تھوڑی دیر بعد عشاء بیگم اندر آئ ایسا لگ رہا تھا وہ کچھ بولنا چاہ رہی ہے مگر ہچکچا رہی تھی مشاء مجھے تم سے بات کرنی ہے کچھ جی پھپھو بولیں مشاء دراصل مجھے کچھ بات کرنی ہے جی جی پھپھو بولیں مشاء دراصل مجھے لگتا ہے کہ احمد نے ہی ھادی کو پھپھو ایسا نہیں ہو سکتا عشاء بیگم کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی مشاء نے کہا پھپھو احمد جیسا بھی ہے مجھے بھی احمد سے نفرت ہے آخر اسکا باپ میرے بابا کا مجرم ہے میں یہ شادی صرف احمد سے اور اسکے گھر والوں سے بدلہ لینے کیلیے کر رہی ہوں مگر یہ میں جانتی ہوں ایسی حرکت احمد نہیں کرسکتا کبھی بھی آپ لوگ ساری باتیں اس لیے کر رہے ہیں تاکہ میں احمد سے شادی نہ کرو مگر پھپھو میں احمد سے شادی کرونگی پھپھو مجھے اس گھر کے ہر انسان سے بدلہ ہے جس نے میرے بابا کے ساتھ غلط کیا مشاء بچے مجھے معاف کردو مجھے نہیں پتہ تھا میری مشاء اتنی بڑی ہوگئ ہے عشاء بیگم نے مشء کو بوسہ دیتے ہوۓ ارے پھپھو ایسی باتیں تو نہ کریں اچھا آپ ڈاکٹر سے تو پوچھ لیں میں کب جاۂونگی گھر میں اب بور ہو رہی ہوں ہاں بسسس تھوڑی دیر میں چلتے ہیں تم آرام کرو جب تک عشاء بیگم کے جاتے ہی مشاء سوچنے لگی کہی حقیقت میں تو ایسا نہیں۔۔۔۔۔ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا احمد اتنے گھرووالوں کی طرح نہیں ہوسکتا جو اپنی خوشیوں کیلیے دوسروں کا سکون برباد کردیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج کے دن میر سلطان ہاؤس اور جمال ہاؤس دونوں ہی گھروں میں چہل پہل ٹھیک اس دن کی طرح جس طرح مشاء اور ھادی کی منگنی والے دن تھی اور آج بھی منگنی ہی تھی بس فرق اتنا تھا منگنی مشاء اور احمد کی تھی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
احمد بیٹا جلدی تیار ہوجاؤ ہمیں نکلنا بھی ہے پہلے ہی بہت دیر ہوگئ ھریرہ بیگم نے احمد کو کہا (دراصل انہیں جلدی تو انہیں اس بات کی تھی کہ وہ آج مشاء جمال صاحب سے ملیں گی جمال صاحب تو ساتھ منگنی کرنے کے قاۂل نہ تھے کیونکہ وہ ھریرہ بیگم اور سلطان ھاحب کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے تھے مگر مشاء اور عشاء بیگم کے سمجھانے پہ وہ بےدلی سے مان گۓ جبکہ ھریرہ بیگم کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا) آپ میرے معاملے میں دخل نہ ہی دیں تو بہتر ہے میں جانتا ہوں میرے لیے کیا صحیح ہے اور غلط اور اگر اتنی جلدی ہے تو آپ اکیلے جا سکتی ہیں ویسے بھی میں آپکو اپنی ماں نہیں مانتا اپنی ہی کیا اس انسان کی بھی ماں نہیں مانتا جسے چھوڑ کے آپ یہاں آگئ احمد کی یہ باتیں سن کر انہیں دکھ ہوا مگر وہ آج خوش تھی اسلیے کچھ بھی بولے بغیر چلی گئ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(احمد نہیں جانتا تھا کہ مشاء ہی ھریرہ بیگم کی بیٹی ہے ان سب باتوں سے وہ بلکل انجان تھا)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دونوں ہی بہت خوبصورت لگ رہے تھے احمد نے واۂٹ شرٹ براؤن کوٹ اور واۂٹ پینٹ پہنی تھی جسکے ساتھ براؤن ہی tie تھی اور وہ اس ڈریسنگ میں بہت وجیہہ لگ رہا تھا مشاء نے واۂٹ میکسی پہنی تھی جسکے اوپر لال حجاب لیا تھا جیسے ہی دونوں کو ساتھ بٹھایا ہر کوئ انہیں دیکھ کے ما شاء الله کہتا وہ دونوں ساتھ بے حد پیارے لگ رہے تھے بلکل چاند سورج کی طرح مشاء بیٹا تم پہلے انگھوٹھی پہناؤں ھریرہ بیگم نے جمال صاحب کو دیکھتے ہوۓ کہا کیونکہ جب سے وہ لوگ یہاں آۓ تھے جمال صاحب نے میرسلطان اور ھریرہ بیگم کونہیں دیکھا تھا نہیں پہلے احمد مشاء کو انگھوٹھی پہناۓ گا جمال صاحب نے فورا کہا مگر ھریرہ بیگم ابھی کچھ بولنے ہی لگی تھی احمد بیٹا اگر ایسا نہیں کرسکتے تو کوئ بات نہیں آپ لوگ واپس جا سکتے ہیں نہیں انکل مشاء آپکی بیٹی ہے جیسی آپکی مرضی احمد نے جمال صاحب کو کہا ہے ویسے بھی منگنی میری ہے آپکو بولنے کا کوئ حق نہیں احمد نے ھریرہ بیگم کو کہا غصہ تو بہت تھا اسے ھریرہ بیگم پہ مگر پھر بھی چپ ہوگیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
احمد کے انگھوٹھی پہنانے کے بعد اب مشاء کی باری تھی مگر مشاء۔۔۔
_________
احمد کے انگھوٹھی پہنانے کے بعد اب مشاء کی باری تھی مگر مشاء بلکل خاموش تھی یا ﷲ جو میں کر رہی ہوں وہ ٹھیک ہے یا نہیں میں نہیں جانتی میں اپنے مقصد میں کامیاب اونگی بھی یا نہیں مگر میں ہر شخص سے بدلہ لینا چاہتی ہوں جس نے میرے بابا کے ساتھ غلط کیا یا ﷲ آج میں احمد کی ہونے جا رہی ہوں جس طرح میری انگلی اب اس انگھوٹھی کی قید میں جارہی ہےویسے ہی میں بھی احمد کی قید میں جا رہی ہوں میں نہیں جانتی کہ احمد کیسا انسان ہے مگر میرے ہر مقصد میں وہ استعمال ہوگا میرا مقصد جاننے کے بعد وہ دھکے دے کے مجھے نکال دے گا بسسسس یا ﷲ مجھے اسکی محبت میں مبتلا نہ کرنا مشاء کیا ہوا بچہ جمال صاحب نے پوچھا کچھ نہیں باباتو بیٹا انگھوٹھی پہناو جی بابا اور مشاء نے احمد کو انگھوٹھی پہنا دی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ھریرہ بیگم کو مشاء پہ بےانتہا پیار آرہا جب سے انہیں یہ پتہ چلا تھا کہ احمد کی منگنی مشاء سے ہورہی ہے وہ پھولے نہیں سما رہی تھی اور آج انکی بیٹی انکے سامنے منگنی کا جوڑا پہنے چہرے پہ نزاکت لیے بےحد حسین لگ رہی تھی مشاء ھریرہ بیگم نے مشاء کو آواز دی مشاء نے انکی طرف دیکھا بیٹا ایک منٹ ادھر آنا کچھ بات کرنی ہے نہیں ھریرہ تم کوئ نہیں ہوتی مشاء کو اسطرح لے کے جانے والی ایک ماں کی حیثیت سے تو بلکل نہیں اور ایک ماں اپنے بچے کو کبھی چھوڑ کر کبھی نہیں جاتی اور ایک ساس کی حیثیت سے بھی نہیں کیونکہ احمد تمیہں اپنی ماں نہیں مانتا عشاء بیگم نے فورا کہا اور ھریرہ بیگم چپ ہوگئ عشاء بیگم نےاحمد کو کبھی ھریرہ بیگم کو ماں بولتے ہوۓ نہیں سنا تھا نہ ہی پیار سے بات کرتے دیکھا تھا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
زوبی تو پاگل ہوگیا ہے تیرا دماغ خراب ہے تو نے اپنے مقصد کیلیے اسکی زندگی خراب کردی تو نے اپن مقصد کیلیے ادی کو مروا دیا ڑوبی مجھے تجھ سے ایسی امید نہیں تھی
ھاشر کو یقین آرہا تھا کہ زوبی نے ھادی کو مار دیا زوبی میں نے تیرا ساتھ صرف اسلیے دیا تھا کیونکہ میں بھی مشاء کو پسند کرتا تھا کانچ ٹوٹنے کی آواز پہ ھاشر پیچھے مڑا تو پیچھے آبیر کھڑی تھی آنکھوں میں آنسو اور بےیقینی لیے وہ اپنے بھاٸ کو دیکھ رہی تھی آبیر جیسا تم سمجھ رہی ہو ویسا کچھ نہیں کی کھ نہیں بھاٸ آپ کی وجہ سے مشاء ٹوٹ گٸ ہے آپ نے زوبی کا ساتھ دیا آپ اور آپکے دوست کی وجہ سے وہ میری دوست ٹوٹ گٸ مگر بھاٸ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے آپ اور وبی اپنی ارادے میں کامیاب نہیں ہوۓ کیونکہ مشاء کی آج احمد بھاٸ کے ساتھ منگنی ہے میں بھی چاہتی تھی کہ مشا میری بھابھی بنے مجھے بھی دکھ ہوا تھا جب اسکی منگنی ھادی سے ہوٸ تھی مگر آج مجھے احساس ہوا ہے بھاٸ کہ اچھا ہوا اسکی منگنی آپ سے نہیں ہوٸ ورنہ وہ پھول اس کانٹے کے زخموں کو برداشت نہیں پتی اور وہ پوری ٹرے زمین پہ پھینک کے چلی گٸ اور ھاشر صرف اسے دیکھتا رہا جبکہ اس پوری بات میں اسکی غلطی نہیں تھی
*****
کبھی انسان کو اس غلطی کی سزا ملتی ہے جو اسنے کی ہی نہیں ہوتی ۔
کبھی انسان کو اس غلطی کی سزا ملتی ہے جو اسنے کی ہی نہیں ہوتی ایسا ہی ھاشر کے ساتھ ہورہا تھا اس نے زوبی کی مدد صرف مشاء کو حاصل کرنے کیلیے کی تھی اور جب اسے پتہ چلا کہ مشاء کی منگنی ھادی سے ہورہی ہے تو اس نے قدرت کا فیصلہ سمجھ کےمشاء کو پانے کی خواہش دل سے نکال دی زوبی کو بھی منع کیا مگر وہ نہیں مانا اور زوبی کی وجہ سے ھاشر کو اپنی بہن سے شرمندہ ہونا پڑا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
انکل میں مشاء کو تھوڑی دیر کیلیے اپنے ساتھ لے کے جانا چاہتا ہوں احمد نے جمال صاحب کو کہا جوکسی سے باتوں میں مصروف تھے مگر احمد کیوں انکل میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں مشاء سے ہم جلد ہی واپس آجاۂیں گے پلز انکل ٹھیک ہے مگر پہلے کھانا کھا لو نہیں انکل ہم وہی کھا لیں گے ٹھیک ہے مگر مشاء نے صبح سے کچھ نہیں کھایا خیال رکھنا اسکا اور اپنا بھی جی انکل کہتا وہ مشاء کے پاس اسٹیج پہ گیا جو کسی کی باتوں پہ مسکرا رہی تھی اور حسین بھی بہت لگ رہی تھی مشاء چلیں احمد کی آواز پہ مشاء نے سر اٹھا کے دیکھا احمد نے اسکی آنکھوں میں سوال پڑھ لیے تھے جو یہ پوچھنا چاہ رہی تھی کہاں اور کیوں ارے میں نے انکل سے پوچھا ہے انہوں نے اجازت دے دے ہے اچھا اب چلو بھی وہ اٹھ ہی رہی تھی کہ ھریرہ بیگم اسکے پاس آئ مشی میرا مطلب مشاء مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے ھریرہ بیگم کے آنے پہ اسے غصہ آرہا تھا پھپھو بابا پلز آپ میں سے کوئ آجاۓ اسنے دل میں دعاکی دراصل میں اور مشاء باہر جا رہے ہیں آپ کو جو بات کرنی ہو بعد میں کیجیے گا چلو مشاء احمد نے اپنا ہاتھ آگے کیا احمد اسکو اسوقت اپنا سا معلوم ہوا نہیں اس گھر کا کوئ میرا اپنا نہیں مشاء نے دل میں سوچا اور اور احمد کے ہاتھ پہ نہ چاہتے ہوۓ بھی ہاتھ رکھ دیا کیونکہ سب انہیں ہی دیکھ رہے تھے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مشاء ایک بات پوچھوں احمد نے کار میں خاموشی توڑنے کیلیے کہا جی مشاء نے کہا اس دن کیلیے سوری مجھے بلکل نہیں پتہ تھا کہ آپکی ماما بسسسس مشاء نے احمد کی بات کاٹ کہ کہا آپ اگر اس بارے میں بات نہ کریں تو مہربانی ہوگی آپکی آگے کا سفر خاموشی کی نظر گزرا
٭٭٭٭٭٭٭٭
احمد نے کار ایک Seaview Restaurant پہ روکی تھی جہاں انکی ٹیبل تھی اسکے بس دو قدم کے فاصلے پہ ہی دریا تھا مشاء کو رات میں پانی سے ڈر لگتا تھا اسے رات میں پانی سے ہی نہیں بلک اسے رات ہی سے ڈر لگتا تھا اس نے احمد کو منع بی کیا تھا کہ گھر چلتے ہے مجھے بھوک نہیں ہے مگر کھانا دونوں ہی نے نہیں کھایا تھا احمد جانتا تھا کہ مشاء نے کھانا نہیں کھایا
٭٭٭٭٭٭٭٭
آڈر دینے بعد احمد آکے بیٹھ گیا احمد مشاء نے آج اسے پہلی بار پکارہ تھا احمد کی تو خوشی کا کوئ ٹھکانہ ہی نہ تھا مشاء کے منہ سے اپنا نام سن کے اسے اچھا لگا تھا جبھی چپ رہا تاکہ وہ اسے پھر آواز دے احمد اب کی بار مشاء نے تھوڑا زور سے بولا تھا ہاں احمد نے اسے دیکھ کے بولا کسی دوسرےریسٹورینٹ چلیں مجھے رات میں پانی سے ڈر لگتا ہے احمد کو مشاء بہت معصوم لگ رہی تھی اچھا میں آڈر کینسل کروا کے آتا ہوں نہیں پیک کروا کے گھر لے جا کھا لینا اچھا میں ابھی آیا احمد جلدی پلز ہاں بسسسس ابھی آیا دو منٹ میں مشاء احمد کا انتظار کرنے لگی دونوں کار میں بیٹھ کے گھر کیلیے روانہ ہوۓ مشاء کو گھر چھوڑنے کے بعد احمد اپنے گھر آگیا
٭٭٭٭٭٭٭٭
مشاء سنو عشاء بیگم نے اسکے کمرے میں اسکے ساتھ بیڈ پہ بیٹھتے ہوۓ کہا جی پھپھو احمد نے کچھ کہا تو نہیں ابھی عشاء بیگم نے فکرمندی سے پوچھا نہیں پھپھو بلکہ احمد تو بہت میرا بہت خیال رکھتے ہیں مشاء کل تمہاری مہندی ہے چندا کچھ دن بعد تم ہمیں چھوڑکے اپنے اصلی گھر چلی جاؤ گی وہاں ہر چیز کا خیال رکھنا ت سمھ رہی ہو نہ میں کیا بول رہی ہوں جی پھپھو میں سمجھ رہی ہوں آپ پریشان نہ ہو ور وہ اسے پیار کرتے ہوۓ چلی گئی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج اسکی مہندی ہے مگر یہ محترمہ یونیورسٹی جانے کی رٹ لگاۓ بیٹھی ہے عشاء بیگم نے جمال صاحب کو مشاء کی شکایت کرتے ہوۓ کہا جو صبح سے یونیورسٹی جانے کا کہہ رہی تھی بابا آج لاسٹ اساۂمنٹ submit کروانا ہے پھر یہ semester ختم بابا آپ تو میری بات سمجھیں میرا سال ضاۂع ہوجاۓ گا اب بسسسس ایک سال اور رہتا ہے پھر انشاء اللہ آپکی بیٹی نے ڈاکٹر بن جانا ہے پلز بابا پلز وہ اب تقریبا رو دینے کو تھی اچھا اچھا جاؤ مگر جلدی آنا مہمان بھی آنا شروع ہوجاۂینگے جی بابا
٭٭٭٭٭٭٭
اف بیا کہاں ہو یار آج میں یونی آئ ہوں تو تمہارہ کچھ نہیں پتہ مشاء کب سے آبیر کو ڈھونڈ رہی تھی مگر آبیر مل ہی نہیں رہی تھی مہوش سنو مشاء نے مہوش کو آواز دی جو اسکی یونی فیلو تھی ہاں مشاء بولو یار بیا کو دیکھا ہے مشاء شروع ہی سے آبیر کو بیا بولتی تھی بسسس غصے میں آبیر بولتی تھی ہاں وہ ادھر سامنے ہے مہوش نے corridor کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا اوکے thank you کہتی وہ corridor کی طرف گئ آبیر حد ہے کب سے ڈھونڈ رہی ہوں مشاء نے غصہ کرتے ہوۓ آبیر کو کہا وہ سمجھ رہی تھی آبیر اب اسکو مناۓ گی مشاء پلز مجھے پڑھنے دو آبیر نے مشاء کو بغیر دیکھیے کہا ارے تمہیں کیا ہوا اور تم کل منگنی میں کیوں نہیں آئ ویسے تو بہت بولتی تھی جب تمہاری۔۔۔۔۔۔۔ اوکے تم نہیں جارہی تو کوئ بات نہیں میں ہی چلی جاتی ہوں اور وہ اپنا سامان اٹھا کے چلی گئی مشاء اسے جاتا ہوا دیکھنے لگی اسنے آج سے پہلے ایسے کبھی بات نہ کی تھی اس سے اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ آخر اسنے ایسا کیا کیا ہے جسکی وجہ سے وہ اتنا ناراض ہے اسنے بے دلی سے اساۂمنٹ سبمٹ کروایا اور باہر گاڑی کا ویٹ کرنے لگی ابھی تک جمال صاحب اسے لینے نہیں آۓ تھے آج گھر جلدی جانا ہے اور بابا لینے نہیں آۓ مشاء بس کا انتظار کرنے لگی اور بس آتے ہی فورا بیٹھ گئ آبیر کو ہوا کیا ہے اتنے ٹاۂم سے ملی نہیں شاید اسی لیے ناراض مگر وہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ناراض تو نہیں ہوتی وہ مسلسل آبیر کے بارے میں سوچ رہی تھی اسکے سر میں شدید درد تھا تھوڑی دیر بعد بس سے اتر کر گھھر پہنچی تو وہاں پہ الگ ہنگامہ تھا اسکا دل چاہا اسوقت چیخ کے روۓ اسے آبیر کی بے روخی دیکھی نہیں جارہی ارے مشاء بیٹا تھوڑا آرام کرلو پھر نیچے آ جاؤ عشاء بیگم نے اسے کہا جی پھپھو بس کسی کو اوپر مت بھیجیے گا سر میں بہت درد ہے کچھ کھا لو میں دوائ بھیجوادیتی ہوں ابھی نہیں پھپھو بس ٹھیک ہے بس سوؤنگی اوکے چندا کمرے میں آتے ہی اسنے دروازہ بند کیا (دروازہ لوک کرنے سے وہ ھمیشہ ڈرتی ہے بس بند کر دیتی ہے اورر کوئ دروازہ پہ دستک دیے بغیر اندر نہیں آتا تھا) اپنا سامان بیڈ پہ پھینکا اسنے اور خود بیڈ پہ لیٹ گئی بیا تمہیں کیا ہوا ہے بیا میں بسس کچھ دن یہاں ہوں اسکے بعد میں نہیں جانتی ہم کب ملیں گے بیا تم ہی میری سب سے اچھی دوست ہو اور آج تم ایسے بات کر رہی تھی جیسے کبھی ملیں ہی نہ ہو ہم تھوڑی بعد کچھ سوچ کے اسنے آبیر کو کال کی ہیلو بیا سنوہاں بولو دوسری طرف سے آبیر نے بےروخی سے جواب دیا بیا آج میری مہندی ہے پرسوں بارات ہے اسکے بعد ہم پتہ نہیں کب ملیں گے ہماری دوستی ایسے تو مت ختم مت کرو وہ اب باقاعدہ رو رہی تھی آبیر سے اسکی روتی ہوئی آواز برداشت نہیں ہورہی تھی یار مشاء سوری تھوڑی گھر کی پروبلم تھی اور میں نے تجھ پہ غصہ کرلیا سوری اچھا اب رونا بند کر پلز ویسے بھی میں تیری مہندی کیلیے کپڑے نکال رہی ہوں اب روئی نہ تو میں نے نہیں آنا پھر ہممم اوکے تم ریڈی ہوجاؤ مشاء اب سکون میں تھی آخر اسکی دوست جو اب بات کر رہی تھی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭