زندگی بھر کے لیے دل پہ نشان چھوڑ جائے
لہجہ ایسا نہ رکھو کہ دلوں میں گرِ پڑ جائے
کیا ہے سفر زندگانی کا آئے رکے اور چل دیے
زیست کا ایسا سفر نصیب ہوا کہ دل بجھ گئے
او نو ، سات ہو گئے لیپ ٹاپ بند کیا ،
جلدی جلدی سے اٹھی، نیچے کو بھاگی مگر نیچے آ کر جو دیکھا وہ اس کے ہوش اوڑھانے کو کافی تھا
منہ کھولے دو آنسو نرم و ملائم رخسار کو بھگو گئے تھے ، ناشتہ بنا ہی نہیں ، اور ایسے مجھ سے سفر نہیں ہو گا ،
جلدی جلدی سے فریج سے دو انڈے نکالے اور فرائی کرنے لگی ساتھ ہی بریڈ کی سلائس نکالی اور گرم کی اور چائے کا پانی چولہے پہ
چڑھایا
تب تک آمیلٹ بن چکا تھا ،
چار سلائس میں سے دو دو پیس اکھٹے کر آمیلٹ اندر رکھا اور وہیں کھڑے کھڑے کھانے لگی ، تب تک چائے کا پانی بھی ابل چکا تھا ، فٹا فٹ چائے بنائی
گرم کین مگ میں ڈالی اور کیچن سے باہر کو بھاگی
باقی جو شامت آنے والی تھی وہ گھر آ کر سن لوں گئ کیوں کہ جو برتن استعمال کیے تھے وہ ویسے ہی رکھتی اوپر کو بھاگی تھی ،
چادر اٹھائی،اوڑھی اور دو دو سیڑھاں پھلانگتی نیچے کو جانے ہی لگی،
ابھی چار پانچ سیڑھیاں ہی اتری تھی
جب کسی کے کھرد اور سخت لفظوں کی بازگشت نے پیچھا کیا
جاہل کہیں کی ،کھانے کا پتہ ہے ٹھوسنہ ہے اتنا نہیں پتہ جن میں ٹھوسا ہے ان کو صاف بھی کرنا ہے
گندی عورت ،
بے حیا ،
اتنا ہی سنا تھا کہ جو ابھی تک آنسو حلق میں اٹھکے ہوئے تھے پلکوں کی باڑ کو توڑتے رخسار پہ بہنے لگے ، گرم سیال آنسوں کو اندر باہر پیتی وہ قدم آگے کو بڑھا گئی
پیچھے فقرے ابھی چل رہے تھے مگر اسے اب کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا ،یا وہ سننا نہیں چاہتی جب ایک اور آواز نے اسکا پیچھا کیا عجیب و غریب القابات سے نوازی جا رہی تھی
روز کا معمول تھا یہ سب ،مگر آج دل بہت دکھ رہا تھا
جلدی سے سیڑھیاں اترتی وہ باہر کی جانب بڑھ گئی تھی
گھر روڈ سے کچھ فاصلہ پہ تھا اس لیے صبح صبح اسے پیدل چل کر ہی روڈ تک آنا پڑتا تھا ،
تین سے چار منٹ کی یہ مسافت آج اسے لمبی صحرا جیسی لگ رہی تھی ،
جب انسان صحرا میں گم جائے تو اس کے قدم نہ پیچھے کو جاتے ہیں نہ آگے کو ،سفر اتنا کٹھن لگتا ہے کہ انسان اسی صحرا میں بٹھکا رہتا ہے
آنسو کو رگڑتی وہ گلی سے گزر رہی تھی ،جب بچوں کو جاتے اس نے دیکھا
،آپی جلدی چلو صرف پانچ منٹ رہ گئے ہیں سکول لگنے میں سات پچیس ہو گئے ہیں آپی
بچہ اپنی بہن کو بتا رہا تھا ،تب ہی اسے احساس ہوا
تو جلدی جلدی قدم اٹھانے لگی ،بازو پہ پہنی گھڑی کو دیکھا تو وہ اب سات تیس پہ جارہی تھی
مگر اب وہ جتنی بھی جلدی چلتی نہیں پہنچ سکتی تھی، گاڑی نکل چکی تھی
پھر ایک امید سے اس نے بیگ سے موبائل نکالا اور انکل کو کال کی ، دوسری بیل پہ کال اٹھا لی گئی
اسلام علیکم انکل
وعلیکم اسلام ،
جی جی
انکل میں ایمن بات کر رہی ہوں انکل آپ گزر گِے ہیں میرے سٹاپ سے ،
بیٹا آپ کھڑی نہیں تھی میں گزر آیا
او انکل اب میں کیسے آوں گئی
انکل ابھی کہاں ہیں آپ ،
بیٹا ہم تو گولٹیاں گزر گئے ہیں انکل آپ میرا پانچ منٹ ویٹ کریں میں رکشہ لے کر آتی ہوں
بیٹا کو آپ کو پتہ ہے ، منجیر نے کتنی سختی سے اس دن منع کیا تھا کسی کا انتظار نہیں کرنا ہے جو سٹاپ پہ کھڑا ہو گا بس اسے لیں اور آ جائے
بیٹا میں رک جاتا مگر کوئی بچہ جا کر مینجر کو شکات لگا دے گا ،
اور میری نوکر جاتی رہے گئی،
اگر پھر بھی آپ کہتی ہو تو میں رک جاتا ہوں بیٹا جی
وہ حساس دل رکھنے والی کب یہ چاہے کسی کو اس کی وجہ سے ذلیل کیا جائے
نہیں انکل ٹھیک ہے
آپ جائیں
انکل بہت عزت سے بلاتے تھے ایمن کو باقی بچوں کی نسبت ،
کیوں کہ وہ باقیوں کی طرح انہوں بس یونی گاڑی کا ڈراہیور ہی نہیں سمجھتی تھی، انسان بھی سمجھتی تھی اکثر اپنی پاکٹ منی سے انہیں چائے وغیرہ پلا دیا کرتی تھی
اس لیے وہ بھی اسے بیٹیوں کی طرح سمجھتے تھے
ٹھیک ہے بیٹا میں دو منٹ روکا بھی تھا ،مگر آپ آتی ہوئی دکھائی نہیں دی
کوئی بات نہیں انکل آپ جائیں
اففف او ہو اب کیا کروں کیسے جاوں گئی ،
دس بجے پہنچا بھی ضروری ہے آج
لوکل سفر سے ایمن کی جان جاتی تھی وہ بھی یہ بڑی بڑی بس سے جانا ،مگر اب جانا بھی ضروری تھا
بابا کو کال کروں
نہیں نہیں وہ تو ابھی کورٹ پہنچے ہوں گئے پریشان ہو جائے گِے
اب کیا کروں گھر سے کس کو مگر نہیں ،_
کوئی نہیں جائے گا چھوڑنے اک تو سو رہا ہوگا ،
اور دوسرا زمان اگر جاگ بھی رہا ہو گا تو پہلے دس سنائے گا اور اینڈ پہ انکار کر دے گا
اوپر سے اماں سے بے عزتی الگ ہو گئی صلوتیں تیار رکھی ہوتی ہیں ہر لمحہ ،
اللہ کیا کروں میں اب،
بلاآخر کچھ توقف سے وہ مرے مرے قدم اٹھاتی روڈ کی طرف بڑھ گئی تھی
ایک رکشہ والے کو ہاتھ دیا ،جی باجی کہاں جانا ہے
گھر سے سنا تھا کہ جہاں جانا ہو گاڑی لاری اڈے سے ملتی ہے
جی بھائی وہ لاری اڈاہ ،
اچھا آہیں ، وہ پیچھے بیٹھ گئی ،_
جو سورایاں تھی وہ اترتی گئی
اس نے نقاب کبھی نہیں کیا تھا مگر ہاں
سر پہ سکارف لیپٹ کر اوپر وہ بڑی سی چادر اوڑھ لیا کرتی تھی ،
رکشہ والے نے رکشہ روک دیا
مگر وہ نہ اتری
اتنی گاڑیاں دیکھ کر اتنے لوگ دیکھ کر وہ گبھرا گئی تھی
وہ ایسے کبھی نہیں گئی تھی ،لوکل سفر سے جان جاتی تھی اسکی ،
وہ کوئی جاگیردار یا امیر زادی نہیں تھی بس ایک مڈل کلاس لڑکی تھی ،
پہلی بات کہیں زیادہ آتی جاتی نہیں تھی ،
اگر جانا بھی ہوتا تو بابا کے ساتھ بائیک پہ جاتی تھی ،
وہ ایسے دیکھ رہی تھی جیسے دنیا کی کوئی عجیب چیز دیکھ لی ہو ، وہ زمین پر نہیں کسی اور سیارہ پر چلی گئی
عجیب عجیب آوزیں لگا رہے تھے لوگ
کیا انسانوں کی منڈی ہے یہ
اللہ مجھے بچا لے دل ہی دل میں دعائیں مانگنے لگی
جب وہ نہ اتری تو رکشہ والا اتر کر اس کی طرف آیا
باجی یہی ہے لاری اڈہ
اسکی حلق خشک ہو رہا تھا ،
ج ج جی ،__
لفظ ٹوٹ کر نکلے لگے
جی باجی اتریں آپ
وہ اتر تو گئی مگر اب ٹانگیں کانپ رہی تھی دل دہل رہا تھا آواز کہیں گہری کھائی سے آتی معلوم ہو رہی تھی
کتنا کرایہ بھائی ،
جی باجی تیس روپے ،
بیگ سے کرایہ نکال کر دیتی وہ مسلسل پریشانی کی کیفیت میں مبتلانظر آرہی تھی
کرایہ لے کر وہ مڑ گیا ،رکشہ موڑ لیا واپس اس نے
مگر وہ ہنوز وہی کھڑی تھی ایک قدم بھی آگے نہ بڑھی تھی
باجی ،
وہ کانپ کر پیچھے ہٹی تھی ،
ج جی ،کرایہ کم دیا میں نے ،
وہ رکشہ والے نے جب دیکھا وہ ہلی تک نہیں اسے سمجھ آ گئی تھی وہ ڈر رہی ہے اور پہلی دفعہ ایسے سفر کر رہی ہے
صحیح کہتے ہیں یہ ڈرائیو لوگوں کی آنکھیں انسان کو جانچے کا کام سب سے اچھا کرتی ہیں ،یہ جان لیتے ہیں انسان کیسا ہے
نہیں باجی آپ نے کرایہ پورا دیا ہے
آپ مجھے یہ بتائیں ،آپ نے کہاں جانا ہے
یونی ورسٹی ،ڈرتے ڈرتے وہ بولی تھی
اچھا مگر کون سے شہر ،جانا ہے
وہ سہم گئی تھی چپ چاپ ادھر ادھر دیکھنے لگی
جب وہ کچھ نہ بولی تو وہ پھر گویا ہوا باجی میری بہن بھی یونی ورسٹی ہے آپ میری بہن ہہں بتائیں کس شہر جانا ہے میں آپ کو اس گاڑی میں بٹھا کر آتا ہوں
ج ج جی وہ ،گوجرانوالہ ، پنجاب یونی ورسٹی جانا ہے اٹک اٹک کر اسے بتا ہی دیا آخر کار
اچھا آئیں میری ساتھ
وہ اس کے پیچھے چلتی رہی ،
وہ اتنی گاڑیوں اور لوگوں سے اسے نکالتا اصل جگہ پہنچا
باجی یہ گاڑی جائے گئی آئیں اس کا ٹیگ وہ دیکھ چکی تھی جس کے آگے بڑے بڑے حروف میں گوجرانوالہ فیصل آباد لکھا ہوا تھا
وہ گبھرا گئ پھر سے
ائیں اوپر ہوں آپ وہ سب کو پیچھے کرتا ہاتھ کے اشارے سے اسے اوپر چڑھنے کو بول رہا تھا
وہ ڈرتے سہمتے اوپر چڑھ گئی جب وہ بھی اس کے پیچھے چڑھا تھا
باجی اس سیٹ پہ بٹھو آپ ،دروازے سے ایک سیٹ چھوڑ کر دوسری کی طرف اشارہ کر رہا تھا
وہ بیٹھ گئی ،
یار بات سنو یہ میری بہن ہیں اور انکی آج گاڑی نکل گئی ہے انہیں یونی ورسٹی کے سامنے اتار دینا کنیڑکر سے مخاطب ہوا تھا اک پل کے لیے اس لگا واقعہ ہی اس کا بھائی ہے
اور ہاں ساتھ لیڈیز سواری بٹھانا نہیں تو یہ لو دو سیٹ کا کرایہ
وہ ناسمجھی اور غائب دماغی سے اسے دیکھ رہی تھی
اور کرایہ بھی دے گیا تھا ،
اس سے پہلے وہ کچھ بولتی وہ جلدی سے نیچے اترا
اور غائب ہو گیا تھا
ایمن یہ کیا ہو رہا تیرے ساتھ آج وہ دل ہی دل میں خود سے مخاطب ہوئی
گاڑی بھر رہی تھی
مگر کوئی بھی اس کے ساتھ نہ بیٹھا تھا نہ عورت نہ مرد
وہ سب کو دیکھ رہی تھی اب اس نے چادر کا ایک پلو پکڑ کر نقاب کی صورت میں منہ کو چھپا لیا تھا
افف گاڑی ہے یا کیا ہے
تم بھی آ جاو تم بھی آ جاو والا حساب چل رہا تھا
آٹھ بیس وہیں ہو چکے مگر گاڑی چلنے کے دور دور تک کوئی امکان دکھائی نہ دے رہے تھے
اللہ کیا کر رہا ہے یہ ،کب تک چلاِے گِے اسے ،یہ لوگ وہ سوچ عہی تھی
پہنچ جاوں گئی ٹائم سے اتنا رسک بھی لے لیا ہے
ورنہ دو سال کی محنت ،
نہیں اس سے آگے وہ سوچ نہ سکی ،
وہی جانتی تھی کیسے دو سال اس نے یونی ورسٹی جاتے ہوئے کیا کہا سہہ ہے اور آج اس کی دو سال کی محنت کا فیصلہ چند لمحوں میں ہونا تھا
ذہین پھر سے کسی کی کہی گئی باتوں میں کھو گیا تھا
بے اختیار آنسو پھر سے آنکھوں کو بھرنے لگے تھے اندر اندر ہی وہ انہیں پینے لگی تھی ،
کیا کسی کی وقعت کسی کی نظروں میں اتنی سی بھی ہو سکتی ہے ، کہ وہ اسے لفظوں سے ہی بے وقعت کر دے _یا پھر یہ نرم دل حساس طبیعت والے لہجوں کو جلد سمجھ جاتے ہیں ،_سارا قصور لہجوں کا ہوتا ہے جب لہجے سرد ہو جاتے ہیں تو یہ حساس لوگ جلد ہی مر جاتے ہیں ،
مجھے تو روز بے وقعت کیا جاتا ہے سوچوں کو جھٹکتی وہ پھر سے لوگوں کے ہجوم ک دیکھنے میں مصروف ہو گئی مگر ذہین اور دل کہیں کھویا ہوا تھا ،_