ہر سو خاموشی تھی یوں لگتا تھا اس گھر میں ذی روح نہیں پایا جاتا تھا۔
فریال کو اور باقی ینگ پارٹی کو جب پتا لگا تو انکے کے لیے یقین کرنا مشکل تھا۔۔۔
زہرام نے اب مشعل کا خیال چھوڑدیا تھا اسے یقین تھا کہ اب وہ اسے کسی صورت نہیں ملے گی۔
اے اللہ!بےشک دلوں میں محبت آپ ڈالتے ہیں اورمحبت بھی آپکی ہی نعمتوں میں سے ہے اور آپ جب بھی چاہے دیں اور جب چاہے لیں آپکے ہر عمل میں ہمارے لیے بہتری ہے۔
مشعل شاید میرے لیے نہیں بنی تھی اسی لیے شاید آپ نے اسے مجھ سے لے لیا۔
اسے ہمیشہ اپنی امان میں رکھنا یارب میں جانتا ہوں وہ میرے لیے نامحرم ہے مگر آپ تو اسکو چاہتے ہو نہ اسے محبت کرتے ہو یارب بس اسکا نصیب اچھا کرنا اور جسے میرے نصیب میں لکھے مجھے اس کے حق میں بہترین بنانا۔آمین۔
یہ کہہ کر زہرام نے چہرے ہر ہاتھ پھیرا اور اٹھ کر آسمان پر دیکھا جہاں پورا چاند چمک رہا تھا۔
*****************
بھابھی! کیا سوچ رہی ہیں!نشا نے انکے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
دیکھ رہی ہوں اللہ کی قدرت بھی کیسی ہے کیسے زہرام اور مشعل کے دل بھی ملادیے اس نے۔وہ بولیں۔
لیکن بھابھی کیا آپکو واقعی لگتا ہے کہ ان دونوں کی شادی ممکن ہے۔نشا بیگم نے ڈرتے ڈرتے ہوچھا۔
مجھے امید ہے یقین ہے اس پاک ذات رب پر جس نے ان دونوں کے دل ملائے ہیں۔عجوہ بیگم کی آواز میں ایک امید تھی ایک یقین تھا اپنے رب کی ذات پر۔۔
بےشک!نشا بیگم بھی بولیں مگر وہ دلی طور پر اس بات کا یقین کرچکی تھیں کہ یہ رشتہ ناممکن ہے۔
بابا کہاں گئے ہیں؟عجوہ بیگم نے پوچھا۔
گاؤں سے فون آیا تھا جلدی میں بغیر کچھ بتائے گئے ہیں۔نشا بیگم نے جواب دیا
********************
پورا گاؤں اس وقت خوف و ہراس سے لپٹے ہوئے تھے یہاں پانچ پانچ لاشیں پڑی ہوئیں تھی اور انہیں قتل کرنے والے درندے ہتھکڑوم میں جھکڑے ہوئے تھے۔
دیکھ لیا انجام ہاہا ہا میرے خلاف جاتی ہے بےغیرت محبت کی شادی کرتی ہے ماردیا اسکا تو یہی ہوناچاہیے تھا اسکاانجام اور اسکے ساتھ دینے والا۔انود زوردار قہقے لگا کر ہنس رہا تھا جیسے ان باتوں سے اسے کوئی فرق نہیں پڑرہا تھا۔
خاموش ہوجاؤ!تم جیسا درندہ میں نے آج تک نہیں دیکھا جس نے اپنے سگے رشتوں کا بھی احترام نہیں کیا ۔ملک اقتتدار للکارے۔
ہاہا صاحب بےغیرت لوگوں سے میرے کوئی رشتہ نہیں ۔وہ ڈھیٹ بن کر بوکا۔
اسکی بات سن کر وہ نفی میں سر ہلایا اور حوالدار کو اشارہ کیا ۔
وہ تو جیسے اشارے کے انتظار میں لے گئے اور جاتے جاتے جو الفاظ جو الفاظ انکے کان میں پڑے وہ یہ تھے۔
"دیکھ لونگا ایسی کوئی جیل نہیں بنی جو انور کو قید کرسکے"
اسکی بات پر دھیان دیے بغیر وہ واپس مڑگئے اور لاشوں کے کفن دفن کا انتظام کرنے لگے۔
********************
مانو !وہ بھی انکا ہی خون نکلا مانو میں اسے کیسے محبت کرسکتی ہوں مانو وہ لوگ میری ماں کے مجرم تھے میں پھر بھی اسکی محبت میں قید ہوگئی کیوں مانو کیوں؟؟وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے اسکے گلے لگ کر رورہی تھی۔
بس کر میری جان بس یہ سب تو اللہ کے کام ہے تم بس اسکی ذات ہر یقین رکھو اسکی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوگی ۔وہ اسے تسلی دیتے ہوئے بولی۔
اللہ نے ہمیشہ ہمارے ساتھ ہی تو ناانصافی کی ہے ہمیشہ ہم سے ہی تو سب لیا ہے وہ تو جیسے کل خوش باش تھے آج بھی ویسے ہی خوش ہیں ساری محرومیاں کیا صرف ہمارے نصیب میں لکھی ہیں وہ روتے ہوئے بول رہی تھی ۔
اسکا یہ حال دیکھ کر اسکا دل کٹ رہا تھا۔
اس سے پہلے وہ کوئی اور دلاسہ دیتی باہر سے گلاس ٹوٹنے کی آواز آئی اور ساتھ کنزہ بیگم کی چیخ جس نے ان دونوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا
امی یہ کہہ کر مشعل باہر کی طرف بھاگی اور ماہنور اسکے پیچھے ہولی۔۔
***************
وہ ناراض ہے مجھ سے۔زیادہ دیر نہیں رہ سکتی۔ کل جا کر منالوں گا میں اسے مجھے امید ہے وہ مان جائے گی ۔۔۔
میری محل میں رہنے والی بچی کیسے گھر میں رہتی ہے اسے تو وہاں گھٹن ہوتی ہوگی سانس بھی لہنا محال ہوگا بس اب کوئی مشکل نہیں بس کل کا سورج اگنے دو دیکھنا ہر مشکل سے تمہیں آزادی مل جائے گی۔
ملک فرحان نے سوچا۔
آزاد تو کل واقعی وہ شاید ہوجائے ہر مشکل سے مگر آنے والا کل کس نے دیکھنا ہے۔
*****""""""""
کنزہ تم آج بھی اتنی ہی حسین ہو جتنی تب تھی ۔
دیکھنا کل میں تمہیں منالونگا اور تم مجھے معاف بھی کردوگی۔
مشعل میری بیٹی وہ تو ہوبہو میری کاپی ہے زہرام بھی اچھا لڑکا ہے اور انکی شادی سے میری بیٹی ہمیشہ میری بیٹی پاس رہے گی۔
مصطفی صاحب مستقبل کی پلاننگ کرنے لگے۔
شاید وہ بھول چکے ہماری ہر پلاننگ قدرت کے فیصلوں کے آگے بیکار ہے۔
***********""******
ابھی وہ کفن دفن سے فارغ ہوئے تھے کہ ایک ایسا فون کال آیا جس نے انکے پیروں سے زمین کھینچ لی۔
میں میں ابھی آتا ہوں ۔۔وہ ہکلاتے ہوئے جلدی سے وہاں سے نکلے۔
**********************
رات کا اندھیرا اپنا اثر ان سب کی زندگی پر چھوڑتا ہوا چلا گیا ۔
چھوٹے سے گھر کے کشادہ صحن میں چارپائی پر سفید کفن کے لپیٹا وجود ہر پریشانی اور مشکل سے آزادی پاگیا تھا۔
اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ واقعی یہ اسکی ماں ہے۔وہ ماں جو اسکے بخار میں تڑپ اٹھتی تھی جہاں بھی چلی جاتی مگر اسکا ساتھ نہیں چھوڑتی کیسے وہ اسے دنیا کے لوگوں اور بھیڑ میں تنہا چھوڑ گئی ۔
قدرت کا یہ کھیل بھی عجیب ہے جسے لوگ "موت کہتے ہیں۔
موت کے معنی ہر کسی کے لیے علیحدہ ہوتے ہیں ۔کسی کے لیے یہ آزادی ہوتی ہے کسی کے لیے یہ ٹریجدی ہوتی ہے۔انسان پلانگز تو بہت کرتا ہے مگر یہ جو موت ہوتی ہے نہ اسکی اپنی ہی ایک پلانگ ہوتی ہے ۔
ایک ماں جو اپنے آنےوالے بچے کے بارے میں بہت سے ارادے کرتی ہے اسکا مستقبل سوچتی ہے اور وہی ماں جب بچے کی پیدائش کے وقت دم توڑ جائیں تو کیسی پلانگز کیسا بچہ۔
اسی طرح ایک ماں بچے کو بڑا کرتی ہے اس نے اسکی شادی کے کتنے ارمان سجاتی ہے مگر اسے نہیں معلوم ہوتا کہ وہ یہ دن دیکھ پائے گی کہ نہیں اور ہر جب یہ موت آتی ہے تو سارا خوشیوں کا سماں دکھ میں تبدیل ہوجاتا ہے اسی طرح کنزہ نےبھی مشعل کے لہے کتنے خواب سجائے تھے مگر ہائے یہ ظالم موت جہاں کنزہ کا ہر خواب ادھورا رہ گیا وہیں یہ اس لے لیے آزادای تھی۔۔۔۔۔
مگر ملک فرحان اور ملک مصطفی کا کیا جو اپنی پلاننگ کر کے بیٹھے ہیں۔
******** ****************
اس وقت وہ سب ناشتے کے ٹیبل پر موجود تھے۔۔
ملک فرحان بھی آکر بیٹھے تھے کل کی نسبت آج وہ کچھ فریش لگ رہے تھے۔
آج آسماں پر گہرے کالے ساۂے بادلوں کا قبضہ تھا۔ سورج تو جیسے آج روٹھا ہوا ۔
زہرام کہاں ہے ابھی تک آیا کیوں نہیں۔عجوہ بیگم نے زہرام کی خالی جگہ دیکھی تو پوچھا۔
آگیا امی جان! السلام علیکم ۔وہ جواب دینے کے ساتھ سلام کرتے ہوئے بولا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
ابھی اس نے جوس کا گلاس پکڑا تھا کہ فون پر بیل ہوئی۔
جیسے ہی اس نے فون اٹھا کر چیک کیا تو ایک ان نون نمبر سے کال آرہی تھی۔اس نے فون اٹھالیا۔
السلام علیکم !اس نے سخت انداز میں پوچھا۔
وعلیکم السلام میں ماہنور بات کررہی ہوں مشعل کی دوسر اس سے چھپ کر کال کررہی یوں ایک خبر دینی تھی آپکو۔
جی جی بولیں۔مس ماہنور سب خیریت ہے۔اس نے تحمل سے ہوچھا
دوسری طرف سے کچھ ایسا کہا گیا کہ اس کا رنگ سفید پڑگیا
فون کٹ چکا تھا اس نے ایک نظر ناشتہ کرتے ملک مصطفی کو دیکھا جو اس کے اس طرح دیکھنے پر رک گئے پھر اس نے ملک فرحان کو دیکھا جو جوس کے چھوٹے چھوٹے سپ لے رہے تھے اور ہھر اپنی ماں کی طرف دیکھا جو پہلے ہی اسکی طرف متوجہ تھی۔
"ماں"
اسکی آواز میں ایک سرد پن تھا۔
جی میری حان سب خیریت ہے؟انکے دل میں مختلف خدشات پیدا ہورہے تھے۔
امی! وہ وہ مشعل!اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگیا ۔
مشعل کا نام سن کر وہ دوئوں بھی متوجہ ہوگئے۔
کیا ہوا ہے میری نواسی کو۔ملک فرحان نے پوچھا ۔
اس نے انکی جانب دیکھا چہرے سے ہلکا سا غصہ چھلکا۔
کچھ نہیں ہوا مشعل کو۔
انکی بات سن کر انہوں نے سانس لیا۔
ڈرادیا۔۔۔۔۔۔ابھی وہ جملہ پورا کرتے کہ زہرام بولا۔
"کنزہ چچی اس دنیا میں نہیں رہیں"
گویا کسی نے انکے سر ہر بم گرادیا ہو۔
مصطفی صاحب کے ہاتھ سے چمچ گرگیا۔
کیا کہا تم نے ؟؟عجوہ بیگم بولیں۔
امی کنزہ چچی ہم میں نہیں رہیں وہ اس دنیا کے ہر غم سے آزاد ہوگئیں۔
یاااللہ۔عجوہ بیگم نے اپنا سر ہاتھوں میں گرالیا۔
ملک فرحان کو لگا کسی نے انکے پیروں سے زمین کھینچ لی ہو ۔
کیسے کیسے جا سکتی ہے وہ مجھے چھوڑ کر میں نے تو اسے منانا تھا کیا اتنی ناراض تھی وہ مجھ سے۔وہ کرسی کے ساتھ سر ٹیکے آنکھیں موندے سوچ رہے تھے۔
**********************