میرے بیٹے نے حسبِ معمول اس رات بھی کہانی کی فرمائش کی۔ میں کافی تھکا ہوا تھا۔ تِس پر ٹیلی ویژن سے ٹیلی کاسٹ ہوئی خبروں نے دل و دماغ کو اور بھی پژمردہ کر دیا۔ لگتا تھا پوری دنیا بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہے۔ اک ذرا سا ماچس دکھانے کی دیر ہے، بس۔ کیا انسان دورِ وحشت کی طرف لوٹ رہا ہے؟
دل بے چین اور دماغ پراگندہ تھا۔ میں نے بیٹے کو پچکارتے ہوئے کہا۔
’’آج نہیں بیٹا! آج پاپا بہت تھک گئے ہیں، کل سنائیں گے ہم تمہیں ایک اچھی کہانی۔‘‘
’’نہیں، ہم تو آج ہی سنیں گے۔‘‘ اس نے ضد کی۔
’’اچھے بچے ضد نہیں کرتے۔‘‘ میں نے پھر سمجھایا۔
’’بس ایک چھوٹی سی کہانی۔۔۔ ایک دم آِتّی سی۔‘‘ اس نے انگلی کی پور پر انگوٹھا رکھتے ہوئے ’اِتِّی سی‘ کی صراحت کی۔
اس کی اس معصوم ادا پر مجھے ہنسی آ گئی۔ میں نے تھک ہار کر کہا۔ ’’ٹھیک ہے، ہم کہانی سنائیں گے، مگر تم بیچ میں کوئی سوال نہیں پوچھو گے؟‘‘
’’نہیں پوچھوں گا۔‘‘
’’ہم تمہیں آج وہ کہانی سناتے ہیں جو تمہارے دادا جان نے ہمیں سنائی تھی۔‘‘
’’آہا۔۔۔‘‘ اس نے خوش ہوتے ہوئے نعرہ لگایا۔
’’پرانے زمانے کی بات ہے۔۔۔‘‘ میں نے کہانی شروع کی۔
’’کتنی پُرانی؟‘‘ وہ بیچ میں بول پڑا۔
’’اوں ہوں۔۔۔ میں نے کہا تھا نا تم کوئی سوال۔۔۔‘‘
’’اوہو۔۔۔ سَوری پاپا۔۔۔!‘‘
اس نے کسمساتے ہوئے معافی مانگی۔
’’ویسے بات بہت پرانی بھی نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہانی جاری رکھتے ہوئے کہا۔
’’یہی کوئی پچاس برس ہوئے ہوں گے۔۔۔ یا ہو سکتا ہے سو دو سو برس پرانی ہو۔۔۔ زیادہ سے زیادہ ہزار بارہ سو برس پرانی ہو سکتی ہے یا پھر اس بھی زیادہ۔۔۔ کہتے ہیں اس اونچی پہاڑی کے پیچھے ایک بستی تھی۔ بستی البتہ سچ مچ بہت پرانی تھی، ہزاروں برس پرانی۔۔۔ بستی میں اونچے اونچے مکان تھے، مکانوں میں بڑے بڑے دروازے اور چوڑی چوڑی کھڑکیاں تھیں، روشن اور کشادہ کمرے تھے، جہاں صبح و شام ہوا اٹھکیلیاں کرتی گزرتی، مکانوں کے آنگنوں میں پھولوں کی کیاریاں لگی تھیں، جن میں رنگ برنگے پھول کھلتے تھے اور ہواؤں میں ہر دم بھینی بھینی خوشبو رچی رہتی تھی، بستی کے باہر باغات کا سلسلہ تھا، جن میں طرح طرح کے پھل اور پیڑ تھے، پیڑوں پر قسم قسم کے پرندوں کے گھونسلے تھے، پرندے صبح شام چہچہاتے رہتے، ان کی چہکار سے فضا میں موسیقی سی گھلتی رہتی، بستی کے پاس سے ایک ندی گزرتی تھی جس سے آس پاس کی زمین سیراب ہوتی رہتی، انسان تو انسان ڈھور ڈنگر تک کو دانے چارے کی کمی نہیں تھی، کوئی موسم ہو، کھیتوں میں اناج کے خوشے جھومتے رہتے اور گایوں کے تھن ہمیشہ دودھ سے بھرے رہتے۔
بستی کے لوگ بڑے خوش مزاج، ملنسار اور امن پسند تھے، مرد دن بھر کھیت، کھلیانوں اور باغوں میں کام کرتے، مویشی چراتے، دودھ دوہتے اور عورتیں چولہا چکی سنبھالتیں۔ خالی وقت میں وہ ایک دوسرے کی دعوتیں کرتے، دعوتوں میں لذیذ کھانے کھاتے، عمدہ مشروب پیتے، جھومتے گاتے اور رقص کرتے۔ بوڑھے اطمینان سے مونچھوں کے نیچے مسکراتے، گردنیں ہلاتے رہتے، گرہستنیں اپنے یجمانوں پر واری جاتیں اور کنوارے کنواریاں ایک دوسرے سے ہنسی ٹھٹھول کرتے اور کبھی کبھی ہنسی ہنسی میں ایک دوسرے کو زندگی بھر کے لیے جیون ساتھی چن لیتے۔ ان میں جو شہ زور تھے کشتیاں لڑتے، لاٹھی بلّم کھیلتے، مصور تصویریں بناتے اور شاعر گیت گاتے تھے، خوشیاں روز اس بستی کا طواف کرتیں اور غم بھولے سے بھی ادھر کا رخ نہ کرتے۔
کہتے ہیں بستی کے پاس ہی ایک گھنے پیڑ پر ایک پری رہتی تھی۔ ننھی منی، موہنی صورت اور معصوم سیرت والی، گلابی آنکھوں اور شہابی ہونٹوں والی، سنہرے بالوں اور سرخ گالوں والی پری۔ پری گاؤں والوں پر بہت مہربان تھی۔ وہ اکثر اپنے چمکدار پروں کے ساتھ اڑتی ہوئی آتی اور ان کے روتے ہوئے بچوں کو گدگدا کر ہنسا دیتی۔ لڑکیوں کے ساتھ ساون کے جھولے جھولتی، آنکھ مچولی کھیلتی، لڑکے بالوں کے ساتھ پیڑوں پر چڑھتی، ندی میں تیرتی، کبھی کسی کے کھلیان کو اناجوں سے بھر دیتی، کبھی کسی کے آنگن میں رنگ برنگے پھول کھلا دیتی۔ شادی بیاہ، تیج تہوار، میلے ٹھیلے یہاں تک کہ موت مٹی میں وہ ہر جگہ، ہر موقع پر ان کے ساتھ رہتی۔ بستی والے بھی اس کے اتنے عادی ہو گئے تھے کہ اگر وہ ایک دن بھی انہیں دکھائی نہیں دیتی تو وہ بے چین ہو جاتے۔
دن گزرتے رہے۔ وقت کا پرندہ کالے سفید پروں کے ساتھ اڑتا رہا اور موسم کا بہروپیا نت نئے روپ بدلتا رہا۔
پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ ایک دن کسی نے ان کے کھیتوں میں شرارت کا ہل چلا دیا۔ بس، اس دن سے ان کے کھیت تو پھیلتے گئے مگر دل سکڑنے لگے۔ گودام اناجوں سے بھر گئے مگر نیتوں میں کھوٹ پیدا ہو گئی۔ اب وہ اپنی مقر رہ زمینوں کے علاوہ دوسروں کی زمینوں پر بھی نظر رکھنے لگے۔ نتیجے کے طور پر ان کے کھیتوں میں بد کرداری کی فصل اگنے لگی اور درخت ریا کاری کا پھل دینے لگے۔ لالچ نے ان کے دلوں میں خود غرضی کا زہر گھول دیا تھا۔ پہلے وہ مل بانٹ کر کھاتے تھے، مل جل کر رہتے تھے، مگر رفتہ رفتہ ان کی ہر چیز تقسیم ہونے لگی۔ کھیت، کھلیان، باغ، بغیچے، گھر آنگن یہاں تک کہ انہوں نے اپنی عبادت گاہیں تک آپس میں بانٹ لیں اور اپنے اپنے خداؤں کو ان میں قید کر دیا۔ ان کی آنکھوں کی مروت اور دلوں کی حمیت ہتھیلی پر جمی سرسوں کی طرح اڑ گئی، تصویروں کے رنگ اندھے اور گیتوں کے بول بہرے ہو گئے، اب نہ کوئی تصویر بناتا تھا نہ کوئی گیت گاتا تھا، ہر گھڑی ہر کوئی ایک دوسرے کو زک دینے کی فکر میں رہتا۔ آئے دن وہ ایک دوسرے کو برباد کرنے کے منصوبے بناتے رہتے۔
بستی والوں کے یہ بدلے ہوئے رنگ ڈھنگ دیکھ کر وہ ننھی پری بہت دکھی ہوئی۔
وہ سوچنے لگی، آخر بستی والوں کو کیا ہو گیا ہے؟ یہ کیوں ایک دوسرے کے بیری ہو گئے ہیں؟مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔
وہ اب بھی بستی میں جاتی، بچوں کو گدگداتی اور عورتوں کے ساتھ گیت گاتی۔۔۔ لڑکی، لڑکوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی۔۔۔ پیڑوں پر چڑھتی، ان کے کھیت، کھلیانوں کے چکر لگاتی، آنگنوں میں گھومتی پھرتی۔۔۔ مگر اب وہ سب اس کی طرف بہت کم دھیان دیتے۔
بستی والوں کی اس بے توجہی کے سبب ننھی پری اداس رہنے لگی۔ آخر اس نے بستی میں آنا جانا کم کر دیا۔ اگر کبھی جاتی بھی تو ڈری ڈری، سہمی سہمی سی رہتی اور جتنی جلد ممکن ہوتا وہاں سے لوٹ آتی۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ اس نے بستی میں آنا جانا بالکل ترک کر دیا۔
بستی والے آپس کے جھگڑے ٹنٹوں میں اس قدر الجھے ہوئے تھے کہ شروع شروع میں انہیں اس کی غیر موجودگی کا پتا تک نہیں چلا۔ مگر جب سہاگنوں کے گیت بے سرے ہو گئے اور کنواریوں نے پیڑوں کی ٹہنیوں سے جھولے اتار لیے اور بچے کھلکھلا کر ہنسنا بھول گئے تب انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے اپنی کوئی قیمتی شئے کھو دی ہے۔ بستی والے فکر مند ہو گئے۔ اسے کہاں ڈھونڈیں، کیسے تلاش کریں؟
پہلے تو انہوں نے اسے اپنے گھروں اور آنگنوں میں تلاش کیا۔ مگر وہ وہاں نہیں تھی۔ پھر انہوں نے اسے کھیت، کھلیان اور باغ بغیچوں میں ڈھونڈا۔۔۔ وہ وہاں بھی نہیں تھی۔ وہ ندی کے کنارے گئے، میدانوں میں بھٹکے، پیڑوں اور گپھاؤں میں دیکھا، مگر وہ کہیں نہیں تھی۔ اب ان کی تشویش بڑھنے لگی۔ مگر بجائے اس کے کہ وہ مل بیٹھ کر سر جوڑ کر اس کے بارے میں سوچتے، وہ ایک دوسرے پر الزام دھرنے لگے کہ پری ان کی وجہ سے روٹھ گئی ہے۔ اب تو وہ ایک دوسرے سے اور بھی بدگمان ہو گئے۔ ان کے دلوں کی نفرت اور بھی گہری ہو گئی۔
اب انہوں نے ایک دوسرے کے کھیت کھلیانوں کو پامال کرنا اور مویشیوں کو چُرانا شروع کر دیا۔ دھوکہ فریب، لوٹ مار، قتل و غارت گری روز کا معمول بن گیا۔۔۔ اب نہ کسی کا جان و مال محفوظ تھا، نہ کسی کی عزت و آبرو سلامت تھی۔ ہر طرف افراتفری کا عالم تھا، بوڑھے اپنے گھر کی چہار دیواریوں میں بیٹھے گڑگڑاتے اور دعائیں مانگتے رہتے اور جوان تلواریں اور نیزے لیے ایک دوسرے کی تاک میں گھومتے رہتے۔ کوئی تلوار سے کسی کا سر قلم کر دیتا، کوئی نیزے سے کسی کا سینہ چھید دیتا۔ معصوم انسانوں کے لیے روز بروز زمین تنگ ہوتی جا رہی تھی۔
جب پانی سر سے اونچا ہو گیا اور بچاؤ کی کوئی صورت نہ رہی تب بستی والوں نے طے کیا کہ اس روز روز کے قضیے سے بہتر ہے اس قصے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔ وہ جان گئے تھے کہ جب تک کسی ایک فریق کا خاتمہ نہیں ہو جاتا، دوسرے کو راحت نہیں مل سکتی۔ لہٰذا انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے دشمن کو ختم کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
اس فیصلے کے بعد وہ دو گروہ میں بٹ گئے۔ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو گھروں میں بند کر دیا گیا اور سارے جوان ہاتھوں میں نیزے اور تلواریں لیے میدان میں ایک دوسرے کے مقابل آ کر کھڑے ہو گئے۔ ان کی آنکھوں سے غصے اور نفرت کی چنگاریاں نکل رہی تھیں اور ان کی مٹھیاں نیزوں اور تلواروں کے دستوں اور قبضوں پر مضبوطی سے کسی ہوئی تھیں۔ وہ اپنے حریف کو خونخوار نظروں سے گھور رہے تھے اور ایک دوسرے پر جھپٹ پڑنے کو تیار کھڑے تھے۔
تبھی ایک انہونی ہو گئی، فضا میں ایک مہین سا سُر بلند ہوا۔ جیسے کسی پرندے کا ملائم پر ہوا میں لرز رہا ہو۔۔۔ کوئی گا رہا تھا۔
انہوں نے آواز کی سمت دیکھا۔ پہلے تو انہیں کچھ دکھائی نہیں دیا۔ مگر جب انہوں نے بہت دھیان سے دیکھا تو انہیں ننھی پری ایک پیڑ کی ڈال پر بیٹھی دکھائی دی۔ مگر آج اس کا روپ بدلا ہوا تھا، اس کے بال بکھرے ہوئے اور گال آنسوؤں سے تر تھے، پَر نُچے ہوئے اور کپڑے پھٹے ہوئے تھے، جیسے وہ گھنی خار دار جھاڑیوں کے درمیان سے گزر کر آ رہی ہو، اس کے پاؤں ننگے اور تلوے زخمی تھے۔ وہ پیڑ سے اتر کر میدان کے بیچ میں آ کر کھڑی ہو گئی، اس نے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کر رکھے تھے جیسے انہیں ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے روکنا چاہتی ہو۔
تلواروں کے دستوں اور نیزوں پر کسی ہوئی مٹھیاں قدرے ڈھیلی ہوئیں۔
وہ گا رہی تھی۔ اس کی آواز میں ایسا سوز تھا کہ ان کے سینوں میں دل تڑپ اٹھے۔ وہ گا رہی تھی۔ اس کی آواز دھیرے دھیرے بلند ہوتی گئی، بلند ہوتی گئی، اتنی بلند جیسے ستاروں کو چھونے لگی ہو، اس کی آواز چاروں دِشاؤں میں پھیلنے لگی۔ پھیلتی گئی، پھیلتی گئی، اتنی پھیلی کہ چاروں دِشائیں اس کی آواز کی بازگشت سے گونجنے لگیں۔ لوگ حیرت سے آنکھیں پھاڑے، منہ کھولے اس کا گیت سنتے رہے، سنتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں میں دبی تلواریں پھولوں کی چھڑیوں میں تبدیل ہو گئیں اور نیزے مورچھل بن گئے۔
انہوں نے محسوس کیا کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر جمی برف پگھل رہی ہے اور ان کے دلوں کی کدورت آنکھوں سے آنسو بن کر بہہ رہی ہے۔ پچھتاوے اور شرمندگی سے ان کی گردنیں جھک گئیں۔ گیت کے بول ان کے کانوں میں رس گھولتے رہے اور دھیرے دھیرے وہ سب ایک دوسرے سے ایک اَن دیکھی، اَن جان ڈور سے بندھتے چلے گئے، جیسے وہ سب ایک ہی مالا کے موتی ہوں، جیسے وہ سب ایک ہی ماں کے جائے ہوں۔
ادھر گیت ختم ہوا اور وہ اپنی آستینوں سے آنسو پونچھتے ہوئے ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔
جب اشکوں کا غبار کم ہوا تو انہوں نے اپنی محسن کو تلاش کرنا چاہا مگر وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔ بستی والوں نے اسے بہت ڈھونڈا، وادی وادی، جنگل جنگل آواز دی، منتیں کیں، واسطے دیے۔۔۔ مگر وہ دوبارہ ظاہر نہیں ہوئی۔ تب بستی والوں نے اس کی یاد میں ایک مجسمہ بنایا، اسے بستی کے بیچوں بیچ میدان میں نصب کر دیا۔
کہتے ہیں آج بھی بستی کے لوگوں میں جب کوئی تنازعہ ہوتا ہے، سب میدان میں اس مجسمے کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور اس گیت کو دہرانے لگتے ہیں۔ گیت کے ختم ہوتے ہوتے ان کے دل کی سلیٹیں دوبارہ اجلی اور صاف ہو جاتی ہیں، جیسے بارش کی پہلی پھوار سے پیڑوں کے پھول پتے دھُل جاتے ہیں۔ اس طرح بستی والے آج بھی اس گیت کی بدولت بڑے امن اور چین سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔۔۔ جیسے ان کے دن پھِرے، خدا ہم سب کے بھی دن پھیر دے۔‘‘
میں نے کہانی ختم کر کے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا۔ وہ مجھے عجیب نظروں سے گھور رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں کوئی تاثر نہیں تھا، چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔ میں نے جماہی لیتے ہوئے کہا۔ ’’چلو اب سو جاؤ، کہانی ختم ہو چکی ہے۔‘‘
اس نے کہا۔ ’’پاپا! آپ نے کہا تھا، کہانی سناتے وقت بیچ میں کوئی سوال نہیں پوچھنا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ میں نے کہا تھا اور تم نے کوئی سوال نہیں پوچھا۔ تم بڑے اچھے بچے ہو۔ چلو، سو جاؤ۔‘‘
’’مگر پاپا! کہانی تو ختم ہو گئی۔ میں اب تو سوال پوچھ سکتا ہوں نا۔۔۔؟‘‘
میں نے ایک لمحہ توقف کیا۔ پھر بولا ’’چلو پوچھو۔۔۔ کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘
’’پاپا! وہ کون سا گیت تھا، جسے سن کر گاؤں والے دوبارہ گلے ملنے پر مجبور ہو گئے۔‘‘
میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ تھوڑی دیر چپ رہا، پھر بولا۔ ’’مجھے وہ گیت یاد نہیں ہے بیٹا۔‘‘
’’کیوں پاپا! آپ کو گیت کیوں یاد نہیں؟‘‘
’’کیوں کہ میرے پاپا یعنی تمہارے دادا نے بھی جب مجھے یہ کہانی سنائی تھی تو صرف کہانی سنائی تھی، گیت نہیں۔‘‘
’’آپ نے ان سے پوچھا نہیں۔۔۔؟‘‘
’’شاید ان کے پاپا نے بھی انہیں صرف کہانی سنائی ہو۔‘‘
’’نہیں پاپا۔۔۔!‘‘ میرے بیٹے نے مچلتے ہوئے کہا۔
’’مجھے وہ گیت سنائیے ورنہ میں سمجھوں گا کہ آپ کی کہانی ایک دم جھوٹی تھی۔‘‘
٭٭٭