جمیلہ نے اپنے فیصلے پر بہت غور کیا کہ کہیں اس سے کوئی غلطی تو سرزد نہیں ہونے جا رہی ہے۔ ایسی غلطی جس کی پھر کبھی تلافی نہ ہو سکے۔ مگر اسے محسوس ہوا کہ اس کے سامنے اب سوائے اس ایک راستے کے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اگر وہ آج ذرا بھی کمزور پڑی تو پھر عمر بھر یوں ہی گھٹتی اور کڑھتی رہ جائے گی۔ وہ گھٹن جو برسوں سے اس کے گرد کہرے کی طرح دبیز سے دبیز تر ہوتی جا رہی تھی اس سے نجات پانے کا اب صرف یہی ایک راستہ تھا۔ اگرچہ اس راستے میں خدشات تھے، بدنامی تھی، اپنوں کی ناراضگی تھی۔ برادری کی انگشت نمائی تھی۔ چھوٹے چھوٹے بھائی بہنوں سے بچھڑنے کا غم تھا، لیکن اس کے باوجود وہ راستہ کس قدر دل فریب تھا جیسے گرمی کی چلچلاتی دھوپ میں کوئی گھنا پیڑ نظر آ گیا ہو۔ ایک دل خوش کن تصور سے اس کا دل دھڑکنے لگا اور سارے جسم میں ایک عجیب مست کر دینے والی کپکپی سی دوڑ گئی۔ اس نے بے خود ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔ آنکھیں بند ہوتے ہی اس کے سامنے اسلم آ کر کھڑا ہو گیا۔ مسکراتا ہوا، اپنے چمکتے سیاہ بالوں پر ہاتھ پھیرتا ہوا بانہیں پھیلائے اسے اپنی طرف بلاتا ہوا۔ اف! کتنا دلکش تصور تھا۔ یہ سوچ کر اس کی رگوں میں خون کی گردش تیز ہو گئی کہ چند گھنٹوں بعد یہ تصور حقیقت میں بدل جانے والا تھا۔ مگر دوسرے ہی لمحے ایک مہیب سایا ان کے درمیان حائل ہو گیا۔ اس نے دیکھا۔ یہ کوئی اور نہیں اس کے والد، مولوی جمال الدین تھے جو خشمگیں نگاہوں سے اسے گھور رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں بڑے دانوں کی تسبیح تھی، وہ جلدی جلدی تسبیح پھیرتے ہوئے زیرِ لب کچھ بد بدا بھی رہے تھے۔ ان پر نظر پڑتے ہی اسلم کی پھیلی ہوئی بانہیں گر گئیں۔ بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا ہیولا فضا میں معدوم ہو گیا۔
اسے لگا مولوی جمال الدین اس سے کہہ رہے ہوں ’’یہ تم کیا کرنے جا رہی ہو؟ ایک دنیا تمہارے باپ سے ہدایت پاتی ہے اور تم، مولوی جمال الدین کی بیٹی ہو کر ان لوگوں کے راستے پر جا رہی ہو جو سراسر گمراہوں کا راستہ ہے اور جن پر عنقریب خدا کا غضب نازل ہونے والا ہے۔‘‘
اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ نائٹ بلب کی سسکتی کراہتی روشنی کمرے میں چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اور اس کے دائیں بائیں اس کی تینوں بہنیں اختری، اکبری اور انوری ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈالے بے خبری کی نیند سو رہی تھیں۔ اس کا چھوٹا بھائی رشید باہر ورانڈے میں سویا تھا۔ ماں گڑی مڑی بنی ایک طرف یوں پڑی تھی کہ کپڑوں کی ایک چھوٹی سی گٹھری معلوم ہو رہی تھی۔ تکیہ ہوتے ہوئے بھی اس کا دایاں ہاتھ اس کے سرہانے رکھا تھا۔ وہ اسی طرح سوتی تھی جیسے اسے کوئی لمبا سفر درپیش ہو۔ سوتی کیا تھی بس ذرا سا سستا لیتی تھی کہ دو گھڑی بعد اٹھ کر پھر سفر پر روانہ ہونا ہے۔ اس کی نوزائیدہ بہن ساجدہ ماں کے پہلو میں سوئی چسر چسر کر رہی تھی۔ پتا نہیں ماں کی سوکھی چھاتیوں میں دودھ تھا بھی یا وہ عادتاً انہیں چوسے جا رہی تھی۔ ننھا شکیل خود اس کی بغل میں سویا تھا اور نیند میں کسی بات پر مند مند مسکرارہا تھا۔ ماں کے بازو میں جو جگہ خالی تھی وہ اس کے باپ مولوی جمال الدین کی تھی۔ مگر وہ وہاں نہیں تھے۔ وہ تو تین دن پہلے اللہ کے راستے میں نکل چکے تھے۔
مولوی جمال الدین ایک خالص مذہبی شخص تھے۔ پانچ وقت کی نماز پڑھنا اور بے نمازیوں کو نماز کی ترغیب دینا ہی ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ انہوں نے اپنے آپ کو سر تا پا دین کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ان کی پیشانی پر سجدوں کا اتنا بڑا گٹّا تھا کہ ان کے چہرے پر سب سے پہلے اسی پر نظر پڑتی تھی اور لوگ عقیدت سے مغلوب ہو جاتے تھے۔ وہ کوئی سند یافتہ مولوی نہیں تھے مگر ایک عرصے سے محلّے کے مدرسے میں بچوں کو قرآن پڑھاتے پڑھاتے لوگ انہیں مولوی صاحب کہنے لگے تھے۔
وہ پہلے ایک فیکٹری میں مشین آپریٹر تھے۔ معقول تنخواہ تھی، رہنے کے لیے چالی میں دو کھولیوں کا مکان تھا۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا کہ اچانک فیکٹری میں ہڑتال ہو گئی۔ ہڑتال نے اتنا طول پکڑا کہ آخر فیکٹری میں تالے پڑ گئے۔ تقریباً چار ساڑھے چار سو مزدور بیکار ہو گئے۔ ان میں جمال الدین بھی تھے۔ بیکاری کے ایّام میں جمال الدین نے نماز پڑھنا شروع کی۔ نماز پڑھتے پڑھتے ان میں ایک حیرت انگیز تبدیلی رونما ہوئی۔ انہوں نے داڑھی بڑھا لی۔ پینٹ شرٹ پہننا چھوڑ دیا اور کرتا پاجامہ پہننے اور ٹوپی اوڑھنے لگے۔ پانچوں وقت نماز پڑھنا اور جماعتوں کے ساتھ دعوت پر جانا ان کا معمول بن گیا۔ اسی دوران انہوں نے قرآن کی بیشتر آیتیں حفظ کر لیں۔ تبلیغی دوروں کے سبب ان کی دینی معلومات میں بھی خاصا اضافہ ہو گیا۔ انہیں دنوں محلّے کے مدرسے میں قرآن کا درس دینے والے بنگالی مولوی صاحب کا انتقال ہو گیا۔ محلہ کمیٹی نے مولوی صاحب کی جگہ جمال الدین کو درس و تدریس کے لیے رکھ لیا۔ اس طرح شیخ جمال الدین مولوی جمال الدین بن گئے۔ کمیٹی کی جانب سے انہیں تین ہزار روپئے تنخواہ ملتی تھی۔ وہ اپنی پوری تنخواہ بیوی کی ہتھیلی پر لا کر رکھ دیتے اور پھر مہینہ بھر گھر کے اخراجات کی طرف سے بے نیاز ہو جاتے۔ اگر بیوی گھر کے نا مساعد حالات کی طرف توجہ دلانا بھی چاہتی تو ان کے شانِ استغنا میں فرق نہ آتا۔ ایک طرف گھر کی مالی حالت دن بدن خستہ ہوتی جا رہی تھی اور دوسری طرف ہر دو تین سال کے بعد گھر میں ایک نئے مہمان کی آمد آمد شروع ہو جاتی۔ جب چوتھا بچہ وارد و صادر ہوا تو بیوی نے دبی زبان سے آئندہ کے لیے محتاط رہنے کو کہا۔ اور اشارتاً یہ بھی کہہ دیا کہ ’’جمیلہ بڑی ہو رہی ہے۔ اب ہمیں اس کی فکر کرنی چاہیے۔‘‘
مولوی صاحب کڑکے۔ ’ ’یہ کیا خرافات بکتی ہو؟ کیا تم لوگوں کا اللہ پر سے یقین اٹھ گیا ہے؟ کسی کی فکر کرنے والے ہم کون؟ قرآن میں صاف لکّھا ہے، ’’واللہ خیر الرازقین‘‘۔ جو پیدا کرتا ہے وہ کھلاتا بھی ہے۔ ارے جو مور و ملخ تک کو رزق بہم پہنچاتا ہو کیا اسے ہماری تمہاری فکر نہیں ہو گی۔ یاد رکھو! بچے خدا کی رحمت ہوتے ہیں اور رحمت سے منہ موڑنا کفرانِ نعمت ہے۔‘‘
مولوی صاحب دم لینے کو رکے پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے قدرے دھیمی آواز میں بولے۔ ’’اور سنو! شوہر بیوی کا مجازی خدا ہے۔ مجازی خدا کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے۔‘‘
ان کی موٹی موٹی دلیلوں کے بوجھ تلے بیچاری بیوی کا کمزور سا احتجاج بیمار کی سسکی کی مانند دم توڑ گیا۔ اس طرح بیوی کے احتجاج اور احتراز کے باوجود پانچواں بچہ روتا بسورتا عالمِ ظہور میں آ گیا۔
یہی وہ دن تھے جب جمیلہ کپڑا لینے لگی تھی۔ وہ ان دنوں آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ پہلے کپڑے پر شلوار میں لگے لال لال خون کے دھبے دیکھ کر جمیلہ بہت گھبرائی تھی۔ وہ اسکول سے چھوٹ کر ہانپتی کانپتی گھر آئی اور بستہ ایک طرف پھینک کر ماں کی گود میں سر ڈالے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اسے یوں گریہ کرتے دیکھ کر ماں بھی گھبرا گئی تھی۔ ماں کے بار بار پوچھنے پر جب اس نے ہچکیوں کے درمیان بتایا کہ اس کے پیشاب کے راستے سے خون آ رہا ہے اور وہ اب کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی تب ماں نے اسے چھاتی سے لگاتے ہوئے کہا۔ ’’ارے توبہ! تو نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔ پگلی! اب تو بڑی ہو گئی ہے۔ چل اٹھ، منہ ہاتھ دھو، تھوڑا سا ٹھنڈا دودھ پی لے، سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
رات کو جب مولوی جمال الدین کھانا کھا رہے تھے تو جمیلہ کی ماں نے موقع دیکھ کر پنکھا جھلتے ہوئے دبی زبان میں کہا۔
’’سنیے! جمیلہ بڑی ہو گئی ہے، آج ہی اس نے کپڑا لیا ہے۔‘‘
مولوی صاحب نے منہ چلاتے ہوئے انھیں گھور کر دیکھا۔ اور بولے۔ ’ ’اتنی جلدی؟‘‘
’’جلدی کہاں؟۔۔۔ اگلے مہینے وہ تیرہ پورے کر کے چودہویں میں قدم رکھے گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ اب اسے گھر میں بٹھا لو۔ جتنا پڑھنا تھا پڑھ چکی۔‘‘
انہوں نے خشک لہجے میں کہا۔
جمیلہ کی ماں نے سوچا تھا وہ اس خبر سے خوش ہوں گے۔ مگر بجائے خوشی کا اظہار کرنے کے جب انہوں نے ایسا طالبانی حکم صادر کیا تو انہیں بھی طیش آ گیا اور انہوں نے اسی دو ٹوک لہجے میں کہا۔
’’آپ کیسی بات کرتے ہیں۔ اسے پڑھنے کا کتنا تو شوق ہے۔ ہر سال کلاس میں اوّل آتی ہے۔ سب اس کی تعریف کرتے ہیں اور ایک آپ ہیں کہ اس پر علم کے دروازے بند کر دینا چاہتے ہیں۔ میں آپ کی یہ بات ہرگز نہیں مانوں گی۔ میں اسے پڑھاؤں گی جہاں تک وہ پڑھنا چاہتی ہے۔‘‘
بیوی کے بگڑے تیور دیکھ کر مولوی جمال الدین قدرے سٹپٹائے۔ ان کی تنی ہوئی بھوئیں جھک گئیں۔ مگر اپنی مردانہ ہیکڑی کو برقرار رکھتے ہوئے بولے۔
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ پہلے اس کے لیے برقعہ کا اہتمام کرو۔ یوں صبح شام اسے گلی محلے سے ننگے سر گزرتے دیکھ کر ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔‘‘
ماں نے جمیلہ کے لیے ایک نیا برقعہ خریدا اور جمیلہ نے برقعہ اوڑھنا شروع کر دیا۔ ابتدا میں برقعہ پہن کر چلنے میں اسے بڑی دقت ہوتی تھی۔ کئی بار الجھ کر گرتے گرتے بچی۔ دو ایک بار ماں سے شکایت بھی کی مگر ماں نے صاف کہہ دیا۔
’’نا بابا، اگر برقعہ نہیں اوڑھو گی تو تمہارے ابّو تمہاری پڑھائی بند کرا دیں گے۔‘‘
مجبوراً اسے برقعہ کو برداشت کرنا پڑا۔ اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ برقعہ کی کچھ ایسی عادی ہو گئی کہ برقعہ اس کے لباس کا ایک جز بن گیا۔
جمیلہ نے میٹرک فرسٹ کلاس میں پاس کیا۔ اسکول کمیٹی نے اسے اسکالر شپ دے کر آگے پڑھانا چاہا مگر مولوی صاحب نے جمیلہ کو کالج بھیجنے سے صاف انکار کر دیا۔ کمیٹی کے کچھ ممبروں نے انہیں سمجھانا چاہا مگر بے سود۔
جمیلہ جب تک اسکول جاتی تھی اسے گھر کی زیادہ فکر نہیں تھی۔ وہ اتنا تو جانتی تھی کہ اس کی ماں گھر کا خرچ بڑی مشکل سے پورا کرتی ہے مگر اس کے لیے خود اسے کبھی فکر مند نہیں ہونا پڑا تھا کیونکہ ساری فکریں اس کی ماں جھیل لیتی تھی۔ اسے اپنی ماں کو دیکھ کر اونچی عمارتوں پر لگی برق موصل کی وہ فولادی چھڑی یاد آ جاتی تھی جو کڑکتی بجلیوں کا سارا زور اپنے اندر جذب کر کے عمارت کو تباہ ہونے سے محفوظ رکھتی ہے۔ مگر جب اسکول سے فارغ ہو کر وہ گھر میں بیٹھ گئی تو اب وہ ساری چھوٹی چھوٹی پریشانیاں ایک ایک کر کے جونکوں کی طرح اس سے چمٹنے لگیں۔ گھر کی خستہ حالت اور ماں کی روز بروز ڈھلتی صحت دیکھ کر جمیلہ کو بے حد فکر لاحق ہو گئی۔ تِس پر جب ماں چھٹی دفعہ امید سے ہوئی تو اس نے دل ہی دل میں اپنے باپ مولوی جمال الدین کو بہت کوسا۔
اِسی دوران اس نے چپکے چپکے ایک پرائیویٹ ادارے سے نرسری کا ایک سال کا مراسلاتی کورس کر لیا۔ آگے چل کر اسی کورس کے سبب اسے بڑی راحت ملی۔ محلے میں ایک نیا اسکول کھل رہا تھا۔ پڑوس کی آسو خالہ کے شوہر کمیٹی کے ممبر تھے۔ ان کی سفارش پر وہاں پرائمری سیکشن میں جمیلہ کو ٹیچر کی نوکری مل گئی۔ جمیلہ نے جب اپنی پہلی تنخواہ ساڑھے چار ہزار روپئے لا کر اپنی ماں کی ہتھیلی پر رکّھے تو ایک حیرت ناک خوشی سے اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ اس نے جمیلہ کو گلے لگا لیا اور بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ مولوی صاحب نے یہاں بھی نوکری کی مخالفت کی مگر جمیلہ کی ماں نے سمجھایا۔ ’’ساڑھے چار ہزار روپئے ہر ماہ گھر میں آیا کریں گے، کیا برا ہے؟ کچھ آپ کا ہی بوجھ ہلکا ہو گا۔ اور پھر نوکری کرنے کے لیے اسے کہاں کالے کوسوں دور جانا ہے۔ یہیں محلے کے محلے میں دس قدم پر تو اسکول ہے۔‘‘
جمیلہ کو نوکری کرتے ہوئے دو سال ہو گئے تھے۔ مولوی صاحب نے تو اب گھر آنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ گھر کی فکر انہیں پہلے بھی نہیں تھی مگر اب وہ زیادہ آزادی اور بے فکری کے ساتھ’دعوت‘ کے کاموں میں جُٹ گئے۔ سارا سارا دن مدرسہ اور مسجد میں گزار دیتے۔ نمازیوں کو حدیثیں سناتے اور دین کی باتیں سمجھاتے۔ صرف ہفتے عشرے میں کبھی کبھی رات کو گھر آتے۔ وہ بھی وظیفۂ زوجیت ادا کرنے کے لیے۔ ورنہ اب ان کی اکثر راتیں بھی مسجد ہی کی نذر ہونے لگی تھیں۔ گھر کی ذمہ داری اب جمیلہ پر آ پڑی تھی۔ بے چاری ماں تو اتنی تھک گئی تھی کہ باتیں کرنے میں بھی ہانپنے لگتی تھی مگر اس حال میں بھی ڈیڑھ سال پہلے ساتواں بچہ پیدا ہو گیا تھا۔ تب پڑوس کی آسوخالہ کے سمجھانے بجھانے اور ہمت دلانے پر جمیلہ کی ماں نے ساتویں زچگی کے دوران ہی آپریشن کرا لیا تھا۔ شروع میں تو ماں نے یہ بات مولوی صاحب سے چھپائی مگر آخر ایک دن انہیں معلوم ہو گیا۔ بہت خفا ہوئے۔ کئی روز تک گھر نہیں آئے۔ بول چال بند کر دی۔ جمیلہ کی ماں نے بھی پرواہ نہیں کی۔ اسی بہانے انہیں آئے دن کی نوچا کھوچی سے نجات مل گئی تھی، یہی کیا کم تھا۔ مگر کب تک؟ ایک رات مولوی صاحب یہ کہتے ہوئے ان کے لحاف میں گھس گئے کہ ’’کیا تم نہیں جانتیں اپنے نفس کو مارنا رہبانیت ہے اور رہبانیت اسلام میں حرام ہے۔‘‘
جمیلہ دیکھ رہی تھی کہ اس کی ماں میں اب کچھ بچا نہیں تھا۔ ڈھیلے ڈھالے کپڑوں کے نیچے بس مٹھی بھر ہڈیوں پر سوکھی روکھی چمڑی مڑھی ہوئی تھی۔ آنکھیں اندر کو دھنس گئی تھیں اور گال پچک گئے تھے۔ ماں پوری طرح نِچڑ گئی تھی پھر بھی اس کا باپ اسے برابر نچوڑے جا رہا تھا۔ وہ سوچتی کیا وہ ماں کو آخری قطرے تک نچوڑ کر ہی دم لیں گے۔ کبھی کبھی اس کے جی میں آتا کہ بزرگی کا لحاظ کئے بغیر وہ باپ کو ایسی کھری کھری سنائے کہ ظاہر پرستی کا وہ لبادہ جو انہوں نے اوڑھ رکھا ہے تار تار ہو جائے۔ مگر وہ صرف خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتی۔ یہ سب سوچ سوچ کر جب اس کا دم گھٹنے لگتا تو وہ آنکھیں بند کر کے اسلم کے تصور میں کھو جاتی۔ اسلم کا تصور اس کے لیے ایک ایسا جادو کا ڈبہ تھا جس میں اس کے کئی رنگین خواب بند تھے۔ اسلم اسی کی اسکول میں اسکاؤٹ ٹیچر تھا۔ لمبا قد، سانولا رنگ، معمولی ناک نقشہ مگر ہونٹوں پر ہمیشہ ایک دل آویز مسکراہٹ۔ اس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے ایک عجیب سی طمانیت کا احساس ہوتا تھا۔ پچھلے سال یومِ والدین کے جلسے میں جمیلہ نے ننھی ننھی بچیوں کا ایک کورس گیت تیار کیا تھا۔ ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔۔۔ زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری‘ جب چھوٹی چھوٹی بچیاں سفید فراک اور گلابی اسکارف باندھے، ہاتھوں میں جلتی موم بتیاں تھامے اندھیرے میں ڈوبے اسٹیج پر نظم کے اس شعر پر پہنچیں کہ ’دور دنیا کا مِرے دم سے اندھیرا ہو جائے، ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے‘ تو اسٹیج یکلخت روشنی میں نہا گیا۔ یہ منظر ناظرین کو اتنا بھایا کہ دیر تک ہال تالیوں سے گونجتا رہا۔ ہیڈ مسٹریس نے جمیلہ کی منہ بھر کر تعریف کی اور اسٹاف نے بھی خوب سراہا۔ دوسرے دن وہ اپنے آف پریڈ میں ٹیچرس روم میں بیٹھی کوئی چارٹ تیار کر رہی تھی کہ اسلم اندر آیا۔ اس نے سب سے پہلے اسے کل کے کامیاب کورس گیت پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا۔
’’آپ کا کورس گیت تو جلسے کی جان تھا۔‘‘
اس نے ایک شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا شکریہ ادا کیا۔ اور گردن جھکا کر اپنے کام میں منہمک ہو گئی۔ مگر اس کا دھیان اسلم کی طرف ہی تھا۔ وہ رو مال سے اپنی پیشانی کا پسینہ پونچھ رہا تھا۔ چند لمحوں تک کمرے میں سناٹا چھایا رہا پھر اسلم کی آواز کمرے میں ابھری۔ ’’جمیلہ صاحبہ! میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘ جمیلہ نے چونک کر گردن اٹھائی۔ اس کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی تھی۔ اسلم دیوار پر لگے کیلنڈر کی طرف منہ کئے کھڑا تھا۔ اس نے جمیلہ کی طرف مڑے بغیر کہا۔
’’اگر میری ماں یا بہن ہوتی تو میں انہیں کے ذریعے یہ بات کہلواتا۔۔۔‘‘
وہ لمحے بھر کو رکا پھر بولا۔۔۔ ’’کیا آپ میری شریکِ زندگی بننا پسند کریں گی؟‘‘ اسلم کی مسکراتی آنکھوں میں ایک غم آلود متانت تیر رہی تھی۔ اس وقت جمیلہ کو اسلم پر بہت پیار آیا تھا۔ اس کا جی چاہا۔ وہ اٹھے، کچھ بولے نہیں بس اس کے گال پر چٹ سے ایک بوسا ثبت کر دے۔ مگر وہ ایسا کچھ نہیں کر سکی۔ نظریں جھکائے دھڑکتے دل کے ساتھ چپ چاپ بیٹھی رہی۔ قدرے توقف کے بعد اسلم نے پھر کہا۔ ’’میں آپ کے جواب کا منتظر ہوں۔‘‘
جمیلہ نے آہستہ آہستہ اپنی جھکی ہوئی پلکیں اوپر اٹھائیں۔ اسلم سراپا التماس بنا اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جمیلہ صرف اتنا کہہ سکی۔
’’آپ ہمارے گھر آئیے نا۔۔۔‘‘ اور فوراً پلکیں جھکا لیں۔
’’سنا ہے آپ کے والد صاحب بہت سخت ہیں۔‘‘
’’میری ماں بہت اچھی ہیں۔‘‘ جمیلہ نے بے ساختہ کہا اور دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا۔ جمیلہ کی اس ادا نے اسلم کے رگ و پے میں بجلی سے دوڑا دی۔ اس کا رواں رواں کھِل اٹھا۔ اس نے جھک کر صرف اتنا کہا۔ ’شکریہ۔‘ اور کسی شرابی کی طرح مستی سے جھومتا ہوا اسٹاف روم سے باہر نکل گیا۔ اس طرح چند لمحوں میں محبت کی وہ ساری منزلیں طے ہو گئیں جو بعض اوقات برسوں کی مسافت میں بھی سر نہیں ہوتیں۔ پچھلی عید پر اسلم ان کے گھر عید ملنے کے بہانے آیا۔ جمیلہ نے ماں سے اشارتاً اسلم کے بارے میں بتا دیا تھا۔ اسلم کو دیکھ کر ماں تو نہال ہو گئی مگر مولوی جمال الدین ٹال گئے۔ شاہد اب ہر ماہ ساڑھے چار ہزار روپئے کی رقم سے دست بردار ہو جانا ان کے لیے آسان نہیں تھا۔
چند روز بعد جب اسلم نے جمیلہ سے اس کے والد کا عندیہ معلوم کرنا چاہا تو جمیلہ نے سر جھکا لیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اسلم اب جمیلہ کی خاموشی کی زبان بھی سمجھنے لگا تھا اور یہ تو اس کے آنسو تھے جو اس کا کلیجہ چیر کر نکلے تھے۔ اس نے آہستہ سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ انگلی سے اس کی ٹھوڑی اوپر اٹھائی اور اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا پیار سے بولا۔
’’جمی! تم ایک بہادر لڑکی ہو، آنسو بہا کر کمزور مت بنو۔ کوئی نہ کوئی سبیل نکل ہی آئے گی۔ میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔۔۔‘‘
اسلم نے ’میں ہوں نا تمہارے ساتھ‘ والا فقرہ آنکھیں جھپکا کر ایک دلآویز مسکراہٹ کے ساتھ کچھ اس اعتماد سے کہا کہ اس کے دل کا سارا غبار کائی کی طرح چھٹ گیا اور وہ روتے روتے مسکرا کر بے اختیار اس کے گلے لگ گئی۔
’آہ! کتنا سکون تھا اس کی بانہوں میں‘۔ جب اس نے اس کی چوڑی چھاتی پر اپنا سر ٹکایا تو اسے لگا یہ دنیا ایک معمولی گیند ہے جسے وہ جب چاہے ٹھوکر سے اڑا سکتی ہے۔ اسلم اس کے کان میں پھسپھسا رہا تھا۔
’’تم فکر مت کرو۔ پونے میں میرے رشتے کے ایک چچا رہتے ہیں۔ ایک آدھ مہینے اور انتظار کر کے دیکھتے ہیں۔ اگر تمہارے ابا کے دماغ کی برف نہیں پگھلی تو اگلے مہینے میں خود اپنے چچا کو لے کر تمہارے گھر آ دھمکوں گا تمہارا ہاتھ مانگنے۔۔۔‘‘
’’اگر وہ تب بھی نہ مانے تو۔۔۔؟‘‘
’’تو کیا۔۔۔ پھر میں بھی ان کے ساتھ وہی سلوک کروں گا جو پرتھوی راج چوہان نے جئے چند کے ساتھ کیا تھا۔‘‘
اسلم نے آخری جملہ بالکل کسی فلمی اسٹائل میں ادا کیا اور جمیلہ روتے روتے اچانک ہنس پڑی۔
’’تم ور مالا لیے دروازے پر میرا انتظار کرو گی نا۔۔۔؟‘‘
’’یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے یو راج!‘‘ جمیلہ نے شرما کر اس کے سینے پر سر رکھ دیا۔
ابھی اس بات کو ہفتہ بھر بھی نہیں گزرا تھا کہ ایک دن مولوی صاحب نے اطلاع دی وہ چار مہینے کے لیے تبلیغی دورے پر جا رہے ہیں۔ تین چلّے پورے کر کے لوٹیں گے۔
ماں نے احتجاج کیا۔ ’’چار مہینے تک ان کا اور بچوں کا کیا ہو گا؟‘‘
مولوی صاحب نے دلیل دی۔ ’ ’تم دنیا کے لیے اتنی فکر مند ہو، عاقبت کی فکر نہیں کرتیں جہاں اس دنیا کے اعمال کا حساب کتاب ہونا ہے۔ دین کے کام میں تھوڑی بہت قربانی تو دینی پڑتی ہے۔ مدرسے والے ہر مہینہ کچھ روپئے لا کر دیں گے۔ پھر جمیلہ بٹیا بھی تو ہے۔ جو دین کی فکر کرتے ہیں خود اللہ ان کی فکر کرتا ہے۔‘‘
جب جمیلہ نے اسلم کو یہ خبر دی تو وہ بھی سنّاٹے میں آ گیا۔ اسے پہلے تو مولوی صاحب پر شدید غصہ آیا مگر جمیلہ کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے غصے کو پی گیا اور ایک پھیکی ہنسی ہنستا ہوا بولا۔
’’اب تو پرتھوی راج چوہان کا کردار ادا کرنا ہی پڑے گا۔‘‘
جمیلہ متردّد لہجے میں بولی۔ ’’اسلم آپ کو مذاق سوجھ رہا ہے۔ میں رات بھر سو نہیں سکی ہوں۔‘‘
اسلم نے جمیلہ کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے اور نہایت پیار سے بولا۔
’’میں مذاق نہیں کر رہا ہوں جمی! ہمارے پاس اب بس ایک ہی راستہ رہ گیا ہے۔ پرتھوی راج چوہان والا۔‘‘
’’پتا نہیں آپ پر یہ پرتھوی راج چوہان کا بھوت کیوں سوار ہو گیا ہے۔‘‘
جمیلہ منہ بنا کر بولی۔
’’دیکھو جمی! مجھے لگتا ہے تمہارے والد دین کے راستے پر اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ گھر کا راستہ ہی بھول گئے ہیں۔ اس لیے اپنا راستہ اب ہمیں خود تلاش کرنا ہو گا۔‘‘
جمیلہ کچھ نہیں بولی۔ اس کا چہرہ سراپا سوال بنا ہوا تھا۔
’’میرے ذہن میں ایک تجویز ہے۔ سن کر گھبرا تو نہیں جاؤ گی؟‘‘ اسلم نے پوچھا۔
’’آپ ہیں نا میرے ساتھ۔۔۔‘‘
’’تمہیں مجھ پر بھروسا ہے نا۔۔۔؟‘‘
’’اپنے سے زیادہ۔۔۔‘‘
تو پھر سنو! ہم کل ہی صبح ایشیاڈ بس سے پونے چلتے ہیں۔ میں چچا کو اطلاع دے دوں گا۔ وہ سب انتظام کر دیں گے۔ وہاں پہنچ کر ہم نکاح کر لیں گے۔‘‘
’’یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟‘‘ جمیلہ کے منہ سے حیرت اور خوف سے ہلکی سے چیخ نکل گئی۔
’’میں بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘‘
’’امّی یہ برداشت نہیں کر سکیں گی۔‘‘ جمیلہ نے لرزتی آواز میں کہا۔
’’پہلے پوری بات تو سنو! نکاح کے بعد ہم شام تک لوٹ آئیں گے۔ فی الحال امّی کو کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں۔ دھیرے دھیرے انہیں اعتماد میں لے کر سب کچھ بتا دینا۔ ویسے بھی وہ ہماری شادی کے خلاف تو ہیں نہیں۔‘‘
’’نہیں اسلم!‘‘ یہ سب مجھے کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔‘‘
’’دیکھو جمی! یہ سب پیش بندی کے طور پر ہے۔ تم جانتی ہو تمہارے والد ہمیں شادی کی اجازت نہیں دیں گے مگر جب انہیں معلوم ہو گا کہ ہمارا نکاح ہو چکا ہے تو اس نکاح کو تسلیم کرنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ کیونکہ تم قانوناً بالغ ہو۔‘‘ اسلم بولتے بولتے پل بھر کو رکا، جمیلہ کو غور سے دیکھا۔ پھر گویا ہوا۔ ’’جمی! میں تمہارے تذبذب کو سمجھ سکتا ہوں۔ تم اپنی امّی اور بھائی بہنوں کے لیے فکر مند ہونا؟ ہونا بھی چاہیے، مگر ایک بات یاد رکھّو، آج جو ذمہ داری تمہاری ہے، شادی کے بعد وہ ذمہ داری ہم دونوں کی ہو گی۔‘‘
’’اسلم!۔۔۔‘‘ کچھ کہنے کے لیے جمیلہ کے ہونٹ وا ہوئے، مگر حیرت اور خوشی سے اس کی آواز رندھ گئی۔ اس نے اسلم کی طرف نظر بھر کر دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں تشکّر کے آنسو چھلک رہے تھے۔ اسلم نے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور آہستہ سے اس کی پیشانی چوم لی۔
صبح سات بجے ایشاڈ بس اڈّے پر ملنا طے پایا۔ اس نے ماں سے کہہ دیا کہ وہ چند سہیلیوں کے ساتھ پکنک پر جا رہی ہے۔ شام تک لوٹ آئے گی۔ ماں نے خوشی خوشی اجازت دے دی۔ وہ رات بھر بستر پر کروٹیں بدلتی رہی۔ تھوڑی دیر کے لیے آنکھ لگ بھی جاتی تو کوئی ڈراونا خواب اسے جھنجھوڑ کر جگا دیتا۔ کبھی اسے لگتا وہ ایک اندھی سرنگ میں چل رہی ہے، چل رہی ہے اورسرنگ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ یا اللہ! اس سرنگ سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے بھی یا نہیں؟تبھی اسے اپنے سے آگے کوئی شخص مشعل لیے ہوئے چلتا نظر آتا۔ وہ اندھیرے میں بھی اسے پہچان لیتی۔ وہ اسلم کے سوا کون ہو سکتا ہے۔ وہ اسے آواز دیتی ہے۔ ’اسلم۔۔۔ اسلم۔۔۔‘اسلم اس کی طرف مڑتا ہے۔ مگر یہ کیا؟ ہیبت سے اس کے پاؤں زمین میں گڑ جاتے ہیں کیونکہ وہ اسلم نہیں اس کے باپ مولوی جمال الدین تھے جن کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔
کبھی وہ سوچتی۔ یہ شادی اگر شادی کی طرح ہو رہی ہوتی تو کیسا ہنگامہ رہتا۔ گھر مہمانوں سے بھر جاتا۔ ہلدی، ابٹن اور مہندی کی رسمیں ادا ہوتیں۔ ڈھولک کی تھاپ پر گیت گائے جاتے، رتجگے ہوتے، عطر اور پھولوں کی خوشبو سے فضا مہک رہی ہوتی، بہنیں چہک رہی ہوتیں اور ماں واری واری جاتی۔ اور ابّو۔۔۔ باپ کا خیال آتے ہی وہ ایک بار پھر کانپ کر رہ گئی۔ وہ دہاڑ رہے تھے۔
’’بند کرو یہ خرافات۔۔۔‘‘
وہ رات بھر اسی طرح خواب اور بیداری کے درمیان ڈوبتی ابھرتی رہی۔
’’اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ اچانک اذان کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔
یقیناً یہ فجر کی اذان تھی۔ جلدی جلدی منہ دھویا۔ وضو کیا۔ اور مصلّی بچھا کر نماز کے لیے کھڑی ہو گئی۔ اس کی بہنیں، بھائی اور ماں اسی طرح بے خبر سو رہے تھے۔
اس نے نماز ختم کر کے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ معمول کے مطابق وہ زیرِ لب دعا مانگنے لگی۔ ’’ربِّ اغفر وارحم و انت خیر الراحمین‘‘ اے میرے پروردگار! ہمارے قصور معاف کر اور ہمارے حال پر رحم فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے بہتر ہے۔‘‘
دعا مانگتے مانگتے اچانک اس پر کپکپی سی طاری ہو گئی اور اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ سینے میں ایک تیز بگولا سا اٹھا۔ حلق میں ایک زخمی پرندہ پھڑپھڑایا۔ قریب تھا کہ وہ ہچکیاں لے کر رونے لگتی، اس نے اپنے دوپٹے کا پلو پوری قوت سے اپنے منہ میں ٹھونس لیا۔ دو تین ہچکیاں پلو میں جذب ہو گئیں۔ فرطِ جذبات سے اس کا سانس پھول رہا تھا۔ وہ جلدی سے اٹھی، مٹکے سے پانی لیا اور غٹ غٹ پورا گلاس حلق سے اتار گئی۔ دھیرے دھیرے سانسیں معمول پر آ گئیں۔ اتنے میں اس کی ماں کی نِنداسی آواز آئی۔ ’’جمیلہ، چائے بنا دوں؟ ایک کپ چائے پیتی جا۔۔۔‘‘
اس نے جلدی سے کہا۔ ’’نہیں ماں! میں کینٹین میں پی لوں گی۔ دیر ہو رہی ہے، تم آرام کرو۔‘‘
’’سنبھال کر جانا بیٹا۔۔۔‘‘
’’تم فکر مت کرو ماں۔۔۔ اللہ حافظ۔۔۔‘‘
جمیلہ نے برقع اوڑھا اور اپنا شولڈر بیگ لے کر باہر نکل گئی۔ چند قدم پر ہی اسے آٹو مل گیا۔ اس نے آٹو میں بیٹھتے ہوئے کلائی کی گھڑی دیکھی۔ پونے سات ہو رہے تھے۔ سوا سات بجے کی بس تھی۔ وہ پندرہ بیس منٹ میں بس اڈّے پر پہنچ جائے گی، وہ عام طور پر محلے سے باہر نکلنے کے بعد اپنا نقاب اٹھا دیا کرتی تھی مگر اب کی احتیاطاً اس نے نقاب نہیں اٹھایا۔ آٹو جوں ہی ڈپو میں داخل ہوا اس کی نظر اسلم پر پڑ گئی۔ وہ کاندھے سے ایک جھولا لٹکائے، ہاتھ میں اخبار لیے اسی کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے آٹو والے کو پیسے دیے اور آٹو سے اتر گئی۔ اس نے اپنا نقاب الٹ دیا۔ اسلم لپک کر اس کے پاس آیا۔ ’’جمی! تم نے آج کا اخبار دیکھا؟‘‘
وہ کچھ گھبرایا ہوا سا تھا۔
’’نہیں۔۔۔ کیوں؟‘‘
’’آؤ میرے ساتھ۔۔۔‘‘ وہ کینٹین کی طرف بڑھ گیا۔ جمیلہ نے دوبارہ چہرے پر نقاب ڈال لیا اور اس کے پیچھے چلنے لگی۔ اسلم کو پریشان دیکھ کر وہ خود بھی پریشان ہو گئی۔ اس کے دل میں سینکڑوں وسوسے کلبلانے لگے۔ کینٹین میں پہنچ کر انہوں نے کونے کی ایک میز منتخب کی۔ اور جب آمنے سامنے بیٹھ گئے تب اسلم نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے دھیرے سے کہا۔
’’جمی! ہمیں اپنا پروگرام ملتوی کرنا پڑے گا۔‘‘
’’کیوں۔۔۔؟‘‘ جمیلہ کا وسوسہ خوف کی شکل اختیار کرتا جا رہا تھا۔
’’سرحد پر، مولوی صاحب اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘‘
’’یا اللہ۔۔۔‘‘ جمیلہ پر جیسے بجلی گر پڑی۔
’’ہمّت سے کام لو۔‘‘ اسلم نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’آپ سے کس نے کہا؟‘‘ برقع میں جمیلہ کی آواز کانپ رہی تھی۔
’’اخبار میں چھَپا ہے، وہ جماعت کے ساتھ سرحد کے پاس سے گزر رہے تھے کہ سیکیوریٹی والوں نے سرحد پار کرنے کے شبہ میں انہیں گرفتار کر لیا۔ باز پرس کے لیے انہیں قریب کی چوکی میں لے گئے ہیں۔‘‘
جمیلہ رونے لگی۔
’’جمی! سنبھالو اپنے آپ کو، وہ اکیلے نہیں ہیں پوری جماعت ان کے ساتھ ہے۔ شُبہ میں گرفتار کیا ہے۔۔۔ کل پرسوں تک خبر آ جائے گی کہ چھوڑ دیے گئے۔‘‘
جمیلہ کچھ نہیں بولی۔ مگر برقع کے اندر اس کا بدن لرز رہا تھا۔ رہ رہ کر ایک آدھ سسکی بھی نکل جاتی تھی۔
’’جمیلہ! اس طرح ہمت ہارو گی تو گھر والوں کا کیا ہو گا۔ چلو میں تمہیں آٹو میں بٹھا دیتا ہوں۔ تم گھر پہنچو۔ ایک آدھ گھنٹے کے بعد میں بھی پہنچتا ہوں۔ میں اسکول کمیٹی کے چئیرمین انصاری صاحب سے بھی بات کروں گا۔ کچھ نہ کچھ راستہ نکل آئے گا۔ یہ اکیلے مولوی صاحب کا نہیں پوری جماعت کا مسئلہ ہے۔ لو، تھوڑی چائے پی لو۔ پھر چلتے ہیں۔‘‘
قارئینِ کرام! یہاں تک پہنچنے کے بعد افسانہ نگار، افسانے کو ایک پُر امید نوٹ پر ختم کرنا چاہتا تھا کہ جمیلہ گھر آ گئی۔ اسلم نے اس سے وعدہ کیا کہ حالات معمول پر آتے ہی دونوں شادی کر لیں گے۔ جمیلہ کو اسلم پر پورا یقین ہے کہ وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔
مگر قارئینِ کرام! زندگی افسانہ نہیں ہے۔ افسانہ نگار کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ افسانے کو جہاں چاہے ختم کر دے یا جس طرف چاہے موڑ دے، مگر زندگی کے تیز و تند دھارے پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا۔ افسانہ نگار کا بھی نہیں۔ بعض اوقات زندگی کا بہاؤ اس قدر تیز ہوتا ہے کہ اس کا قلم بھی ایک حقیر تنکے کی طرح بہہ جاتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔
ڈیڑھ مہینے تک حراست میں رکھنے کے بعد پولس نے مولوی جمال الدین کو رہا کر دیا کیونکہ پولس ان کے خلاف کوئی ثبوت مہیا نہیں کر سکی۔ رہائی کے بعد وہ ایک لٹے پٹے مسافر کی طرح پریشان حال، شکستہ خاطر گھر لوٹ آئے مگر گرفتاری کی ذلّت اور رسوائی نے انہیں توڑ کر رکھ دیا۔ آتے ہی ایسے بیمار ہوئے کہ پندرہ دن میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ صدمے سے جمیلہ کی ماں کو فالج ہو گیا اور وہ بستر سے لگ گئی۔ چھوٹا بھائی رشید ایس ایس سی میں فیل ہو گیا۔ پھر پتا نہیں کیسے وہ جیب کتروں کی ایک ٹولی کے ہتھے چڑھ گیا اور ٹرینوں اور بسوں میں لوگوں کے پاکٹ مارنے لگا۔ ایک دن پکڑا گیا اور چلڈرنس ہوم بھیج دیا گیا۔ اسلم جمیلہ کا کب تک انتظار کرتا؟ اس نے پونے میں اپنے چچا کی لڑکی سے شادی کر لی اور وہیں کسی اسکول میں ملازم ہو گیا۔ جمیلہ کی ایک بہن اختری جو کالج میں پڑھ رہی تھی، ایک دن کالج گئی اور پھر واپس ہی نہیں آئی۔ پتا چلا کہ وہ گلی کے ایک آوارہ چھوکرے کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ باقی دونوں بہنیں بھی اپنی اپنی جماعتوں میں فیل ہو کر گھر بیٹھ گئیں۔
تین سال ہو گئے، فالج زدہ ماں چارپائی پر پڑی موت کا انتظار کر رہی ہے مگر موت ہے کہ دہلیز پر کھڑی اسے گھورتی رہتی ہے مگر اندر نہیں آتی۔ پہلے ماں جمیلہ کو دیکھ دیکھ کر روتی رہتی تھی مگر اب اس کی آنکھیں خشک جھیلوں کی مانند ویران ہو گئی ہیں۔ بس خالی خالی نظروں سے جمیلہ کو آتے جاتے ٹکر ٹکر دیکھتی رہتی ہے۔ جمیلہ کے بالوں میں چاندی کے تاروں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ سال بھر پہلے صبح بال بناتے بناتے جب بالوں میں اسے پہلا چاندی کا تار نظر آیا تھا تو اس کا دل دھک سے رہ گیا تھا۔ وہ اس رات بہت روئی تھی۔ دوسرے دن اس نے بڑی احتیاط سے چاندی کے تار کو نوچ ڈالا۔ مگر اب تو اس کے بالوں میں کئی تار نکل آئے ہیں۔ اس نے انہیں نوچنا چھوڑ دیا ہے۔ پہلے جب اسے اسلم کی یاد آتی تھی تو راتوں کو تکیے میں منہ کھبو کر چپکے چپکے روتی تھی مگر رفتہ رفتہ اس کے دل میں اسلم کی تصویر کے نقوش دھندلے پڑنے لگے۔ اور اب تو ماضی کا ہر نقش اس کے دل سے مٹ چکا ہے۔ کیا آپ جمیلہ سے واقف ہیں؟ آپ کے گھر سے دو تین گھر چھوڑ کر ہی تو رہتی ہے وہ۔ آپ نے اسے ضرور دیکھا ہو گا مگر پہچان نہیں پائے ہوں گے کیونکہ وہ آج بھی برقع اوڑھتی ہے اور اس کے چہرے پر نقاب پڑا رہتا ہے۔
٭٭٭