اس وقت ہرطرف رنگ ہی رنگ تھے۔مختلف اقسام کے کھانوں کی خوشبو سے پورا گھر مہک رہا تھا ۔ کہیں سے چوڑیوں کی چھنک کی آواز آرہی تھی تو کہیں سے حنا کی مہک ۔۔۔۔
اس وقت وہ ہاتھ میں تھال لے کر آگے بڑھ رہی تھی چہرےپر ایک خوبصورت مسکراہٹ تھی اسی اثنا میں اسکی ٹکر فارا بیگم سے ہوئی ۔۔
افففف کنزہ ۔وہ اپنی ساڑھی کا پلو ٹھیک کرتے ہوئے بولیں ۔
اس وقت وہ سبز رنگ کی ریشمی ساڑھی میں تھیں۔
سوری تائی جان میں نے دیکھا نہیں ۔وہ شرمندہ ہوتے ہوئے بولی ۔
تم کچھ ڈھنگ کا کام کرتی ہو؟ وہ طنزیہ لہجے میں بولیں ۔کنزہ انکی بات سن کر اور شرمندہ ہوگئی۔
اور یہ تمہارا کام نہیں ۔ہمارے یہاں ان کاموں کے لیے ملازمہ ہیں ۔آفیہ اس سے لو آکر تھال ۔وہ اتراتے ہوئے بولیں اور ساتھ ہی ملازمہ کو آواز دی ۔
انکی بات سن کر وہ شرم سے پانی پانی ہوگئیں ۔
ایکسیوزمی! تھال ملازمہ کے حوالے کر کے وہ وہاں سے چلی گئی ۔
فارا بیگم اسکو جاتا دیکھ کر طنزیہ مسکرائیں ۔
ملک اقتتدار اور ملک فرحان دونوں آپس میں بھائی تھے ۔
انہوں نےجو کچھ بنایا اپنے بل بوتے پر بنایا ۔دونوں بھائیوں کا نام شہر کے رئیس میں ہوتا ہے۔
فارا بیگم اور ملک اقتدار کی چار اولادیں ہیں تین بیٹے ۔
ارشاد نشاط اور مصطفی اور ایک بیٹی دائمہ ۔
جبکہ رشنا بیگم اور ملک فرحان کی ایک ہی دختر نیک تھی کنزہ فرحان ۔
رشنا بیگم کی وفات کنزہ کی پیدائش کے کچھ ماہ بعد ہوئی ۔
انکی وفات کے بعد ملک فرحان خود کو بہت اکیلا محسوس کرنے لگے مگر انہوں نے دوسری شادی نہیں کی اور اکیلے ہی کنزہ کو بڑا کیا اسی لیے وہ اسکا ہر لاڈ خوشی سے اٹھاتے ۔
*******************@@@@@@****************
اوہ!عینی کہاں رہ گئی تھی ۔فارا بیگم اپنی بہن کے گلے ملتے ہوئے بولی ۔
عینی جو کہ پنتیس چالیس سال کی عورت تھی بالوں کو گولڈن کیے ہوئے لال رنگ کا سلیولیس گاؤن پہنے ہوئے تھیں بولی ۔
کچھ نہیں یار ساریہ کی وجہ سے لیٹ ہوگئی ابھی دوپہر کو ہی پیرس سے لوٹی ہے نہ تو بس ۔۔۔وہ شوخ مارتے ہوئے بولیں ۔
ساریہ پیرس تھی؟؟انہوں نے پوچھا ۔
ہاں یو نو اسے پاکستان کا یہ ڈل اور پرانا کلچر اچھا نہیں لگتا۔وہ ادھر ادھر دیکھ کر حقارت سے بولیں ۔
ہیلو آنٹی! ساریہ ان کے پیچھے سے نمودار ہوئیں اور انکے گلے لگتے ہوئے بولیں ۔
ارے میری جان تمہیں دیکھ کر بہت خوشی یوئی۔
وہ بھی اس سے ملتے ہوئے بولیں ۔۔
آہم آہم ۔کسی نے اس کے قریب آکر گلاکھنکارا۔
وہ جو اردگرد سے بیگانہ فارا بیگم اود ساریہ دیکھ رہی تھی۔ ایک دم خوفزدہ ہوکر پیچھے ہوئی اچانک اسکا پاؤں سلپ ہوا اس سے پہلے وہ گرتی
مصطفیٰ نے اسے سنبھالیا۔
میڈم کس کے خیالوں میں اس قدر کھوئی ہیں آپ؟ ۔مصطفی نے کنزہ کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا ۔
کہیں نہیں ۔۔ایکیسوزمی! اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلی گئی ۔
اس کے جانے کے بعد مصطفیٰ کی نگاہوں نے دور تک اس کا تعاقب کیا۔
*************،*،،،*******،*،*،*،*،*،*،*،*،*،*،*،*،،_*،،،،،
اس وقت وہ اپنے کمرے میں بیٹھی کتاب پڑ رہی تھی جب دائمہ اندر آئی ۔
کنزہ گھر میں اتنے کام ہیں اور تم یہاں پر بیٹھ کر کتاب پڑھ رہی ہو۔حد ہے اور رات کو کیوں جلدی آگئی تھی تم ۔
ملک اقتدار کے بڑے بیٹے ارشادط ملک کی شادی تھی ایک ہفتے بعد جس کے لیے اس پورے گھر میں ایک ہفتے کی ڈھولکی رکھی گئی تھی ۔۔۔
بس یار طبیعت اپ سٹ تھی اسی وجہ سے۔وہ سرسری سے لہجے میں بولی ۔نظریں ابھی بھی کتاب میں تھیں ۔
کیا ہوا ہے یار آج کی ڈھولکی نائٹ میں نہیں آؤ گی کیا ؟اس نے کتاب چھین کر اس سے کہا ۔
نہیں یار !ایک شادی ہے تین دن رکھتے کچھ مزہ آتا یہ کیا ہورا ہفتہ ڈھولکی بجا بجا کر سرمیں درد کرنا اور عین مین ایونٹس والے دن سر میں درد کی وجہ سے فریش نہ ہونا۔وہ چڑ کر بولی ۔
اس کی بات سن کر وہ مسکرائی
اس گھر کی پہلی خوشی ہے اتنا تو کرنا بنتا ہے نہ ۔۔
اچھا اسی کے ساتھ ایک اوربریکنگ نیوز دینی تھی تمہیں ۔وہ سر پر یاتھ مارکربولی ۔
کنزہن نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا ۔
گیس واٹ؟اس نے اس سے خوشی سے اس سے پوچھا ۔
تمہاری شادی ہورہی ۔۔۔۔شکر الحمداللّٰه ۔۔۔اس نے دعائیہ انداز میں کہا اورمسکرادی۔۔
دفعہ دور۔دائمہ بدمزہ ہوئی اور چڑ کر بولی۔
اس کے اس طرح کہنے پر اس نے زوردار قہقہ لگایا وہ جانتی تھی دائمہ کو شادی کی بات سے کتنی چڑ تھی ۔
مجھے تم سے کوئی بات ہی نہیں کرنی ۔اس کے اس طرح کہنے پر وہ ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اٹھی اور رخ پھیر کر کھڑی ہوگئی ۔
ارے میری جان!میں تو مذاق کررہی تھی ۔وہ اٹھی اور اسے پیچھے سے گلے لگاتے ہوئے بولی ۔
ہنہہ! جاؤ میں ناراض ہوں ۔وہ نروٹھے پن سے اسے ہٹاتے ہوئے بولی ۔
میں آخری دفعہ پوچھ رہی ۔کنزہ پیچھے ہٹتے ہوئے بولی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اب وہ مان حائے گی ۔
اچھا مان گئی ۔وہ ہار مانتے ہوئے بولی ۔
اب بتاؤ کیا بات ہے ۔اس نے ہوچھا۔
او ہاں ۔۔۔وہ سر پر ہاتھ مارتے یوئے بولی اور آگے بڑھ کر اسکے دونوں ہاتھوں کو تھاما اور گول گول گھومتے کوئے بولی۔
کنزہ اب ارشاد بھائی کی شادی کے ساتھ ساتھ نشاط بھائی کی بھی رخصتی ہورہی یعنی ڈبل شادی ڈبل انجوائے ۔وہ خوشی سے بولی ۔
کیا !وہ حیران ہوتے ہوئے اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے بولی جس کی وجہ سے وہ صوفے پر جا گری۔۔
آہ ہ پاگل !کیا دورہ پڑا ہے۔دائمہ کمر سہلاتے ہوئے بولی ۔
ڈبل شادی ڈبل تھکن ۔۔۔وہ منہ بناتے ہوئے بولی ۔
تم تو ہو ہی آدم بیزار۔۔۔۔۔۔۔وہ سر پیٹتے ہوئے بولی۔
یہ کہہ کر وہ وہاں سے نکل گئی۔
اس کے جانے کے بعد وہ آنے والے فنکسنز کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اس وقت وہ شہر لاہور کے جانے مانے بازار انارکلی میں موجود تھے ۔۔
ویسے میڈم کنزہ آپکو ان چھوٹے مکانوں میں جانے سے تو بہت مسئلہ ہوتا ہے مگر یہاں سے کپڑے خریدتے ہوئے کچھ نہیں ہوتا ۔وہ طنزیہ لہجے میں بولی۔
یہاں آکر شہر لاہور سے محبت بڑھ جاتی ہے ۔۔وہ ایک احساس کے ساتھ بولی ۔
دیکھو کیسے سب شاپنگ کرتے اپنائیت کا ایک احساس ہوتا ہے نہ انسان اکیلا پن فیل نہیں کرتا وہ اردگرد دیکھ کر بولی۔
جی۔ جی ۔جانتی ہوں آپکو مالز جانے سے ڈر لگتا ہے اسی لیے۔وہ ہنسی دباتے ہوئے بولی ۔
اس کی بات سن کر اس نے اس سے گھورا۔
اہسا کچھ نہیں ہے ۔وہ بولی ۔
تو پھر اکیلی کیوں نہیں آتیں یہاں بھی میرے ساتھ ہی آتی۔وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
خاموشی سے شاپنگ کرو بعد میں پھر رونے بیٹھ جائے گی۔وہ اسکی طرف ہاتھ میں پکڑا دوپٹہ اچھال کر بولی ۔
ہاں تم کعن سا آجاتی ہو میرے ساتھ دوبارہ ڈرہوک اور ویسے بھی لڑکیوں کی یہ چیزیں تو کامن ہوتی ہیں ۔وہ بغیر کوئی نوٹس لیتے ہوئے بولی اور دوبارہ کپڑے دیکھنے لگی ۔
میں تو کبھی نہیں بولی۔ وہ فخر سے بولی ۔
میں نے لڑکیوں کی بات کی ہے ۔وہ کپڑے دیکھنے ہوئے بولی ۔
اسکی بات سن کر کنزہ نے اسے گھورا مگر اس نے نظر انداز کردیا۔
*******************،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،*************
آج آخری فنکشن تھا ڈھولکی کا ۔
ہر طرف رونو اور ہلہ گلہ تھا۔کہیں لڑکے شوروغل کررہے تھی کہیں لڑکیاں ڈھولک لے کر بیٹھی اپنی من لسند گانے گاتے دیکھائی دے رہی تھیں ۔
ارے کنزہ آجاؤ تم بھی مہندی لگوا لو۔دائمہ جو ابھی ابھی مہندی لگا کر فارغ ہوئیں تھیں اس کو اپنی جانب آتا دیکھ کر بولی ۔
جی جی اسی نیک کام کے لیے تو میں آئیں ہوں ورنہ مجھے ان چونچلوں کا شوق نہیں ۔۔وہ مہندی والی کے آگے ہاتھ کرتے ہوئے بولی ۔
شکر ہے کوئی تو لڑکیوں والا شوق ہے ۔وہ شوخ لہجے میں بولی ۔
ہیلو گرلز ۔۔کیا ہورہا ہے ؟؟مصطفی ان کے پاس آتے ہوئے بولا ۔
ہیلو برادر ۔دائمہ نے سرسری سا کہا اور اٹھ کر وہاں سے چلی گئی ۔
ہیلو ۔۔۔وہ تھوڑا جھک کر کنزہ کے چہرے جو نیچے کی سمت تھا کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
السلام علیکم !اس نے بھی اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
مصطفی مسکرایا اور بولا ۔ وعلیکم السلام !کیا ہورہا ہے؟؟مہندی کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا ۔
اس سے پہلے کنزہ کوئی جواب دیتی ۔
مہندی والی تنگ آکر بولی۔پائن میندی لگ رہی تسی دیکھدے پئے ہو فیر وی پوچھ رے او۔
جہاں اسکی بات سن کر مصطفیٰ بدمزہ ہوا وہیں کنزہ کی ہنسی چھوٹی۔۔۔
کام کرو تم اپنا فضول ہی میں ٹانگ لڑا رہی ہو بیچ میں ۔کنزہ کی ہنسنے سے شرمندہ ہوتے ہوئۓ مصطفی نے مہندی والی کو گھورا اور کہا ۔
باجی تسی ہسدے ہوئے بڑے سوہنے لگدے او۔مہندی والی نے کنزہ کی تعریف کی جس پر جھنپ گئی ۔
مصطفیٰ مسکراتے کوئے وہاں سے چلا گیا ۔
دور کھڑی یہ منظر دیکھتی ساریہ کی گرفت تھامے ہوئے گلاس پر اور مضبوط ہوگئی ۔۔
پاس سے گزرتی ہوئی دائمہ کو اس نے روکا۔
جی ساریہ کچھ چاہیے آپکو۔اس نے خوشدلی سے پوچھا۔
نہیں ۔اس نے مسکراتے کوئے کہا
یہ سامنے مہندی لگوانے والی کون ہے ۔اس نے نظروں سے اشارہ کرتے ہوئے کنزہ کا پوچھا۔
اوہ تم کنزہ کا پوچھ رہی ہو۔وہ کنزہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
فرحان چاچو کی بیٹی ہے وہ۔اس نے بتایا ۔
کوئی کام تھا؟؟ساریہ کو اسکی طرف دیکھتے ہوئے اس نے کہا ۔
ہاں ۔نہیں مجھے کیا کام ہونا ویسے پی پوچھا۔وہ جوس کا سپ لیتے ہوئے بولی ۔
تم کہیں جارہی تھی ۔دائمہ کو اپنی طرف دیکھتا پا کر وہ بولی۔
اوہ ہاں مجھے کام ہے میں بعد میں تم سے بات کرتی ۔اس نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ۔
شیور ۔وہ بھی مسکراتے ہوئے بولی ۔
دائمہ کے جانے کے بعد وہ کافی دیر تک کنزہ کی طرف دیکھتی رہی ۔
*****************************
ہر طرف گہما گہمی تھی ۔
ملک ولا آج الگ ہی رنگ بکھیر رہا تھا ۔
لان خوبصورت طریقے سے سجایا گیا تھا ۔بچے ادھر سے ادھر بھاگ رہے تھے ۔
فارا بیگم اپنی سہیلیوں میں تھیں ۔ اقتتدار صاحب اور فرحان صاحب بھی اپنے بزنس سرکل میں کھڑے تھے ۔
دائمہ اور کنزہ بھی ہر طرف گھوم پھر رہی تھی ۔
کچھ پی دیرمیں قاضی صاحب کے آنے کا شور اٹھا ۔
ہر کوئی متوجہ ہوگیا اور کچھ ہی دیر میں رسم نکاح ادا کردی گئی اور ہر طرف مبارکباد کی صدائیں بلند ہوئیں ۔
عجوہ بیگم کو ارشاد صاحب کے پہلو میں بٹھایا گیا اور نشا بیگم کو نشاط صاحب کے پہلو میں۔
مبارکباد دینے والوں کا اسٹیج پر ایک تانتا بندھ گیا۔
کچھ ہی دیر میں وہاں کھانے کا سلسلہ شروع ہوا لوگ کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے ۔
گڈ ایوننگ ویری بڈی! امید ہے آپ سب لوگ بہت خوش ہونگے ۔ مصطفی اسٹیج پر کھڑا مائیک میں بولے ۔
سب لوگ بشمول فارا بیگم ،اقتدار ا صاحب اور دیگر گھر والوں کےمتوجہ ہوگئے ۔
جی تو آج میرے بھائی رشتہ ازواج میں بندھ گئے ہیں ۔اپنے بھائیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میں نے بھی اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کا سوچا ہے۔اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوا ۔
سب لوگ حیرانک سے اسکی طرف دیکھ رہے تھے۔
کلہاڑی میں ڈھونڈ چکا ہوں۔وہ کنزہ کی طرف دیکھ مر مسکراتے ہوئے دیکھ کر بولا ۔
کنزہ اسکے اس طرح دیکھنے پر اس کے چہرے پرحیرانی اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات ابھرے ۔۔۔
سب لوگ ہنسنے لگے۔
میں اپنے والد مخترم اور ولدہ کو اسڑیج پر مدعو کرتا ہوں وہ آئیں اوربات کو آگے بڑھائیں۔وہ فارا بیگم اور اقتدار صاحب کو دیکھتے ہوئے بولا ۔
وہ دونوں وقت اور جگہ کا خیال کرتے ہوئے اسٹیج پر چلے گئے ۔
جی تو میں اپنے معزز چچا کو بھی دعوت دونگا کہ وہ بھی جلدی سے آئیں انکی بھی اتنی ہی مرضی اور خوشی شامل ہے جتنی میرے واکدیم کی ۔۔۔
ملک فرحان بھی اسٹیج ہر آگئے ۔
بیٹا مصطفیٰ یہ کیا ہے ؟اقتتدار صاجب دھیمی مگر کڑک آواز میں بولے۔
ڈئڈ ابھی بتانے ہی لگا ہوں ۔وہ بھی اتنی ہی آواز میں بولا ۔
جی تو اب اس کلہاڑی آئی مین لڑکی کا نام بتاتا چلوں وہ لڑکی جس نے میری راتوں کی نیند چرائی ہےمیرا دل چرالیا ۔۔ اس کے بن اب نہیں ہمارا گزارا۔وہ فلمی انراز میں بول رہا تھا ۔
بیٹا ڈائیلاگ بعد میں مارلینا نام بتا ۔ملک فرحان اپنی گرفت اسکےکندھے ہرمضبوط کرتے ہوئے بولے ۔
ریلکیس چاچو بتادیتا ہوں۔وہ گھبرا کر بولا ۔
وہ لڑکی وہ لڑکی ہے "کنزہ فرحان" میرے خوابوں کی شہزادی میرے ہر خواب کی تکمیل ۔وہ اسکی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔
اسکی باے سن کر سب شاک رہ گئے ۔
پورا لان تالیوں سے گونج اٹھا ۔
کنزہ کا چہرہ ہفت سے لال ہورہا تھا۔
اپنی بیٹی کا نام سن کر خاموش ہوگئے ۔
کیا ہوا ابو اپ کو میرا فیصلہ پسند نہیں آیا کیا؟مصطفی صاحب نے اقتتدار صاحب سے کہا جو کسی گہری سوچ میں تھے۔
تمہاری زندگی ہے تم جسے پسند کرتے ہو اس کے ساتھ گزارو ۔وہ مسکرا کر بولے۔
جبکہ فارا بیگم چپ تھیں ۔
چاچو جان! آپ کیوں خاموش ہیں ؟؟اس نے فرحان صاحب سے پوچھا ۔
نہیں ایسی بات نہیں ہے میری بیٹی کا نصیب بہت اچھا ہے جو تم نے اس کو انتخاب کیا اور مجھے تم پر مکمل یقین ہے تم اسے خود سے زیادہ چاہو گے ۔وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے ۔
کنزہ بت بنے یہ سب دیکھ رہی تھی جب اسے اپنی کندھے پر زوردار دباؤ محسوس ہوا ۔اس نے مڑ کر دیکھا تو دائمہ کھڑی اسے دیکھ کر مسکرارہی تھی ۔
میری جان تم حانتی نہیں میں آج کتنی خوش ہوں۔تم میری بھابھی بنو گی کتنا مزہ آئے گا نہ ۔۔وہ خوشی سے اسے گلے لگاتے ہوئے بولی ۔
آو اسٹیج پر چلیں ۔وہ اسے کھینچتے ہوئے لے جارہی تھی اسکی مزاحمت کسی کام نہیں آئی۔
فضا اور خوشگوار ہوگئی مگر یہاں کوئی ایسا تھا جس کے لیے یہ منظر ناخوشگوار تھا۔
وہ ہاتھوں کی دونوں مٹھیاں بند کیے شعلہ برساتے نگاہوں سے یہ منظر دیکھ رہی تھی ۔
*************(************************
اس وقت وہ اپنے والدین کے کمرے میں بیٹھا تھا جب فارا بیگم بولیں
بلا لینا اسی طرح شادی پر بھی ماں باپ کو مہمانوں کی طرح ۔
اچھا خاموش ہوجائیں۔ وہ بالغ ہے اور اپنی زندگی کا ہر فیصلہ لینے میں آزاد ہے ۔ملک اقتدار انہیں سمجھاتے ہوئے بولے۔
میں کہہ رہی ہوں تمہاری شادی کنزہ سے نہیں ہوگی ۔آفٹرآل جب ساریہ ہے تو کہا ادھر ادھر جانے کی ضرورت ہے ۔
انکی بات سن کر جہاں مصطفٰی کا دل کھٹا ہوا وہیں اقتتدار صاحب کے ماتھے پر بل پڑے ۔۔
مام ساریہ ۔کہاں سے سوٹ کرتی ہے وہ میرے ساتھ ۔وہ الفاظ چبا چبا کر بولا۔
کیوں نہیں کرتی ۔پڑھی لکھی ہے ہر چیزمیں ماہر ہے کانفیڈنس بھی کمال کا ہے ۔وہ اترا کر ساریہ کی تعریف کررہیں تھیں ۔
مصطفی کی برداشت ختم ہوتی اس سے پہلے کہ وہ پھر بولیں ۔
اور ایک کنزہ ہے۔اکیلے مارکیٹ جانے سے بھی ڈرتی ہے۔وہ بولیں۔
اس سے پہلے مصطفی کچھ کہتے اقتتدار صاحب بولے ۔
فارا ! مصطفی کی پسند کنزہ ہے اور اگر کنزہ مصطفی کی پسند نہ بھی ہوتی تو بہو اس نے اسی گھر کی بننا تھا۔
آپ نےاپنے بڑے بیٹوں کی شادی اپنی پسند سے کروائی ۔اب مصطفیٰ کی شادی میری پسند سے ہوگی اور کنزہ سے ہوگی ۔وہ دھیمے مگر غصیلے لہجے مین بولے ۔
فارا بیگم انکی بات سب کر خاموش ہوگئیں مگر دل میں کنزہ کے بارے میں نفرت کا بیج دبا لیا اب یہ بیج بڑا ہوکر کیا رنگ لائے گا۔
******""***********************************
سارا کمرہ بکھڑا ہوا تھا پرفیومز کی بوتل ٹوٹی ہوئی تھیں بیڈ شیٹس آدھی زمین ہر اور آدھی بیڈ پر تھیں ۔
ایک طرف زمین پر کپڑوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا جس میں برانڈد کپڑے شامل تھے۔
"ساریہ اپنی اترن کسی کو دینے کی بجائے جلادینا بہتر سمجھتی ہے اور تم ساریہ کی نظروں کے سامنے سے اسی کی محبت کو حاصل کرنے جارہی ہو۔کنزہ فرحان !ملک مصطفٰی صرف میرا ہے ساریہ کا ۔ملک مصطفی تم جسے اپنے گلے کا ہار بنانے جارہے ہو اس کو ہی تمہارے گلے کا پھندا بنادونگی میں ۔وہ ماچس جلا کر کپڑوں پر پھنکتے ہوئے بولی ۔ ۔
ہا ہا ہا ۔۔۔۔۔آباد کر کے برباد کرونگی میں تم لوگوں کو ۔۔۔
اس نے شیطانی مسکراہٹ لیے وہ کپڑوں کو جلتے ہوئے دیکھ کر بولا ۔
**************"""*"**،*********
شکر الحمداللّٰه ۔شادی ختم ہوئی۔کنزہ بولی اس وقت سب لوگ ملک اقتتدار کے گھرتھے اور وی دونوں دائمہ کے کمرے میں موجود تھے ۔
ویسے آج کیا کپل میچنگ کی تھی دونوں نے ۔دائمہ شریر لہجے میں بولی ۔
کونسی میچنگ ،کیسی میچنگ ۔وہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی۔
آہاں!! یہ انجان پن کیوں دیکھارہے ہو کیوں ہم سے چھہا رہے ہو دل کے زاز بتلاؤ نہ کچھ۔وہ اس کے پیٹ میں گدگدی کرتے ہوئے بولی ۔
اچھا اچھا بس بہت رات ہوگئی ہے ۔سوجاؤ۔وہ اسے منع کرتے ہوئے مصنوعی آنکھیں دیکھا کر بولی ۔
اوہو ابھی بنی نہیں بھابھی اور روایتی پن دیکھانا شروع ۔وہ ابھی بھی مزاح ٹیون میں بولی ۔
دائمہ ۔۔۔۔وہ اسے کہتے ہوئے لیٹی ۔
سرخ گال کہہ رہے ہیں کچھ اور کہانی ۔۔
بول میری رانی۔۔۔۔۔
اس نے بے تکا سا شعر پڑھا ۔
جس پر کنزہ نے اسے گھورا اور کمبل سر تک اوڑھ لیا ۔
****"*********************************
کہاں چلا گیا تھا تو ہاں ۔۔ایسے بھی کوئی غائب ہوتا ہے کیا؟وہ اس سے گلے ملتے ہوئے بولے۔اس وقت وہ دونوں ائیر پورٹ پر موجود تھے ۔
کہیں نہیں بس مما کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی تو بس جانا پڑا ۔ارحم نے بتایا۔
اوہ کیسی ہیں اب وہ۔مصطفی نے پوچھا
بہتر ہیں۔اس نے بھی جواب دیا ۔
ارشاد بھائی اور نشاط بھائی کی شادی کا فنکشن کیسا رہا ۔اس نے ہوچھا ۔
بہت زبردست۔تجھے ایک مزے کی بات بتاتا ہوں۔وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
ارحم نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
میں نے کنزہ کو پرپوز کردیا ہے ایک سال بعد ہماری شادی ہے۔وہ خوش ہوتے ہوئے بولا ۔
وو اس قدر خوش تھا کہ اسے ارحم کے چہرے کا اڑا ہوا رنگ بھی دیکھأی نہیں دیا ۔
مب۔مبارک ۔ہو ۔وہ زبردستی مسکراتے یوئے کہا ۔
یار لیکن مجھے اس بات کا افسوس رہے گا تو میری خوشی میں شریک نہیں ہوا ۔وہ افسوس کرتے ہوئے بولا ۔
تو کیا ہعا ۔میں کونسا خاص ہوں۔وہ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔
کیسی باتیں کررہا ہے تو۔تو میرا یارغار ہے ۔سچا اور بہترین دوست ۔وہ کندھے سے اسکا بازو تھامتے ہوئے بولا۔
چل اب یہیں کھڑا رہے گا۔وہ مسکراتے ہوئے بولا
اور دونوں گاڑی کی طرف بڑھ گئے ۔