ھادی اسے اس طرح چھوڑ کے جاۓ گا اس نے کبھی نہیں سوچا تھا ھادی میں تو اپنی زندگی تمہارے ساتھ گزارنی تھی ایسے اس طرح اتنی حسین راہ پہ مجھے چھوڑ کے مت جاٶ ھادی اسے اس طرح چھوڑ کے جاۓ گا اس نے کبھی نہیں سوچا تھا ھادی میں تو اپنی زندگی تمہارے ساتھ گزارنی تھی ایسے اس طرح اتنی حسین راہ پہ مجھے چھوڑ کے مت جاٶ وہ اسکی لاش کے سامنے ہی بیٹھ گٸ ھادی ھادی اٹھو دیکھو یہ مذاق اچھا نہیں ہے تم مجھے چھوڑ کے ایسے نہیں جا سکتے ھادی اگر تم نہ اٹھے تو تم کیا میں تمہیں چھوڑ دونگی اٹھو نہ آنکھوں سے آنسو پانی کی طرح بہہ رہے تھے
******
جمال صاحب نے عشاء اور مشاء دونوں کو اٹھایا اور ایمبولینس کو بلوا کے ھادی کو گھر کے بعد قبرستان میں مٹی تلے دفن کر دیا جہاں وہ آرام سے سو رہا تھا
********
نہیں ایسا نہیں ہو سکتا میری جگہ یہ کام کس نے کیا ھادی کو ارنے کا ارادہ تو میرا تھا مگر یہ کام جس نے بھی کیا ہے وہ مشاء کو پسند کرتا ہے مگر مشاء کو کسی ور کا میں ہونے نہیں دونگا احمد اپنے چوکیدار سے بات کر رہا تھا وہ حیرن تھا کہ یہ کام کس نی کیا
******
ھادی کی وفات کہ ایک مہینہ ہو چکا تھا
*****
ھادی اس ایک مہینے میں زیادہ کچھ نہیں تو نہیں بدلا مگر وہ مشاء جسے تم چھوڑ کے چلے گۓ وہ اب چپ چپ رہتی ہے اس ایک مہینے میں زیادہ کچھ نہیں بدلا بس گھر میں سب خاموش رہتے ہیں اس ایک مہینے میں کچھ نہیں بدلا بسسس پھپھو نے اب بولنا کم کردیا تمہیں بہت یاد کرتی ہے اور چند آنسو ڈاۂری کے صفحات پہ گرے اور مشاء نے ڈاۂری بند کردی مشاء اتنے میں جمال صاحب اوپر آۓ جی بابا مشاء نے آنسو صاف کرتے ہوۓ مشاء ھادی کا جانا سب کے لیے افسوسناک ہے اور اگر تم نے move on نہیں کروگی تو عشاء کو کون سنبھالے گا جی بابا اچھا میں تمہیں یہ بتانے آیا تھا کہ نیچے تمہارے رشتے کییے کچھ لوگ آۓ ہیں تیار ہوکے آ جاؤ اور اب اس بار میں نہ نہیں سنو گا پہلے بھی بہت منع کر لیے اور عشاء کو یہ رشتہ پسند آیا ہے مگر بابا میری وہ شرط ارےےےے ہاں ہم نے بات کر لی ہے وہ لوگ راضی ہے اب آ جاؤ جی بابا میں آتی ہوں بے دلی سے تیار ہوکر وہ نیچے گئ مگر سامنے کا نظر دیکھ ے وہ حیران رہ گئ کیونکہ کیونکہ سامنے احمد بیٹھا تھا ساتھ میں ایک بوڑھی عورت بھی تھی جسے وہ پہچان نہیں پائ مگر اتنا جانتی تھی کہ وہ ھریرہ بیگم نہیں تھی ارے بیٹا آؤ آؤ سامنے بیٹھی عورت نے اسے بلایا اسکادل کیا فورا منع کردے مگر پھر سر جھکا کے چلی گئ احمد تو اسے دیکھتا ہی رہ گیا سفیر گاؤن جسکے اوپر پرپل حجاب لیے وہ اسکے دل کے قریب ہوگئ عشاء بیگم کی آواز پہ وہ چونکہ
__________
بیٹا تم کیوں خاموش بیٹھے ہو نہیں آنٹی دراصل میں مشاء سے اکیلے میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں ہاں ہاں بیٹا ضررو مشاء مگر پہلے کچھ کھانے کے لیے لے آؤ جی پھپھو
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ میری زندگی میں کیا ہو رہا ہے کس مشکل میں پھنسی ہوں میں میری زندگی کیا تھی کیا بن رہی ہے خدا تو ہی میری مدد کر اب میری وہ کچن میں جاتے ہی سوچ میں پڑ گئ فریج سے نگٹس اور سموسے نکال کے فرائ کرے کیک نکال کے کچن کی سلپ پہ رکھا ابھیplates نکالی ہی تھی کہ ایک دم ایک plate چھوٹ کے اسکے ہاتھوں سے گری نہیں ایسا نہیں ہو سکتا یہ احمد تو میر سلطان کا بیٹا ہے اور ماما بھی تو نہیں یہ نہیں ہو سکتا آنسوایک بار پھر باہر آنے میں کامیاب ہوگۓ مشاء کیا ہوا plate ٹوٹنے کی آواز پہ مشاء بیگم اندر آئ اور پوچھا کچھ نہیں پھپھو آپ چلیں میں آئ ابھی ٹھیک ہے سنبھل کے آنا بچے یہ کانچ کے ٹکڑے بعد میں اٹھا لینا ھدایت کرتی وہ چلی گئ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سامان لے کے وہ باہر گئ تو وہاں کوئ نہیں تھا جمال صاحب اور عشاء بیگم پریشان بیٹھے تھے مشاء سمجھ گئ تھی کیا بات ہے وہ لوگ ایسے کیوں گۓ اور سب پریشان کیوں ہے بابا مجھے کچھ بات کرنی ہے ٹرے ٹیبل پہ رکھتے ہوۓ مشاء نے کہا ہاں بیٹا بولو جمال صاحب نے جواب دیا عشاء بیگم بھی متوجہ ہوئ بابا آپ اسلیے رشتے سے منع کر رہے ہیں کہ احمد سلطان انکل کا بیٹا ہے بابا جو کچھ ہوا اس میں آپ کی غلطی نہیں ہے بابا میں سب جانتی ہوں کیسے ماما آپ کو اور مجھے چھوڑ کے گئ آپ نے کیسے خود کو اور مجھے سنبھالا بابا جو ہوا بھولنا آسان نہیں مگر میں احمد ہی سے شادی کرنا چاہتی ہوں مگر بیٹا تم احمد کو کیسے جانتی ہو مشاء نے mall والی ساری بات بتائ جمال صاحب حیران تھے کہ احمد اتنا بدتمیز لڑکا ہے مشاء تم واقعی میں اپنی خوشی سے احمد سے شادی کرنا چاہتی ہو جی بابا مشاء نے نظریں جھکا کے جواب دیا ٹھیک ہے بیٹا تمہاری جیسی مرضی میں اس عورت اور سلطان کو صرف تمہاری وجہ سے یہاں آنے دونگا اور شادی کے بعد صرف تمہارہ اور احمد کا اس گھر سے تعلق رہے گا بابا مگر میں نے اپنی شرط بھی تو آپکو بتائ ہے نہیں بیٹا ایسا ممکن نہیں ہے ویسے بھی شادی کے بعد کوئ باپ اپنی بیٹی کے گھر نہیں رہتا اور اب یہ موضوع ختم کرو عشاء تم احمد کی خالہ کو کال کر کے کل بلوا لو جی بھائ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
احمد سلطان یہ کبھی مت سمجھنا کہ میں بابا کے خلاف گئ اور تم سے خوشی خوشی شادی کیلیے تیار ہوگئ کیونکہ میں تم سے محبت کرتی ہوں نہیں مسٹر احمد میں تمہارے گھر میں ھریرہ بیگم سلطان صاحب سے اپنے بابا کےساتھ کیے جانے والی ہر ناانصافی کا بدلہ لینے آؤںنگی اور پھر تمہیں توڑ کے جاؤنگی مسٹر احمد تمہارے اور تمہارے گھر والوں کے برے دن شروع تم جیسا انسان تو نفرت کے بھی قابل نہیں اب تم سمجھ سکتے ہو تمہاری میری زندگی میں کیا اوقات ہے تم نے میرے بابا کی تربیت پہ انگلی اٹھائ تھی احمد مگر احمد سلطان تمہاری تو تربیت ہی نہیں ہوئ دکھو اب ہوتا کیا ہے تمہارے ساتھ مشاء نے اپنا چہرہ صاف کیا جو آنسوؤں سے تر تھا بابا آپکی مشاء ہمیشہ آپکے ساتھ ہے دل میں خود سے باتیں کرتے وہ نیند کی وادیوں میں چلی گئ۔
_________
صبح جب مشاء کی آنکھ کھلی تو اسے یاد آیا آج تو احمد کی فیملی آۓ گی آج یونی چلی جاتی ہوں آبیر سے بھی مل لوںگی ھادی کی دیتھ کے بعد سے ملاقات بھی نہیں ہوئ ھادی کے نام پہ وہ پھر اداس ہوگئ ھادی تم آج بھی میرے دل میں زندہ ہو ھادی میرے نکاح کے بعد مجھے تمہیں بھولنا ہوگا مگر ھادی یہ میرا وعدہ ہے میں تمہارے قاتل کو ڈھونڈوں گی ھادی میں نے کبھی نہیں سوچا تم ایسے ہمیں چھوڑ کے جاؤ گے ھاددددددددددددی مشاء زور سے چیخی آنسو چہرے پہ بہہ رہے تھے یا خدا تو نے ایسا کیوں کیا میرے ﷲ پھپھو اتنی اکیلی ہوگئ ہے یاﷲ ھادی کو جنت میں جگہ دینا اسے قبر کے عذابوں سے بچانا یاﷲ پہلے مجھے قبرستان سے بہت ڈر لگتا تھا مگر اب میں نہیں ڈرتی جب کوئ اپنا مرتا ہے تو پھر نہیں لگتا ڈر یاﷲ مجھے صبر دے دے پھپھو بابا کو صبر دے دے یہ بولتے ہی وہ زمین پہ گر گئ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بھائ مشاء نہیں اٹھی عصر بھی ہوگئ ہے ہاں عشاء میں بھی یہی سوچ رہا ہوں مشاء کبھی اتنی دیر نہیں سوتی میں دیکھ کے آتا ہوں رکے بھائ میں بھی آتی ہوں جمال صاحب دروازہ کھٹکھٹا کے اندر گۓ کیونکہ مشاء کبھی دروازہ لوک کر کے نہیں سوتی تھی بیڈ پہ مشاء لیٹی تھی عشاء بیگم نے جمال صاحب نے مشاء کو آواز دی مگر وہ نہیں اٹھی عشاء ایمبولینس کو کال کرو جی بھائ عشاء بیگم نے احمد کو کال کی اور پھر ایمبولینس کو احمد فورا کار لے کے نکلا اور وہاں ایمبولینس پہنچی جمال صاحب اور عشاء بیگم دونوں ہی رو رہے ایک موت نے پہلے ہی انکی زندگیاں ہلا دی تھی اور اب ایک اور نہیں یہ میں کیا سوچ رہی ہوں بھائ جلدی آۓ نہ ایمبولینس سے دو آدمی نکلے تاکہ مشاء کو اٹھا کے اسٹیچر پہ رکھے مگر ایک دم اتنے میں احمد آیا اور خود مشاء کو اٹھا کے نیچے لے کے گیا وہ نہیں چاہتا تھا کہ مشاء کو کوئ بھی ہاتھ نہ لگاۓ احمد نے مشاء کو اسٹیچر پہ لیٹایا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر کوئ پریشانی کی بات تو نہیں ہے ن ایمرجینسی وارڈ سے ڈاکٹر کے باہر نکلتے ہی احمد نے پوچھا نہیں پیشنٹ کو ہوش آ گیا ہے آپ لوگ ایک ایک کر کے جا کے مل لیں بسسس پیشنٹ ڈسٹرب نہ ہو جی ٹھیک ہے بھائ پہلے آپ مل لیں ہممممم
٭٭٭٭٭٭٭
مشاء بیٹا کیسی طبیعت ہے اب جی بابا ٹھیک ہے اب مشاءنے بیٹھتے ہوۓ کہا بیٹا لیٹی رہو میں احمد کو بھیجتا ہوں احمد یہاں کیسے وہ عشاء نے اسے کال کر کے بلا لیا تھا تم ریسٹ کرو میں احمد کو بھیجتا ہو احمد کے اندر آتے ہی مشاء بیٹھ گئ کیسی طبیعت ہے اب احمد نے پو چھا جی الحمدﷲ اب ٹھیک ہے پھپھو نے آپ کو بلاوجہ بلوالیا میں ٹھیک ہوں وہ تو بسسسس ویسے ہی چکر آگۓ تھے مشاء نون اسٹاپ بولے جارہی تھی اور بھول گئ تھی مقابل کون ہے آخر میںاسے احساس ہوا کہ وہ کچھ زیادہ بول گئ ہے ارے کیا ہوا بولو بولو چپ کیوں ہوگئ احمد نے اسے کہا جو بولتے بولتے اچانک چپ ہوگئ تھی جبکہ وہ بولتی ہوئ احمد کو بہت اچھی لگ رہی تھی نہیں وہ دراصل میں
نیلم کے موتی جیسا یہ لمحہ
نیلی نیلی سی خاموشیاں.. ....
مشاء کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی احمد نے کہا
میں آنٹی کو بھیجتا ہوں انہیں کچھ ضروری بات کرنی ہے انہوں نے آپ سے اور وہ اپنا گال مشاء کے گال سے رگڑتے ہوۓ باہر چلا گیا مشاء صرف نظریں جھکا گئ اور پھر اسے جاتے ہوۓ دیکھنے لگی کہ ایک دم احمد پیچھے مڑا اور
پھر نہ کیجیۓ میری گستاخ نگاہی کا گلہ
دیکھیے آپ نے پھر پیار سے دیکھا مجھے۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتا باہر چلا گیا ہونہہ آیا بڑا شاعر مشاء نے دل میں کہا
٭٭٭٭٭