آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ میں جوں ہی جلسہ گاہ سے باہر نکلا کسی نے مجھے پیچھے سے آواز دی، میں مڑا۔ صفدر لمبے لمبے ڈگ بھرتا میری طرف آ رہا تھا۔
’’بھئی، سب سے پہلے تو اس انعام کے لیے تمہیں مبارکباد۔‘‘
اس نے تپاک سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا، میں نے مسکراتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا۔
’’اور ہاں۔۔۔ تم جب بھی دلّی آتے ہو، آ کر چپ چاپ نکل جاتے ہو مگر اس بار میں تمہیں یوں جانے نہیں دوں گا۔ ہم آج تمہارے انعام کو سیلی بریٹ کریں گے۔‘‘
’’بالکل۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے خوش دلی سے کہا۔
’’تو پھر چلو۔ خواہ مخواہ دیر کرنے سے کیا فائدہ۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’میرے گھر، اور کہاں؟‘‘
’’ارے نہیں، آپ کے گھر پھر کبھی آ جاؤں گا۔‘‘
’’آج بہانہ نہیں چلے گا۔ چلو، بیٹھو۔‘‘
اس نے بائک کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں۔ صفدر بھائی، آج نہیں۔ کل چلیں گے۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔‘‘
’’اے ذوقؔ تکلف میں ہے تکلیف سراسر۔‘‘
اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر بائک کی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔
میں نے زیادہ حیل و حجت کرنا فضول سمجھا اور چپ چاپ بائک پر اس کے پیچھے بیٹھ گیا۔
ممبئی سے چلتے وقت دو ایک دوستوں نے تاکید کی تھی کہ دلی میں سب سے ملیو مگر صفدر سے بچ کر رہیو۔ اگر اتفاق سے مل بھی گیا تو کنی کاٹ جانا۔ خبردار اس کے ساتھ اس کے گھر تو ہرگز نہ جانا، ورنہ نتائج کے ذمہ دار تم خود ہو گے۔
میں نے پوچھا بھی تھا۔ ’’کس قسم کے نتائج؟‘‘
مگر کسی نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا تھا اور اب۔۔۔ اتفاق سے صفدر مل بھی گیا تھا اور اپنے گھر بھی لے جا رہا تھا۔ مجھے قدرے بے چینی محسوس ہوئی مگر فرار کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
صفدر کی موٹر بائک تیزی سے اس کے گھر کی طرف جا رہی تھی۔ صفدر زور زور سے کچھ بول بھی رہا تھا مگر موٹر بائک کی پھٹ پھٹ اور ٹریفک کے شور میں کچھ بھی صاف سنائی نہیں دے رہا تھا۔ میں بس ’ہوں ہاں‘ کیے جا رہا تھا۔ وہ بولتے بولتے زور زور سے ہنسنے بھی لگتا تھا۔ میں بھی بغیر کچھ سمجھے سنے خواہ مخواہ اس کے ساتھ ہنسنے لگتا۔ میری ہنسی سے اسے اور ترغیب ملتی اور وہ مزید جوش و خروش سے بولنے لگتا۔ میں نے گھڑی دیکھی۔ شام کے سات بج رہے تھے۔ سردی بڑھ چکی تھی۔ میں نے کوٹ تو پہن رکھا تھا مگر کان یخ ہوئے جا رہے تھے۔ سڑک کے دونوں طرف دکانوں کی نیون سائن کی روشنیوں سے پورا علاقہ جگر مگر کر رہا تھا۔ موٹر سائکل ٹریفک کے بہاؤ میں تیرتی چلی جا رہی تھی۔ ایک سگنل پر جب موٹر سائکل رکی تو میں نے موقعہ غنیمت جان کر ایک بار پھر اس سے کہا۔
’’صفدر بھائی! نو بجے ایک صاحب سے ملنے کا وعدہ ہے، وہ ہوٹل پر آنے والے ہیں۔ میں نے ان کے لیے کوئی میسیج بھی نہیں چھوڑا ہے۔ وہ بلاوجہ پریشان ہوں گے۔ آج مجھے جانے دیجئے۔ کل کی شام آپ جہاں کہیں گے میں چلوں گا۔ میں ابھی دو تین روز ہوں یہاں۔‘‘
’’یار تم خواہ مخواہ پریشان ہو جاتے ہو۔ ارے گھر پہنچ کر ہوٹل میں فون کر لینا، کاؤنٹر پر میرے گھر کا فون نمبر اور ایڈریس دے دینا۔ جب وہ صاحب آئیں گے تو فون پر بات کر لینا۔ اگر وہ آنا چاہیں تو انہیں بھی میرے گھر پر بلا سکتے ہو۔‘‘
نجات کی ایک موہوم سی امید بندھی تھی وہ بھی ختم ہو گئی۔ گرین سگنل روشن ہو گیا اور رکی ہوئی گاڑیاں ہارن دیتیں، چیختی چنگھاڑتیں دوبارہ روانہ ہو گئیں۔ صفدر کی موٹر سائکل بھی ایک جھٹکے سے آگے بڑھی۔ اب چھٹکارے کی کوئی امید نہیں تھی، بہاؤ کی مخالف سمت میں تیرنے کی کوشش فضول تھی۔ بالآخر میں نے تھک کر اپنے آپ کو موجوں کے حوالے کر دیا۔ اس سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ یکلخت ذہنی تناؤ کم ہو گیا اور میں اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا۔ اب صفدر کا چیخ چیخ کر کچھ کہنا اور بات بات پر قہقہے لگانا اتنا گراں نہیں گزر رہا تھا۔ میں نے سوچا لوگ آخر اس سے اسقدر بدکتے کیوں ہیں؟ اس میں بظاہر تو کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ بس زیادہ بولتا ہے اور بات بے بات ہنستا ہے۔ خیر یہ تو کوئی ایسی بات نہیں جس کے سبب کسی سے بدگمان ہوا جائے۔ ممبئی میں وہ شمس الاسلام کیا کم بولتا ہے۔ دنیا کا ایسا کون سا موضوع ہے جس پر وہ اظہارِ رائے نہیں کر سکتا۔ اس پر طرہ یہ کہ اونچا بھی سنتا ہے۔ دورانِ گفتگو اگر آپ کچھ بولنا چاہیں تو وہ اپنے دونوں کانوں کے پیچھے ہتھیلیاں رکھ کر آپ کی طرف اسقدر جھک آئے گا کہ اس کے سانسوں کی بدبو آپ اپنے چہرے پر محسوس کر سکتے ہیں۔ پھر دوچار جملوں کے بعد ہی آپ کا کوئی ادھورا فقرہ یا کوئی لفظ اچک لے گا اور آپ کی بات کاٹ کر دوبارہ بولنا شروع کر دے گا۔ اس کے بہرے پن اور علّامیت کے پیشِ نظر دوستوں میں املا کے تھوڑے تصرف کے ساتھ وہ ’بہر العلوم‘ کے لقب سے مشہور ہو گیا ہے۔ آخر اسے بھی تو سب برداشت کرتے ہی ہیں۔ پھر صفدر میں ایسی کیا غیر معمولی برائی ہے کہ ہر کوئی اس سے گریزاں دکھائی دیتا ہے۔ اونہہ، ہو گی کوئی بات۔ اب سابقہ پڑ ہی گیا تو دیکھا جائے گا۔
موٹر سائکل ایک پتلی سڑک پر مڑ رہی تھی۔ ٹریفک کا شور پیچھے چھوٹ گیا تھا۔ صفدر کہہ رہا تھا۔
’’میرا خیال ہے تم پہلی بار آ رہے ہو میرے گھر۔‘‘
’’غالباً۔‘‘ میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہم شاید آدرش نگر کالونی کے آس پاس ہی کہیں ہیں؟‘‘
’’بالکل۔ ہم آدرش نگر میں داخل ہو چکے ہیں۔ بس اس کے اختتام پر ہماری کالونی بھارت نگر ہے۔ کیا اس طرف آئے ہو تم کبھی؟‘‘
’’ہاں، دو تین بار آدرش نگر آیا ہوں میں۔ یہاں ایک دوست رہتا ہے۔ عادل عثمانی۔‘‘
’’وہ بلڈر؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’تم سالے ایک ادیب، تمہاری دوستی بلڈروں سے کیسے؟‘‘
اس نے ایک استہزائیہ ہنسی کے ساتھ ریمارک دیا۔
مجھے اس کا یہ ریمارک ناگوار گزرا۔ ہم میں ایسی بے تکلفی نہیں تھی کہ وہ مجھے سالے کہہ کر مخاطب کرتا۔ تاہم میں ضبط کر گیا۔ پھر برا سا منہ بنا کر بولا۔
’’میں انسان کو اس کے پیشے سے نہیں رویّے سے پہچانتا ہوں۔‘‘
’’واہ، کیا کلاسیک جملہ ہے، خوب۔ اگرچہ تم نے مجھے منہ توڑ جواب دینے کی کوشش کی ہے مگر میں تمہاری بات سے اتفاق کرتا ہوں۔‘‘
میں کچھ نہیں بولا۔ موٹر سائکل ایک چھوٹے سے گیٹ کے سامنے آ کر رک گئی۔
’’چلو اترو۔ یہی ہے فقیر کی کٹیا۔‘‘
میں بائک سے اتر گیا۔ سامنے دور تک دو رویہ قطاروں میں رو ہاؤسیس کا ایک سلسلہ سا چلا گیا تھا۔ ہم رو ہاؤس کا چھوٹا سا گیٹ کھول کر اندر داخل ہوئے۔ سامنے مکان کی پیشانی پر اردو میں لکھا تھا ’کٹیا محل‘۔ ساتھ ہی اس کے نیچے انگریزی میں بھی درج تھا۔ Kutiya Mahal۔
مجھے شرارت سوجھی۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’آپ نے مکان کا نام تو بڑا اچھا رکھا ہے۔ ’کٹیا محل‘ واہ۔‘‘
’’یار میں تو لٹھ فقیر آدمی ہوں۔ فقیر کا ٹھکانہ کٹیا ہی تو ہو سکتا ہے۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے۔ اردو میں تو لوگ اسے ’کٹیا محل‘ پڑھیں گے مگر انگریزی میں اسے کوئی ’کتیا محل‘ بھی پڑھ سکتا ہے۔ یعنی کتیا کا محل۔‘‘
وہ چلتے چلتے رک گیا۔ گردن اٹھا کر گھر کا نام زیرِ لب دہرایا۔ پھر زور دار قہقہہ لگا کر بولا۔
’’یار تم سچ کہہ رہے ہو۔ میں نے اس طرف کبھی دھیان ہی نہیں دیا۔‘‘
پھر ایک لمحہ رک کر بولا۔
’’خیر۔ اب یہاں کوئی انگریز تو آنے سے رہا جو کٹیا کو کتیا پڑھ سکتا ہے، البتہ اگر کوئی ہندوستانی کٹیا کو کتیا پڑھتا ہے تو سمجھ جانا چاہیے کہ اس کے ذہن میں کوئی کتّا پن موجو ہے۔‘‘
ساتھ ہی اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر گھر کی طرف کھینچتے ہوئے قہقہہ لگایا۔ ’’چلو‘‘
میں اندر ہی اندر تلملا کر رہ گیا۔ کمبخت نے میرا وار مجھی پر الٹ دیا تھا۔ مگر کیا کیا جا سکتا تھا۔ غلطی میری ہی تھی۔ مذاق مذاق میں میں نے کیچڑ میں پتھر مار دیا تھا۔
گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے بلند آواز سے پکارا۔
’’کوثر۔ دیکھو کون آیا ہے؟‘‘
پھر میری جانب مڑ کر صوفے کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا۔
’’بیٹھو نا یار، کھڑے کیوں ہو؟‘‘
میں صوفے پر بیٹھ گیا۔ کمرہ خاصا کشادہ تھا۔ صوفے کے آگے بیضوی شکل کی بڑی سی تپائی رکھی تھی، جس کی سطح شفاف شیشے کی بنی تھی۔ تپائی پر ایک خوبصورت سا گلدان تھا جس میں پلاسٹک کے پھول سجے ہوئے تھے۔ کمرے کی تینوں دیواروں کے اوپری حصے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک بک شیلف بنے ہوئے تھے جن میں کتابیں سلیقے سے لگی ہوئی تھیں۔ چھت کے درمیان ایک جھومر لٹک رہا تھا جس میں یقیناً برقی قمقمے لگے ہوں گے مگر اس وقت قمقمے روشن نہیں تھے۔ جھومر کے دونوں طرف پنکھے لگے ہوئے تھے، دونوں پنکھے بند تھے۔
’’ریلکس ہو کر بیٹھو یار۔ تم صوفے پر بھی یوں بیٹھے ہو جیسے موقعہ ملتے ہیں بھاگ کھڑے ہو گے۔‘‘
’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ میں نے قدرے پاؤں پھیلاتے ہوئے کہا۔
اتنے میں اندر کے کمرے کی چق ہٹی اور ایک خاتون باہر نکلیں۔ شاید وہ ابھی ابھی نماز سے فارغ ہوئی تھیں۔ انھوں نے پیازی رنگ کی ردا سے اپنا سر اور کان لپیٹ رکھے تھے۔ صرف ان کا چہرہ کھلا تھا۔ ان کا رنگ یقیناً گورا تھا مگر گورے رنگ کے نیچے ہلکی ہلکی زردی بھی جھلک رہی تھی۔ آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے سے نظر آ رہے تھے جس سے چہرہ اور بھی ملول لگ رہا تھا۔ آنکھوں سے ایک بے نام سی اداسی جھانکتی دکھائی دے رہی تھی۔ مگر ہونٹوں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ موجود تھی۔
’’کوثر۔ میری شریکِ حیات۔ شریکِ حیات کم، شریکِ غم زیادہ۔‘‘
اس نے پھر ایک بے تکا سا قہقہہ لگایا۔
’’اور کوثر، یہ اردو کے مشہور ادیب۔۔۔ جنہیں اس سال ’پریم چند‘ ایوارڈ سے نوازا گیا، ویسے یہ ہر سال کوئی نہ کوئی ایوارڈ لیتے ہی رہتے ہیں۔‘‘
ایک اور بے ہنگم قہقہہ۔ اس کے تعارفی کلمات سے طنز پھوٹا پڑ رہا تھا۔ خاتون نے پیشانی تک ہاتھ لے جا کر ’آداب‘ کہا۔ میں بھی صوفے سے اٹھ کر کھڑا ہو گا۔
’’آداب۔‘‘
یکبارگی پھر چق ہٹی، اب کے تین لڑکیاں باہر نکلیں۔ تینوں کی عمریں بالترتیب بارہ سے لے کر سات آٹھ برس کے درمیان رہی ہوں گی۔
’’یہ ہماری بیٹیاں ہیں۔ کاکل، سنبل اور زلفی۔‘‘
میں نے دیکھا کہ تینوں لڑکیوں کی شکلیں اپنی ماں سے بہت ملتی جلتی ہیں۔ تینوں نے ایک ہی رنگ کا شلوار کرتا پہن رکھا تھا اور تینوں نے اپنے سر اور کان لپیٹ رکھے تھے ماں کی طرح۔ تینوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ضرور تھی مگر لگتا تھا مسکراہٹ اندر سے نہیں پھوٹ رہی ہے بلکہ کسی نے باہر سے ان کے ہونٹوں پر چسپاں کر دی ہے۔ تینوں کی آنکھوں میں بھی ماں کی طرح ایک بے نام اداسی کی جھلک موجود تھی، غرض حلیے بشرے سے تینوں کی تینوں اپنی ماں کی پرچھائیاں معلوم ہو رہی تھیں۔
’’آپ چائے لیں گے یا کافی؟‘‘ خاتون نے پوچھا۔
اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا، صفدر نے ترنت کہا:
’’نہ چائے نہ کافی۔ آج ہم ان کے ایوارڈ کو سیلی بریٹ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
میں نے دیکھا کہ خاتون کے چہرے پر لمحے بھر کو سایہ سا لہرا کر گزر گیا۔ بچیوں کی آنکھوں میں بھی ایک موہوم سا اضطراب کروٹ بدل کر غائب ہو گیا۔ میں نے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔
’’صفدر بھائی، آج کے دن صرف چائے چلے گی۔ میں پھر کبھی آ جاؤں گا۔‘‘
’’سوال ہی نہیں آتا۔ میں اتنی دور سے تمہیں اغوا کر کے صرف چائے پلانے تھوڑی نا لایا ہوں۔‘‘
پھر وہ بیگم اور بچیوں کی طرف مڑ کر بولا۔ ’’چلو اپنے اپنے کام سے لگ جاؤ، اب ادھر کوئی نہیں آئے گا۔‘‘ اس کے لہجے میں کرختگی تھی۔
اتنا سنتے ہی بچیاں ایک جھٹکے سے کھڑی ہو گئیں۔ جیسے کسی نے خود کار کھلونے کا بٹن دبا دیا ہو۔ پھر تینوں مجھے جھک کر آداب کہتی ہوئی مڑیں اور چق ہٹا کر اندر چلی گئیں۔ صفدر کی بیوی بھی ’’آپ تشریف رکھئیے‘‘ کہہ کر بچیوں کے پیچھے روانہ ہو گئیں۔
صفدر نے ایک شیلف میں کتابوں کے پیچھے ہاتھ ڈالا اور وہاں سے وہسکی کی ایک بوتل برآمد کی۔ ہنستا ہوا بوتل کو میرے سامنے تپائی پر لا کر رکھ دیا۔ ’’کتاب اور شراب دونوں کی فطرت ایک ہے۔ دونوں انسان کے باطن کو آئینہ دکھاتی ہیں۔‘‘
میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ چپ چاپ اس کی حرکات و سکنات کو دیکھتا رہا، اس نے میرا پریم چند مومنٹو، پھولوں کا گلدستہ اور شال کو تپائی سے اٹھا کر میرے قریب صوفے پر رکھ دیا۔
’’سنبھالو اپنا سروسامان۔‘‘ میں نے اس کے لہجے میں ہلکی سی حقارت کی جھلک محسوس کی۔
’’صفدر بھائی میں ہوٹل فون کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ضرور۔‘‘ اس نے کمرے کے دوسرے گوشے میں رکھے کوارڈلیس فون کا ریسیور اٹھا کر میری طرف بڑھا دیا۔
میں نے ہوٹل کے نمبر ڈائل کیے۔ ریسپشنسٹ کو اپنا روم نمبر اور نام بتا کر صفدر کا فون نمبر نوٹ کراتے ہوئے ہدایت کی کہ اگر کوئی مجھ سے ملنے آئے تو اس نمبر پر رنگ کر دینا۔ میں فون کر کے مڑا، اتنی دیر میں تپائی پر وہسکی کی بوتل کے ساتھ دو گلاس، سوڈے کی بوتل اور گزک کی پلیٹیں سجادی گئی تھیں اور صفدر شراب کی بوتل سے گلاسوں میں شراب انڈیل رہا تھا۔
’’پانی یا سوڈا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’مکس‘‘ میں نے گلاسوں کو گھورتے ہوئے کہا۔
جام بھر گئے تھے۔ ہم دونوں نے ایک ساتھ جام اٹھائے اور چیئرس کہتے ہوئے انہیں ہونٹوں سے لگا لیا۔ میں نے کلائی کی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
’’صفدر بھائی، اس وقت آٹھ بج رہے ہیں۔ میں ٹھیک نو بجے اٹھ جاؤں گا۔‘‘
’’ارے یار، پہلی سپ ابھی حلق سے اتری نہیں اور تم جانے کی باتیں کرنے لگے۔ فکر مت کرو، زیادہ دیر ہو جائے تو یہیں سو جانا۔‘‘
’’بالکل نہیں۔ میں نو بجے اٹھ جاؤں گا۔‘‘
میں نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے، جیسی تمہاری مرضی۔ اب آرام سے شراب پیو۔ اور ہاں مجھے بار بار صفدر بھائی، صفدر بھائی کہہ کر مخاطب مت کرو۔ آج کل اس لفظ کا مفہوم ہی بدل گیا ہے۔ لفظ ’بھائی‘ سنتے ہی کانوں میں ٹھائیں ٹھائیں کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں۔‘‘ وہ حسبِ معمول بھونڈے طریقے سے ہنسنے لگا۔
میں نے جواب میں کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا۔ سینگ کا ایک دانہ منھ میں ڈال کر چپ چاپ منھ چلانے لگا۔ گردن گھما کر دیوار پر لگے الگ الگ بک شیلفوں کو غور سے دیکھنے لگا۔ شاعری، تنقید، فلسفہ، سوانح ہر شیلف پر جلی حرفوں میں الگ الگ نام کی پرچیاں چسپاں تھیں۔ ایک طرف ایک بڑی سی الماری تھی۔ جس میں صرف انگریزی کی کتابیں قرینے سے لگی تھیں۔ ’’آپ کے پاس تو بڑا اچھا ذخیرہ ہے کتابوں کا۔‘‘ میں نے تحسین آمیز لہجے میں کہا۔ وہ کچھ بولا نہیں، شراب کا ایک بڑا سا گھونٹ بھر کر بک شیلفوں پر ایک اچٹتی سے نگاہ ڈالی۔ پھر آلو چپس کا ایک قتلہ منھ میں ڈال کر آہستہ آہستہ منہ چلانے لگا۔
’’سنا ہے کہ پہلے آپ لکھتے بھی تھے؟‘‘
’’ہاں بہت پہلے، مگر چھپا بہت کم ہوں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ہماری زبان میں ایسا کوئی رسالہ ابھی نہیں نکلا جو میری تخلیقات کے معیار پر پورا اترتا ہو۔‘‘
’’کیا۔۔۔؟‘‘ میں نے قدرے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
اس کے ماتھے کی سلوٹیں گہری ہو گئی تھیں اور ہونٹوں پر ایک زہر خند تھا۔
’’آپ سنجیدہ ہیں۔‘‘ میں نے قدرے سنبھلتے ہوئے پوچھا۔
’’میرے خیال سے میں ہوں۔‘‘
’’اس طرح تو آپ ہماری زبان کے پورے ادب کو یکسر خارج کر رہے ہیں۔‘‘
’’پورے ادب کو نہیں۔ صرف آج کے ادب کو۔‘‘
’’آپ کا کوئی تو آئیڈیل شاعر یا ادیب ہو گا۔‘‘
’’میں خود ہی اپنا آئیڈیل ہوں۔‘‘ اس نے پھر ایک بار زور دار قہقہہ لگایا۔ بجلی کی روشنی میں اس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔
’’یار میری بات کا برا ماننے کی ضرورت نہیں۔ میں جو کچھ کہتا ہوں وہ سب مجھ سے پہلے کہا جا چکا ہے، یہ الگ بات ہے کہ تم اس سے واقف نہیں ہو، مثلاً میں نے ابھی کہا کہ میں خود ہی اپنا آئیڈیل ہوں۔ تمہیں میری بات سن کر قدرے حیرت ہوئی ہو گی۔ ہو سکتا ہے ناگوار بھی گزری ہو، مگر آج سے سینکڑوں سال پہلے یہ بات ایک مشہور صوفی کہہ چکا ہے۔ ’ ’میرے جبے کے نیچے خدا ہے۔ میں ساقی ہوں، میں ہی پیالہ ہوں۔ میں ہی میخوار ہوں۔‘‘ بتاؤ میری بات اور صوفی کی بات میں کیا فرق ہے سوائے الفاظ کے۔ ادھر ہمارے عہد کے ایک اردو شاعر نے بھی کچھ ایسا ہی مضمون اپنے شعر میں باندھا ہے۔ ’میں ہی اپنی منزل کا راہبر بھی راہی بھی۔‘‘
میں نے کچھ کہنے کے لیے ہونٹ کھولے، اس نے ہاتھ اٹھا کر مجھے روک دیا اور پھر بولنا شروع کیا۔
’’میں نے اس لیے لکھنا چھوڑ دیا کیونکہ میں جو کچھ لکھ رہا تھا وہ مجھ سے پہلے لکھا جا چکا تھا، جو لکھا جا چکا ہے اسے دوبارہ لکھنے کا کیا مطلب! ویسے بھی باسی نوالے چبانے میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ مگر یہ بات کتنے لوگ سمجھتے ہیں۔ جو لوگ نہیں سمجھتے انہیں سمجھانا فضول ہے، اور جو لوگ سمجھ کر بھی سمجھنا نہیں چاہتے انہیں دنیا کا کوئی سمجھدار آدمی سمجھا نہیں سکتا۔ کیا سمجھے؟۔۔۔ دنیا میں اکثریت نا سمجھوں کی ہے، سمجھدار تو بس آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں۔ مگر کامیابی ہمیشہ ناسمجھوں کے ہی حصے میں آتی ہے کیونکہ وہ سمجھوتہ کرنے کے گُر سے واقف ہوتے ہیں اور سمجھدار ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں کہ ناسمجھوں سے سمجھوتہ ان کی فطرت کے خلاف ہے، اس دنیا میں سمجھ کی بات کوئی سمجھنا نہیں چاہتا۔ اسے اس طرح سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘ وہ بے تکان بولے جا رہے تھا۔ تکرارِ لفظی سے میرے دماغ کی رگیں پھٹنے لگی تھیں، درمیان میں جب وہ سانس لینے کو رکتا اور میں کچھ بولنے کے لیے منھ کھولتا تو وہ فوراً ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک دیتا اور چند سیکنڈ کے وقفے کے بعد پھر بولنا شروع کر دیتا۔ وہسکی اس پر تیزی سے اثر انداز ہو رہی تھی اور اس کی تقریر کی روانی میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ میری حالت اس شخص جیسی تھی جسے کوئی بال پکڑے پانی میں متواتر غوطے دیے جا رہا ہو۔ اگرچہ بول وہ رہا تھا مگر سانس میرا پھولنے لگا تھا۔
ابتدا میں تو اس کی گفتگو میں ربط و تسلسل برقرار رہا۔ الفاظ جگنوؤں کی مانند جلتے بجھتے ہلکی ہلکی روشنی دیتے رہے مگر رفتہ رفتہ اس کی باتوں میں بے ربطگی کی کیفیت پیدا ہونے لگی۔ الفاظ اپنی خیرگی کھونے لگے۔ جملوں کے تانے بانے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرنے لگے۔
وہ کبھی مذہب کی دقیانوسیت پر ضربیں لگاتا تو کبھی سیاست کی دھجیاں اڑاتا، کبھی بڑے بڑے فلسفیوں کے حوالے دیتا تو کبھی معاشیات کے اعداد و شمار گنوانا شروع کر دیتا۔ میں دو پیگ پی چکا تھا۔ میری کنپٹیاں بھی قدرے گرم ہونے لگی تھیں۔ اب اس کی گفتگو میری سماعت پر بے حد گراں گزر رہی تھی۔ مجھے کچھ کچھ اندازہ ہو چلا تھا کہ دوستوں نے اس سے ملتے وقت احتیاط برتنے کی تاکید کیوں کی تھی۔ اس کا جوش و خروش لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جا رہا تھا۔ آنکھوں کی سرخی میں اضافہ ہو گیا تھا اور باچھوں کے کناروں پر کف جمع ہونے لگا تھا۔
بولتے بولتے وہ اچانک کھڑا ہو گیا، دونوں ہاتھ فضا میں بلند کیے۔ دیدوں کو دائیں بائیں گھمایا۔ پھر گردن اٹھا کر دور تک نگاہ ڈالی جیسے سامنے ہزاروں کا مجمع موجود ہو پھر قدرے پھنسی پھنسی مگر بھاری آواز میں گویا ہوا۔
’’اوہام کے سمندر میں حقائق کے موتی تلاش کرنے والو، سنو!
تمہاری بینائی کمزور اور تمہاری سماعت ناقص ہے۔ اس لیے تم گہرے پانیوں میں اترنے سے گھبراتے ہو، جس تہذیب کی تم دہائی دے رہے ہو اس کی گردن پر تو جنگلوں کا قصاص باقی ہے۔ لفظوں کی کوکھ سے معنی کے انڈے نہ نکلیں تو سمجھ لو تمہاری ماں دردِ زہ میں مبتلا ہو گئی ہے اور تمہارا باپ لچا، شہدا کبوتروں کے انڈے چرا رہا ہے۔ وہ اکیس مردوں کے ساتھ فارغ ہونے کے بعد ببانگ دہل پکار رہی ہے۔ کون ہوتا ہے حریفِ مئے مرد افگن عشق؟ ادب بے ادبوں کا زیور ہے اور تمدن کی تہہ میں نہ جانے کتنے چھید ہیں۔ مولانا روم کی مثنوی سے بال جبریل کے اجزا الگ کر دیں تو نطشے بغلیں جھانکتا نظر آئے گا۔ کیونکہ دریدا کی ٹوپی اوڑھ کر جب بھرتری ہری غائب ہو جاتا ہے تو ساری ساختیات پس ساختیات دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ ادھر گوئٹے نے شیطان سے دوستی گانٹھ لی اور ادھر بے چارے غالب کے پرزے اڑ گئے۔ جانتے ہو شیکسپیئر کے سارے کردار مٹی کا چولہا بنانے کے فن سے نا آشنا تھے۔ پلکوں پر خواب سجانے سے اچھا ہے آدمی گھاس چھیلتے چھیلتے زمین کی کھاد بن جائے۔ باغِ عدن میں اہرمن ٹہل رہا ہے اور یزداں واشنگٹن کے کیفے ٹیریا میں سوم رس کی چسکیاں لے رہا ہے۔ یزداں بہ کمند آور اے ہمت مردانہ۔ مارکس نے نیوٹن کا بٹن دبایا اور فرائڈ کے گلے سے ایک دلخراش چیخ نکلی۔ معاشیات واشیات سب مداری کے کھیل ہیں ورنہ آج تک یہی ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ ایک سے ایک مل کر دو ہوتے ہیں یا گیارہ۔ دانتے پل صراط سے گرتے گرتے بال بال بچ گیا، غنیمت ہے اسے ایلیٹ نے سنبھال لیا ورنہ دونوں جہنم رسید ہو چکے ہوتے۔ میر تقی میرؔ جب انیس کے گلے میں بانہیں ڈالے روتے ہیں تو نظیر اکبر آبادی آگرہ بازار میں ریوڑیاں بیچ رہے ہوتے ہیں۔ پریم چند یہ کس کا کفن سی رہے ہیں؟ اور منٹو کس کی کالی شلوار پہنے اترا رہا ہے۔ ٹالسٹائی، دوستووسکی، چیخف، گورکی سب ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں۔ آخر فلابیر کو موپاساں سے پنگا لینے کی کیا ضرورت تھی۔ مجھے دیکھو میں ستاروں میں سب سے روشن ستارہ اور گھوڑوں میں سب سے سرکش گھوڑا ہوں۔ وہ سمجھتا ہے اس کے سامنے جتنے لوگ بیٹھے ہیں سب بے لباسی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں جبکہ خود اسے نہیں معلوم کہ اس کے خصیوں کی سلسلاہٹ کو زائل ہوئے زمانہ بیت چکا۔ باسی نوالے چباتے چباتے اس کے دانت جھڑ چکے ہیں لہٰذا اب وہ سوائے گھٹیا شاعری کا لالی پاپ چوسنے کے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔‘‘
وہ دائیں بائیں گردن گھماتا، ہاتھ نچاتا ہوا جانے کیا کیا کہے جا رہا تھا۔ میں حیرت سے اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔ پہلے تو میں سمجھا شاید مجھے نشہ ہو گیا ہے مگر میں نے صرف دو پیگ ہی پیے تھے۔ تیسرا پیگ جوں کا توں میز پر دھرا تھا۔ پھر یہ کس قسم کی گفتگو ہے؟ وہ کیا بول رہا ہے؟ اس کی باتیں میری سمجھ میں کیوں نہیں آ رہی ہیں؟ ایک لمحہ کو لگتا وہ کوئی بہت معنی خیز بات کہہ رہا ہے مگر دوسرے ہی پل محسوس ہوتا کہ وہ محض یاوہ گوئی کر رہا ہے، میرا سر چکرانے لگا میں کسی طرح وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا مگر فرار کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی۔
اچانک میں نے محسوس کیا کہ وہ یکلخت چپ ہو گیا ہے۔ کمرے میں مرگھٹ کا سا سناٹا چھا گیا، صرف دیوار پر لگی گھڑی کی ٹک ٹک سے مجھے اپنے ہونے کا احساس ہو رہا تھا، یک بیک اس کے حلق سے ایک بے ہنگم سی خرخراہٹ نکلی۔ آنکھیں حلقوں سے ابل پڑیں۔ باچھیں چر کر کلوں سے جا لگیں۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سینہ پکڑ کر جھکنے لگا۔ جھکتا گیا اور بھر ’بق۔ بق‘ کی مکروہ آواز کے ساتھ اس نے ایک بڑی سی قے کر دی۔ میں اچھل کر پیچھے ہٹ گیا۔ میز پر رکھے شراب کے گلاس الٹ گئے اور گزک کی پلیٹوں میں زرد اور سبزی مائل رنگ کا گاڑھا لعاب تیرنے لگا۔ مجھے متلی سی ہونے لگی۔ میں نے منھ پھیر لیا مگر ایک کھٹّی قسم کی بو میرے نتھنوں میں گھستی چلی گئی۔ وہ حلق سے ’بق بق‘ کی آوازیں نکالتا برابر قے کئے جا رہا تھا۔ اتنے میں اندرونی کمرے کی چق ہٹی۔ اس کی بیوی باہر نکلی۔ اس کا سر اور کان اب بھی ردا میں لپٹے ہوئے تھے۔ میں نے اسے دیکھتے ہی ہکلاتے ہوئے کہا۔
’’یہ دیکھئے۔ انھیں۔ پتا نہیں کیا ہو گیا ہے۔‘‘
اس نے کچھ نہیں کہا، اپنے شوہر کے قریب آئی۔ ایک ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کی پیٹھ سہلانے لگی۔ دھیرے دھیرے اس کی الٹیاں رک گئیں مگر اس کی ناک اور منہ سے لعاب کے لیس دار تار لٹک رہے تھے۔ بیوی نے تولیے سے اس کا منہ پونچھا۔ بوتل سے گلاس میں پانی انڈیل کر اسے دو گھونٹ پانی پلایا، وہ سنبھل گیا تھا۔ مگر اس کا چہرہ زرد پڑ گیا تھا۔ آنکھوں کی چمک بھی ماند پڑ گئی تھی اور اس کا نچلا ہونٹ اونٹ کے ہونٹ کی طرح لٹک گیا تھا۔ بیوی اسے سہارا دیتی ہوئی اندر جانے کے لیے مڑی۔ اندر جاتے جاتے میری طرف پلٹی۔ بے تعلق نظروں سے مجھے دیکھا اور پوچھا۔
’’آپ کھانا کھائیں گے؟‘‘
اس کا لہجہ ایک دم سپاٹ تھا۔ جیسے کوئی رٹا ہوا جملہ دہرایا گیا ہو۔ میں نے اس کی طرف دیکھا، اس کا چہرہ ہر قسم کے تاثر سے عاری تھا۔
میں نے نفی میں گردن ہلا دی۔
’’آپ جا سکتے ہیں۔ خدا حافظ۔‘‘
اس نے جھٹکے سے کہا اور اس کا ہاتھ پکڑے آگے بڑھ گئی۔ وہ کسی دیرینہ مریض کی طرح لڑکھڑاتے قدموں سے اس کے ساتھ چلا جا رہا تھا۔ اب میرے لیے وہاں رکنے کا کوئی مطلب بھی نہیں تھا۔ مجھے صریحاً اپنی توہین کا احساس ہو رہا تھا۔ میں نے اپنا جھولا اٹھایا اور باہر کے دروازے کی سمت مڑ گیا۔ جب میں دروازے سے باہر نکل رہا تھا تبھی پشت سے اس کی بیوی کی آواز سنائی دی۔
’’باہر گیٹ کا پھاٹک بند کر دیجئے گا۔ آوارہ کتے اندر آ جاتے ہیں۔‘‘
’سٹاک‘ مجھے لگا کسی نے پوری قوت سے میری پیٹھ پر چابک رسید کر دیا ہو۔ میں تڑپ کر پلٹا۔ اس سے پہلے کہ میں جواب میں کچھ کہتا وہ اسے لیے ہوئے اندر جا چکی تھی۔ معاً میری نظر لرزتی ہوئی چق پر پڑی۔ چق کی جھالر کے پیچھے سے چھ عدد متوحش آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں۔
میں چپ چاپ مڑا اور لڑکھڑاتے قدموں سے گیٹ کے باہر نکل گیا۔
٭٭٭