عندلیب بھابی پاکستان آ گئی تھیں فوزیہ اور خاور کی بات طے ہو چکی تھی۔ صبا اور مریم کی وہی حرکتیں تھیں۔ نصرت بیگم دھوم دھام سے منگنی کرنا چاہ رہی تھیں، رمضان شروع ہو چکا تھا۔ بازاروں کے چکر اور اوپر سے روزے کی حالت سے ایسے میں ردا، عمر اور سکندر بھی چکر لگا لیتے۔ تایا ابو نے لگے ہاتھوں آمنہ اور مریم کا بھی رشتہ مانگ لیا تھا۔
امی کے دل میں ایک پھانس اٹکی ہوئی تھی کہ تایا ابو نے فوزیہ کو چھوڑ کر مریم کا نام لیا اگر وہ ان کے حقیقی خیر خواہ ہوتے تو فوزیہ کے سلسلے میں انہیں باہر کیوں چکر لگانے پڑتے۔ اپنے گھر میں ہی بات طے ہو جاتی اور مریم کا بھی کہیں ہو جاتا۔ اس وقت بھی تایا ابو، تائی امی اور دادی سمیت آئے بیٹھے تھے۔ وہ جو ہر وقت اِدھر اُدھر کی سن گن لیتی رہتی تھی، اب صبا، ردا، آمنہ اور فوزیہ کے نرغے میں گھری کافی حواس باختہ سی ہو رہی تھی۔ اوپر سے خاور بھائی، وقار، سکندر کے علاوہ عمر کی موجودگی۔
’’تمہارا بھائی کیوں آیا ہے؟‘‘ وہ ردا کے کان میں منمنائی۔ یہ سب لوگ اس وقت مریم کے گھر کی چھت پر بیٹھے تھے، لڑکے خاور کے گھر کی دیوار پھلانگ کر آئے تھے۔
’’تمہاری اطلاع کے لیے غرض ہے کہ میرا صرف ایک بھائی نہیں دونوں یہاں موجود ہیں اور معاملہ صرف ایک کا طے نہیں ہو رہا، دونوں کا زیر غور ہے۔‘‘
’’زیادہ خوش فہمی کی ضرورت نہیں، میری امی ہامی بھرنے والی نہیں۔‘‘ خاور بھائی کی کسی بات پر ہنستا عمر اسے جی بھر کر زہر لگا۔
’’کوئی بات نہیں، میرے بھائی میں لڑکی بھگانے کے گٹس موجود ہیں۔‘‘ ردا کون سا کسی سے کم تھی اور اگر بات ہو اس کے چہیتے بھائی کی تو وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیتی تھی۔
’’ائے… ہائے… بڑی خوش فہمیاں ہیں۔‘‘
’’ارے کوئی نیچے تو جائے، خیر خبر لائے۔‘‘ آمنہ نے دہائی دی۔
’’تمہیں بڑی جلدی ہے۔‘‘ سکندر نے ٹکڑا لگایا۔
’’ظاہر ہے تم جیسے انسان کے ساتھ مستقبل برباد ہو جانے کا خطرہ لاحق ہے موصوفہ کو۔‘‘ فوزیہ نے ہنس کر کہا، سکندر نے آنکھیں دکھائیں۔
’’یہ مجھ جیسے سے کیا مراد ہے آپ کی؟‘‘
’’وہی جو سمجھ لو۔‘‘ صبا کھلکھلائی۔
’’میں پتا کرتی ہوں۔‘‘ صبا کہہ کر نیچے بھاگ گئی تھی۔
نیچے امی کے کمرے میں محفل جمی ہوئی تھی اور نقشہ چینج تھا، صبا کو شدید جھٹکا لگا۔ نبیلہ بیگم کے ساتھ ایک اور نیا چہرہ بلکہ چند نئے چہرے وہاں موجود تھے۔
’’دیکھیں میں بار بار سوالی بن کر آ رہی ہوں، مجھے ناامید مت کریں۔ آپ کے گھرانے میں رشتہ جوڑنا میری خوش قسمتی ہو گی۔ آپ کی ماشاء اللہ دونوں بیٹیاں دل کو بھائیں، چھوٹی کا اس لیے کہا کہ میرا بیٹا بہت شرارتی مزاج اور ہنس مکھ طبیعت والا ہے مگر اب آپ بتا رہی ہیں کہ آپ نے بڑی کی بھی بات طے کر دی ہے اور چھوٹی بچی ہے اب…‘‘ صبا حیرت سے کھڑی تھی۔ نجانے یہ کیا ماجرا تھا۔ کہیں یہ بینک منیجر کی والدہ تو نہیں؟ اس نے کھڑکی میں مزید سر گھسایا۔
’’آپ کا گھرانہ مجھے خود بڑا پسند آیا تھا مگر بچوں کی قسمت۔‘‘
’’ہماری تو شروع سے ہی مرضی تھی بس فوزیہ کی بات طے ہو جانے کا انتظار تھا، ہم آج اپنے دونوں بچوں کا رشتہ مانگنے آئے ہیں۔‘‘ یہ تائی بیگم کہہ رہی تھیں۔
صبا نے سر تھام لیا۔ یعنی یہاں ایک نہ شد دو شد والی کیفیت تھی۔
’’پلیز مجھے انکار مت کریں۔‘‘ بینک منیجر کی والدہ کہہ رہی تھیں۔
’’ہم خاندان سے باہر رشتہ نہیں کرتے۔‘‘ یہ دادی جان کا بیٹا تھا۔ اس سفید جھوٹ پر صبا کو لگا اس کا سر گھوم گیا ہے۔
’’حرج تو کوئی نہیں، آمنہ کی بھابی رشتہ مانگ رہی ہیں اس کو ادھر کر دیتے ہیں اور مریم کی اُدھر۔‘‘ یہ نبیلہ خاتون کی آواز بھی اور صبا کو لگا کہ اس کا ہارٹ اٹیک ہونے والا ہے۔
’’کیا کہہ رہی ہو۔‘‘ دادی جان فوراً بولیں۔
’’مریم…‘‘ صبا باہر بھاگی تھی اور اندھا دھند بھاگی تھی اور یہ دیکھے بغیر کہ دروازہ کھول کر ایک لڑکا اور لڑکی اندر داخل ہوئے تھے اور اس کا وجود سوٹڈ بوٹڈ وجود کے ساتھ جا ٹکرایا۔
’’اللہ…‘‘ اس کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکلی تھی اور دھڑام سے چکنے فرش پر گری تھی۔
’’ارے آپ تو ٹھیک ہیں۔‘‘ وہ لڑکا اور لڑکی پریشان ہو کر اس کی طرف بڑھے تھے بلکہ اندر موجود میٹنگ میں مصروف حضرات بھی باہر لپکے تھے اور وہاں صبا کو گرے دیکھ کر سبھی چونکے تھے اور صبا نے چکراتے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔
’’نہیں… یہ نہیں ہو سکتا۔ بالکل نہیں ہو سکتا۔ میں مر جائوں گی، زہر کھا لوں گی مگر اس سود خور کی ڈولی میں نہیں بیٹھوں گی۔‘‘ مریم کے ڈائیلاگ نقطہ عروج پر تھے مگر کسی پر اثر نہیں ہو رہا تھا۔
بھوک ہڑتال، احتجاج، انکار سب کر دیکھا تھا مگر امی کا فیصلہ پتھر پر لکیر تھا گویا قصہ مختصر یہ تھا کہ اس دن اچانک اس بینک منیجر کی والدہ محترمہ تشریف لے آئی تھیں نبیلہ خاتون کو فوزیہ والے قصے سے ہٹ کر مریم کے لیے یہ رشتہ مناسب لگا تھا چونکہ آمنہ اور سکندر کے لیے راضی تھیں۔ اور خاور کے لیے بھی مان گئی تھیں تو جہاں اتنے لوگ ایک طرف تھے وہ تنہا اس رشتہ پر راضی تھیں اور پھر اس دن نانی، تائی اور باقی سب لوگ بڑے غم زدہ رُخصت ہوئے تھے۔ وہیں بینک منیجر کی والدہ صاحبہ بڑی خوش خوش رُخصت ہوئی تھیں اور امی جی بہت مطمئن تھیں، امی جی کیا باقی سب بھی بہت مطمئن تھے بلکہ اسی شام تایا کے گھر سے مٹھائی آئی تھی۔ پورے محلے میں بانٹی گئی تھی اور رمضان میں ہی افطار کے بعد ایک دن منگنی کا طے تھا۔ مریم کی رمضان میں روزہ کی حالت میں بھوک ہڑتال کسی کام نہ آئی تھی آج کل وہ خاموش تھی پر کسی کو پروا ہی نہ تھی۔ اوپر سے ردا اور عمر کی کالز طعنے جذباتی ڈائیلاگز دو دن تو وہ خاموش رہی مگر جوں جوں منگنی کے دن قریب آ رہے تھے اس کو اس کو رونا آ رہا تھا۔ اوپر سے صبا کی دل جلانے والی باتیں۔
’’اور عمر بھائی کا دل دکھائو۔ انہوں نے دل سے بددُعا دی ہو گی اب بھگتو۔‘‘
’’ہاں ساری بددُعائیں مجھے ہی دینی تھیں موصوف نے اور ہر بار میں ہی بھگتوں۔ میں نے کون سا غلط کیا تھا کی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی، اپنی ذات سے مطلب رکھا اور اُلٹا مجھے ہی الزام۔‘‘
’’محبت کرنے لگی ہو ان سے۔‘‘ وہ یہ سوال پوچھ کر اور زچ کرتی۔
’’مر بھی جائوں تو کبھی ان کا نام نہیں لوں گی، مگر اس سود خور سے بھی شادی نہیں کروں گی۔ بے شک زہر کھانا پڑے۔‘‘ فوزیہ دہل کر اسے بازوئوں میں لے کر بہلاتی جبکہ عندلیب بھابی مسکرا دیں۔
اس وقت بھی وہ سب کی چھیڑ چھاڑ سے عاجز ہو کر اوپر گئی تھی۔ نجانے کیوں دل بار بار بھر آتا تھا۔ افطاری میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا، نیچے سبھی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے۔ وہ خاموشی سے زمین پر ٹک گئی گرم زمین تھی مگر اسے پروا نہیں تھی۔
عمر نے گھر میں قدم رکھا تو آمنہ اور عندلیب کچن میں تھیں جبکہ فوزیہ مشین پر کچھ سلائی کر رہی تھی سلام دُعا کے بعد عمر نے اِدھر اُدھر جھانکا۔
’’چچی کہاں ہیں؟‘‘ وہ کچن کی ہی طرف آ گیا تھا۔
’’صبا کے ہاں گئی ہیں نصرت چچی نے بلوایا تھا۔ چچا کام پر اور وقار اکیڈمی آنے والے ہیں یہ لوگ بھی۔ تم بیٹھو۔‘‘ عندلیب نے بھابی کو جواب دے کر کہا اور ساتھ سٹول بھی کھسکایا۔
’’اور وہ باگڑ بلی نظر نہیں آ رہی؟‘‘ آمنہ ہنس دی۔
’’توبہ کریں، بہت موڈ خراب ہے آج کل اس کا۔ اس وقت بھی ہم سے لڑ کر چھت پر گئی ہے۔‘‘ عندلیب نے بھی ہنس کر کہا۔
’’اس کا مطلب ہے مزاج خراب ہے۔‘‘
’’جی ہاں اگر آپ سامنے گئے تو پھر گولہ باری کی بھی توقع رکھیں۔‘‘ آمنہ نے ڈرانا چاہا مگر وہ سنی ان سنی کرتا تیزی سے اوپر کی طرف چلا گیا۔
وہ برآمدے میں زمین پر گھٹنوں پر بازو لپیٹے سر گرائے بیٹھی ہوئی تھی۔
’’مریم۔‘‘ کچھ پل سرکنے کے بعد اس نے پکارا تو اس نے سرعت سے سر اُٹھایا۔
بھیگی پلکیں اور سرخ ناک شاید وہ روئی تھی عمر کے دل کو کسی نے مٹھی میں لے لیا تھا۔
’’آپ… آپ ادھر کیوں آئے ہیں۔ آپ کو اپنے گھر میں چین نہیں پڑتا۔‘‘ جواب حسب توقع تھا۔ عمر کا خوش فہم دل ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔ وہ بھیگی پلکیں بیدردی سے دوپٹے سے رگڑتے کھڑی ہو گئی تھی۔
نجانے اس لڑکی کے دل میں کیا تھا کش وہ اس کے دل کا حال جانتا تو وہ سب کے سامنے ڈٹ جاتا محض اپنی خواہش کے بل بوتے پر وہ یکطرفہ کارروائی کرتا بھی تو کیسے؟
’’رو کیوں رہی تھیں؟‘‘ اس نے دھیمے سے پوچھا۔
’’ہنسنے کی بھی کوئی خاص وجہ نہیں بنتی۔‘‘
’’خیر یہ تو مت کہو، بینک منیجر سے منگنی کرنے جا رہی ہو، ہنسنے اور خوش ہونے کے لیے یہ تو بہت معقول وجہ ہے۔ سنا ہے خاصی اسٹرونگ فیملی ہے۔‘‘ مریم کا جی چاہا کہ کوئی چیز اس کے سر پر دے مارے اس وقت عمر اسے اتنا ہی زہر لگ رہا تھا۔
’’شٹ اپ۔‘‘ وہ پھنکاری تھی جواباً وہ ہنس دیا پھر تھوڑا سا جھک کر مسکرا کر کہنے لگا۔
’’وہ کہتے ہیں نا کہ رسی جل گئی پر بل نہیں گیا۔ میں تو مبارکباد دینے آیا تھا پھر سوچا دیکھتا چلوں کہ مستقبل قریب میں سود خور ایم سوری بھئی بینک منیجر کی بیگم بننے جا رہی ہو کوئی فرق شرق ہی پڑ گیا ہو گا۔‘‘ مریم نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لیں۔
’’اگر آپ کی بکواس بند ہو گئی ہے تو اب جا سکتے ہیں۔‘‘ وہ رُخ بدل کر کھڑی ہو گئی تھی۔ آنکھیں ایک دم بھر آئیں ناحق وہ رو رہی تھی اس شخص کو تو کوئی خاصا فرق ہی نہیں پڑا تھا۔ پہلے ہی کی طرح مطمئن اور پُرسکون انداز تھا۔ اس کا دل جل کر خاک ہونے لگا۔ یہ لڑکے ہوتے ہی ایسے ہیں فلرٹی دھوکے باز۔ اس کا دل بھی بھر آیا۔
عمر اسے چند پل دیکھتا رہا۔ وائٹ پاجامے پائوں کو چھوتی بلیک قمیص اور سر پر جما دوپٹہ جو بہت سلیقے سے گردن کندھوں اور سینے کو ڈھانپے نیچے تک آ رہا تھا۔
یہ لڑکی زبان کی جتنی بھی کڑوی تھی مگر جانتا تھا کہ دل کی اتنی ہی اچھی اور کردار کی مضبوط ہے۔ وہ بارہا اس کی طرف آیا تھا بڑے واضح الفاظ میں دل کا راز آشکارا کیا تھا مگر نجانے کیا چیز تھی جو یہ لڑکی ابھی تک چٹان کی طرح اپنی جگہ جامد تھی۔ ورنہ وہ اس قابل تو تھا کہ کوئی بھی لڑکی رد کرنے سے پہلے سوچے گی تو ضرور۔
’’سیانے کہتے ہیں کہ وقت پر دل کی بات کہہ دینا فائدہ مند ہوتا ہے ابھی بھی وقت تمہارے ہاتھ میں ہے۔ صلح کا پرچم لہرا دو ہم محاذ جیتنے کو تیار ہیں جناب! اگر تم ہاں کر دو تو…‘‘ وہ گھوم کر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا اور مسکرا کر کہا۔ مریم نے خاموشی سے اسے دیکھا۔
’’آپ کو شاید میری کوئی بات سمجھ نہیں آئی۔ یہ ہمارے بڑوں کا فیصلہ ہے وہ جو مرضی کریں میں کیوں انکار کروں۔‘‘
’’تو رو کر اس طرح ماتم کیوں کر رہی ہو؟‘‘ عمر نے ایک اہم پوائنٹ کی طرف نشاندہی کی تھی۔
’’کم از کم آپ کے لیے تو نہیں رو رہی اس خوش فہمی سے نکل آئیں آپ۔‘‘ خاصا چٹخ کر جتانا چاہا تھا، عمر ہنس دیا۔
’’تو پھر وہ کون ذات شریف ہے، جس کے لیے بھرپور احتجاج کیا گیا ہے۔‘‘ مریم کو لگا اس کی پیشانی جل اُٹھی تھی احساس توہین سے۔
’’آپ مجھ پر الزام تراشی کر رہے ہیں؟‘‘
’’نہیں ویسے ہی احساس دلانا چاہ رہا ہوں کہ اگر کوئی وجہ بھی نہیں تو پھر یہ رونا دھونا بھی کیوں؟‘‘ عمر کا انداز سنجیدہ تھا اس نے بہت غصے سے اسے دیکھا۔
’’کم از کم آپ کے لیے نہیں رو دھو رہی اور خبردار آئندہ میرے سامنے آ کر ان الفاظ میں مجھ سے باز پرس کی تو میں بہت لحاظ کر چکی آپ کا اب کے مجھ سے کچھ کہا تو سیدھا ابو جی کے پاس جا کر بات کروں گی۔‘‘ اس نے ہمیشہ والی دھمکی دہرائی۔
’’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا۔‘‘ وہ عمر کی اس گنگناہٹ پر پائوں پٹختے وہاں سے پلٹی اور عمر پر ایک کھا جانے والی غصیلی نگاہ ڈالتے تیز تیز قدم اُٹھاتے سیڑھیاں اُترتی چلی گئی تھی۔
عمر چند ثانیے تک بڑی سنجیدگی سے سینے پر ہاتھ رکھے کچھ سوچتا رہا۔
وہ جو ہر چیز سے حد درجہ بیزار تھی خاموش ہو گئی۔ گھر میں ایک نہیں کل تین منگنیاں تھیں۔ فوزیہ کی خاور کے ساتھ آمنہ کی سکندر کے ساتھ اور اس کی اس بینک منیجر ثوبان احمد کے ساتھ اور حیرت کی بات یہ تھی منگنی کی تمام تیاریاں ثوبان احمد کی والدہ ہر روز آ کر صبا اور اس کی والدہ کو ساتھ لے جا کر کر رہی تھیں اور ہر روز شاپنگ سے واپسی پر آ کر صبا خریداری کی تفصیل بتاتے مریم کا دل جلاتی رہتی تھی۔
ابو جی، تایا ابو، خاور بھائی کے والد اور ثوبان سب کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ منگنی کا فنکشن ایک ہی جگہ اور ایک ہی دن طے پا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا آخری عشرہ چل رہا تھا تئیسویں روزے کی افطاری کے بعد دن طے ہوا تھا۔ دونوں طرف کے فنکشنز ایک ہی دن تھے۔ گھر کے ساتھ کا خالی پلاٹ خاصا وسیع اور صاف ستھرا تھا، خاور بھائی کے ابو نے کئی سال پہلے خریدا تھا اب وہ لاکھوں مالیت کا تھا۔ کھانے پینے کا خرچہ مل کر کرنا تھا جبکہ باقی کی تیاری خاور بھائی کے والد صاحب نے اپنے ذمہ لے لی تھی۔
صبح سے گھر میں خاصی افراتفری تھی۔ کچھ روزے کی حالت میں یہ بھاگ دوڑ مریم خاموشی سے سب کی کارروائی دیکھ رہی تھی۔ عندلیب بھائی نے بیوٹیشن کا کورس کر رکھا تھا۔ وہ بہت اچھی بیوٹیشن تھیں۔ فوزیہ اور آمنہ کو تیار کرنے کے بعد جب صبا کو انہوں نے کرسی پر بٹھایا تو مریم چونکی۔ صبا کا لباس اس انداز چہرے کی خصوصی تیاری کچھ نیا پن تھا۔ وہ ابھی نہا کر نکلی تھی۔ عصر کے بعد کا وقت تھا، مہمان آنا شروع ہو چکے تھے۔ باجی باہر امی کے ساتھ لگی ہوئی تھیں اور عندلیب اندر ان کے ساتھ مصروف تھیں۔ فوزیہ اور آمنہ پیاری لگ رہی تھیں۔ رات ہی نصرت آنٹی تائی بیگم اور ثوبان کی والدہ تھیں دلہنوں کے خصوصی لباس لے کر وہ صرف سلام دُعا کر کے کمرے میں گھس گئی تھی اس نے اپنے لیے آنے والا لباس تک دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
’’اسے کیوں تیار کر رہی ہیں اس کو کس پاگل کے لیے باندھنا ہے؟‘‘ بالوں کو سلجھاتے اس نے غصے سے کہا۔ آج کل جس طرح اپنے بھائی کا کام سیدھا ہو جانے کے بعد صبا نے طوطے کی طرح آنکھیں پھیر رکھی تھیں۔ اسے اس بات کا بھی بہت دُکھ تھا۔
صبا کے چہرے پر بیس بناتے بھابی ہنس دی اور صبا بھی آنکھیں بند کیے مبہم سا مسکرا دی۔
’’ہو سکتا ہے کوئی بینک منیجر اسے بھی مل ہی جائے۔‘‘ بھابی کا انداز ذو معنی تھا۔
’’ہاں مفت جو بٹ رہے ہیں۔‘‘ برش ٹیبل پر پھینک کر وہ الماری میں سر دے کر کھڑی ہو گئی۔ آمنہ اور فوزیہ بے ساختہ ہنس دیں۔
صبا کے تیار ہونے کے بعد اس کی باری تھی۔ عندلیب کے دئیے ہوئے لباس کو لے کر وہ باتھ روم میں گھس گئی تھی۔
صبا بھی تیار ہو کر آمنہ اور فوزیہ کے ساتھ ہی بیٹھی تھی اور اس کی یوں سج دھج خصوصاً دلہنوں والا روپ دیکھ کر مریم کو پریشانی ہو رہی تھی۔
ان تینوں بہنوں کی تیاری تو موقع محل کے مطابق تھی مگر صبا کا اس قدر اہتمام اسے ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ عندلیب اسے تیار کرنے لگی تو اس کی نظریں صبا پر ٹھہر گئیں۔
’’تم اس قدر کیوں تیار ہوئی ہو اور تمہیں یہ کپڑے آج ہی پہننے تھے کیا؟‘‘ اس کے سوال پر صبا ہنس دی۔
’’کیا پتا تم لوگوں کے ساتھ میری بھی کہیں بات بن جائے۔‘‘ اب کے مریم واقعی چونکی۔ صبا کے لہجے میں واقعی کچھ تھا۔
’’مطلب؟‘‘ اس نے بھابی اور اپنی بہنوں کو دیکھا۔
’’آج کے فنکشن میں صبا کی بھی منگنی ہے۔‘‘ بھابی نے ہنس کر بتایا بلکہ انکشاف کیا۔
’’کیا…؟ مگر کس سے؟‘‘ وہ حیرت زدہ رہ گئی تھی۔
’’سرپرائز ہے خصوصاً تمہارے لیے۔ کچھ دیر اور انتظار کر لو۔‘‘ وہ سب کی ہنسی اور بھابی کے الفاظ پر دیکھتی رہ گئی۔
بھابی نے اسے تیار کر کے جیولری پہنائی۔ آخر میں دوپٹہ سیٹ کر کے بغور اسے دیکھا۔
’’ماشاء اللہ! بہت پیاری لگ رہی ہو۔‘‘ بھابی نے اس کی پیشانی چوم لی تبھی ان کا موبائل بجنے لگا۔
’’ایک تو اس لڑکے کو بھی چین نہیں۔‘‘ موبائل دیکھتے ہی بھابی ہنسیں۔
’’کون عمر بھائی ہیں؟‘‘ وہ صبا کے الفاظ پر سر جھکا گئی۔
’’ہاں… عمر ہے۔‘‘
بھابی کال اٹینڈ کر چکی تھیں ایک دو باتوں کے بعد بھابی نے موبائل مریم کی طرف بڑھایا۔
’’عمر تم سے بات کرنا چاہتا ہے۔‘‘
’’مجھ سے؟‘‘ اس وقت عمر کی کال آنے پر وہ خاصی ڈسٹرب ہو گئی تھی۔ صبا نے معنی خیز نظروں سے گھورا جبکہ فوزیہ اور آمنہ مسکرا دی تھیں۔
’’وہ کوئی ضروری بات کرنا چاہتا ہے۔‘‘ بھابی اسے موبائل تھما کر بکھرا سامان سمیٹنے لگی تھیں ابھی تو انہوں نے خود بھی تیار ہونا تھا۔
’’ہیلو…‘‘ صبا اور بہنوں کو نظر انداز کرتے اس نے سنجیدگی سے کہا۔
’’مبارک ہو سنا ہے سارے اعتراضات بھلائے بڑی نیک بی بی بلکہ خاموش بی بی بن گئی ہو۔ عام حالت میں تو محترمہ کے یوں بھی مزاج نہیں ملتے مگر آج تمہارا خصوصی دن ہے یقینا بہت خوبصورت لگ رہی ہو گی۔‘‘ وہ آج بھی دل جلانے سے باز نہیں آیا تھا اور مریم کا دل واقعی جل کر خاک ہو گیا۔
’’شٹ اپ۔‘‘ آواز آہستہ ہی رکھی تھی کمرے میں وہ تنہا نہیں تھی۔
’’شاباش! تمہارا یہی انداز تو سننا چاہ رہا تھا اب جناب کی پل پل کی رپورٹ مل تو رہی تھی مجھے اُمید تھی منگنی کا جوڑا پہنے خوب واویلا مچائو گی مگر اس قدر شرافت ہضم نہیں ہو رہی۔ میں نے سوچا طبیعت ٹھیک ہو۔ مزاج دشمناں بہتر ہو۔ بس تمہارا حال چال پوچھنے کو دل چاہ رہا تھا۔‘‘
’’کیا بکواس ہے۔‘‘ وہ اب اپنے لہجے پر واقعی قابو نہیں رکھ پائی تھی۔
دوسری طرف وہ کھل کر ہنسا۔
’’بکواس نہیں بلکہ نیک فرمودات کہو۔ ویسے میں منگنی میں آ تو رہا ہوں باقی باتیں آمنے سامنے ہوں گی۔ بہت سے حساب باقی ہیں جو بے باق کرنے ہیں اور ساتھ یہ بھی دیکھنا ہے کہ سود خور سودی میرا مطلب ہے کہ بینک منیجر کے نام کی انگوٹھی پن کر کیسی لگتی ہو تم؟‘‘
عمر کے الفاظ ایسے تھے کہ اس کا دل ایک دم بھر آیا۔ غصے سے موبائل آف کر کے بستر پر پھینکا اور خود دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر ایک دم رو دی۔
’’ارے… ارے یہ کیا کر رہی ہو؟ کیا کہہ دیا عمر نے؟‘‘ بھابی اور باقی تینوں فوراً پریشان ہو کر اس کی طرف لپکی تھیں۔