مشاء کو اپنے کانوں پہ یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا آپ واقعی اس سے پہلے مشاء کچھ بولتی ھرہرہ بیگم کچھ نہیں کرتی چلی گئ اور وہ وہی ساکت کھڑی رہی تھوڑی دیر بعد وہ باھر گئ تو جمال صاحب کو اسکی آنکھیں گلابی لگی اور وہ چپ جپ بھی تھی جمال صاحب نے اس وقت پوچھنا ٹھیک نہیں سمجھا مگر ھادی کو چپ چپ مشاء اچھی نہیں لگ رھی تھی اسلیے اس نے اس سے پوچھ ہی لیا مشاء اتنی چپ چپ کیوں ہو کچھ ہوا ہے کیا نہیں ھادی۔۔۔ بابا کیا میں آپ سے ایک بات پوچھوں ہاں میری جان بولو بابا میں آج عشاء پھپھو کے روکنا چاہتی ہوں مجھے انسےکچھ بات کرنی ہے کیا میں اس سے پہلے جمال صاحب کچھ بولتے عشاء بیگم نے فورا کہا مشاء وہ تمہارہ اپناگھر ہے جب چاہو آجاؤ ویسے بھی ھادی آج اپنے دوست کے گھر جا رہا ہے یونی کے کام کیلیے تم میرے ساتھ ہی چلواور بھائ کیوں کچھ بولیں گے اور جمال بھی پھر چپ ہو گۓ ڈنر کرنے کے بعد جمال صاحب گھر چلے گۓ ھادی اپنے دوست کے گھر چلا گیا اور مشاء عشاء بیگم کے ساتھ انکے گھر چلی گئ
٭٭٭٭٭٭٭٭
زوبی میں کل تیرا رشتہ لے کے اس لڑکی کے گھر جا رہی ہوں بسسس اب مجھے اسکا ایڈریس دے یا میرے ساتھ چل ساتھ چلے گا تو وہی رشتہ پکا کر کے میٹھائ کھلا دوں گی اور اگر اب کچھ بھی کہا نہ تو میں کبھی نہیں جاؤنگی پھر اسکے گھر سن لے یہ بات اور وہ اپنی بات کہہ کر زوبی کی سنے بغیر چلی گئ
٭٭٭٭٭٭
بات سنو کچھ دن بعد اس لڑکی کی منگنی ہے مجھے اس کے ہونے والے منگیتر کی ڈیٹیل چاہیے ور اس کے لیے تمہارے پاس ایک دن ہے جوکہ بہت ہے اور اگر کچھ پتہ نہ چلا تو تمہاری زندگی کا کل آخری دن ہے یہ کہتے ہی احمد نے کال کٹ کر دی۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭
کیا بات ہے چندا کچھ پوچھنا چاہ رہی ہو جی پھپھو وہ میں ارے پوچھو میری جان جو پوچھنا ہے پوچھو پھپھو آپ نے مجھے ھمیشہ ماں جیسا پیار دیا کبھی ماماعکی کمی محسوس نہیں ہونے دی سب کہتے ہیں میری ماما مر گئ مگر پھپھو آج میں سچ جاننا چاہتی ہوں مشی ادھر آؤ میرے پاس اور انہوں نے اسکا سر اپنی گود میں رکھا
٭٭٭٭٭٭٭٭
جمال آپ کو یاد بھی ہےایک ہفتے بعد کیا ہے ہاں یار اچھا یاد دلایا میں میں نے آفس کے منیجر کے ساتھ جا کے ساۂٹ کا کام دیکھنا ہے دوسرے ملکوں کے ساتھ ڈیل بھی کرنی ہے اچھا ابھی میں چلتا ہوں مشاء کا خیال رکھنا دیر ہو رہی ہے جی اچھا خدا حافظ۔۔۔۔۔۔۔ جمال صاحب کے جاتے ہی ھریرہ بیگم نے دروازہ بند کیا ہی تھا کہ ایک دروازہ بجا ھریرہ بیگم سمجھی کہ مال صاحب ہے اف جمال آپ بھی نہ ساری چیزیں لے کے جایا کرے اپنے ساتھ وہ بنا دیکھے ہی بول رہی تھی مگر جب انکی نظر سامنے پڑی تو فورا انہوں نے ڈوپٹہ اوڑھا ارے سلطان آپ جمال بسس ابھی نکلے جی ٹھیک ہے آپ انہیں یہ فاۂل دے دیجیۓ گا خدا حافظ اور وہ ھریرہ بیگم کو اپنی آنکھوں میں محفوظ کر کے واپس چلے گۓ
___________
انہیں یہ فاۂل دے دیجیۓ گا خدا حافظ اور وہ ھریرہ بیگم کو اپنی آنکھوں میں محفوظ کر کے واپس چلے گۓ
٭٭٭٭٭٭٭
بس بہت تنگ کر لیا اب بہت جلد مشاء تم میرے پاس ہوگی بسس یار مجھے اس سب کی معافی مانگنی ہے اور تمہیں اپنا نام دینا ہے احمد خود سے باتیں کر رہا تھا مگر کبھی انجانے میں بولی بات اچھی یا بری بن کر سامنے آتی ہے ہے اور انسان خوشی یا پچھتاوے کے بیچ کے احساسات میں رہ جاتا ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جمال آج میر سلطان آۓ تھے اور یہ فاۂل آپکو دینے کا کہا ھریرہ بیگم نے فاۂل جمال صاحب کی جانب کرتے ہوۓ کہا ہاں یہ بہت ضروری فاۂل ہے شکر ہے آ گئ اب آپ کھانا لگاۓ یں مشی کے پاس جاتا ہوں مشی سو گئ ہے چلیں پھر بھی آپ چلے جاۂیں ہاں اسکے لیے چاکلیٹ لایا تھا چلیں میں وہی کھانا لگاتی ہوں ھریرہ بیگم یہ کہتی چلی گئ جمال صاحب نے وہی کھانا کھا رہے تھے کہ ھریرہ بیگم نے کہا جمال مشی کی برتھ ڈے ہے اگلے ممہینے کیا سوچا ہے آپ نے مجھے سب یاد ہے صبح بھی میں آپکو تنگ کر رہا تھا آخر اپنی گڑیا کی برتھ ڈے بھی کوئ بھولتا ہے آپ پریشان نہ ہو سب ہو جاۓ گا جی ٹھیک ہے اور وہ برتن لے کے چلی گئ
٭٭٭٭٭٭
جمال آپکے موباۂل پہ کال آ رہی ہے ارے آپ اٹھا لیں جمال صاحب واشروم سے بولیں ھریرہ بیگ نے پہلے تو سوچا کہ نہ اٹھاۓ مگر پھر ضروری کال کا سوچ کر اٹھا لیا ہیلو جمال میں تجھے لینے آرہا ہوں ساتھ چلیں گیں آفس دوسری طرف سے سلطان صاحب کال اٹھاتے ہی فورا بول پڑے تھے جی میں انکی واۂف بات کر رہی ہوں آپ آجاۂیں میں انہیں بتا دونگی اور ھریرہ بیگم نے کال کٹ کردی جمال سلطان کا فون تھا وہ کہہ رہے تھے ساتھ آفس چلیں گیں
٭٭٭٭٭٭٭٭
جی آپ بیٹھے میں جمال کو بلاتی ہوں ھریہ بیگم جانے لگی کہ سلطان صاحب نے انکا ھاتھ پکڑ لیا اور کہا مجھے آپ سے بات کرنی ہے دیکھے ھریرہ جی مجھے آپ سے محبت ہے میں یہاں آپکے لیے ہی آتا ہوں آپ مجھے بہت پسند ہے دیکھیں میرابھی ایک بیٹا ہے مگر میری بیوی مر چکی ہے میں آپ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں آپ کے جواب کا انتظار رہے گا جمال کو بولیے گا میں باھر ہوں ﷲ حافظ سلطان صاحب تو چلے گۓ مگر ھریرہ بیگم تو بری طرح پھنسی تھی ھریرہ سلطان کہاں گیا ھریرہ۔۔ھریرہ۔۔۔جی جی وہ وہ وہ سلطان باھر ہے تم ٹھیک تو ہو نہ جی میں ٹھیک ہوں اور پرسوں مشی کی برتھ ڈے ہے ارینجمیینٹ کرنی ہے سامان لانا ہے جلدی آجاہیۓ گا ہاں ٹھیک ہے خدا حافظ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آفس میں جمال صحب پورا دن مصروف رہے اور شاپنگ کے بارے میں سب بھول گۓ تھے جیسے ہی انہیں یاد آیا تو سلطان صاحب کواپنی جگہ بھیج دیا مگر وہ نہیں جانتے تھے اب انی جگہ ھمیشہ کے لیےسلطان صاحب لے لیں گے
٭٭٭٭٭٭
دروازہ بجنے کی آواز پہ ھریرہ بیگم نے دروازہ کھولا تو سامنے
__________
دروازہ بجنے کی آواز پہ ھریرہ بیگم نے دروازہ کھولا تو سامنےسلطان صاحب کھڑے تھے ھریرہ بیگم کا تو سانس ہی بند ہو گیا تھا گر انہوں نے خود کو ٹھیک کرتے ہوۓ کہا جی آپ یہاں جی وہ جمال نے مجھے بھیجا ہے کہ آپکو اور مشاء کو شاپنگ پہ لے جاؤں جی آپ اندر آۂیں میں ابھی آتی ہوں ھریرہ جیگم جیسے ہی جانے لگی سلطان صاحب نے انکا ھاتھ پکڑ لیا ھریرہ بیگم نے انہیں کچھ نہیں کہا اور انکے پاس بیٹھ گئ دیکھیں میں جانتا ہوں آپ بھی پسند کرتی ہیں مجھے اور جمال سے ڈر رہی ہیں دیکھیں کچھ نہیں ہوگا آپ سارا معاملہ ﷲ پہ چھوڑ دیں اب ہمیں کوئ الگ نہیں کرسکتا اور ھریرہ بیگم کو اپنے گلے لگایا مگر اب کرنا کیا ہے ھریرہ بیگم نے پوچھا میری جان اب کرنا یہ ہے کہ یہاں سے نکلنا ہے اور نکلنے کا طریقہ میں بتاتا ہوں اور وہ انہیں طریقہ بتانے لگے اتنے میں دروازے کی بیل بجی ہو سکتا ہے جمال آۂیں ہو ھریرہ بیگم نے کہا اور دروازہ کھولنے چلی گئ ارے جمال آپ کیوں آگۓ آپ نے سلطان کو بھیجا تھا ہاں بھیجا تو تھا مگر پھر میرا کام ختم ہو گیا تو آگیا ھریرہ بیگم کچھ پوچھنے ہی لگی تھی کہ جمال صاحب نے کہا اب آپ اندر آنے بھی دینگی یا نہیں جمال صاحب کہ کہتےہی ھریرہ بیگم دروازے سے ہٹی جمال صاحب اندر گۓ تو سلطان صاحب بھی وہاں بیٹھے ہوۓ تھے ارے جمال اچھا ہوا تو آگیا میں نکلتا ہوں تم جاؤ ھریرہ اور مشی کولے کے سلطان صاحب کے کہنے پہ جمال صاحب صرف مسکرا دیۓ تھے مگر اندر ہی اندر انہیں سلطان کا ھریرہ کہنا پسند نہیں آیا تھا اور ھریرہ بیگم نے بھی آج اتنے سوال کیے تھے ورنہ تو وہ ھمیشہ سلام کے بعد بات کرتی تھی جمال صاحب نے اپنا وہم سمجھ کے اپنے خیال کو جھٹکا جمال آپ ریسٹ کریں میں سلطان کے ساتھ چلی جاتی ہوں شاپنگ پہ ویسے بھی مشی کو بھی شاپنگ پہ جا کہ رونا ہوتا ہے صرف ھریرہ بیگم کی یہ بات سن کر جمال صاحب حیران ہوۓ کیونکہ وہ جمال صاحب کے کہنے ے باوجود انکے بغیر کہی نہیں جاتی تھی اور آج خود کہہ رہی تھی جما صاحب کا دل کسی خطرے کی وضاحت کر رہا تھا مگر انہوں نے اسے پھر اپنا وہم سمجھ کر اپنا خیال جھٹکا اور ٹھیک ہے کہہ کر کمرے میں چلے گۓ
٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اپنے کرےمیں بیٹھا مشاء کے خیالوں میں گم تھا ایک دن میں تمہیں سب کے سامنے سے لے کر جاؤں گا زوبی اپنے خیالوں میں مشاء سے باتیں کر رہا تھا مگر آنے والا وقت اپنے ساتھ کیا طوفان لے کر آ رہا تھا کوئ نہ جانتا تھا۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مشی کے اٹھنے سے پہلے ساری تیاریاں مکمل کرنی ہے ھریرہ بیگم نے جمال صاحب سے کہا جمال کیک کا آرڈر دے دیا آپ نے اوہووووووووو میں بھول گیا چلیں آپ چھوڑے ان باتوں کو میں دے کر آجاتی ہوں آرڈر اور وہ جمال صاحب کے گلے لگ گئ ہاں ٹھیک ہے آپ چلی جاۂیں اور انہمں نے ھرہ بیگم و خود سے الگ کیا جمال مجھے معاف کر دیجیے گا ھریرہ بیگم نے دل میں کہا اور چادر اوڑھ کر چلی گئ جماال صاحب نے تو سوچا بھی نہ تھا انکی چھوٹی سی اجازت کیا بڑا کام کرنے والے تھی
٭٭٭٭٭٭٭٭
سلطان آپ نے جیسا کہا تھا میں نےویسا ہی کیا ہے اور اپنے ساتھ کچھ نہیں لائ ہوں مگر آپ نے۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے بابا اسلیے کچھ لانے کیلیے منع کیا تھا کیونکہ میرے پاس سب کچھ ہے صرف آپکی ہے ھریرہ بیگم کے بات کہنے سے پہلے ہی انہوں نے جواب دیا اور انہیں اپنےسینے سے لگا لیا ھریرہ بیگم کے دل میں ایک دم خیال آیا کہ جمال میرا چھوڑا ہوا خط پڑھیں گے بھی اور سوچا کاش وہ ایک بار مشی سے مل لیتی اارے کیا سوچ رہی ہے آپ چلیں جی اور وہ انکے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایک نۓ سفر پہ گامزن ہوگٸ اور ایک نیا امتحان لینے زندگی ھریرہ بیگم کی منتظر تھی
******