یہ میری زندگی ہے
یہ ہمیشہ میری نہ رہے گئی
اے اہل وفا لوگوں ،_
اس دو سانسوں کے سفر میں
مت دل دکھاو میرا مت رولاو ایسے_
گھڑی کی سوئی مسلسل آگے ہی اگے بڑھ رہی تھی
اب اسے کوفت ہونے لگی تھی ،اللہ کیا کروں
"نو"ہو رہے ہیں اور یہ ابھی تک گاڑی نہیں چلا رہے
عجیب الجھن کا شکار ہو رہی تھی ، بس لوگوں سے یک یکا بھر رہی تھی ،، منظر لگا رہا تھا، انسانوں کی منڈی لگی ہوئی ہے ،
الجھن اور بیزای سے وہ شیشے سے باہر جھانکے لگی ،
جہاں گورنمٹ کالج کے لڑکوں کا ایک الگ ہی ریلا تھا جن میں سے کچھ اوپر چڑھ رہے تھے اور کچھ بس سے لٹک رہے تھے شور، عجیب آوزیں، گہما گہی تھی
اللہ کیا زندگی ایسی بھی ہے لوگوں کو جان کی فکر نہیں ہے بس کرایہ نہ دینا پڑے اس لیے یہ سٹوڈنس
ایسے لٹک کر جائے گئے، وہ بس سوچ ہی سکی،
کچھ کی مجبوری ہوتی ہے اور کچھ شوقیہ بھی یہ کام کرتے ہیں یہ گورنمٹ کالج کے بوائز خاص کر _
پرائویٹ والوں نے یا اپنی گاڑیاں لگائی ہوتی ہیں، کالج بس ،یا لڑکے بائیک پہ جاتے ہیں
پنجاب کالج وہ پڑھ چکی تھی اور وہاں ایسا کچھ کبھی نہیں دیکھا تھا
وہ تھی ہی ایسی ، میڑک تک بابا چھوڑ آتے تھے اور جب کالج ایڈمیشن لیا تو بابا نے کالج کی بس لگوا دی
جو سٹاپ سے ٹائم سے لیتی اور ٹائم پہ اتراتی نہ کوئی فکر نہ ٹیشن تھی
اور یہاں وہ آج زندگی کا ایک اور رخ دیکھ رہی تھی
جہاں کسی بہن کا از جان اکلوتا بھائی تو کسی ماں کی آنکھوں کا تارا اور کسی باپ کےبڑھاپے کا سہارا لٹک رہا تھا
وہ دل ہی دل میں ان سب کے لیے دعا گو تھی اللہ ان سب کو صحیح سلامت پہنچا دینا
ابھی وہ سوچ رہی تھی کہ شور اتنا ہوا اسے لگا کچھ ہو گیا مگر یہ کیا سنتی ہے، بس ایسے چلتی ہے
چلو چلو نکلاو پیچھے کرو آگے کرو
جان دو جی استاد ہن بس رکنی نہیں استاد بس جان دو،
اللہ اکبر کیا گاڑی ایسے چلتی ہے جتنی دعائیں اسے یاد تھی وہ پڑھنے لگی ،
آیتہ الکرسی تو اسکا معمول تھا وہ گھر سے پڑھ کر نکلتی تھی
اب بھی وہ پتہ نہیں کتنی بار پڑھ چکی تھی
گاڑی منزل کی جانب رواں دواں تھی ،
کبھی جٹھکے کھاتی کبھی بریک لگاتے چل رہی تھی ، شہر کے اندر اتنی تیز گاڑی کون چلاتا ہے
اس نے مظبوطی سے اگلی سیٹ کو ایک ہاتھ سے پکڑ رکھا تھا
ایمن آج اللہ ہی ہے تجھے بچا لے ورنہ انکا ان کا کیا ارادہ ہے ،اللہ ہی جانے ،
مگر ایمن کیا جانے ان کا روز کا معمول یہی تھا، گاڑی کیسے چلانی ہے وہ تو ڈارئیور ہی جانتا ہے
ابھی گاڑی شہر میں تھی اتنا تو وہ جانتی تھی مگر کس طرف تھی یہ نہیں پتہ چل رہا تھا ،
وہ کبھی گئی ہی نہیں تھی ،اور یونی ورسٹی کی گاڑی اس روٹ سے نہیں آتی تھی ،
اسے کچھ بھی چاہیے ہوتا تھا بابا لا دیتے تھے ایک دو بار وہ بابا کے ساتھ گئی مگر بائیک پہ مارکیٹ تک جاتے بابا گلیوں سے لے گئے تھے ،
اور یہ گاڑی کسی روڈ سے جا رہی تھی ،اللہ جانے
وہ ہنوز باہر دیکھنے میں مشغول تھی جب اس کے سر پہ کسی نے ہاتھ رکھا تھا ،
وہ چیختی ہوئی اوپر دیکھنے لگی بے ساختہ اس کے منہ اللہ نکلا ،
کون ہیں ،
بیٹا میں یہاں بیٹھ جاوں ،آواز کی سمت میں اس نے دیکھا
کوئی التجا لیے اس سے پوچھ رہا تھا
ہ ہ ہاں ،ہانجی بیٹھ جائیں. ڈرتے سہمتے وہ جواب دینے لگی ،
اصل میں بیٹا میری ٹانگ خراب ہے میں کب سے کھڑا ہوں مگر کوئی بھی سیٹ نہیں ہے اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں بیٹھ جاوں ،
ج جی انکل بیٹھ جائیں ،اب وہ ان کے چہرے کی طرف دیکھ کر جواب دے رہی تھی
بیٹھتے ہی وہ پھر سےبولے بیٹا آپ یہ اپنا بیگ اور فائلز یہاں درمیان میں رکھ لیں
ایمن نے لیپ ٹاپ کا بیگ درمیان میں رکھ دیا ہینڈ بیگ اس کی گود میں ہی تھا
وہ جو بھی تھے ایک موادب طریقہ سے بیھٹے تھے
بس بس رونا نہیں میری گڑیا ،
ماما جاتے ہی پہلے مارکیٹ جائے گئی گڑیا کا نیو یونیفارم لے گِی پھر گھر جائے گِی وہ دس سالہ بچی اپنی ماں سے کوئی ضد منوا رہی تھی ،
آواز کی سمت میں اس نے بے اختیار ہوتے ہوئے دیکھا تو وہ خاتون اس کی سیٹ کے opposite کے والی برابرای والی سیٹ چھوڑ کے اگلی پہ برجمان تھی
اس کی آنکھیں لامتاہنی طور پر ان ماں بیٹی کو دیکھ رہی تھی
دل میں کہیں ٹھیس اٹھی تھی
اور جب دل کو درد ہوتا ہے تو آنکھیں خود بخود اس درد میں بہتی ہیں
دل کا آنکھوں سے رشتہ ہی عجیب ہے
چھبن دل میں ہوتی ہے روتی آنکھیں ہیں
اس کی آنکھیں پھر سے برسنے لگی تھی دل پھر سے کرلایا تھا
وہ ماں اب اسے اپنی گود میں بٹھا کر پیار سے سلا رہی تھی ،
ایمن جہانگیر بھول گئی تھی وہ اپنے کمرے یا گھر کے کسی کونے میں نہیں۔بلکہ دنیا کے درمیان انجانے لوگوں میں بیٹھی ہے
بیٹا ،پھر سے وہی شفقت محبت سے لبریز شیری لہجہ
یکدم وہ حواسوں سے ہوش میں آئی تھی ،اور کمال ادکاری سے منہ ششہ کی طرف کر لیا تھا ،
اب دل دکھ چکا تھا اب کہاں آنکھیں بہنا بند کرنا تھا
بار بار کئی منظر آنکھوں کے سامنے لہرانے لگے
ناکارہ ہے یہ زندگی میں کچھ کر نہیں سکتی ہے نہ کچھ بن سکتی ہیں ،بہت پڑھ لیا اب کوئی نوکری کر لے ساتھ
اس کی عمر کی لڑکیاں کتنا کچھ کرتی ہیں
اچھا بیگم ٹھیک ہے وہ بھی کر لے گی
پہلے اسے پڑھ تو لینے دو
پڑھ کے اس نے کون سے تیر مار لینے ہیں ، جانتی ہوں سب میں
جانتی تھی تو کیوں لینے دیا ایڈمشن کہا تھا مت پڑھاو بس کرو شادی کرو اور اسے گھر سے دفعہ کرو مگر میری سنتا کون ہے یہ ایمن کا بھائی جو اس سے پانچ سال چھوٹا تھا وہ اکثر یہی کچھ کرتا تھا
ہر وقت بس طعنے طنز کرنا اسکا مشغل اولین تھا
غلطی ہو گئی بس اب کر لے یہی سال ہے آگے آپ بھی سن لیں باقی بچوں نے بھی پڑھنا ہے ان کا بھی خیال رکھیں
بیگم پڑھنے والے بنے میں سب کا خرچ دینے کو تیار ہوں_
خیال سب رکھنے کو تیار ہوں
کہاں دے دیں گِے آپ جب ساری فیس اسی کی دے دیتے ہیں
آئے بڑے خرچ خیال سب دیں گئے
ناک منہ چڑھاتی شمائلہ بیگم اپنے شوہر سے بحث کر رہی تھی
دیکھو بیگم غلط بات نہ کیا کرو
ایمن کی فیس چھ ماہ بعد آتی ہے ،
یہ پڑھنے والے بنے فیس دینا میرا کام ہے
بس پڑھ لیا ہم نے آپ پڑھاو اپنی لاڈلی کو ،وہ طنز و تضیحک سے باپ کو لتڑت باہر نلکل گیا تھا ،جب کے پیچھے کوئی آنسووں کے گولے کو حلق میں اتر رہا تھا
ایمن سے چھوٹی بہن تھی وہ بھی پڑھ رہی تھی اور اس سے چھوٹا بھائی تھا جو پورا فسادی تھا خود میڑک نہیں پاس کر پا رہا تھا
اور باتیں زمانے کی کروا لوں
اور پڑھائی نہ۔کرنے کا سارا ملبہ ایمن پہ آ جاتا تھا
وہ بنا قصور کے قصور وار بن جاتی
جہانگیر صاحب کے چار بیٹے دو بیٹیاں تھی
ایمن سب سے بڑھی تھی اس لیے باپ کی لاڈلی بھی تھی ،
باقی سب کو یہ لاڈ نہیں بھاتا تھا
اور اکثر و بیشتر سب اسے ایسے ٹونٹ کرتے رہتے تھے
پہلے پہل وہ جواب دے دیتی تھی ،
پھر ایک دن بابا نے کہا کہ تم بڑی ہو اس لیے اگر یہ کچھ کہہ بھی دیتے ہیں تو چپ رہا کرو ،_
وہ دن اور یہ دن ایمن کی زبان پہ قفل کا ایسا تلا لگا ہر زیادتی ہر غلط بات کو وہ پینے لگی
اندر ہی اندر کڑھتی رہتی مگر کبھی اس دن کے بعد حرفِ شکایت زبان پہ نہ آیا ،_
کوئی بلا لیتا اسے تو وہ بول لیتی جواب دے دیتی اگر نہ بولتا تو چپ چاپ کمرے میں پڑی رہتی
کھانا اگر کیچن میں پڑا ہوتا کھا لیتی اگر نہ ہوتا تو بنا لیتی
امی نے سکول جاناہوتا تھا اس لیے وہ بھی شکایت نہ کرتی کبھی کبھی صبح اٹھ کر ناشتہ وغیرہ بنا دیتی
جس دن وہ بناتی اس دن امی نہ کرتی ،_
یہی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی،
امی ایسا کیوں کرتی ہیں
کبھی پیار سے بولایا نہیں ہے ،
کبھی شفقت سے پکارا نہیں ہے
کبھی گود میں سر نہیں رکھ ہے
مجھے آج تک پتہ نہ چلا ماں کا پیار کیسا ہوتا ہے
باقی سب کی تو سمجھ آتی تھی وہ ضد میں کرتے ہیں
مگر امی کیوں کرتی ہیں یہ بات وہ بچپن سے لیکر آج تک سمجھ نہ پائی تھی
کبھی کبھی وہ سوچتی تھی شاید سوتیلی ہے اس لیے امی ایسا کرتی ہیں مگر نہیں سب کو پتہ تھا اور اسے بھی اپنا بچپن یاد تھا تب کچھ سال امی صحیح تھی پھر اچانک پتہ نہیں کیا ہوا تھا امی کا رویہ دن بدن بدلتا گیا
جب کہ وہ اربیہ سے بہت پیار کرتی تھی ،بہت پیار سے اس سے ہر بات کرتی تھی، کہیں آنا جانا ہو اسے سب پتہ ہوتا ہے اور ایک میں ہوں گھر میں کیا ہو رہا ہے کیوں ہو رہا ہے کون آرہا ہے کون جا رہا ہے
کچھ علم نہیں
کیا ہونے والا ہے کیا نہیں ،جبکہ میں سب سے بڑھی ہوں ،پھر بھی سب میری نہ کوئی بات سنتے ہیں نہ مانتے ہیں
الٹا اگر کبھی بات کروں تو کہتے ہیں تمہیں کچھ پتہ بھی ہوتا ہے اور فضول بات نہ کیا کرو
ناک منہ چڑھا کر ذلیل کر دیتے ہیں
واحد ایک بابا ہیں جو بات کر لیتے ہیں پوچھ لیتے ہِیں کبھی کبھی،یا چھوٹا ہادی جو ابھی 8th کلاس میں ہے وہ کچھ بتا دیتا ہے بات کر لیتا ہے جب فری ہو_اکثر و بیشتر ہادی سے ہی گھر کے معمالات کا پتہ چلتا تھا،
کئی بار امی سے بات کرنے کی کوشش کی، مگر وہ یا تو وہاں سے چلی جاتی ہیں یا پھر کسی اور کو آواز دے لیتی ہیں بات کر بھی لوں تو ان۔سنی کر دیتی ہیں
اب دو تین سال سے وہ بلکل ہی چپ ہو چکی تھی،
اب حالاتِ زندگی وہاں سے گزار رہی ہے
نہ جی پا رہے ہیں نہ مر پا رہے ہیں،__
کوئی بولا لے تو ست بسم اللہ نہ بولاے
تو ہزار بسم اللہ ، __
مگر آج بھی وہ جب ایسے کسی کو دیکھتی ہے تو بے اختیار آنکھوں میں سمندر امڈانے لگتا ہے
جو ابھی ہوا تھا اس کے ساتھ آنسو روکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ،
مگر اب وی کافی سنھبل گئی تھی،
جب کنیکٹر کی آواز پہ مڑی ،او بابا جی تسی کہڑی خوشی چ اتھے بیٹھے ہو یہ سیٹ اس لڑکی نے لی ہوئی ہے دو کا کرایہ دے کر گیا اسکا بھائی
او اچھا مجھے نہیں پتہ تھا ، چلو اب لگ گیا ہے اٹھ جاو
نہیں آپ رہنے دے میری سیٹ ریزو تھی ،کوئی بات نہیں انکل آپ بیٹھے رہیں
کوئی بات نہیں بھائی ،
ٹھیک ہے باجی جدوں تاونوں کوئی اعتراض نہیں سانوں کی لگے
کنیکٹر اب دوسروں سے کرایہ لینے لگا ،
بیٹا اک بات پوچھو
جی جی انکل وہ بنا مڑے بولی ،
بیٹا کوئی پریشانی ہے میں کب سے دیکھ رہا ہوں آپ رو رہی ہیں بیٹا
بار بار آنسووں کو ضبط سے پی رہی ہیں ،
نہ نہی نہیں انکل ایسی کوئی بات نہیں ہے ، ججکتے ہوئے جواب دیا
پھر بھی بیٹا آپ اس بچی اور ماں کو دیکھ کر کافی پریشان ہو گئ ہو
کیا آپ کی ، بات ادھوری چھوڑ دی انہوں نے ،
نہیں انکل ایسی بات نہیں ہے ،_
اچھا ٹھیک ہے بیٹا مجھے لگا آپ پریشان ہیں تو بس ایسے ہی عادتاٙٙ پوچھ لیا کوئی بات بری لگی یو تو بیٹا یہ ناچیز دل سے معافی مانگتا ہے
ارے ارے انکل نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ مجھے شرمندہ مت کریں
خوش رہو ہمیشہ بیٹا وہی محبت سے چُور لہجہ اور شفقت سے بھرا ہاتھ سر پہ رکھتے وہ دعا گو ہوئے
بابا اس سے جتنا بھی پیار کرتے تھے کبھی ایسے سر پہ ہاتھ نہیں رکھا تھا
اک بار پھر سے آنکھیں نم ہوئی تھی
مگر جو بھی تھا وہ ہمیشہ اس بات پر یقین رکھتی تھی
کہ جیسے بھی ہیں جو بھی ہے اس کے ماں باپ ہیں
یقینٙٙ اسی سے کوئی غلطی ہوئی ہے جس کی وجہ سے سب ایسا کرتے ہیں
مگر کہیں کچھ کسی بات کا سرا ہاتھ نہ آتا تھا ،_
ایسا کچھ ہوا بھی نہیں پھر کیوں ،__
بیٹا ،وہ جو پھر سے خیالوں کی دنیا آباد کیے ہوئے تھی ایک دم اچھلی ج جی جی ،
بیٹا نماز پڑھتی ہو
جی انکل
کتنی پڑھتی ہو ،
جی پانچ کبھی کبھی کوئی چھوٹ جاتی
ایمن جیسی بھی تھی جھوٹ کم بولتی تھی ،خاص کر جب کوئی اس سے اسکے بارے میں پوچھتا تھا
ہمممم
اچھا کبھی تہجد پڑھی ہے میرے بیٹے نے
جی انکل۔رمضان میں پڑھتی ہوں بعد میں نہیں
اچھا ،کیا تھا نہ ،کوئی طنز نہ تضیحک آمیزہ گفتگو،
نارمل انداز بلکل ،اپنایت نرم لہجہ
نہ کوئی شرم دلا رہے تھے وہ اسے
اچھا میرا بچہ قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے
جی جی انکل اب اسے بھی ان سے بات کرنے میں مزہ آنے لگا تھا ، انکا لہجہ ایسا تھا یا کوئی تو بات تھی۔اسکا بھی دل چاہ رہا تھا کوئی اس کے دکھ کا بوجھ ہلکا کرئے
اچھا تفسیر کے ساتھ یا ویسے ہی پڑھتا ہے میرا بیٹا
جی انکل کبھی کبھی تفیسر کے ساتھ ،
عموماٙٙ یسن ہی پڑھتی ہوں قرآن پاک کا سبق نہ بھی پڑھا جائے تو سورہ یٰسن ضرور پڑھتی ہوں
ماشاءاللہ میرا بچہ تو بہت اچھا ہے
وہ بات کا بات سے آغاز کر رہے تھے ،اسکا دل لگانا چاہتے تھے یا اس کے دل پہ پڑے نقش کو مٹانا چاہتے تھے
تو مجھے میرا بیٹا ایک بات بتائے ،
ہم سب انسان ہیں بیٹا ہم سب سے کہیں نہ کہیں غلطیاں ہو جاتی ہیں
یہاں تک کہ ہم گناہوں کے مرتکب تک ہو جاتے ہیں
تو بیٹا ہمیں معاف کون کرتا ہے جب ہم نمازیں نہیں۔پڑھتے قرآن پاک کو ویسا نہیں پڑھتے جیسا اسکا حق ہے
اتنا بول کر وہ چپ ہو گِے مگر وہ اسے نہیں دیکھ رہے تھے سامنے یا کبھی اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہے تھے
ایمن کے منہ سے بے اختیار نکلا
اللہ ،_
وہ پھر سے بولے
بیٹا
اگر پڑھ بھی لیں تو ہم اسے ویسا اپناتے نہیں ہیں بس اپنے کام کی بات پکڑتے ہیں اور عالم بن جاتے ہیں
اللہ کے حکم کو بجا نہیں لاتے ،اس کی مخلوق سے جارانہ ،جھوٹا سچا رشتہ رکھتے ہیں
غرض بیٹا ہر کام میں ملاوٹ کرتے ہیں اور پھر اللہ سے امید لگاتے ہیں
وہ سب دے دے ہمیں ،وہ دیتا ہے بنا مانگے ہی
تو اگر ہم۔خود کو ویسا بنا لیں جیسا وہ چاہتا ہے
تو دنیا و آخرت سنور جاِے گئی اور وہ کیا کیا نہیں دے گا
بیٹا بات کا مطلب یہ ہے ہم کبھی کبھی سب صحیح کر رہے ہوتے ہیں مگر وہ ہمیں لگتا ہے
مگر وہ چاہتا ہے اور اچھا کریں ،سب سے اچھا کریں سب سے معتبر بن جائے اس کے بندے بن جائے
جیسے مثال کے طور پر بیٹا آپ پڑھتی ہو
آپ کا رزلٹ ایک سال کا بہت اچھا آتا ہے تو آپ دوسرے سال اور محنت ولگن سے پڑھتی ہیں۔،
تاکہ جو کمی اس سال رہ گئ ہے وہ اب پوری ہو جائے اور سب کی نظروں میں میں معتبر ہو جاوں
اتنا بول کر وہ پھر رکے ،
اس کی آنکھیں مسلسل بھیگی ہوئی تھی
وہ پھر خیالوں میں کھو گئی جب اک بار وہ تہجد پڑھنے اٹھی تھی تو اسکا صبح کن طنز و تیر سے استقبال ہوا تھا _