ہاتھ باندھے سب کو بولتے دیکھ کر محض مسکرا رہا تھا۔
’’اور نتیجہ میری توقع کے مطابق نکلا۔ اب کوئن میرے کورٹ میں تھی۔‘‘ وہ پہلی بار بولا تھا۔ مریم نے ایک دم غصے سے ہاتھوں میں پڑا گجرا نوچ کر اسے دے مارا تھا جسے اس نے کیچ تو کر لیا تھا مگر باقی سبھی ہنس دئیے تھے۔
’’تم سب لوگ انتہائی جھوٹے، ڈرامہ باز اور فسادی ہو۔‘‘ وہ سخت غصے میں تھی۔ واقعی سب نے کس طرح ملی بھگت کر کے اسے ہینڈل کیا تھا اس کے احتجاج بھوک ہڑتال، غم و غصہ کی ہوا بھی امی یا ابو کو لگنے نہ دی تھی۔ اس نے جب بھی امی سے انکار کرنا چاہا تو یہ سب اسے آ پکڑتی تھیں اور امی ابو تو اب بھی بے خبر تھے کہ وہ بیہوش کیوں ہوئی ہے۔
عندلیب نے یہی کہہ کر سب کو ہینڈل کیا تھا کہ ’’منگنی کی تیاریوں کی بھاگ دوڑ میں اور روزے کی حالت میں کمزوری ہو گئی ہے۔ اسی لیے بیہوش ہو گئی ہے۔‘‘ اور امی نے بھی فوراً یقین کر لیا تھا کہ بہرحال دو دن سے ہلکی سی حرارت اسے پہلے بھی محسوس ہو رہی تھی صبح بھی بخار تھا۔
’’دیکھو تمہیں ہمارا شکر گزار ہونا چاہیے کہ تمہیں تمہاری محض جھوٹی انا کا شکار ہونے سے بچا لیا۔ میرے بھائی سے بڑھ کر تمہیں کوئی نہیں چاہنے والا اور یہ ثوبان بھائی تو پہلے ہی صبا کی پہلی نگاہ بلکہ ٹکر کا شکار ہو چکے ہیں۔ تمہاری بیہوشی کے دوران محترمہ کو انگوٹھی پہنا کر بات پکی کر چکے ہیں۔ بے شک دیکھ لو۔‘‘ ردا نے صبا کا اتھ پکڑ کر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا تو وہ بے دم سی ہو کر واپس بستر پر سیدھی ہو گئی۔
اس کے دل و دماغ ایک دم خاصے پُرسکون اور مطمئن ہو گئے تھے۔ سب ہنس رہے تھے۔ باتیں کر رہے تھے۔ اس کے گزشتہ دنوں کی حالت مرچ مسالا لگا کر بیان کر رہے تھے۔ قہقہے تھے، شوخیاں تھیں، اس نے ایک گہرا سانس لیتے عمر کی طرف دیکھا۔
وہ مسکرا رہا تھا گہری روشن مسکراہٹ تھی اس کے لبوں پر۔ اس کے دیکھنے پر وکٹری کا نشان بنایا تو گھبرا کر اس نے خاور بھائی کی طرف چہرہ پھیر لیا اس کا اور صبا کا کارنامہ حاضرین محفل کو سنا رہے تھے اور عمر مزے سے گنگنا رہا تھا۔
زندگی کی حسین رہ گزر
ڈھونڈتی ہے کوئی ہم سفر
جس کو پانے کی ہے آرزو
آ ملے گا کسی موڑ پر
زندگی کی حسین رہ گزر
مریم کو اپنا چہرہ بلش ہوتا محسوس ہوا۔ عمر کا دھیما سلجھا لہجہ بڑا دل نشین تھا۔
ہم سفر کا اگر ساتھ ہو
راہ آسان ہو جائے گی
مل کے دھڑکیں گے جس گھڑی
جگمگانے لگے گی ڈگر
زندگی کی حسیں رہ گزر
ڈھونڈتی ہے کوئی ہم سفر
جس کو پانے کی ہے آرزو
آ ملے گا کسی موڑ پر
مریم نے مسکراتے ہوئے تکیے سے سر ٹکا کر پوری توجہ خاور بھائی کی طرف مبذول کر لی تھی۔
ختم شد