نیلے آسمان پر شاہ خاور حکمران تھا۔دور کہیں سے سفید روئی کے گالوں کا گروہ اسکی طرف آرہا تھا ۔
۔.اگست کی آخری دوپہر اپنے جوبن پر تھی۔ ہر سو خاموشی تھی۔
خاموش دوپہر میں گھر کے باہر بنے باغیچے میں پھولوں کی کیاری میں بیٹھی وہ کسی اور جہاں کی مکین بنی ہوئی تھی ۔ملازمہ کواٹر میں تھی۔
چہرے کے گرد لپٹا دوپٹہ اس بات کو واضح کررہا تھا وہ ابھی نماز پڑھ کےآئی ہے۔
سفید رنگ کے نرم شیفون کے دوپٹے میں لپٹا چہرہ کسی نور کے ہالے کا مانند لگ رہا تھا
دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا وہ اس کے قریب آگیا اس کو سوچوں میں محو دیکھ کر اس کے ذہن میں ایک شرارت آئی ۔
اس نےمضبوطی سے اسکے کندھے پکڑے اور جھنجھورا
آہ! مصطفی! وہ اسے پیچھے ہٹاتے ہوئے بولی۔
ہاہا میڈم کن سوچوں میں گم تھی ۔وہ اس کے نزدیک بیٹھ کر بولا ۔
کہیں نہیں۔وہ سر جھکا کر گھاس پر اپنی مخروطی انگلی چلاتے ہوئے بولی۔
مصطفیٰ اس کے بغور دیکھ رہا تھا سورج کی کرنوں سے جسکا چہرہ منور ہورہا تھا ۔
نظروں کی تپش محسوس کرتے ہوئے اسنے نگاہیں اٹھا کر دیکھا ۔ وہ اس کی جھیل جیسی سرمائی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا اسکی آنکھیں کسی پراسرار کھائی جیسی تھیں
کیا دیکھ رہے ہو۔اس نے اسکے اسکی جانب دیکھ کر کہا جو اسکی طرف ہی دیکھ رہا تھا ۔
تمہاری آنکھوں کی گہرائی میں جانا چاہتا ہو ۔وہ سنجیدگی سے بولا۔
اسکی بات سن کر وہ مسکرائی اور دوبارہ اسکی جانب دیکھنے لگی مگر مسکراہٹ سمٹ گئی ۔
کشادہ پیشانی پر بکھڑے بال اسے وجیہہ بنارہے تھے ۔
انسان بہت پراسرار ہوتا ہے اسے کوئی نہیں سمجھ سکتا حتٰی کہ وہ خود بھی نہیں۔وہ شمس النہار کی جانب دیکھتے ہوئے بولی جو سفید بادلوں کی اوٹ میں چھپ رہا تھا۔
کن سوچوں میں گم ہو ۔اس نے پوچھا ۔
مجھے اللہ سے اپنا رشتہ جوڑنا ہے اس نے فضا سے کالے رنگ کی تتلی کو جس کے نرم و ملائم پروں پر سفید دھبے تھے اپنی شہادت کی انگلی پر لیتے ہوئے کہا۔
اللہ سے رشتہ ؟؟ وہ تو سب کا ہی ہوتا ہے تم مسلمان پیدا ہوئی ہو اسکی پسندیدہ امت میں تمہارا میرا تو بہت گہرا رشتہ ہے اللہ سے ۔وہ سمجھانے والے انداز میں بولا مصطفی اپنے لفظوں سے اسے قائل کرنے کی کوشش کررہا تھا ۔درحقیقت اسکے پاس جواب نہیں تھا۔
میری دعائیں کھوکھلی ہیں جس کی بنا پر میرا رشتہ بھی رب سےکھوکھلا ہے ۔ وہ تتلی کو انگلی سے اڑاتے ہوئے بولی ۔
مصطفی ناسمجھی سے اسے دیکھ رہا تھا ۔
میں کیا مانگوں اس سے کہ میری دعائیں کھوکھلی نہ رہیں۔سب کچھ تو ہے میرے پاس ۔دولت بہترین کپڑے چاہنے والے کیا مانگوں؟؟
میں چاہ کے بھی نہیں رو پاتی اپنی دعاؤں میں ۔
میں رب سے وہ رشتہ جوڑنا چاہتی ہوں کہ اسکا ہر حکم میرے لیے پتھر پر لکیر بن جائے۔میرے پاس یہ گھر گاری کوئی سہولت موجود نہ بھی ہو تو میرے لب پر سے صرف کلمہ شکر ادا ہو۔
جانتے ہو یہ جو لوگ جھونپڑی اور چھوٹے گھروں میں میں رہتے ہیں نہ ان کا اللہ سےبہت گہرا رشتہ ہوتا ہے ۔وہ غم میں اگر اللہ کو یاد کرتے ہیں تو خوشی میں بھی یاد رکھتے ہیں ۔
اور ایک ہم ہیں ۔اتنا کہہ کر وہ طنزیہ مسکرائی ۔
غم اور مشکلوں میں تو گھر میں درود اور آیت کریمہ کی مخفلیں سجا لیتے ہیں اور خوشیوں میں رب کو بھول کر پارٹیز رکھ لیتے ہیں جس میں سب وہ کام ہوتے ہیں جس سے اس نے منع کیا ہے۔
دیکھو ہر کام میں رب کی رضا شامل ہوتی۔ ضرور اس نے تمہارے لیے بھی کوئی نہ کوئی مقصد رکھا ہوگا ۔بغیر کسی مقصد کے کوئی بھی انسان نہیں ۔تمہارے لیے بھی امتحان ہوگے اور میرے لیے بھی ۔ وہ اسکا ہاتھ تھام کر پیار سے سمجھاتے ہوئے بولا۔
اسکی بات سن کر وہ اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی جہاں اس کے لیے صرف محبت ہی تھی ۔
مصطفیٰ کی نظروں میں اپنے لیے محبت دیکھ کر اس نے دل میں" الحمداللّٰه "کہا اور مسکرادی ۔
**********************************
اس وقت ملک اقتتدار فارا بیگم کے ساتھ لان میں بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ شام کے سائے نیلے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے ۔ہوا کے جھونکے خلا میں اٹکیلیاں کررہے تھے ۔
یہ سماں سب ہی کو اپنا دیوانہ کرلیتا ہے ۔
ملک اقتدار مسکرائے اور اپنی زوجہ کی جانب دیکھا جو ہاتھ میں تھامے کپ کو لبوں کے ساتھ لگا کر موسم سے لطف اندوز ہورہی تھی۔کوئی بھی انہیں دیکھ کر یہ نہیان کہہ سکتا تھا کہ وہ چار بچوں کی ماں ہے جن میں سے سے دو شادی شدہ ہیں۔
اچانک فارا بیگم کی نظر ملک اقتدار پر پڑی جو انہیں دیکھ کر مسکرارہے تھے ایک منٹ کے لیے تو وہ حیران ہوگئیں۔
کیا دیکھ رہے ہیں ۔انھوں نے پوچھا ۔
سوچ رہا ہوں مصطفی اور دائمہ کے فرض سے بھی سبکدوش ہوجاؤ ۔اقتتدار صاحب بولے ۔
دائمہ کا نام سن کر وہ چونک گئیں۔
کیا کہنا چاہتے ہیں آپ۔انہوں نے کسی خدشے کے تحت پوچھا۔
جو تم سمجھ رہی ہو۔ چائے کا کپ میز پر رکھ کر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں باہم ملا کر بولے۔
یوسف اچھا لڑکا ہے۔کچھ منٹ کے توقف کے بعد وہ بولے ۔انداز گہری سوچ والا تھا ۔
یوسف ؟؟ انہوں نے پوچھا ۔
میرے دوست کا بیٹا ہے اچھا لڑکا ہے ۔اچھی جگہ نوکری کرتا ہے اپنا گھر گاڑی ہے ۔وہ تفصیل بتاتے ہوئے بولے۔
انکی بات سن کر فارا بیگم بھی سوچنے پر مجبور ہوگئیں۔
کچھ دیر تک جب فارا بیگم کی طرف سے جواب موصول نہ ہوا تو اقتدار صاحب نے سر اٹھا کر دیکھا۔
ہوا کے جونکے تیز ہوگئے ۔
ان کی آنکھوں میں پانی تھا وہ لان کی طرف دیکھ کر مسکرارہی تھیں ۔
انہوں نے انکی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلایا ۔
کس سوچوں میں ڈوب گئیں ہیں۔اقتتدار صاحب نے پوچھا۔
کہیں نہیں۔وقت کتنی جلدی گزر گیا ۔وہ حال میں لوٹتے ہوئے بولیں ۔
ابھی کل کی ہی بات ہے یہ لان اس کی کلکلاریوں سے گونجتا تھا ۔اسکی اٹکیلیوں ہر مسکراتا ہے ۔پتہ بھی نہیں چلا سردی کب آئی گرمی کب گئی ویسے ہی پتہ نہیں چلا بچپن کب گزرا اور رخصتی کے دن آگئے ۔فارا بیگم ایک ٹرانس میں بول رہی تھیں ۔
ہممممم ۔ اقتتدار صاحب بھی انکی حامی بڑھتے ہوئے بولے ۔
چلیں ٹھیک ہے میں دائمہ سے پوچھوں گی ۔اس کے بعد ہی آپ انکو بلالینا ۔وہ ہاتھ سے چائے کا کپ رکھتے ہوئے بولیں اور اٹھ کر اندر جانے لگی ۔
نارنجی آسمان میں رات کی سیاہی پھیلنے لگی ۔۔۔۔
************************
دھیرے سے دروازہ کھولا دروازے کی آواز نے خاموشی کا سکوت توڑا ۔
کمرے میں گھپ اندھیرا تھا ۔کھڑکیوں پر بھی موٹےپردےگرے ہوئے تھے۔ایسا لگتا تھا جیسے رات کا درمیانہ پہر ہو ۔وہ ہلکے ہلکے سےقدم اٹھاتی کمرے میں داخل ہوئی اور کھڑکیوں سے ہردے ہٹائے جس کے باعث سوتج کی روشنی کمرے میں داخل ہوئی اور سیدھا بیڈ پربیٹھے اس نرم سے وجود پر پڑی جو سر گھٹنوں میں دیے بیٹھا تھا۔
دائمہ ۔کنزہ نے پکارا ۔
مگر کوئی حواب موصول نہ ہوا ۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے پاس آئی اور اسے دوبارہ آواز دی جواب پھر موصول نہ ہوا ۔
اس نے اسکا بازو پکڑا تو اسے یوں لگا جیسے اس نے کسی گرم جلتے ہوئے راڈ کو پکڑلیا ۔
دائمہ تمہیں تو بہت تیز بخار ہے ۔وہ پریشانی سے اسکا چہرہ اوپر کرتے ہوئے کہا۔
چہرہ جیسے ہی اولر ہوا سورج کی کرنیں اس کے چہرے پر پڑی۔
آنکھیں رونے کے باعث سوجھ کر سرخ ہوچکی تھیں۔ناک بھی لال ہوچکا تھا۔لب کپکپا رہے تھے ۔
اسکی حالت دیکھ کر کنزہ کو ایسا لگا جیسے اسکا دل رک گیا ہو ۔
یہ۔۔یہ کیا حالت بنا رکھی ہے ۔کنزہاپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
کی۔کین۔زہ۔وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں اسکا نام پکار کر اس کے گلے سے لگ گئی
کیا ہوا ہے اور یہ کیا حالت بنا رکھی ہے ۔کنزہ اردگرد کا جائزہ لے کربولی ۔
مج۔مجھ۔مجھے ش۔شا۔د۔دی۔نا۔ہی۔کر۔ر۔نن۔ی۔(مجھے شادی نہیں کرنی)دائمہ ٹوٹتی ہوئی سانسوں میں بمشکل الفاظ ادا کرپائی ۔اسکا جسم بخار میں تپ رہا تھا ۔
کنزہ کو اس پر رحم آیا خود سے الگ کرکے اس نے نرمی سے اسکا چہرہ اوپر کیا ۔
کیا کوئی اور ہے ؟؟اس نے محبت سے پوچھا ۔
دائمہ بے یقینی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی ۔
نفی میں صرف سر ہلایا
تو پھر ؟؟اسے انکار کی وجہ سے سمجھ نہیں آرہی تھی ۔
مجھے تم لوگوں سے دور نہیں جانا ہمیشہ یہی رہنا ہے ۔
دائمہ سوں سوں کرتے ہوئے بولی ۔
کیا!!!دائمہ تم پاگل ہو سریسلی تم پاگل یو۔جب فارا تائی کی کال آئی کہ تم خود کو کمرے مہں بند کیے بیٹھی ہو۔ ۔میں سمجھی پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے ۔اوہ گاڈ تم واقعی پاگل ہو ۔وہ سر ہاتھوں میں دیے گہرا سانس لے کربولی۔
دائمہ سوں سوں کرتے اسے دیکھ رہی تھی ۔
یار دیکھو ہر کسی کو اپنے اپنے گھر جانا پڑتا ہے اورتمہارا تو یہ گھر ہے بھی نہیں اصل گھر تو تمہارا وہ ہے جہاں تمنے بیاہ کرجانا ہےاور اللہ کا شکر کرو تمہیں اتنا اچھا گھر اوریوسف بھائی جیسا ہمسفر ملا ہے ۔وہ اسے سمجھاتے ہوئےبولی ۔
لیکن وہ دوسرا شہر ہے ۔وہ دوبارہ بولی ۔
اسکی بات سن کر اسکا دل چاہا وہ اپنا سرپیٹ لے ۔
اففف دائمہ! آجکل موبائل کے دور میں فاصلے کہاں فاصلے رہے ہیں ۔موبائل نے تو ساری دوریاں ختم کردی ہیں۔کنزہ پھر سمجھاتے ہوئے بولی۔
ہمم۔مگر۔۔۔۔۔ابھی الفاظ اس لے منہ میں ہی تھے کہ کنزہ نے انگلی دکھ کر چپ کروادیا اب اور بحث نہیں ۔وہ بولی۔
دائمہ نے ہار مان لی اور خاموش ہوگئی۔
ویسے یوسف بھائی ہیں کیسے ؟؟اس کا موڈ فریش کرنے کے لیے کنزہ اسے تنگ کرنے لگی ۔
مجھے کیا پتہ میں کونسا دیکھا ہے۔وہ نظریں ادھر ادھر کرتے بولی ۔
اوہو ۔۔۔ہماری مشرقی بنّو ۔وہ شرارتی ٹیون میں بولی ۔
مرجاؤ ۔دائمہ اسکی طرف تکیہ اچھالتے ہوئے بولی ۔
ایسی ہی وہاں پیلو فائٹنگ شروع ہوگئی اور ساتھ ساتھ ہنسی کی گونج سنائی دینے لگیں ۔
*********************************
اففف تھکادینے والا ایونٹ تھا ۔کنزہ دھڑام سے بیڈ پر گرتے ہوئے بولی ۔
دائمہ جو اپنی کلائیوں سےچوڑیاں اتار رہی تھی اسکی بات سن کر مسکرائی ۔
کل آپکا ایونٹ ہے سوچو کل کیاحال ہوگا۔چوڑیوں سے فارغ ہوکر اب وہ کانوں کو جھمکوں سے آزاد کررہی تھی ۔
کچھ ہی دیر پہلے وہ دائمہ "یوسف" کے عہدے پر فائز ہوئی تھی۔
آف وائٹ شرارے اور قیمیض پر پستہ رنگ کا دوپٹہ اوڑھے وہ آسمان سے اتری حور لگ رہی تھی ۔
نہیں بہن ایک ہی جگہ ٹک کر بیٹھنا ہے کیسی تھکان ۔وہ آنکھیں بند کیے بیڈ پر ترچھی لیٹی مزے سے بولی ۔
ارے مصطفی بھائی !آپ ۔اچانک دائمہ کی آواز اسکے کانوں میں پڑی ۔
سیکنڈ کے دسویں جصے میں وہ سیدھی ہوئی ۔
ہاہاہا ۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔ابھی تو کوئی بہت مزے سےباتیں کررہا تھا ۔
ہاہاہا ۔وہ اسکو تنگ کرتے ہوئے بولی ۔
دفع ہو۔ کنزہ سرخ ہوتے گالوں کے ساتھ بولی ۔
ارے میری شرمیلی بھابھی ۔وہ محبت سے اسے دیکھ کر بولی ۔
اسکی بات سن کر مسکرائی اور اپنے نازک پاؤں سینڈلز کی قید سے آزاد کرنے میں مصروف ہوگئی ۔
کنزہ نے آج میرون رنگ کی سادی ویلوٹ کی شرٹ کے ساتھ گولڈن شرارا پہنا ہوا تھا ۔
ویسے کل تم میری بھابھی کے عہدے پر ہمیشہ کے لیےفائز ہونے جارہی ہو۔ کیسا لگ رہا ہے۔وہ۔اسکے سامنے کھڑی ہوکر بولی۔
کنزہ کی پشت اس وقت دروازے کی جانب تھی۔
خوش قسمت ہے تمہارا بھائی جس کی شادی مجھ سے ہورہی ہے ورنہ اس سے کس نے شادی کرنی ۔وہ مغرورانہ انداز میں بولی۔
اچھاجی ۔وہ اسے دیکھتے ہوئے بولی کہ اچانک اسکی نظر پیچھے کھڑے مصطفی پر پڑی اس سے پہلے دائمہ کچھ بولتی کنزہ دوبارہ بولی۔
اور نہیں تو کیا۔۔۔۔۔تمہارے بھائی کو تو سو نفل شکرانے کے پڑھنے چاہیے کہ اسکی شادی کنزہ فرحان سے ہورہی ہے ۔
کنزہ بھائی تمہارے پیچھے ہیں ۔دائمہ اسکو خبر کرتے ہوئے بولی۔
کنزہ نے اسکو آنکھیں دیکھائیں ۔جیسے اب نہیں آؤنگی باتوں میں
میں ڈرتی ہوں کیا تمہارے بھائی سے آنے دو اسے ۔یہ کہتے ہوئے وہ پیچھے مڑی پیچھے مصطفی کو دیکھ کر اسکی سیٹی گم ہوگئی۔
آاپ۔وہ ہکلاتے ہوئے بولی ۔
جی ۔میں۔وہ نچلا ہونٹ دبا کر بولی ۔
وہ اسے بنا پلکے جھپکائے دیکھ رہی تھی ۔رائیل بلیو شلوار قیمیض میں اوپر کالے رنگ کی ویسکوٹ اسکی شخصیت کو اور نمایاں کررہی تھی ۔
پیچھے کی جانب سیٹ کیے کوئے بال اسکی شخصیت کو اور سحر انگیز بنارہی تھی۔کنزہ مصطفی کے سحر میں اس قدر کھوگئی کہ اسے پتابھی نہ چلا کہ وہ کب وہاں سے گیا۔
اوہ بہن ! بھائی گئے ۔دائمہ اس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلا کربولی۔
ہاں۔۔۔وہ ہوش میں آئی۔
تمہارا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ میرے بھائی کو نظر لگادو۔وہ خشمگیں سے گھورتے ہوئے بولی ۔
اتنا تمہارا بھائی ٹام کراس جسے نظر لگ جائے ۔وہ بھی اسی کے انداز میں بولی
تمہارے سامنے تو ٹام کراس ہی ہیں میرے بھائی ۔اتناکہہ کر دائمہ وہاں سے بھاگ گئی ۔
رائمہ کی بچی رک تجھے ابھی بتاتی ہوں۔وہ بھی اس کے پیچھے بھاگی ۔
************************************
کنزہ فرحان ولد ملک فرحان آپکا نکاح ملک اقتدار سے صاحبزادے مصطفی اقتتدار سے بخوص ایک لاکھ حق مہر سکہ رائج الوقت کروایا جاتا ہے کیا آپ نے قبول کیا ۔
وہ جو پہلے ہی لال جورے مءں سجی سنوری گھبرائی بیٹھی تھی مولوی صاحب کی آواز سےاور گھبراگئی ۔
ق۔قبول ہے ۔اس نے نروس ہوتے ہوئے کہا ۔
کیا آپ نے قبول کیا ۔
جی۔
کیا آپ نے قبول کیا ۔تیسری دفعہ پوچھا گیا ۔
جی کہتے ہوئے اس نے ہاتھ میں قلم تھاما اور نکاح نامے پر دستخط کرنے لگی ۔
دستخط کرتے ہوئے اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔
جیسے ہی ملک فرحان کا شفقت سے بھرپور ہاتھ اس نے اپجے سر پر محسوس کیا ۔آنسو جو کب سے باہر آنے کے لیے مچل رہے تھے ایک دم اچھل کر گالوں پر آگئے ۔
بابا ۔وہ آنسو روکبے کی ناکام کوشس کرتے ہوئے ان کے گلے لگی ۔
ارے میرابچہ روتے نہیں ۔وہ اسکو سینے سےلگاتے ہوئے بولی۔
دلہن کو لے آؤ۔۔۔۔باہر سے صدا آئی لڑکیاں جو اسی انتظار میں تھیں فورا آگے بڑھیں اور کنزہ کو لے کر باہر کی جانب بڑھ گئیں۔
پیچھے ملک فرحان اپنی بیٹی کی خوشی کی دعا کرنے لگے۔
جب کنزہ کو مصطفی کے پہلو میں بٹھایا گیا تو وہ گھونگھت میں تھی۔
ارےبھئی آئینہ۔ آئینہ کہاں ہے؟؟بھیڑ میں سے شور اٹھا ۔
آئینہ لایا گیا ۔مصطفی کے ہاتھ میں آئینہ تھما کر دھیرے دھیرے سے کنزہ کا گھونگھٹ اٹھایا گیا ۔
مصطفی کی نظریں آئینے میں نظر آنے والے کنزہ کے عکس پر ٹھہر سی گئیں ۔
ناک میں پہنی ہوئی نتھ نے مصطفی کو اپنے سحر میں قید کرلیا ۔
ارے بھائی نظر لگاؤ گے کیا۔لڑکیوں میں سے آواز آئی جسے سن کر وہ سیدھا ہوا ۔
کنزہ نے نظر اٹھا کر مصطفی کی طرف دیکھا اس کے دل نے چپکے سے کہا۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے)۔
ہر طرف رنگ و خوشیوں کا سماں تھا ۔
مگر کچھ لوگ ایسے
سے تھے جن کو یہ منظر اپنی نگاہوں میں سرخ مرچ لگ رہے تھے ایک نہیں دو لوگ تھے ۔
کیا ہوگا مصطفی اور کنزہ یآنے والی زندگی میں۔
@@@@@@@@@@@@@@@@@@