ھریرہ بیگم کو گۓ ٣ گھنٹے ہو چکے تھے جمال صاحب کو کام کرنے کی وجہ سے ٹائم کا پتہ نہیں چلا وہ ٩ بجے گھر سے نکلی تھی اور اب ١٢ بج رہے تھے جمال صاحب کا دل گھبرا رہا تھا انہوں نےھریرہ بیگم کو کال کرنے کیلیے جیب میں ہاتھ ڈالا تاکہ موباۂل نکال کے کال کرلیں مگر موباۂل جیب میں نہیں تھا موباۂل لینے کی غرض سے وہ اوپر گۓ کمرے پہ پہنچ کے وہ موباۂل اٹھانے ہی لگے تھے کہ انکی نظر موباۂل کے نیچےخط پہ پڑی ڈرتے ڈرتے انہوں نے خط اٹھایا
٭٭٭٭٭٭٭
جمال مجھے معاف کر دیجیے گا پلز میں آپکو چھوڑ کے جارہی ہوں جمال میں آپکے ساتھ خوش تھی مگر جو خوشی مجھے سلطان دے سکتے ہیں کوئ اور نہیں دے سکتا مشی کو میری طرف سے پیار کریے گا
خدا حافظ ھریرہ بیگم کے خط میں لکھیں الفاظ سیسہ بن کے انکے کانوں میں پگل رہے تھے
٭٭٭٭٭٭٭
خط پڑھ کے جمال صاحب زمین پہ بیٹھ گۓ انکی آنکھوں سے آنسو ایسے جاری تھے جیسے قربانی کے بعد جانور کے گلے سے خون جمال صاحب کی آنکھوں میں بھی خون ہی کے آنسو تھے اور یہ خون کے آنسو اپنوں ہی کے دیے ہوۓ آج انکی بیوی انکا نام مٹی میں ملا کے ھمیشہ کیلیے جاچکی تھی اور وہ بھی انکے بچپن کے دوست کے ساتھ جمال صاحب کا وجود ٹوٹ رہا تھا
٭٭٭٭٭٭٭٭
لوگ غلط کہتے ہیں مرد کبھی روتا نہیں مرد روتا ہے جب وہ وفا کرے مگر اسے بیوفائ ملے مرد روتا ہے جب اسکی نام مٹی میں ملایا جاتا ہے مرد روتا ہے جب کوئ اپنا بہت اپنا اسے چھوڑ کے جاتا ہے مرد مضبوط ہوتا ہے مگر اسکا ضبط اسکی مضبوطی اس وقت ختم ہوجاتا ہے جب کوئ اسکی عزت کو روندتے ہوۓ اسکا نام مٹی میں ملا کے اسکے گھر کی دہلیز پار کر کے چلی جاتی ہے مرد کی عزت ہی تو اسکے لیے سب کچھ ہوتی ہے مرد عورتوں کو ڈانٹتا ہے مگر اسے بعد میں احساس ہوتا ہے ہاں ھاتھ اٹھانا مردانگی نہیں مگر کچھ عورتیں مجبور کرتی ہیں
٭٭٭٭٭٭٭
پاپا مشاء توتلی زبان میں بولتی اندر آئ مشاء کو دیکھ کے جمال صاحب کو سکون کا احساس ہوا اور انہوں نے اس سینے سے لگا لیا اور خود سے عہد کیا کہ وہ مشاء کو کہی نہیں جانے دینگے اور یہ سچ اس سے چھپا کہ رکھیں گے کہ اسکی ماں نے اسے اسکی دوسری برتھڈے پہ کیا حسین تحفہ دیا ہے
٭٭٭٭٭٭٭
جی پاپا کی جان چلو تیار ہو کے چلتے ہیں اور کیک کاٹتے ہیں پھپھو آنے والے ہونگی امممممممہ انہوں نے مشاء کے گال پہ بوسہ دیا اور اپنا بکھرا وجود سمیٹ کے مشاء کو گود میں اٹھا کے تیار کرنے چلے گۓ
٭٭٭٭٭٭٭
دوسری طرف سلطان صاحب ھریرہ بیگم کو اپنے گھر لے کے آ گۓ جہاں وہ اور انکا 3 سال کا بیٹا رہتے تھے ھریرہ اندر آۓ وہاں کیوں کھڑی ہے جی کہتی وہ اندر گئ اتنا عالیشان گھر دیکھ کے وہ حیران رہ گئ جمال صاحب کے آفس میں سلطان صاحب نے اپنا پیسہ انویسٹ کیا تھا اسلیے وہ وہاں جاتے تھے مگر در حقیقت وہ سیاستدان ہی تھے ھریرہ بیگم نے دو دن خیر سے گزارے اور پھر سلطان صاحب سے نکاح کی بات کی نکاح کی بات کرتے ہی سلطان صاحب غصہ ہگۓ دیکھیں ھریرہ بیگم میں آپ سے نکاح نہیں کرسکتا اور جمال نے بھی آپکو طلاق نہیں دی ہے اور جمال مجھے میرے پیسے اپنے دوست کے ہاتھ بھیج کے گھر اور آفس کہی اور شفٹ کر چکا ہے میں نے ج کیا مستقبل کا سوچے بغیر کیا اور ایک معصوم سے اسکی ماں اور ایک بےقصور سے اسکی بیوی چھین لی اور اس میں انکا کوئ قصور نہیں جس دن جمال مجھے ملا میں اسکے پیروں میں گر کر معافی مانگوں گا آپ یہاں رہیں بے شک پوری زندگی مگر میں آپ سے کا ح نہیں کر سکتی سلطان صاحب کے الفاظ سیسہ بن کے انکے کانوں میں پگل رہے تھے بلکل ویسے ہی جیسے جمال صاحب کے کانوں میں الفاظ چب رہے تھے اس دن کے بعد سے ھریرہ بیگم کی حیثیت اس گھر میں نور سے بھی بدتر تھی جمال صاحب کا بٹا احمد اکلوتا ہونے اورلاڈ پیار کی وجہ سے حد درجہ بدتمیز تھا اور وقت کے ساتھ نشہ کرنا اسکی عادت بن گئ
٭٭٭٭٭٭٭
ساری بات مشاء کو بتانے کے بعد عشاء بیگم نے کہا مشاء بھابھی کے انے کے بعد بھائ کی بھابھی سے محبت ایسے بدلی اور ایسی نفرت ہوئ کہ انہوں نے گھر میں مشی کہنے پہ پابندی لگا دی مشا بچپن سے تمہارا روتے ہوۓ سانس روکتا ہے بھائ نے تمہیں پیار سے پالا ہے تم کبھی انہیں کوئ دکھ مت دینا عشاء بیگم کے ہی کہتے ہی مشاء غصے سے انکی گود سے اٹی اور کمرے سے باہر گئ اور جب وہ واپس آئ تو اسکے ھاتھ میں.....
___________
کمرے سے باہر گئ اور جب وہ واپس آئ تو اسکے ھاتھ میں اسکیٹچ بک تھی مشاء یہ کیا ہے پھپھو یہ وہ بری یادیں ہے جو میں اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہتی میں اس یں ھمیشہ اپنی ماما کو امیجن کو کے تصویریں بناتی تھی مگر اب بسسسس جس عورت نے میرے بابا کو دکھ پہنچایا وہ کبھی میرا ھمدرد ہو ہی نہیں سکتا اور یہ کہتی ہی اسنے اسکیٹچ بک آتش دان میں ڈال دی اورعشاء بیگم کے گلے لگ کے رونا شروع ہوگئ ھادی سمجھا تھا سب سو چکے ہونگے اسلیے وہ رات 4 بجے ایکسٹرا چابیوں کی مدد سے گھر میں آیا تاکہ آرام کرلے مگر عشاء بیگم کے کمرے س آتی آوازیں سن کر رک گیا پھپھو اگر مامممما مجھھھے چھوڑ کے نہہہہیں جاتی تو آج شب ہنسییی خوشیییی پھپھھوکہہی (مشاء کا مسلسل سانس رک رہا تھا) میری وجہ سے تو نہیں بچے تمہاری وجہ سے کچھ نہیں ہوا ایک دفعہ میں بھابھی سے ملی تھی جبھی مجھے یہ ساری باتیں پتہ چلی اور وہ اس وقت واپس نہیں آنا چاہتی تھی اسکے بعد میں نے کبھی انہیں نہیں دیکھا مشاء تم سو جاؤ تھک گئ ہوگی نہ پھپھو نماز پڑھ کے سوؤں گی اوکے بچے اور رونا نہیں جو ہوا ہوگیا پھپھو کی بات تو مانو گی نہ عشا۶ بیگم کی بات پہ وہ صرف سر جھکا گٸ
******
عشا۶ بیم باہر نکلی تو ھادی ددروازے کیساتھ کھڑا تھا ارے ھادی تم کب آۓ عشا۶ بیگم نے پوچھا بسسس اسی وقت جب آپ کی بہو رو رہی تھی ھادی نے کہا ھادی غلط بات ہے ایسے بولنا ارے ماما آپ تو سیریس ہی ہو گٸ بیفکر رہے کچھ نہیں کہتا اور اسکے تمام آنسو میرے ہیں وہ مسکرا کے کہتا چلا گیا اور عشا۶ بیگم دونوں کو دعائيں دینے لگی
******
صبح جب اسکی آنکھ کھولی تو وہ جانماز پہ ہی لیٹی تھی اسے ایک دم احساس ہوا کہ نماز پڑھتے پڑھتے ہی وہ سو گٸ تھی اسکا سر درد سے پھٹ رہا تھا اتنے میں عشا۶ بیگم چاۓ کا کپ پکڑے اندر آٸ وہ جانماز طے کر چکی تھی مشا۶ یہ لو عشا۶ بیگم نے چاۓ کا کپ مشا۶ کو دیتے ہوۓ کہا مشا۶ تیار ہوجاٶ منگنی کی shopping کرنی ہے اور منگنی کل ہی میری جان
********
ہاں بولو کیا پتہ چلا وہ سر اس لڑکی کی منگنی ہونے والی ہے اسکی پھپھو کے بیٹے سے منگنی کا نہیں پتہ چل پایا کب ہے مگر اسکے لیے بھی کوشش جاری ہے احمد کے پوچھنے پہ گارڈ نے بتایا اوکے اب دفع ہو جاٶ سر ایڈریس ہاں ایڈریس بتاٶ اور اپنی شکل گم کرو ایڈریس بتا کہ گارڈ چلا گیا اوہو تو منگنی تک بات پہن گٸ ہے ایسا کبھی نہیں ہوسکتا مس مشا۶ تم صرف احمد سلطان کی ہو اتمہاری بارات والے ون کیا ہوتا ہی دیکھتی جاٶ بسس میری جان اپنے پ سے کہتا وہ باھر چلا گیا
*******
چلو اماں چلیں ہاں ہاں میرے بچے چل اور وہ رکشہ میں بیٹھ کے جمال ہاٶس کیلیے روانہ ہوۓ جمال صاب کے دروازے پہ پہنچ کے انہوں نے بیل بجاٸ دروازہ کھولنے کی آواز پہ چوکیدار سامنے آیا اور مقصد جان کے جمال صاحب سے پوچھ کے اندر جانے کی اجازت ددے دی
******
مشا۶ کچھ پسند آیا پھپھو آپ دیکھ لیں مجھے سمجھ نہیں آرہا اوکے بچے ماما میں اور مشا۶ ابھی آتے ہیں اوکے بیٹا میں یہاں کپڑے دیکھ رہی ہوں اوکے ھادی عشا۶ بیگم کو بتا کے مشا۶ کا ہاتھ پکڑ کے ایک ددکان میں لایا ھادی یہاں کیوں........ یار تم شادی بھی ماما سے کر لیتی ھادی کی بات پہ مشا۶ ہنسنے لگ گٸ چلو اب بتیسی بند کرو اور کچھ پسند کریں دونوں اوکے کہتی ھادی کیساتھ چلنے لگی ھاددی جس بھی دوکان پہ جاتا کپڑے نہیں لیتا مگر سیلفی ضرور لیتا ابھی وہ سیلفی لے کے گے گۓہی تھے کہ ھادی کو احساس ہوا مشا۶ ساتھ نہیں ہے جیسے ہی وہ مڑہ۔
________
ھادی کو احساس ہوا مشا۶ ساتھ نہیں ہے جیسے ہی وہ مڑا تو وہ پیچھے دوکان میں ایک سوٹ دیکھ رہی تھی اس وقت ھادی کو وہ دنیا کی حسین ترین لڑکی لگ رہی تھی وہ مشاء کے پاس گیا اوہ یار دراصل نہ میرے پاس ٹاۂم نہیں ہے چلو ماما ویٹ کر رہی ہونگی ھادی وہ سوٹ کتنا اچھا ہے نہ ارے مشاء بعد میں لینگے ابھی ماما ویٹ کر رہی ہونگی جی ٹھیک ہے مشاء سنو ھادی نے چلتے چلتے اسے آواز دی جی مشاء نے چلتے چلتے بولا تم چلو میں ابھی آتا ہوں دھیان سے جانا جی ٹھیک ہے مشاء چلیں جی پھپھو چلیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جی آپ لوگ بیٹھے ویسے آپ لوگ کون معزرت میں نے نہیں پہچانا نہیں۔۔۔۔۔ نہیں انکل معزرت کی ضرورت نہیں زوبی نے کہا بھائ میں آپکی بیٹی کیلیے اپنے زوبی کا رشتہ لینے آئ ہوں مجھے امید ہے آپ منع نہیں کرینگے بہن دراصل بات یہ ہے کہ مشاء کارشتہ میری بہن کے بیٹے سے طے ہوچکا ہے اور کل اسکی منگنی ہے میں آپ سے معزرت چاہتا ہوں نہیں کوئ بات نہیں یہ تو اسکا نصیب ہے بھائ ہے آپ بیٹھے میں کچھ بھجواتا ہوں نہیں بس ہم چلیں گیں خدا حافظ کہتے وہ لوگ چلیں گۓ زوبی کو خود پر بہت غصہ آرہا تھا مجھے روز ماں کہتی تھی مگر میں ہی منع کرتا تھا اب وہ کسی اور کی ہو جاۓ گی اور میں ہاتھ ملتا رہ جاؤں گا مگرایسا میں ہونے نہیں دونگا بسسس وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھا جب اسکی ماں نے اسے پکارا چلو بیٹا گھر چلو جی ماں کہتا وہ آگے چلا گیا دماغ میں سوچوں کا طوفان تھا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سلطان صاحب آج صبح سے احمد نظر نہیں آرہا کہاں ہے وہ وہ میرا بیٹا ہے اور جہاں بھی ہوگا ٹھیک ہوگا اور وہ کہیں چھپ کے نہیں گیا ہے مجھے پتہ ہے وہ کہاں گیا ہے وہ بھاگا نہیں ہے آپ اپنا کام کریں اور ھریرہ بیگم آنکھوں میں آنسو اور دل میں ھمیشہ شاید سب ٹھیک ہوجانے کی امید لے کے چلی گئ
٭٭٭٭٭٭٭٭
آج پورے گھر میں چہل پہل اور رونق کا سماء تھا عشاء بیگم اور جمال صاحب کی خوشی کا تو ٹھکانہ ہی نہیں تھا آخر بھائ بہن کا رشتہ مضبوط ہورہا تھا مشاء خوش تھی اور وہ حیران تھی کہ ھادی نے جو کپڑے اسے پسند آۓ تھے وہی اسکے لیے خرید کر عشاء بیگم کے ہاتھ اسکے پاس بھیجے تھے مشاء بہت خوش تھی وہ ایسے انسان کی زندگی میں شامل ہو رہی تھی جو اسکی پسند کو سمجھتا ہے وہ ایسی لڑکی تھی جو حجاب تو لیتی تھی مگر کزنوں سے بات بھی کوتی تھی انہیں چھیڑتی بھی تھی مگر حد میں بالوں کا پردہ تو سب سے تھا ھادی کی تو خوشی کو کوئ کونہ ہی نہیں مل رہا تھا اسکا بس نہ چلتا ابھی نکاح کرلیتا
٭٭٭٭٭٭٭٭
ھاشر ساری تیاریاں مکمل ہے نہ بسس اس ھادی کا کام تمام کرنا ہے ہاں تم ٹیشن نہ لو ھاشر نے احمد کوکہا احمد نے ھاشر کو اپنا پاٹنر بنایا تھا ھادی کو راستے سے ہٹانے کیلیے ھاشر نے یہ سوچا تھا وہ ھادی کو ہٹا کر مشاء سے شادی کر لے گا مگر کوئ نہیں جانتا تھا آگے کیا ہوگا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ھادی کب سے اسٹیج پر مشاء کا انتظار کر رہا تھا ایک دم شور کی آواز پہ ھادی نے سامنے دیکھا تو نظر ہٹانا بھول گیا مشاء پنک میکسی جو اسنے پسند کی تھی پہنے اسی کی طرف آرہی تھی ھادی نے ہاتھ اسکی طرف بڑھایاجسے مشاء نے تھوڑی جھجک کے بعد تھام لیا ارے ھاری اب اگھوٹھی پہنا بھی دو میری دوست کو آبیرکی آواز پہ چونک کے پیچے مڑی اورآبیر کو سامنے کھڑے دیکھ کے اسکے گل لگ گئ بھئ لوگوں نے تو ہمیں منگنی پہ بلایا نہیں مگر ھادی بھائ نے ہمیں اپنا سمجھا اور بلایا اور میں فورا آگئ آبیر ایسی بات نہیں ہے مجھے کل ہی پتہ چلا کہ میری منگنی کل ہے مشاء کی آواز میں واضح نمی تھی اور۔۔۔۔ اور اس سے پہلے مشاء کچھ کہتی آبیر اسکے گلے لگ گئ ارے پگلی پتا ہے مجھے ھادی بھائ نے سب بتاتا اب رونا مت ورنہ میک اپ اتر جاۓ گا آبیر کی بات پہ مشاء ہنسی چلو ھادی مشاء کو انگوٹھی پہنا ہو جی ماما کہتے اسنے انگوٹھی اٹھائ اور مشاء کو پہنا دی اور چیخوں اور تالیوں کی آواز میں گونج رہی تھی مشاء تم بھی پہناؤ جیسے ہی مشاء نے انگوٹھی پہنانے کیلیے ہاتھ کو بڑھایا ادی نے اسکا پکڑ لیا اور مشاء کے سامنے ایک کھٹنہ زمین پہ رکھ کے پرپوز کرنے والے اسٹاۂل میں بیٹھ گیا مشاء میں نہیں جانتا میں تمہارے قابل بھی ہوں یا نہیں مگر تمارے قابل بننا چاہتا ہوں میں تم سے اتنا پیار چاہتا ہوں کہ تم سارے غم بھول جاؤ کا تم مشاء جمال سے مشاء ھادی بننا پسند کو گی اور اپنا ایک ھاتھ کیا ھر طرف خاموشی تھی نہ جانے مشاء کیا بولے گی مگر جیسے ہی مشاء نے اپنا ہاتھ ھادی کے ہاتھ میں رکھا ھر طرف شور ہی شور تھا ھادی نے flower bouquet مشاء کی طرف بڑھایا جسے مشاء نے خوشی سے تھام لیا اب ھادی کھڑا ہوا مشاء نے اسے انگوٹھی پہنائ اتنے میں شور شروع ہوگیا مگر اس شور میں ایک دم احمد اور ھاشر کی آواز آٸ مشا۶ کی تو جان ہی نکلنے لگی تھی اسنے ساتھ کھڑے اپنے ہونے والے ہمسفر کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا ھادی نے ایک دم اسے دیکھا کہ مشا۶ کو اچانک کیا ہوا مشا۶ کیا ہوا تمہیں نہیں کچھ نہیں شا۶ نے جلدی سے گھبرا کے جواب دیا اوہ تم یہاں کیا کر رہے ہو نکلو چلو آبیر نے احمد کو غصے میں کہا میں یہاں کچھ نہیں کر رہا اپنا منہ بند رکھو اور نکلو سمجھ نہیں آٸ ہاں نہیں سمجھ اب کیا رو گی بھاٸ اس انسان کو دھکے دے کے نکلیں ار ایک منٹ تم اسکے ساتھ ایسا کیوں کر رہی ہو جانتی ہو یہ کون ہے اب کی بار ھادی بولا ھادی بھاٸ میں اسے اچھے سے جانتی ہوں یہ میر سلطان جیسے امیر آدمی کی اولادد ہے میر سلطان کا نام سن کر جمال صاحب کو عجیب غصہ آیا تھا جبکہ انکا غصہ ٹھیک تھا آبیر کرا کیا ہے آخر اسنے۔۔۔ ھادی نے پوچھا ھادی کےپوچھنے پہ آبیر نے اسے سب بتا دیا مال میں کیا ہوا مشاء ہاسپٹل گئ سب کچھ سب سننے کے بعد ھادی خاموش رہا مگر جمال صاحب نے احمد کو ضرور باہرنکلوادیا دیا میں آؤ گا ضرور انتظار کرنا میرا تم سب احمد کہتا ھاشر کا ہاتھ پکڑ کے باہر لے گیا آبیر تو بلکل چپ تھی بتانےکے بعد اسکا بھائ آج ایک غلط کام میں غلط آدمی کا ساتھ دے رہا تھا وہ تو شرم سے ہی چپ تھی
٭٭٭٭٭٭٭