اس وقت رات کا اڑھائی بج رہا تھا۔ ہر سو خاموشی تھی ۔
نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ ذہن صرف ایک شخص کو سوچنے میں مصروف تھا ۔
"تابش آفندی"
وہ دوسروں سے منفرد دکھنے والا انسان کیا واقعی اتنا منفرد ہوگا ۔۔۔۔۔۔
نہیں! وہ بھی انہی بگھڑے امیروں میں شمار ہوتا ہے ۔۔۔
پانچوں انگلیااں برابر نہیں ہوتی ۔
وہ دل اور دماغ کی جنگ میں پھسی ہوئی تھی ۔
آخر تنگ آکر اس نے سونے کی کوشس کی جس میں وہ کامیاب بھی ہوگئی۔
***********************
امی پانی ۔۔۔مشی نے پانی کا گلاس کنزہ بیگم کے آگے کرتے ہوئے کہا ۔
شکریہ ۔انہوں نے پانی کا گلاس لیتے ہوئے کہا ۔
اور بتاؤ کیسا رہا کالج کا پہلا دن ۔انہوں نے پوچھا ۔
ہممم ٹھیک تھا ۔وہ ڈوپٹے کو انگلی میں لپیٹتے ہوئے بولی۔
کنزہ بیگم نے اسکے چہرے کی مایوسی کو نوٹ کیا۔
کیا ہوا میرے بچے ۔۔۔انھوں نے اسکا چہرہ اوپر کرتے ہوئے کہا۔
امی وہاں بہت بڑے گھر کے بچے تھے ۔میں بہت گھبرارہی تھی۔امی ایسا لگتا ہے جیسے غلطی سے میرا نام لسٹ میں آگیا ہو۔وہ بولی۔
پگلی نہ ہو تو چل اعتماد کے ساتھ رہنا اور دوست کم بنانا اوروہ بنانا جو قابل اعتماد ہوں ۔وہ بولیں۔۔
مشعل انکا چہرہ دیکھتی رہی
******************************
وقت کا کام ہوتا ہے گزرنا اور وہ گزرتا ہے آج مشعل کو اس یونیورسٹی میں دو مہینے ہوگئےتھے اس پورے وقت میں اس کی بات چیت صرف فریال سے تھی ۔
فریال اور مشعل کی دوستی میں سب سے بڑا کردار فریال کا تھا ۔مشعل بھی فریال کے خوش اخلاق سے متاثر ہوئی تھی ۔۔۔
بادل آسمان کو اپنے قبضے میں لیے ہوئے تھے اور کچھ دیر بعد اس نے برسنا شروع کردیا ۔۔۔۔
مشعل یونیورسٹی کے اندر ہی تھی اوراس بات پر پریشان تھی کہ اب گھر کیسے جائے گی۔
مشی!کیا ہوا ابھی تک گھر نہیں گئی۔فریال نے ہوچھا
نہیں وہ بارش ۔۔۔۔اس نے یہ کہہ کر آسمان کہ طرف دیکھا جہاں کالے بادل ڈیرہ جمائے ہوئے تھے ۔۔۔
اوہ تو آؤ میں تمہیں ڈراپ کردیتی ۔۔۔اس نےرسانیت سے کہا ۔۔
نہیں تمہیں پرابلم ہوگی ۔وہ انکار کرتے ہوئے بولی ۔
ارے پرابلم کیسی ۔بلکہ مجھے کمپنی مل جائے گی آج میرے دونوں نالائق کزنز نہیں آئے۔وہ اسکودیکھ کر بولی ۔۔
چلو اب زیادہ نخرے مت دیکھاؤ ۔۔۔دو منٹ تک جب اسکوجواب موصول نہ ہوا تو وہ اسے بازو سے پکڑ کر لے گئی۔
******\\\\\\\**************\\\\\\
فریال ابھی تک نہیں آئی ہے۔رافع گھڑی کی طرف دیکھ کر بولا ۔موسم بھی ٹھیک نہیں۔پریشانی لہجے سے واضح تھی۔
ہائے رے محبت میں دیوانےہوئے لوگ ۔۔شافع موبائل سے نظریں ہٹا کر بولا۔
شرم کر وہ لڑکی ہے اوراس شہر میں اجنبی ہے۔۔۔
راستوں کا بھی معلوم نہیں۔رافع الفاظ چبا چبا کر بولا.
ٹینشن نہ لے وہ فریااال ہے وہ اس کے لیے کچھ بھی نا ممکن نہیں
وہ فریال کا نام لمبا کر کے بولا
تجھ سے بات کرنا ہی فضول ہے۔۔رافع یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔
اس کے جانے کے بعد شافع اسنیپ چیٹ کے فلٹر سے چہرے کے زاویے بگاڑکر تصویریں بنانے لگا۔۔
****************************
آنٹی نیکسٹ ویک میری سالگرہ ہے آپکو اور مشی کو ضرور آنا ہے انکار مت کیجیے گا۔فریال کنزہ بیگم کے ہاتھ پکڑ کر بولی۔
اس کو کنزہ بیگم کا اخلاق بہت پسند آیا ۔کنزہ بیگم کو بھی یہ چلبلی سی شرارتی سے فریال بہت اچھی لگی ۔
ارے بیٹا!!۔
کوئی نہیں بیٹا کہ رہی ہیں نہ انکار کی اب کوئی گنجائش نہیں ۔۔۔۔فریال بات کاٹ کربولی ۔
اچھا بیٹا آئیں گے ۔کنزہ بیگم مسکراکر بولیں ۔
فریال کچھ کہتی اس سے پہلے ہی اسکا فون بجا اس نے دیکھا رافع کی کال آرہی تھی۔
اوہ شٹ!!!بہت ٹائم ہوگیا نکلنا چاہیے آنٹی میں آپ سے ملنے پھر ضرور آؤنگی۔وہ ان سے ملتے ہوئے بولی ۔
ضرور تمہارا اپنا گھر ہے جب مرضی آنا ۔۔۔۔۔۔۔وہ محبت سے بولیں۔
وہ مشعل سے مل کرنکل گئی۔
*************************
دادووو!!!! آپ کب آئے ؟؟میں ناراض ہوں آپ سے ۔۔۔۔وہ ملک اقتتدار سے ملتے ہوئے آخر میں ناراض ہوکر بولی ۔
ارے کیوں میرا بچہ ۔۔۔وہ اس کی طرف دیکھ کر بولے ۔
کیوں میں آئی تو آپ چلے گئے۔میرا انتظار بھی نہیں کیا ۔
مصیبت کا بھی کوئی انتظار کرتا ہے بھلا ۔شافع کی زبان میں کجھلی ہوئی۔
ملک اقتدار نے اسے سخت نظروں سے گھورا۔جس پر وہ خاموش ہوا ۔
ارے میرا لاڈو۔چلو تمہاری ناراضگی دور کرتے ہیں۔آؤ گول گپے کھانے چلتے ہیں۔وہ اسے مناتے کوئے بولے ۔
سچییی! فریال بچوں کی طرح چلائی۔
پگلی ۔رافع اس کی حرکت پر ہلکا سا مسکراکر دھیرے سے بولا جو شافع نے سن لیا ۔
اب اس کے آگے سب کو پتا کیا ہوگا
*****************************
پورا گھر روشنیوں سے نہال تھا ۔ باہر لان کو برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا ۔بہتریں ڈیکوریشن ۔نیوی بلیو اور بے بی پنک کلر کی تھیم سب کو بھا رہی تھی۔
مشعل چھوٹے چھوٹے قدم لیتی اندر داخل ہورہی تھی۔
وہ بہت نروس فیل کررہی تھی ۔
ارے مشی تم آگئی۔ویری ہیپی ٹو سی یو۔فریال اس سے گلے ملتے ہوئے بولی ۔
گہری جامنی رنگ کے فراک کے ساتھ ڈھیلی سی بریڈ بنائے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
بہت خوبصورت لگ رہی ہو ۔۔مشعل نے اسکی تعریف کی۔
شکریہ۔بہت بہت شکریہ۔وہ بولی۔
اور وہ دونوں اندر داخل ہوگئیں۔۔۔۔۔۔۔
فنکشن اپنے عروج پر تھا۔
سب اپنے آپ میں مصروف تھا ایسے میں اسکی نظروں کا مرکز وہ بنی ہوئی تھی ۔ایسا کیا تھا اس میں جو باقی لڑکیوں میں نہیں تھا ۔کیوں وہ اسکی طرف مائل ہورہا تھا ۔اسکی سادگی اور چہرے کی معصومیت اسکو دوسری لڑکیوں سے خاص بنارہی تھی۔۔۔۔۔
فریال مجھے جانا ہے امی کی طبعیت یک دم خراب ہوگئی ہے۔مشعل فریال سے بولی
سب خیریت تو ہے نہ ۔فریال نے پوچھا۔
معلوم نہیں اکبری خالہ کی کال آئی تھی ۔مجھے جانا پڑے گا یہ تمہارے لیے تخفہ۔وہ جلدی میں بولی اور تخفہ اسکی طرف بڑھایا۔
اگر کوئی بھی ایمرجنسی ہوئی تو کال کرلینا۔فریال بولی۔
ضرور۔۔۔۔۔۔۔وہ یہ کہہ کر چلی گئی ۔
لیڈیز اینڈ جینٹل مین پلیز اٹینشن ۔۔۔۔۔۔۔۔زہرام اسٹیج پر مائیک لے کر آیا ۔
سب اسکی طرف متوجہ ہوگئی ۔
آپ سب لوگ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ۔آپ سب کے لیے ایک سرپرائز ہے۔خاص کر فریال اور میری فیملی کے لیے۔
ایسا کیا سرپرائز دینا ہے زہرام نے۔نشاط صاحب ارشاد صاحب سے بولے۔
معلوم نہیں۔انھوں نے جواب دیا وہ بھی متجسس تھے۔
جی تو آپ سب لوگ جانتے ہیں فریال دائمہ پھپھو کی بیٹی ہیں۔جو ایبٹ آباد میں مقیم ہے ۔جو اپنے میکے صرف کچھ ہی بار آئیں ہیں ۔۔۔۔۔
آج اٹھارہ سال بعد وہ دوبارہ ہمارے درمیان آئیں ہیں۔شہرلاہور میں دوبارہ قدم رکھے ہیں انہوں نے۔
اپنی بھرپور تالیوں سے ہم انکا ویلکم کرتے ہیں۔
سب لوگ حیران ہوگئے۔
ملک ارشاد ملک نشاط ایک دوسرے کو حیرانگی سے دیکھ رہے تھے ۔
ملک اقتتدار اپنی نشست سے کھڑے ہوگئے ۔
اپنی بیٹی کو دیکھنے کے لیے کتنا ترسے تھے وہ ۔۔
انکی نظریں دروازے پر مرکوز تھی چھوٹے چھوٹےقدم لیتے وہ اپنے شوہر کے ہمراہ وہ داخل ہوئیں۔نظر دوڑا کر پورے گھر کو دیکھا اٹھارہ سال میں کتنابدل گیا تھا یہ گھر کتنا ویران ہوچکا تھا ۔وہ اٹھارہ سال پہلے والاملک ہاؤس کہیں گم گیا تھا۔۔۔۔۔
بلکہ اٹھارہ سال پہلے والا شہر لاہور کہیں کھوگیا تھا ۔۔۔۔
چلتے چلتے وہ اپنے باپ کے پاس پہنچی جس نے انکو زور سے سینے لگایا۔
ملک اقتدار کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر دائمہ کے بالوں مہں جذب ہوگئے۔
کتنے سال ہوگئے صرف فون پر ہی باتیں۔ایساکیا ہوا تھا دائمہ ۔جو تم ایسے ہم سے اور شہر لاہور سے کٹ گئی ۔عجوہ بیگم اس سےملتے ہوئے بولی ۔
بس وفاؤں کے شہرمیں بےوفائی کی فضا نے ڈیرہ جمالیا تھا۔ وہ بولیں ۔
اچھا بھئی کن باتوں کو لے کر بیٹھ گئے۔چلوں فری آؤ کیک کاٹو۔نشاط صاحب بولے اورفریال کو کیک کاٹنے کے لیے بلایا ۔۔
کیک کٹنگ کے بعد ملک اقتتدار اسٹیج پر آئے اور ایک ایسا اعلان کیا کہ سب حیران ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنی بڑی پوتی ززرنیش کا نکاح اپنے بڑے پوتے شموئل سے کروارہا ہوں اور مجھے یقین ہے ان کے والدین کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا نکاح اگلے جمعہ کو ہے۔آپ سب ضرور آئیں اور ہماری خوشیون کے ساتھی بنے۔۔۔۔۔۔۔وہ بولے۔۔
سب حیرانگی سے دیکھ رہے تھے۔
شموئل نے اپنی سیدھے ہاتھ کی مٹھی بند کرلی۔
مارے ضبط کے اسکا چہرہ سرخ ہوگیا۔۔۔اس وقت اس کا دل چاہ رہا تھا وہ اڑ کر یہاں سے کہیں دور چلا جائے ۔۔
زرنیش بس آنکھیں کھولے حالات کو سمجھنے سے قاصر تھی ۔۔۔
میں ان دونوں کو اسٹیج پربلاؤں تاکہ آ کر ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنائے تاکہ واضح اعلان ہوسکے۔۔۔
انہوں نے ان دونوں کو اسٹیج ہر بلایا ۔
شموئل کوٹ سیدھا کرتے ہوئے اسٹیج کر آیاچہرے کے تاثرات بلکل نارمل تھے۔ وہ آیا اور ہلکا سا سمائل پاس کیا ۔
زرنیش کو یہ خاموشی اور نارمل انداز کسی خطرے کا نشان لگ رہا تھا ۔
وہ بھی خاموشی سے اسٹیج پر گئی ۔۔۔
انگوٹھی کی رسم ہوئی ۔
فائز آ کر اس کے گلے لگا مبارک باد دی۔خوشی اس کے چہرے پر واضح تھی۔۔۔
وہ آج واقعی بہت خوش تھا۔
کس ضبط اور صبر سے اس نے یہ سب برداشت کیا تھا وہی جانتا تھا۔اپنے دادا کو بےعزت نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔۔
پورا لان تالیوں کی گونج سے جی اٹھا۔
واہ بہت رونق اور محفل لگی ہوئی ہے۔ساریہ مصطفیٰ گھر میں داخل کوتے ہوئے بولی ۔۔
ہر سو سناٹا چھا گیا۔ مصطفی صاحب بھی پیچھے داخل ہوئے ۔
ملک اقتتدار آج خوشی سے پھولے نہیں سمارہے تھے ۔ آج ایک دم اتنی خوشیاں ایک ساتھ ۔۔
لیکن اکثر خوشیاں بہت سے غم کا سبب بن جاتے ۔
ان کے پیچھے ہی مرال بھی داخل ہوئی ٹائٹ جینس کے اوپر میرون ٹاپ چہرہ میک اب سے لت پت ہاتھ میں موبائل ڈوپٹے سے بے نیاز وہ چلتے چلتے ساریہ کے پہلو میں آ کھڑی ہوئی ۔
ہاۓ ایوری ون!وہ سب کو دیکھتے کوئے بولی مگر اسکی نظریں زہرام پر آ کر ٹہر گئی ۔وہ مسلسل اسےہی دیکھ رہی تھی ۔ دوسری جانب زہرام جو اس کے اس طرح دیکھنے پر آگ بگولہ ہوگیا ۔
ارے مرال کتنی بڑی اور پیاری ہوگئ ہو ایک دم ساریہ کی کاپی لگ رہی۔نشا بیگم بولیں۔
انکی بات پر سب مسکرائے ۔
ارے دائمہ تم بھی آئی ہو کیسی ہو کوئی رابطہ ہی نہیں رکھا ۔ساریہ بیگم بولیں۔
دائمہ انکی بات کو نظر انداز کر کے وہاں سے چلی گئیں ۔
سب نے اس بات کو محسوس کیا ۔
مام ڈیڈ میرے کزنز سے میرا تعارف تو کروائیں ۔مرال زہرام کو دیکھتے ہوئے بولی ۔
ہاں ضرور یہ ہے شموئل ارشاد بھائی کا بیٹا اور یہ رافع ارشاد ہیں مصطفیٰ صاحب خوشدلی سے تعارف کروانے لگے۔
یہ ہے زرنیش بیٹی ۔مصطفی صاحب زرنیش کے سر پر ہاتھ پھیر کر بولے ۔
مرال نے حقارت سے اس کے بازو کی طرف دیکھا ۔
ززنیش کو اسکا اس طرح دیکھنا ناگوار گزرا۔
یہ ہے شافع نشاط اور یہ۔۔۔
ابھی وہ زہرام کا تعارف کروانے لگے تھے کہ وہ وہاں سے نکل گیا۔
ارے آپ لوگ اندر آئیں نہ۔عجوہ بیگم نے زہرام کی حرکت جو کوور کرنے کی کوشس کی۔۔۔۔۔۔
مرال کو اپنی یہ بے عزتی برادشت نہیں ہوئی ۔
ملک زہرام اگر تمہہں میں نے اپنانہ بنایا تومیرانام بھی مرال مصطفیٰ نہیں۔۔اس نے سوچا اور مسکرائی۔
*********************************
اکبری کو منع بھی کیا تھا کہ تمہیں نہ بلائے مگر وہ کسی کی سنے تب نہ۔ کنزہ بیگم بیڈ پربیٹھتے ہوئے بولیں۔۔
کیوں نہ بتاتی آپکو تو اپنی صحت کا ذرا خیال نہیں ۔وہ انکو دوائی دیتے ہوئے بولیں ۔
کچھ نہیں ہوا مجھےصحیح ہوں۔بس سر میں ہلکا سا درد تھا ۔۔
جی بلڈ پریشر ہائی ہوگا آپ کا۔ چلیں اب لیٹے ۔میں بس پانچ منٹ میں آئی۔کمرے کی لائٹس بند کر کے وہ باہر نکل گئی۔
یا اللہ مجھے میری بیٹی کے سر ہر تب تک سلامت رکھنا جب تک اس کو اسکا محافظ نہیں مل جاتا۔۔۔۔وہ آنکھیں بند کرکے دھیمی آواز میں بولیں۔
***********************"*********
شہر لاہور ایسا تو کبھی نہ تھا اتنی ناآسودگی ۔یہ تو وہ شہر تھا جس کی پہچان ہی زندہ دلی تھی ۔یہاں کی جھلمل کرتی رونقیں ۔رقص کرتی نٹ کھٹ فضائیں کہاں کھوگئی ہیں یہ شہر اتنا اداس کیوں لگ رہا ہے۔زندہ دل شہر پر یہ ناآسودگی کچھ جچ نہیں رہی۔گاڑی سے باہر دیکھتے یوئے وہ سوچ رہی تھیں۔
اس وقت وہ اندرون شہر کی گلیوں میں تھیں۔
شہر لاہور کی پرانی تاریخ عمارتیں آج بھی وہی شان و شوکت رکھتی ہیں۔یہ شہر کسی کا بھی فل اپنی طرف مائل کرلیتا ہے ۔۔
کہاں گیا میرا وہ شہر لاہور جسے دیکھ کر ہی دل جی اٹھتا تھا۔
اے زندہ دل شہر بتا تو سہی کیوں اداس ہے تو تجھ پر جچتا نہیں اداس پن ۔وہ باہر دیکھتے ہوئے بولیں
شہر لاہور میں بےوفائی کی فضا نے جب سے قدم رکھا ہے یہ شہر اداس رہنےگا ہے۔اس کے اندر سے آواز آئی
ابھی وہ اپنی سوچوں کے بھنور سے باہرنہیں آئیں تھیں کہ گاڑی کا زوردار تصادم ہوا۔
ڈرائیور باہر نکلا۔
کنزہ بیگم جو گروسی خرید کر گھر جارہی تھیں اچانک گاڑی کے ٹکرا جانے سے نیچے گر پڑی اور ہاتھ پر موچ آگئی۔
سوری میم !ڈرائیور انکو اٹھاتے ہوئے بولا ۔
کوئی بات نہیں ۔کنزہ بیگم کھڑی ہوتے ہوئے بولیں۔
جیسے ہی وہ سیدھی ہوئیں انکی نظر گاڑی سے نکلتی دائمہ پر پڑی ۔چہرہ یک دم ساکت ہوگیا دماغ کچھ سال پہلے چلی گئی ۔
بہن آپکو زیادہ چوٹ تونہیں آئی میں بہت معذرت خواہ خواں ہوں آپ سے۔وہ بولیں ۔
کنزہ بیگم حیران ہوگئیں کیا واقعی دائمہ بیگم نے انہیں بھول گئیں ۔کیا وہ اتنے سکون میں کیسے تھیں ۔
کونسی چوٹ کا پوچھ رہی ہو جو روح پر دی ہے یا یہ جو ابھی دی ہے اور کس بات کے لیے معذرت خواہ ہیں آپ دائمہ یوسف ذرا وضاحت کریں گی ۔وہ طنزیہ لہجے میں بولیں ۔
دائمہ اسکی بات دن کر حیران رہ گئی ۔دائمہ نے اسکو غور دیکھا۔
میں نے پہچانا نہیں آپکو ۔وہ رسانیت سے بولیں ۔
اذیت دینے والا ہمیشہ بھول جاتا ہے لیکن جسکو غم اور دکھ ملتا ہے نہ وہ مرتے دم تک نہیں بھولتا۔وہ نفرت سے بھرے لہجے میں بولیں۔
کنزہ نام تو یاد ہوگا نہ شکل نہیں یاد تو ۔وہ سپاٹ لہجے میں بولی۔
دائمہ بیگم یہ نام سن کر سکتے میں چلی گئیں اور
اس کا مکمل جائزہ لینے لگیں۔
وہ جس نے کبھی برانڈ کے علاوہ کوئی کپڑا چھوا تک بہیں تھا آج وہ ان سستے اور عام سے کپڑوں میں۔
وہ لڑکی جو اکیلے مال میں جانے سے ڈرتی تھی آج یوں نڈر بن کے کھڑی تھی۔
وہ لڑکی جس کی گلاس اسکن پورے خاندان میں مشہور تھی۔آج اسکا چہرہ اتنا بےرونق۔۔۔
وقت حالات نے اسے کیا سے کیا بنادیا تھا۔
کنزہ یہ تم ہو ؟؟کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے ۔۔وہ صدمے سے بولیں۔
کیوں۔پہچانا نہیں مجھے وقت اور لوگوں کی باتوں نے ایسا طمانچہ مارا ہے کہ مکمل شناحت تبدیل ہوگئی ۔وہ طنزیہ مسکرا کر بولیں ۔
دائمہ افسردہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں ۔
اس وقت وہ قابل رحم لگ رہی تھیں۔
دیکھو مجھے اس شہر سے کتنی محبت تھی نہ
اسے بھی مجھ سے محبت ہے اب یہ بھی دیکھو کتنا اداس رہتا ہے ۔
کنزہ تم۔۔۔۔۔وہ ابھی اتنا ہی بولی تھیں کہ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روک دیا۔
کس حق سے تم مجھ پررحم کررہی ہو یا کیوں مجھے اتنی قابل رحم نظروں سے دیکھ رہی ہو ۔مجھے اس حال میں پہنچانےوالا کوئی اور نہیں تم لوگ ہو ۔
مجھے میرے باپ نے گھر سے نکال دیا صرف صرف تمہارے اس بےوفا بھائی کہ وجہ سے۔
تم لوگوں کو کبھی سکون نصیب نہیں ہوگا ۔
یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئیں ۔
وہ پیچھے بس اسکو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔
*********************************
سارا کمرا بکھرا ہوا تھا ۔کانچ ہر جگہ بکھرے ہوئے تھے ۔
وہ خود بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔
جس سے میں نفرت کرتا ہوں آج اسے ہی میری دسترس میں دینے کس فیصلہ ہوا ہے۔
واہ رے خدا تیری شان !سرخ ہوتی کوئی آنکھوں کے ساتھ وہ قہقہ لگا کر ہنسا ۔اس وقت وہ کوئی دیوانہ معلوم ہورہا تھا ۔
پھر اس نے اپنے پاس پڑا کانچ اٹھایا اور جس انگلی میں جہاں کچھ دیر پہلے انگوٹھی پہنائی گئی تھی انگوٹھی کی جگہ وہ کانچ پھیر رہا تھا انگلی کے گرد خون کا ایک گول دائرہ بن گیا تھا جس میں سے گرم خوں نکل رہا تھا ۔۔
مگر وہ مسکرا رہا تھا وہ اس قدر جذبات سے عاری ہوچکا تھا کہ درد بھی اس پر اثر انداز نہ ہوا ۔
تم سے نفرت کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے یہ۔۔۔۔۔۔وہ انگلی کی طرف دیکھتے کوئے بولا ۔
آنکھوں سے نفرت کے شعلے برس رہے تھے۔۔۔
*************************
اس وقت وہ سب ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھے ۔۔
سوائے دائمہ کے۔
اس وقت ان سب کی گفتگو کا موضوع زرنیش اور شموئل کا نکاح تھا۔
ارے بھئی جنکا نکاح ہے وہ دونوں خود کہاں ہیں ۔شافع بولا ۔
زرنیش کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی اور شموئل تو رات سے غائب ہے۔نشا بیگم بولیں ۔
السلام علیکم! زہرام نے سب کو سلام کیا
مرال جو اپنے موبائل میں غرقاب تھی۔زہرام کی آواز پر سیدھی ہوئی اوراسے دیکھنے لگی ۔
رف سے حلیے،بکھرے بال جو آگے سے ہلکے گیلے تھے اسکی شخصیت میں ایک الگ طلسم پیدا کررہی تھی جو مرال کو اپنی طرف راغب کررہا تھا
بڑے صاحب باہر کچھ لوگ آیا ہے آپکو اپنا رشتہ دار بتاتا ہے۔ خان بابا نے آکر پیغام دیا ۔
کچھ نام وغیرہ بتایا انہوں نے ۔۔
ہاں ملک فرقان بتاتا اپنا نام ۔وہ بولے۔
اندر بلاؤ اسے ۔ملک اقتدار بولے۔
ارشاد اور نشاط صاحب اپنی نشست سے کھڑے ہوگئے ۔
مصطفی صاحب ساکت ہوگئے ۔
یک دم خاموشی چھاگئی ۔فریال ،زہرام،رافع,،شافع ایک دوسرے کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔
انکی نظریں دروازے کی طرف تھیں ۔جہاں سے ایک ادھیڑ عمر شخص داخل ہوا ۔وہ شخص کسی ماندہ مسافر کی طرح لگ رہا تھا ۔
ملک اقتدار کھڑے تھے وہ انکے گلے ملے شاید وہ بھی اسکے انتظار میں تھے ۔بھائی کے گلے لگتے ہی انکو بھی
راحت ملی ۔
چچا جان کہاں چلے گئے تھے بغیر کوئی خبر دیے ارشاد صاحب نے کہا ۔
زندگی نے کھیل ہی ایسا کھیلا میرے ساتھ۔میں تم لوگوں سے نظریں بہیں ملاسکتا تھا اس وجہ سے ۔
میرا ہی خون دغا دے گیا ۔وہ بولے ۔۔۔
کیوں پرانے مردے نکال رہی ہیں ۔نشاط صاحب بولے۔
السلام علیکم چچا جان! مصطفٰی صاحب ایک پروقار انداز میں بولے۔
انکو دیکھ کر فرقان صاجب کے چہرے پر ایک ایک رنگ آیا ۔
ساریہ مرال کم ہیٔر ۔وہ اپنی زوجہ اور بیٹی کو بلاتے ہوئے ۔
السلام علیکم ماموں ۔ساریہ انکے آگے سر کرتے ہوئے بولی.
انہوں نے شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا ۔
چچا جان اسے ملے یہ ہے مرال مصطفیٰ ۔ میری اور ساریہ کی بیٹی۔
یہ سن کر ملک فرقان کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی ۔
انہوں نے مصطفی کی آنکھوں میں دیکھا ۔
جہاں سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ مووآن کرچکے ہیں۔ انکے دل میں ایک ٹھیس اٹھی ۔کر تو وہ کچھ نہیں سکتے تھے ۔
**************************""**
نومبر کی ٹھنڈی شام اپنے اختتام پر تھی وہ بالکونی میں کھڑی بادشاہی مسجد کو دیکھ رہی تھی جس کے پیچھے سورج چھپ رہا تھا ۔
آنکھوں کے سامنے کل کا منظر تھا۔
کیا سے کیا ہوگئی ہو کنزہ۔
ایسی تو نہ تھی کبھی وہ ۔ شہزادیوں جیسی زندگی گزارتی تھی۔
اب کیا سے کیا ہوگئی ۔جسے نفرت تھی ان تنگ گلیوں سے گھٹن ہوتی تھی جسے ان چھوٹے مکانوں سے ۔۔۔۔
تقدیر نے ایک شہزادی کو ایک پرانے گھر میں رہنے والی عورت بنادیا جسے اپنا بھی ہوش نہیں۔
مشعل بھی بڑی ہوگئ ہوگی ۔کتنی پیاری گڑیا تھی ۔ایک سال کی تھی سب کی آنکھ کا تارہ تھی پلکوں میں بٹھاتے تھے سب اسے۔
اب کیسے زندگی گزار رہی ہوگی ۔
آنکھوں سے آنسو بہہ کر گال پر آگئے۔
تم لوگوں کو کبھی سکون نصیب نہیں ہوگا۔کانوں میں آواز گونجی۔
ہم نہیں سکون ہیں میں ۔ مصطفٰی بھائی ایک مکمل زندگی گزار رہے ہیں مگر انکی آنکھیں انکا کھوکھلا پن ظاہر کرتی ہیں۔
****"""""""""""""""*********************
وہ راکنگ چییئر پر بیٹھ کر زندگی کے پرانے دریچوں میں جا چکی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔
افففف دائمہ تمہیں معلوم ہے نہ مجھے چھوٹے گھروں
میں گھٹن ہوتی ہے پھر بھی تم مجھے لے کر انہی گلیوں میں آگئی ۔وہ اندرون لاہور کی تنگ گلیوں میں سے گزرتے ہوتے خفت زدہ لہجے میں بولی۔
دائمہ صرف اسکا چہرہ دیکھ کر مسکرائی غصے اور گرمی سے اسکا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔ ۔
جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوئیں ۔کنزہ صوفے پر گری اور اے سی اون کیا فرقان صاحب اسے دیکھ کر مسکرائے۔
ایسے باہر سے آکر اے سی میں نہیں بیٹھتے ۔وہ بولے
ابا کچھ نہیں ہوتا ۔شہر لاہور کی گرمی کی بات ہی کیا ہے وہ بولی۔
تب تک ملازمہ پانی سے بھراچھوٹا ٹب لے آئی اور اس کے قدموں میں رکھ دیا۔جس میں اس نے اپنے پیر ڈال دیے اور راحت کا سانس لیا ۔
دائمہ اور فرحان صاحب اسکو دیکھ کر مسکرائے ۔۔
****************************
مصطفی یار کیا پلین ہے آ ج کا۔ ارحام بولا۔
کچھ نہیں ابھی تو میں دائمہ کو لینے جارہا ہوں چچا کی طرف سے۔
تو چاچو کی طرف جارہا ہے؟؟اس نے پوچھا ۔
ہاں تو بھی چل۔وہ مسیج ٹائپ کرتا ہوا بولا
وہ اسکے چہرے کی طرف دیکھتا رہا۔
نہیں۔وہ انکار کرتے ہوئے بولا اور وہاں سے چلا گیا مصطفی بس ارے ارے کرتا رہ گیا ۔
****************************