اففف ابھی مجھے گئے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا اور آپ نے یہ حالت کرلی ۔وہ ملک فرحان کو یخنی چمچ سے پلاتے ہوئے بولی۔
ہاہا۔ایسی کوئی بات نہیں وہ ہنستے یوئے بولے۔
السلام علیکم !!مصطفیٰ کمرے میں داخل ہوئے اسلام کیا۔
وعلیکم السلام !ملک فرحان سیدھے ہوتے ہوئے بولے ۔
ارے لیٹے رہیں ۔انکو سیدھا ہوتے ہوئے دیکھ کر مصطفی جلدی سے بولا اور انکے پاس بیٹھ گیا ۔
کنزہ کھڑی ہوگئی ۔مصطفی نے اسے ایک نظر دیکھا۔
کچے سیب کا انارکلی فراک پہنے جس کے کناروں اور گلے پر پرل کا خوبصورت کام ہوا تھا۔بالوں کو کرل کرکے ایک سائیڈ سے آگے کیے ہوتے تھے اور نیچرل میک اپ میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
کھانا لگاؤں آپکے لیے ؟؟اس نے ہوچھا۔
ارے ہاں بھئی لگاؤ پہلی دفعہ میرا بیٹا میرے گھر آیا ہے۔ملک فرحان خوشدلی سے بولے۔
مصطفی انکی طرف دیکھ کر مسکرایا۔
جی اچھا۔وہ یہ کہہ کر نکل گئی۔
اس کے جانے کے بعد وہ دونوں باتوں میں مصروف ہعگئے۔
*************************
بیٹا ٹھیک طریقے سے کھانا کھایا؟؟ملک فرحان نے پوچھا ۔
جی چاچو۔بہت لذیذ تھا کھانا۔وہ بھی بولا۔
ک
اسکی بات سن کر وہ مسکرائے اور پھر کنزہ کو مخاطب کرکے بولے۔
بیٹا۔کیا سوچ رہی ہو؟؟
۔وہ حو پہلے ہی سوچ رہی تھی کہ وہ یہاں رہنے کی اجازت کیسے لے گی ۔ملک فرحان کی آواز سن کر اور پریشان ہوگئی ۔
وہ بابا میں سوچ رہی تھی کیوں نہ آج یہی پر رک جاؤں۔اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
ارے کوئی ضرورت نہیں جاؤ اپنے گھر یہاں پر قاسم ہے نہ میرے پاس۔وہ اسے ڈانٹتے ہوئے بولے اور ملازم کا حوالہ دیا۔
چاچو۔اگر رکنا چاہتی ہے تو رک جائے ۔مصطفی بولس
ارے نہیں اپنے گھرجائے بے شک صبح دوبارہ واپس آجائے ۔انھوں نے سہولت سے منع کرتے ہوئے کیا ۔
ٹھیک ہے جیسا آپ کہیں ابو وہ ہار مانتے یوئے بولی۔اسے معلوم تھا کہ بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔
************************
ویسے گاجر کا حلوہ بہت کمال کا تھا بیگم صاحبہ۔مصطفی بیڈ پر بیٹھتے یوئے بولس ابھی کچھ کی دیر پہلے وہ دونوں گھر پہنچے تھے۔
ہممم شکریہ ۔وہ اپنے رات کے کپڑے نکالتے ہوئے بولی اور باتھ روم میں چلی گئی۔
مصطفیٰ جانتا تھا اب اسکو اسکا موڈ کیسے ٹھیک کرنا ہے۔
کنزہ جیسے ہی چینج کر کے نکلی۔سامنے کا منظر دیکھ کر حیران رہ گئی۔بیڈ پر بنا خوبصورت گلاب کی پتیوں کا دل اوراس کے اردگرد چاکلیٹس بکھری ہوئیں اور ایک پنک کلر کا بڑا سا ٹیڈی بیئر پڑا ہوا۔
کنزہ مسمائر ہوکر یہ سب دیکھ رہی تھی۔ جب اسکو اہنے کندھے پر دباؤ محسوس ہوا۔اس نے مڑ کر دیکھا تو مصطفی آبکھوں میں محبت لیے اسے دیکھ رہا تھا۔
یہ کیا ہے سب؟؟؟اس نے ہوچھا۔
آج میں تمہیں سرپرائز دینا چاہتا تھا اسی لیے یہ سب کیا۔اس نے بتایا۔
تھینک یو یو آر آ بیسٹ ہزبینڈ ایور۔وہ خوشی سے بولی۔
تھینکس فار کمپلیمنٹ ۔وہ سر کو ہلکا سا خم دے کر بولا۔
*******""""*"*******
کیا سوچ رہی ہیں عجوہ بھابھی۔ نشا نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔
کچھ نہیں۔بس ایسے ہی۔وہ مسکرائیں۔
نشا انکے سامنے بیٹھ گئی۔
اس وقت وہ دونوں کچن میں موجود ٹیبل پر بیٹھی ہوئیں تھیں۔یہ انکا اکثر کا معمول تھا کہ وہ دونوں اور کنزہ بیٹھ کر گپے لگایا کرتے تھے مگر آج کنزہ موجود نہ تھی تو یہ دونوں آپس میں بیٹھی باتیں کررہیں تھیں۔
کیا ارشاد بھائی نے کوئی بات کی؟؟نشا نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
ارے نہیں ایسی کوئی بات نہیں ۔اس کے غلط اندازے پر عجوہ جلدی سے بولی۔
تو؟؟؟اس نے دوبارہ پوچھا۔
وہ میں کنزہ کے بارے میں سوچ رہی تھی۔عجوہ اتنا کہہ کر خاموش ہوگئی۔
کیا کوئی ان بن ہوئی ہے بھابھی کنزہ سے لیکن وہ تو اتنی اچھی ہے۔نشا بیگم کنزہ حمایت میں بولیں۔
ارے نہین اللہ نہ کرے کبھی ایسا کچھ ہو اور تم اپنے سے اندازے لگانا بند کرو بتاتی ہوں۔وہ اسے ڈانٹتے ہوئے بولیں۔
جانتی ہو ساریہ مصطفی سے محبت کرتی ہے۔جب ہمارے نکاح پر مصطفی نے کنزہ جو پرپوز کیا تھا تو ساریہ کے جہرے کے زاویے دیکھ کر مجھے خوف آرہا تھا۔پتا نہیں وہ کیا کرے گی۔اگر اسے کوئی چیز پسند آجائے نہ تو وہ اسکو حاصل کرنے کے لیے ہر حد تک جاسکتی ہے تو پھر یہ تو اسکی محبت ہے۔
ساریہ کی خاموشی کسی طوفان کے آنے کی نوید سنارہی ہے اور اس طوفان کی زد میں صرف برباد کنزہ ہوگی۔عجوہ خوفزدہ لہجے میں بولیں۔انکی آواز کی لڑکھراہٹ کنزہ سے انکی محبت کو واضح کررہی تھی ۔
بھابھی کچھ نہیں ہوگا ۔وہ بھی ہماری کزن خالہ زاد ہے۔کیا پتہ سمجھ گئی ہو اسی لیے خاموشی سے یہاں سے چلی گئی ہو۔نشا انہیں دلاسہ دیتے ہوئے بولی مگر وہ خود بھی اندر سے خوفزدہ تھی۔
عجوہ بیگم خاموش تھیں ۔اتنے میں باہر سے ڈور بیل کی آواز آئی۔
لگتس ہے مصطفی بھائی اور کنزہ آئے ہیں خود کو نارمل رکھیں اور باہر آئیں۔وہ خود بھی اٹھی اور عجوہ بیگم کو بھی اٹھایا۔
السلام علیکم بھابھی !کنزہ عجوہ بیگم کے گلے لگتے ہویے بولی۔
وعلیکم السلام! آگئی مصطفی نہیں آیا۔وہ اس سے ملتے ہوئے بولی۔
ارے کیوں نہیں آئے انکی کال آگئی تھی تو وہ باہر رک گئے۔وہ نشا بیگم سے مل رہی تھی اور ساتھ ساتھ جواب دے رہی تھی۔
میرے بغیر خوب مخفلیں لگ رہیں ہیں۔کنزہ کمر پر ہاتھ جماۂے مصنوعی غصے سے بولیں۔
ہممم۔نشا بیگم نے سر ہلایا وہ موڈ میں آگئیں اور دوبارہ بولیں رج رج کے برائی کی ہے تمہاری۔
عجوہ بیگم ہلکا سا مسکرائیں۔
اووہ!لیکن صد افسوس آپ لوگوں کو زیادہ موقع نہیں ملا کل سے تو میں بھی یہی ہونگی پھر کس کی برائی کرنی۔کنزہ بیگم بھی مزے سے بولیں۔
اوہو!!!کوئی نہیں عجوہ بھابھی کی کریں گے۔نشا آنکھ دبا کر بولیں اور مسجرادی۔
عجوہ بیگم نے مصنوعی آبکھیں دیکھائیں۔جس سے نشا بیگم ایک دم خاموش ہوگئیں۔
ہاہاہا۔نشا بیگم کو دیکھ کر کنزہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔
عجوہ بیگم بھی مسکرادیں۔
اللہ ہمارا ساتھ ایسا ہی قأم رکھنا عجوہ بیگم۔نے دل ہی دل میں کہا۔
**********************
وقت کا پتا ہی نہیں چلا کتنی تیزی سے گزرا وقت ایسے تھا جیسے ہر وقت ہوا کے گھوڑوں ہر سوار ہوتا ہے۔ایسا لگتا تھا کہ ابھی کل ہی انکی شادی ہوئی تھی اور آج تین سال گزر گئے۔
مشعل میری جان میرے بچے چپ ہوجا۔وہ اپنی ایک مہینے کی بیٹی کو گودمیں اٹھائے سہلارہی تھی۔جو پچھلے آدھے گھنٹے سے رو رہی ہے۔
ارے ابھی تک رورہی ہے لاؤ سے مجھے دو۔ بھوک تو نہیں اسے۔عجوہ بیگم کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولیں۔
نہیں بھابھی پتا نہیں اسے کیا ہوا ہے روتی جارہی ہے ۔کنزہ مشعل کو عجوہ بیگم کو دیتے ہوئے بولی۔
شموئل آگیااسکول سے؟؟
نہیں ابھی تک تو نہیں آیا شاید راستے میں ہو۔وہ مشعل کو سہلاتے ہوئے بولی۔
ہمممم اور زہرام کہاں ہے۔اس نے کمرہ سمیٹتے ہوئے کہا۔
مشعل ابھی بھی رورہی تھی۔
لائیں اسکو دیں آپ بلاوجہ پریشان ہورہی ہیں کنزہ مشعل کو لیتے ہوئے بولیں۔
ارے میری بیٹی ہے میں کیوں ہونے لگی ہریشان۔وہ اسے پیار کرتے ہوئے بولیں۔
ہمممم آپ ہی کی امانت ہے یہ۔کبزہ بھی بولی ۔
ہاں میرے زہرام کی دلہن ہے یہ میری بیٹی۔عجوہ بیگم اسے محبت سے دیکھتی ہوئیں بولیں۔
وہ بھی مسکرادی۔
مجھے لگتا ہے اس کے پیٹ میں درد ہے رکو میں دوائی دیتی یوں تمہیں ۔وہ مشعل کو کنزہ کو پکڑا کر ویاں سے چلی گئیں۔
*****************
وہ آفس سے تھکا ہوا آیا ۔
جیسے ہی وہ اپنے کمرے میں داخل۔ہوا اسکی نظر کنزہ اور اس کے ساتھ لگی ہوئی مشعل پر پڑی ۔
ناجانے وہ اسےسلاتے کوئے کب خود نیند کی وادی میں اترگئی تھی اسے خود بھی خبر نہ ہوئی۔
وہ بیڈ پر بیٹھ کر اسکا جائزہ لیبے لگا۔
بکھڑے بال جیسےصبح سے کنگھی نہ کی ہو۔شکن آلود کپڑے۔آنکھوں کے گرد ہلکے اسکی شب بیداری بیان کررہی تھی۔اسکی یہ حالت دیکھ کر اسکا دل مایوس ہوگیا۔
اچانک کنزہ کی آنکھ کھل گئی مصطفی کو اپنے سامنے پاکر وہ پل بھر کے لیے گھبراگئی۔
آپ!آپ کب آگئے۔وہ سیدھی ہوتی ہوئی طولی اس نے مشعل کو آرام سے اس نے بیڈ پر لٹایا۔
ہممم ابھی آیا وہ سادے سے انداز میں بولا۔
میں پانی لائی آپکے لیے۔وہ بولی اور کمرے سے چلی گئی۔
اس کے جانے کے بعد اس نے ٹائی اتاری اور ایزی ہوا ایک نظر سوتی ہوئی اپنی بیٹی کو دیکھا اور مسکرایا۔
"میری زندگی"اس نے اس کے ماتھے ہر بوسہ دیا ۔
اتنے میں اسکا فون بجا۔
اس نے فون اٹھا کر دیکھا تو ایک مسیج تھا۔
مسیج پڑھ کر اس نے فون سائیڈ پر رکھا۔
اتنے میں کنزہ پانی لے آئی۔
یہ لیں۔کھانا لگاؤ آپکے لیے ۔اس نے اسے پانی دیتے یوئے کہا ۔
نہیں ایک دوست آرہا ہے اس کے ساتھ جارہا ہوں۔وہ عام سے لہجے میں کہتا ہوا اٹھا۔
اچھا۔۔۔وہ چہرے پر آئے بالوں کو ہٹاتے ہوئے بولی۔
کنزہ کپڑے ہی بدل لیتی تمہیں پتا ہے نہ تمہیں فریش دیکھ کر میں خود فریش ہوجاتا ہوں۔وہ شکوہ کن انداز میں بولا۔
کنزہ اسکی بات سن کر شرمندہ کوگئی۔
وہ مشعل بہت تنگ کررہی تھی اس وجہ سے ۔اس نے اپنے حق میں جواز پیش کیا۔
بس رہنے دو۔وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔
پیچھے وہ اکیلی رہ گئی۔اس کے دل نے مختلف خدشات پیش کرنے شروع کردیے۔وہ سارے خدشات جو بالائے طاق رکھ کر اپنی بیٹی طرف بڑھی۔
************************
مصطفی ! ویسے یہ پلیس کتنی اچھی ہے نہ۔وہ اس وقت لاہور کے ایک بہترین ہوٹل میں موجود تھے۔ساریہ نے کمنٹ پاس کیا۔
ہممم ۔اس نے بھی تائید کی۔
ویسے یہ ڈنر کس خوشی میں۔مصطفی نے دونوں ہاتھوں کو ملا کر ہوچھا۔
ویسے ہی بھئی۔ ہم اتنے اچھے فرینڈز ہیں تو اچھی فرینڈشپ کی خوشی میں ہی یہ ٹریٹ سمجھ لو۔وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
مصطفی نے اسکا مکمل جائزہ لیا۔
ٹی پنک کلر کے پلین سوٹ پر پستہ رنگ کا شیفون کا دؒوپٹہ اوڑھے چہرے ہر نیچرل میک اپ اور بالوں کو کرل کیے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
مصطفی اسکی خوبصورتی میں گم ہوگیا۔
اس وقت اس کے دل و دماغ سے کنزہ مکمل طور پر نکل گئی تھی اس وقت اس کا دل دماغ صرف ساریہ پر مرکوز تھا۔
دوسری جانب ساریہ دل ہی دل میں خوش ہورہی تھی کہ بہت جلد وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگی۔
لیکن اتنی جلدی ہوگی یہ اس کے وہم۔و گماں میں بھی نہیں تھا۔
**"""""""****************
مصطفی کو اب ساریہ کے ساتھ گھومنا پھرنا اچھا لگنے لگا تھا وہ مکمل طور پر کنزہ اور مشعل کو نظر انداز کررہا تھا۔
کنزہ مصطفی کے اس رویے پر اس قدر پریشان رہنے لگی تھی اس نے اپنی صحت کا خیال رکھنا ہی چھوڑدیا۔وہ کافی کمزور ہوچکی تھی مگر مصطفی کو وہ نظر نہیں آتی تھی۔
صبح صبح کام سے فارغ ہوکر وہ جلدی سے شاور لیا۔پھر اس نے مشعل کو پنک کلر کا باربی فراک پہنایا جس نے اس بھوری آنکھوں والی گڑیا کی معصومیت کو چار چاند لگادیے۔
پھرخود بھی جلدی سے تیار ہوئی۔
ریڈ کلر کے انارکلی فراک میں جس کے گلے پر گولڈن خوبصورت کام ہوا تھا ساتھ میچنگ جیولری پہنے اور نیچرل میک اپ کیا ہوا تھا مگر لپ اسٹک شیڈ ڈارک ریڈ کلر کا لگایا تھا جو اسکی دودھیا رنگت کو اور ابھارہا تھا۔
وہ کب سے مصطفی کا انتظار کررہی تھی ۔آج انکی شادی کی تیسری سالگرہ تھی اور اسے مکمل طوع پر یقین ر
تھا کہ مصطفی آج جلدی گھر آئیں گے وہ تو یہ سوچ سوچ کر ہی خوش ہورہی تھی کہ مصطفی جب اسے ایسے تیار دیکھے گا تو وہ بہت خوش ہوگا۔
مصطفی کا خوشی سے جگمگاتا چہرہ اس کے ذہن کے پردوں پر لہرارہا تھا اور اسکی خوشی میں چارچاند لگارہا تھا۔ ۔
آئے کیوں نہیں ابھی تک۔اس نے گھڑی کی طرف نظر دوڑاتے ہوئے دیکھا جو رات کے نو بجارہی تھی۔
عموما سات بجے تک آجاتے ہیں اور اس خاص دن ہر نو بجا دیےضرور کوئی سپرائز ہلان کیا ہوگا ۔ایک دم یہ سوچ اس کے ذہن میں آئی۔اس سوچ نے افجو اور ھوش جردیا۔
انتظار کرتے کرتے کب وہ نیند کی وادی میں اتر گئی۔اسے پتا ہی نہیں چلا۔
********************
ہیپی برتھ ڈے ڈیئرساریہ۔مصطفی نے تالیاں بجاتے یوئے اسے وش کیا۔
اوہ مصطفی تھینک یو سو مچ!!وہ کیک کٹ کرتے کوئے بولی۔
مائی پلیئر۔اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر سر کو خم دیتے ہوئے کہا۔
اس وقت وہ پی دی ہوٹل میں موجود تھے۔
ہممم میرا گفٹ ساریہ نے ایک ادا سے ہاتھ آگے کرتے کوئے اپنا گفٹ مانگا۔
ہممم گفٹ گفٹ تو میں کوئی لایا نہیں۔وہ دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈالتا ہوا بولا۔
اس کی بات سن کر ساریہ نے منہ بسور لیا۔
لیکن میرے پاس اسکا ایک حل ہے۔وہ سوچے ہوئے بولا۔
کیا؟؟اسنے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر پوچھا۔
وہ یہ کہ ہم ابھی جائیں گے اور بہت ہی خاص جگہ سے شاپنگ کریں گے ڈنر اینڈ لانگ ڈرائیو پر جائیں گے۔مصطفی پلان بتاتے ہوئے بولا ۔
واہ جناب آپ تو پورا پلان کیے بیٹھے ہیں وہ مسکرا کر بولی۔
اسلی بات سن کر وہ مسکرایا۔
وہ بھول چکا تھا کہ آج اسکی شادی کی سالگرہ ہے اور اسکی بیوی گھر اس کے انتظار میں بھوکی بیٹھی ہوئی ہے
********************
ابھی تک آئے کیوں نہیں۔وہ بےچینی سے چکر کاٹتے ہوئے بولی وہ کب سے فون ٹرائے کررہی تھی مگر بےسود۔اس نے آفس کا نمبر ڈائل کیا تو مصطفی کی سیکرٹری نے اٹھایا۔
السلام علیکم!میں مسز مصطفی بات کررہی ہوں۔کنزہ نے اپنا تعارف کروایا۔
اوہ! وعلیکم السلام ! ہاؤ کین آئی ہیلپ یو۔خوشدلی سے جواب ملا۔
کیا مصطفی کی کوئی خاص میٹنگ تھی جس کی وجہ سے وہ اب تک نہیں آئے؟؟کنزہ نے لوچھا۔
نومیم مصطفی سر تو پانچ بجے کے چلے گئے ہیں ساریہ میم کے ساتھ آج انکی سالگرہ تھی نہ۔اس نے بتایا
ساریہ میڈم کے ساتھ۔وہ قدرے حیرانگی سے بولی۔
جی وہ اکثر آفس آجاتی ہیں اوت وہ دونوں چلے جاتے ہیں۔سیکرٹری نے اسے بتایا۔
فون کٹ گیا ۔اکثر ساریہ کے ساتھ چلے جاتے ہیں۔آج بھی وہ اسکے ساتھ ہی ہیں مطلب وہ ہماری شادی کی سالگرہ بھول گئے۔
کتنا اہتمام کیا تھا میں نے کتنے دل سے تیار ہوئی تھی مگر نہیں میری کوئی فکر نہیں وہ ساریہ کے ساتھ چلے گئے۔آنسو مسلسل ٹوٹ کر گالوں پر گر رہے تھے اور وہ خود بھی زمیں پر بیٹھتی جارہی تھی۔۔۔
اسکا دل کسی خطرے کا اشارہ کررہا تھا۔
کچھ منٹ بعد وہ اٹھی وضو کیا اور اپنے رب کے حضور دو رکعت نماز حاجت ادا کی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔
"اے اَللّٰهُﷻ آپ ہی دلوں کے حال بہترین طریقے سے جانتے ہیں۔یااللہ میں تو نادان ہوں۔بےوقوف ہوں کچھ بھی نہیں جانتی لیکن اللہ آپ تو سب کچھ جانتے ہیں نہ۔یااللہ اگر یہ کوئی امتحان ہے آپکی طرف سے تو اللہ مجھے اس امتحان میں آپکا ساتھ چاہیے۔مجھے تنہا مت چھورئیے گا۔"
اس نے دعا مانگ کر ہاتھ چہرے ہر پھیرے اب وہ قدرے پرسکون تھی کیونکہ اس نے اپنے تمام معاملات اپنے رب پر چھوڑدیے تھے۔
*****"""""""*********
ویسے ماننا پڑے گا تمہاری چوائس کمال کی ہے۔ساریہ کھانا کھاتے ہوئے بولی۔
اس کا اشارہ شاپنگ کی طرف تھا۔
بس دیکھ لو۔اس نتلے بھی اترا کر جواب دیا۔
ویسے ساریہ شادی کا کوئی پلان ہے کہ نہیں اس نے کھانا کھاتے کوئے بے نیازی سے ہوچھا۔
نہیں۔۔ساریہ مختصر سا بولی
کیوں؟؟مصطفی نے حیرانگی سےپوچھا۔
جب سے اس دل میں تم آکر بسے ہو۔تب سے اس دل نے ہر کسی پر دروازے بند کردیے۔وہ سنجیدگی سے بولی۔
مصطفی اس کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا اس نے اسکی باتوں کو سیریس لے لیا۔
ساریہ دل ہی دل میں خوش تھی کہ اسکی چال کامیاب ہوگئی۔اس کا تیر ٹھیی نشانے پر لگا ہے کہ اس کے سامنے بیٹھے کوئے شخص کو وہ اپنے جال میں اس قدر پھنس چکا ہے کہ اسے اپنا خاص دن بھی یاد نہیں رہا۔
ہاہا ہا۔جسٹ جاکنگ وائے یو آر سو سیریس۔ساریہ اس کے سنجیدہ چہرے کو دیکھ کر ہنسی۔
مصطفی ایک دم ہوش میں آیا۔
چلیں کافی ٹائم ہوگیا ہے ۔وہ یہ کہتے کوئے اٹھا اور باہر کی طرف نکل پڑا اس کے پیطھے عہ بھی شاطرانہ مسکراہٹ لے کر چل پڑی۔
***********************
گھڑی اس وقت رات کے گیارہ بجا ریی تھی ہورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا وہ دبے پاؤں گھر میں داخل ہوا۔
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے اپنے کمرے کی جانب بڑھا۔
کمرے کی لائٹ جلی ہوئی تھی جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا اسکی نظر سوتی کوئی کنزہ ہر پڑی جو ناجانے کب اس کے انتظار میں بغیر کھانا کھائے سوگئی تھی۔
انتظار بھی نہیں کرسکتی تھی میرا۔وہ طنزیہ بول کر باتھ روم کی جانب بڑھ گیا۔
یہ دیکھے بغیر کے وہ اسکے انتظار میں کتنا تیار ہوئی تھی۔
***********************
اس وقت سب ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھے سوائے فارا بیگم اور اقتتدار صاحب کے ۔
وہ دونوں رات کو ہی کسی دوست کی شادی میں شرکت کی غرض سے دوسرے شہر گئے تھے انکی واپسی ایک ہفتےبعد کی تھی۔
نشا بیگم بھی رات کو ہی لوٹی تھیں اپنے میکے سے۔
ابھی وہ سب موجود ہی تھے کہ کنزہ بھی آکر عجوہ بیگم کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی ۔صبح سے وہ مصطفی کو نظرانداز کررہی تھی جسے مصطفی نے ابھی نوٹ کیا۔
عجوہ بیگم مے کنزہ کو دیکھا جیسے نظروں ہی میں ہوچھ رہی ہوں مصطفی کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھی۔
نشا بھابھی آپ کب لوٹیں۔ اس نے عجوہ بیگم کی نظروں کو نظر انداز کر کے نشا بیگم سے پوچھا۔
رات کو ہی لوٹی ملاقات نہیں ہوسکی۔اوہ رکو ایک منٹ ۔یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئیں اور جب لوٹیں تو انکے ہاتھ میں ایک خوبصورت سا لکڑی کا ہینڈ میڈ باکس تھا۔
یہ لو تمہارا گفٹ ہیپی تھرڈ اینورسری۔کل نہیں دے پائی۔وہ اسے وش کرتے ہوئے بولا۔
شکریہ بھابھی۔اس نے خوشدلی سے قبول کرتے ہوئے کہا۔
مصطفی ایک دم حیران ہوگیا اور اسکو یاد آیا کل اسکی اینوسری تھی اور جب وہ لوٹا تو کنزہ نے اسکا پسندیدہ لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور اس نے اسکو نظر انداز کیا اور اس وجہ سے اب وہ ایسا برتاؤ کررہی تھی۔
اوہ شٹ!مجھ سے بڑا کوئی اسٹوپڈ نہیں ہوگا۔اس نے آہستہ سے کہا
کنزہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ اس کو ہی دیکھ رہا تھا۔
اس نے جلدی سے نظروں کا رخ بدلا اور وہاں سے مشعل کا بہانہ کرکے چلی گئی۔
مصطفی اسکو حاتا دیکھتا رہ گیا۔
*****************
آہم آہم!! ابھی وہ مشعل کو سیدھالٹا کر اٹھی تھی۔جب اسے پیچھے سے آواز آئی۔
اس نے مڑ کر دیکھا تو مصطفی مسکرا رہا تھا ۔
اس نے منہ پھیر لیا۔
نارض ہو؟اس نے پوچھا۔
میں کیوں ناراض ہونے لگہ یہ حق تو آپکو ہی حاصل ہے جب چاہے جس بات پر بھی ناراض ہوجائے ۔وہ رندھے ہوئے لہجے میں بولی۔
انسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشس کرتے ہوئے بولی
سوری نہ۔۔وہ اس کے سامنے آکر کان پکڑتے ہوئے بولا ۔
آپ ہماری اینورسری بھول گئے ۔مجھے کوئی بات نہیں کرنی وہ اسے پیچھے دکھیل کر باہر چلی گئی۔
مصطفی سیک گہرا سانس لے کر بس اسے جاتا دیکھتا رہ گیا۔