دوپہر ڈھل چکی تھی وہ دروازے پر نظر جمائے ہریشان حال میں کھڑی تھیں کیونکہ ابھی تک وہ واپس نہیں آئی تھی انہوں نے فریال کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی ایکسٹرا کلاس کی وجہ سے وہ رک گئی تھی مگر اب انہیں پریشانی لاحق تھی۔
اچانک دروازے پر دستک ہوئی ۔
لگتا ہے مشعل آگئی یہ کہتے ہوئے دروازے کی جانب لپکیں۔
مگر ۔۔
جیسے ہی دروازہ کھولا تو وہ ٹھٹک گئیں۔
حیرانی غصہ کی ملی جلی کیفیت کا اندازہ انکے چہرے پر سے لگایا جاسکتا تھا۔
سامنے ہاتھ جوڑے سر جھکائے وہ کھڑا تھا اس نے نظریں اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا اسے یہ ڈر لاحق تھا کہ اگر وہ آنکھ اٹھا کر دیکھے گا تو وہ دوبارہ کبھی بھی اپنی نظروں سے نظریں نہیں ملاپائے گا۔
وہ دو قدم پیچھے ہوئیں ۔
اچانک انکے چہرے پر عضے اور اجنبیت کے تاثرات نے جنم لیا۔
کون ہیں آپ اور کیا چاہتے ہیں آپ۔کنزہ سرد لہجے میں بولی دروازہ آدھے سے زیادہ بند ہوچکا تھا۔
لہجے سے اجنبیت واضح تھی۔
"فقیر ہوں خیرات میں معافی چاہتا ہوں"وہ جھکے سر سے بولا ایک ہاتھ دروازے ہر رکھا ہوا تھا گویا وہ دروازہ ہی بند نہ کردے۔
میرے پاس کچھ نہیں ہے تمہیں دینے کے لیے معافی بھی نہیں۔وہ سرد لہجے میں بولی۔
اس پورے وقت میں پہلی بار اس نے نگاہیں اٹھا کر اسکو دیکھا تھا۔
وہ آنکھیں جس میں کل تک رونقیں بسیرا کیے ہوئے تھیں وہ آنکھیں آج ویران صحرے کے مانند تھی جس میں امید کھوچکی تھی۔
میری غلطی اتنی بڑی بھی نہیں تھی۔اس نے دھیمے لہجے میں بولا۔
لہجے میں ایک آس تھی شاید وہ معاف کردے۔
اسکی بات سن کر اسکے لبوں پر ایک تمسخرانہ مسکراہٹ
بالکل !تمہاری غلطی توبہت چھوٹی تھی۔تمہاری اس چھوٹی سی غلطی نے میرا گھر برباد کردیا۔تمہاری اس چھوٹی سی غلطی نے میری بیٹی کو باپ کے ہوتے ہوئے یتیم کردیا۔ میری بیٹی باپ کے ہوتے ہوۓ بھی ہر چیز سے محروم رہی جس پر اسکا حق تھا اس چھوٹی سی غلطی نے مجھے باکردار ہوتے ہوئے بھی بدکردار کردیا۔
میری بیٹی بغیر باپ کے جی رہی ہے یہ احساس مجھے دن بہ دن مجھے اندر سے ماررہا ہے اور تم کہہ رہی ہو کہ تمہاری غلطی چھوٹی سی ہے ۔وہ زہر خندہ لہجے میں بول رہی تھی۔
اس کی بات کر اسکا چہرہ اور جھک گیا۔
واقعی وقت کا پہیہ الٹی سمت گھومتا ہے کل وہ جو ظالم بنا تھا اور وہ مظلوم تھی آج مقام وہی ہے بس فرق اتنا ہے مظلوم وہ ظالم خود ہے۔
چلے جاؤ یہاں سے میرے پاس کچھ بھی نہیں اور میری بچی کچی عزت کا جنازہ مت نکالو وہ زہر خندہ لہجے میں بولی ۔
نہیں ایسا مت کرو میرے پاس کچھ نہیں ہے۔میں بس موت کے انتظار میں ہوں لیکن مجھے موت بھی نہیں آتی مجھے معاف کردو شاید تمہاری معافی کے صدقے وہ مجھے معاف کردے۔وہ اسکے قدموں میں پڑگیا۔اور گڑ گرارہا تھا۔
کچھ منٹ کے توقف کے بعد وہ بولی۔
ارحم جاؤ میں نے تمہیں معاف کیا مگر ایک چیز کا خیال رکھنا دوبارہ میری زندگی میں مداخلت اور اس گھر کی جانب اپنا رخ مت کرنا۔یہ کہہ کر وہ گھر کے اندرونی حصے کی جانب پڑگئی۔
وہ خاموش نگاہوں سے اسے جاتا دیکھتا رہا۔
ایک منٹ کے بعد وہ اٹھا اور چل ہڑا ااھی اسے کہیں اور بھی جانا تھا۔ ۔
****************************
اس وقت وہ گھر سے آفس کے لیے نکلا تھا کہ آدھے راستے میں اسے کال آئی تو پریشانی کی حالت میں اس نے گاڑی کا رخ ہاسپیٹل کی جانب موڑا
مصطفی صاحب جو اس کے ہمراہ تھے ایک دم حیران ہوگئے۔
کیا جارہے ہو؟؟؟انھوں نے ہوچھا۔
ہاسپیٹل !اس نے عجلت میں جواب دیا۔
کیوں؟سب خیریت لے؟انھوں نے پریشانی سے کہا۔
زہرام کو گولی لگی ہے چاچو۔شموئل نے جواب دیا۔
اللہ خیر!
************************
بھاگتی بھاگتی وہ ہاسپٹل میں داخل ہوئیں نرس سے وارڈ کاپوچھ کر تیزی تیزی سے وہاں کی جانب بڑھنے لگی۔
تیزی سے بھاگنے کے باعث انکا سانس پھولا ہوا تھا۔
کمرے کے باہر ہی وہ انکو مل گئی ۔
تم۔۔ٹھیک ہو نہ میری جان!انھوں نے اسکا تفصیلی جائزہ لیا کچھ دیر پہلے ہی اس نے انکو فون کر کے سب بتایا۔
وہ اس کے ہمراہ وارڈ میں داخل ہوئیں جہاں وہ لیٹا ہوا تھا۔
بیٹا میں کس منہ سے تمہارا شکریہ ادا کروں تم تو فرشتہ بن کر آئے ہو۔کنزہ تشکر آمیز لہجے میں بولیں۔
آنٹی اب آپ شرمندہ تو نہ کریں مجھے۔وہ شرما کر بولا۔گولی صرف بازو کو چھو کر نکلی تھی۔
بالکل آپکا جتنا شکریہ ادا کریں کم ہے۔مشعل بھی بولی۔
سوری!میری وجہ سے آپ اس حالت میں پہنچے۔مشعل شرمندہ ہورتے ہوئے بولی۔
ارے۔اس سے پہلے زہرام کچھ بولتا ۔شموئل کمرے میں داخل ہوا۔
کنزہ بیگم کھڑی ہوگئیں اور مشعل بھی ذرا محتاط ہوگئی۔
ارے بھائی اپ آئیں نہ۔شموئل کو دروازے پر رکتے ہوئے دیکھ کر وہ بولا۔
شموئل جس کی نظریں کنزہ بیگم پر ہی تھی۔اسکی آواز پر چونکا۔
ہاں کیسے ہوا یہ سب ۔اس نے پاس بیٹھتے یوئے پوچھا۔
کچھ نہیں بھائی جوئی اتنی بڑی چوٹ نہیں۔وہ ہنستے کوئے بولا۔
آنٹی یہ میرے بھائی ہیں شموئل۔اس نے کنزہ بیگم سے تعارف کروایا۔
انھوں نے اسکومسکرا کر دیکھا۔
کیا چچی نے پہچانا نہیں مجھے؟؟اس کے دل نے سوال کیا اس سے پہلے وہ جواب دیتا زہرام بولا۔
بھائی یہ مشعل ہیں اور یہ انکی امی۔
شموئل نے مشعل کو دیکھا۔
نین نقوش رنگت سب کچھ اس نے مصطفی صاحب سے لیاتھا۔
اس کے اس طرح دیکھنے پر وہ بدتذب ہورہی تھی۔
چلو بیٹا ہم چلتے ہیں اَللّٰهُﷻ تم دونوں کی ماں کی آنکھوں کی ٹھنڈک سلامت رکھے۔وہ زہرام کے سر پر پیار دیتے ہوئے بولیں۔
مشعل کو وہ پرشوق نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
وہ بچی نہ تھی جو اسکی نگاہوں کا مفہوم نہ سمجھ سکے۔
کیسے جانتے ہوں انکو۔ان کے جانے کے بعد اس نے اس سے پوچھا۔
اس نے اسے سب کچھ بتادیا چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
کب سے اسے محبت کرتے ہو؟؟اس نے پوچھا۔
معلوم نہیں مگر احساس تب ہوا تھا جب اس نے ہمارے گھر قدم رکھے تھے۔
یہ ہمارے گھر آچکی ہے؟؟شموئل کے لہجے میں حیرانگی تھی۔
ہاں وہ فریال کی دوست ہے۔اس نے سرسری سا جواب دیا۔
شموئل اسکی بات سن کر خاموش ہوگیا۔
*******\\*****************
اماں آپ یہ کتابیں پکڑیں ذرا۔مشعل کتابیں کنزہ بیگم کو دیتے کوئے بولی۔
تم کہاں جارہی کو۔انھوں نے حیرانگی سے پوچھا۔ ۔
آپکی میڈیسن لینے۔ آئی ہوئی لوں تو لے جاؤں آپ یہی رکیں۔وہ کتابیں انہیں پکڑا کر او پی ڈی کی جانب بڑھ گئی۔
وہ کاریڈور میں موجود تھیں وہ تھورا سا آگے بڑھیں جیسے ہی وہ مڑیں انکا تصادم سامنے سے آنے والے شخص کے ساتھ ہوا جس کے نتیجے میں ہاتھ سے کتابیں گر گئیں۔
سامنے کھڑے شخض کو دیکھ کر انھوں نے چادر کا آنچل سے اس نے منہ ڈھانپ لیا۔
سوری بہن جی۔مصطفی صاحب نیچے بیٹھ کر کتابیں اٹھانے لگے۔
وہ کھڑی ہوگئیں۔چہرے کا رخ دوسری طرف کرلیا۔کتابیں اٹھا کر وہ کھڑے ہوئے اور انکی حانب بڑھادیں۔
انہوں نے کتابیں پکڑلیں اور نظریں اٹھا کر انکو دیکھا۔
دونوں کی نگاہوں کا تبادلہ ہوا۔
آؤ !! جانچ لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
درد کے ترازو پر ۔۔۔۔۔۔۔
کِس کے غم ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہاں تک ہیں ؟
شِدتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہاں تک ہیں ؟
کچھ عزیز لوگوں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔
پوچھنا تو پڑتا ہے
! آج کل محبّت کی ۔۔۔۔۔۔۔۔
قیمتیں کہاں تک ہیں ۔۔۔۔۔۔ ؟؟
ایک شام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلے آؤ !!
کُھل کے حالِ دل کہہ لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
کون جانے سانسوں کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہلتیں کہاں تک ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
سیکنڈ لے ہزارویں حصے میں وہ یہ آبکھیں پہچان گئے تھے۔وہ آبکھیں جو آج بھی اتنی ہی گہری تھیں۔فرق بس اتنا تھا پہلے یہ انکو کتاب جیسی لگتی تھی مگر اب کسی خوفناک بھول بلھیا حیسی اگر وہ اس میں کھوگئے تو جبھی نکل نہیں پائیں گے۔وہ جاچکی تھی وہاں سے۔
انکی نگاہوں نے دور تک انکا تعاقب کیا ۔
دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے، اب آن ملو تو بہتر ہو
اس بات سے ہم کو کیا مطلب، یہ کیسے ہو، یہ کیونکر ہو
یہ دل ہے کہ جلتے سینے میں، اک درد کا پھوڑا الہڑ سا
نہ گپت رہے، نہ پھوٹ بہے، کوئی مرہم ہو، کوئی نشتر ہو
ہم سانجھ سمے کی چھایا ہیں، تم چڑھتی رات کی چندرما
ہم جاتے ہیں، تم آتے ہو، پھر میل کی صورت کیونکر ہو
اب حسن کا رتبہ عالی ہے، اب حسن سے صحرا خالی ہے
چل بستی میں بنجارہ بن، چل نگری میں سوداگر ہو
وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں، وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں
اب سکھ کے سپنے کیا دیکھیں، جب دکھ کا سورج سر پر ہو
اب انشاء جی کو بلانا کیا، اب پیار کے دیپ جلانا کیا
جب دھوپ اور چھایا ایک سے ہوں، جب دن اور رات برابر ہوں۔
*************************
اس وقت سب کھانے کے ٹیبل پر موجود تھے اور خلاف معمول آج خاموشی حد سے زیادہ۔
زہرام گھر آچکا تھا اور اپنے کمرے میں آرام کررہا تھا۔
کھانے سے فارغ ہوکر ملک اقتتدار نے گفتگو کا آغاز کیا۔
اس جمعہ کو نکاح ہے ان دونوں کا۔انکا اشارہ زرنیش اور شموئل کی طرف تھا۔
اس موضوع پر ایک بحث چھیڑ گئی تھی وہاں۔زرنیش تو برتن اٹھا کر وہاں سے جاچکی تھیں۔
عجوہ بیگم کی نظر اپنے بیٹے پر ہڑی جو آج بہت خاموش تھا یا کسی اور جہاں کا باسی بنا ہوا تھا۔
******************
اس وقت وہ بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوئیں آنکھوں پر بازو رکھے ہوئے تھا اسکے اس حرکت کا مطلب تھا اسے کوئی بات بہت پریشان کررہی ہے اور وہ اب تھگ گیا ہے۔
"شموئل" عجوہ بیگم نے اسے پکارا۔
انکی پکار کر وہ سیدھا ہوا۔
کیا بات ہے جو میرے بیٹے کو تنگ کررہی ہے۔انھوں نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
کچھ نہیں امی!وہ انکی گود میں سر رکھ کر بولا۔
ماں ہوں تمہاری تب بھی تمہاری بات سمجھ جاتی تھی جب تم بول بھی نہیں سکتے تھے اب مجھ سے چھپا رہے ہو۔عجوہ بیگم اس کے بالوں میں مسلسل انگلیاں چلاتے ہوئے بول رہیں تھیں ۔
امی!آپکو پتہ ہے آج جس لڑکی کی جان بچاتے ہوئے زہرام کو گولی لگی وہ مشعل تھی۔
مشعل؟انھوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
امی مشعل بھول گئیں آپ؟اس نے حیران کن لہجے میں پوچھا۔
میں مل چکی ہوں اس سے کیا۔ذہن میں نہیں آرہا میرے۔وہ ناسمجھی سے بولیں انکا دھیان اس طرف نہیں گیا تھا۔
مشعل مصطفی چاچو اور کنزہ چچی کی بیٹی ۔وہ بولا
اسکی بات سن کر انکی چلتی ہوئی انگلیاں رک گئیں۔
کیا بولا تم نے۔انھوں نے تصدیق کرنے کے لیے پوچھا ۔
میں نے وہی بولا جو آپ نے سنا۔وہ سیدھا ہوکر بولا۔
آج میں نے انکو دیکھا تھا ہاسپیٹل میں۔امی وہ بہت بدل چکی ہیں۔انھوں نے مجھے بھی نہیں پہچانا۔وہ انکو مزید بات بتاتے کوئے بولا۔
اسکی بات سن کر وہ خاموش ہوگئیں۔
کیسی تھی وہ؟؟کچھ دیر بعد انھوں نے پوچھا۔
امی وہ پہلے جیسی نہیں رہیں انکے لہجے میں اب وہ شوخ پن نہیں رہا۔
امی آپکو پتہ ہے کنزہ چچی کو اکیلے ادھر ادھر آنے سے گھبراہٹ ہوتی تھی ۔امی وہ بہے بہادر ہوگئیں ہیں۔انکو ڈر نہیں لگتا۔امی جو چیز نہیں بدلی وہ ہے انکے لہجے کی مٹھاس انکا لہجہ آج بھی اتنا ہی شیریں ہے۔
وہ بچوں کی طرح بول رہا تھا۔انکا چہرہ سرد تھا۔
امی اس دن کیا بات کوئی تھک۔انکا قصور کیا تھا؟؟اس نے بچوں کی طرح پوچھا۔
وہ اس گھر کا سگا بہٹا نہیں تھا۔عجوہ بیگم سے زیادہ وہ کنزہ بیگم سے اٹیجڈ تھا۔
اسکا قصور بس اتنا تھا کہ وہ معصوم تھی۔
امی ایک اور بات بتاؤں۔کچھ یاد آنے کر اس نے کوچھا۔
ہممم۔وہ بولی۔
زہرام کنزہ سے محبت کرتا ہے۔وہ بولا
عجوہ بیگم اسکا چہرہ دیکھنے لگیں۔وہ قدرت کے نظام پر حیران پریشان تھیں
***********************
وہ راکنگ چیئر ہر بیٹھی دوپہر والے حادثے کو سوچ رہیں تھیں ۔
وہ کتنا اطمینان سے زندگی گزارارہا اسے کوئی ملال نہیں اسکو راتوں کی نیند کیسے آتی کےکیا اسے مشعل کی یاد آتی ہے۔ انکے ذہن میں بہت سے سوال گردش کررہے تھے جنکے جواب انکے ہاس موجود نہ تھے۔
تمہاری آنکھیں آج بھی اتنا ہی گہری ہیں جتنی پہلے تھیں۔ مصطفی سوچتے ہوئے بولا اس نے ایک نظر اپنے پہلو میں سوئی یوئی بیوی کو دیکھا۔
میں کیوں سوچ رہا یوں اس بے وفا کے بارے میں۔ وہ بےوفا تھی۔انھوں نے سوچا یا شاید وہ اپنے دل کو یقین دلارہا ہو ہاں وہ بے وفا تھی۔
**************************
کہا ،!! بتلاؤ نہ سچ سچ تمہیں ہم سے محبت ہے ؟
کہا ،،!! یہ پوچھنے والے,,,, اجی تم کون ہوتے ہو ؟
کہا ،!!! آنکھوں میں یہ بیداریء شب کی اداسی کیوں ؟
کہا،،!!! یہ دیکھنے والے ،،،اجی تم کون ہوتے ہو ؟
کہا،،!! خوابوں خیالوں میں تمہارا ہی بسیرا ہے ,,,,
کہا،!! یوں سوچنے والے ،،،اجی تم کون ہوتے ہو ،،؟
کہا،،!! جب دل کے من مندر کے تم ہی دیوتا میرے ،،،
تو بولے پوجنے والے ،،،،اجی تم کون ہوتے ہو ،؟
کہا،،،!!! یہ رازدل اپنا زرا ہم کو بھی بتلاؤ،،
کہا،،،!! یہ کھوجنے والے ،،،اجی تم کون ہوتے ہو ؟
ملا جب بعد مدت کے کہا شکوے گلے چھوڑو ،،،
کہا،،!! دل توڑنے والے ،،اجی تم کون ہوتے ہو؟
تیری یادوں کے سب موسم میں پیچھے چھوڑ آئی ہوں ،،
یہ محبت بھی کتن عجیب احساس ہے نہ ۔ہر کسی جو اپنے اندر جکڑ لیتا ہے۔پہلے محبت صرف ایک افسانہ لگتا تھا کتابی باتیں لگتی تھیں مگر شاید یہ افسانہ نہیں یہ حقیقت ہے۔ہاں مجھے بھی محبت ہوگئی ہے ۔پہلی نظر کی محبت۔اس کا قلم چلتے چلتے رک گیا۔
کسی اجنبی کی دستک ہر اسکے دل نے دروازے کھول دیے تھے۔کیا ہوگا مشعل کی محنت کا انجام۔
کیا یہ مجبت اسکی تمام تر محرومیوں کو پورا کرے گی یا پھر اسکو تباہ کرے گی۔
*********************
اس وقت وہ اکیلا ٹیرس پر موجود تھا ماں کے سامنے حال دل بیان کرکے وہ پرسکون ہوچکا تھا۔
اچانک اسے اپنے کندھے پر نرم سا لمس محسوس ہوا
پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسکی دشمن جان تھی جس کو دیکھ کر اس کا موڈ بگر گیا اور وہ وہاں سے جانے لگا تھا۔ جب اس نے اسکا راستہ روکا۔
دو منٹ میری بات سنو گے ہلیز۔زرنیش نے منت بھرے لہجے میں کہا۔
اسکی بات سن کر اس نے اپنے دونوں بازو باندھ لیے اور ناگواری سے اسے دیکھنے لگا ۔
آپ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں اس نے ایک ہاتھ اہنے دوسرے بازو پر رکھتے ہوئے کہا جو حرکت نہیں کرسکتا تھا۔
تم سے شادی اور وہ بھی میں۔ہاہا اچھا نذاق ہے۔
زرنیش خان میں تم سے اس قدر نفرت کرتا یوں جب جب تمہارا چہرہ میرے سامنے آتا ہے نہ میرا دل کرتا ہے میں اس دنیا کو ختم کردوں یا پھر خود کو۔۔
اس شادی میں میری کوئی مرضی شامل نہیں یہ برباسی ہے تمہاری اور میری۔
یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا مگر وہ وہیں بیٹھ گئی۔
کیا میں اتنی بڑی ہوں۔روتے یوئے اس نے خود سے سوال کیا۔
*****************