بہت درد چھپے ہیں رات کے ہر پہلو میں
اچھا ہو کے کچھ دیر کے لیے نیند آجائے
کمرے میں ہلکی ہلکی چندھیائی ہوئی نائٹ بلب کی روشنی تھی۔
نائٹ بلب کی روشنی میں وہ وجود بستر ,پر بیٹھا اپنے ماضی کے بارے میں سوچ رہا تھا شائد پچھتارہا تھا ۔
ایک گہری سانس لے کر اس نے سائیڈ ٹیبل پر دیکھا جہاں دوائیوں کا انبار لگا ہوا تھا ۔انہی دوائیوں پر اب اسکی زندگی منحصر تھی۔
مکافات ہوچکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اب وقت گزچکا تھا ازالے کا۔
اب تو اسکی زندگی ایک زندہ مردے کی طرح تھی۔
زندگی کا ایک ایک دن اس کے جسم پر ہتھوڑا بن کر برس رہا تھا۔۔۔
یارب مجھے معاف کردے میں نے بہت بڑا گناہ کیا ہے۔
مگر تو رحیم ہے معاف کردے ۔
اب تو اسکی زندگی کی ہر رات معافی مانگتے گزرتی ہے۔
اسکی نظریں کب سے دیوار پر مرکوز تھیں ۔۔۔۔
وہ کیا سوچ رہا تھا اس کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔۔۔۔
اسکی بیوی کمرے میں داخل ہوئی اور اسے دیکھا اور تاسف سے نفی میں سر ہلایا ۔
بھول کیوں نہیں جاتے آپ اسے۔وہ بولی۔
کس کی بات کررہی ہو۔اس کے لہجے میں سختی تھی ۔۔۔۔۔
وہی بےوفا جو جانے کے بعد بھی ابھی تک آپ کے دل سے نہیں گئی ۔اس نے دھیمی آواز میں کہا۔
اس نے اسے دیکھا اس کے چہرے کے تاثرات سخت ہوئے اور وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
تم پچھلے اٹھارہ سال میں مجھے نہیں سمجھ سکی ۔۔۔۔۔۔۔۔
تم یہ نہیں جان پائی ملک مصطفیٰ ایک حقیقت پسند آدمی ہے وہ ہمیشہ آگے بڑھنے کی سوچتا ہےاور آج تو یہ بات کہہ دی دوبارہ مت کہنا مجھے اس کے ذکر سے بھی نفرت ہے۔۔۔۔۔۔
یہ کہہ کر وہ باہر کی طرف چل دیا پیچھے سے وہ بس اسے دیکھتی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسا کیاحادثہ ہوا تھا اٹھارہ سال پہلے جس نے ملک مصطفیٰ کو اتنا بدل دیا کہ جس کے لیےوہ بغاوت پر اتر آئے تھے۔آج اس سے اس قدر نفرت کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے واشنگ مشین میں کپڑے ڈال کر اسے تیسرا چکر دیا اور پہلے کے نکلے کپڑوں کو صحن میں لگی تاڑ پر ڈالنے لگی کہ دروازے پر دستک کوئی۔
اس نے نظر انداز کردیا وہ جانتی تھی کہ کون ہوگا۔
اور اپنے کام میں مصروف رہی۔۔
کچھ ہی دیر میں دروازہ بری طرح پیٹنے لگا۔۔۔۔
کنزہ بیگم جو ابھی ابھی نماز سے فارغ ہوئیں تھیں باہر آئیں اور ایک نظر اسے دیکھ کر دروازے کی طرف بڑھ گئیں۔
جیسے ہی دروازہ کھولا وہ برق رفتاری سے اسکی طرف بڑھی۔۔۔۔۔
بےفیض کبھی تو دروازہ کھول دیا کر ۔۔۔۔۔وہ اس پر برسی۔
اس نے سنا کو ان سنا کرکے کام میں مصروف رہی۔
یاررر ۔۔۔۔ایک تو نہ گھر میں بھی اماں نے واشنگ مشین لگائی ہوئی ہے اوریہاں تو نے وہاں سے چھٹکارا پانےکے لیے یہاں آئی۔افففف تم لوگوں نے تو سنڈے کو دھلائی ڈے سمجھ رکھا ہے۔۔۔۔۔۔وہ بغیر رکے بولی حارہی تھی۔
اتوار تو ہوتا ہی انہیں کاموں کے لیے۔۔۔۔وہ اپنے پرمخصوص لہجے میں بولی ۔
اسکے جواب میں وہ صرف منہ بنانے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکی اور کنزہ بیگم کے ساتھ اندر چلی گئی اس کے جانے کے بعد وہ بھی جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگی۔۔
تحت پر وہ اپنے پروقار انداز میں بیٹھے تھے ۔سامنے زمین پر ایک عورت ایک جوان لڑکی کو اپنے ساتھ لگائے فریاد کررہی تھی جو اس گاؤں کے زمیندار کی بیوی اور بیٹی تھی۔
ملک سائیں! آپ ہمارے سرپنچ ہے آپ جو بھی حکم سنائے گے وہ ہمیں منظور ہوگا۔ نانصافی نہ کیجیے گا میری بچی کے ساتھ۔ اللّٰه نے ااپکو اس منصف پر فائز کیا ہے اس کی قدر کیجیے گا ۔۔۔۔۔۔۔
وہ عورت ان کے قدموں میں گرکر بولی ۔
اٹھ فریدہ اٹھ۔۔۔۔۔اس کے اس عمل سے وہ پریشان ہو گئے اور بولے۔۔۔
بلاؤ جمشید کو ۔۔انھوں نے اپنے ملازم کو حکم دیتے ہوئے کہا ۔
جی ملک صاحب ۔وہ فرمانبرداری سے کہتے ہوئے چلا گیا اور کچھ ہی دیر میں دو آدمیوں کے ساتھ حاضر ہوا جنہوں نے ایک آدمی کو قابو کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔
میں تیرا قتل کردوں گا تیری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی زندہ دفنادوں گا تجھ کو اورتیری اس بےحیا بیٹی کو جو باپ کے سر میں خاک ڈالنے جاررہی تھی۔اپنی بیوی اور بیٹی پر نظر پڑتے ہی وہ آپے سے باہر ہوگیا ۔
جمشید ہم بیٹھے ہیں ادھر فیصلہ کرنے کے لیے بتاؤ کیا ہوا ہے۔۔۔۔ملک اقتدار اپنے طرف دھیان دلاتے ہوئے بولے ۔
گستاخی معاف ملک جی مگر اس کو دیکھ کر میرا خون کھولتا ہے۔اس نے اپنی بیٹی کو سخت نظروں سے گھورتے ہوئے کہا۔
ماجرہ بتاؤ۔ملک اقتدار نے تنبہہ لہجے میں کہا۔
یہ بے حیا میرے بھتیجے انور کی بچپن کی منگ ہے ۔اب رشتے سے انکار کررہی ہے اور اس کسان کے لڑکے فیروز سے چکر چلارہی ہے۔بادشاہوں والی زندگی چھوڑ کر کسانوں والی زندگی جینا چاہتی ہے کوڑھ مغز۔۔وہ بولا ۔
اسکی بات سن کر وہ لڑکی کیطرف متوجہ ہوئے جو ماں کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔۔
ہاں نازو تو کیا کہنا چاہتی اس معاملےمیں۔انھوں نے اس لڑکی سے پوچھا جو سہمی ہوئی تھی۔
ملک اقتدار کے پوچھنے پر اس نے بولنا شروع کیا ۔۔۔
ملک سائیں ابا میری شادی انور سے زبردستی کروارہے ہیں۔انور جو بے روزگار ہے اور ہر بری لت کا شوقین ہے۔اس کے ساتھ بیاہ رہے ہیں جو عوتوں پر ہاتھ اٹھانے اور ان کو اپنا غلام بنانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔۔۔
صرف دولت کپڑا اور چار وقت کی روٹی زندگی گزارنے کے لیے کافی نہیں عزت و اخترام بھی ضروری ہے۔جو انور نہیں دے سکتا۔۔۔۔۔۔ فیروز بے شک کسان کا بیٹا ہے مگر حافظ قرآن ہے ماں باپ کی عزت کرتا ہے عورت کو وہ عزت دیتا ہے۔جس کی وہ حقدار ہے۔
ملک سائیں!کم روٹی اور کپڑے سے تو گزارا ہوجاتا ہے مگر عزت و اخترام کے بغیر زندگی عذاب بن جاتی ہے بوجھ ہوتی ہے۔۔۔وہ بغیر رکے بولی۔۔۔۔
اسکی بات سے وہ متاثر ہوئے اور بولے۔۔
ٹھیک ہے اگر اتنا ہی بات ہے تو بلا اسے اور کہہ نکاح کرے تجھ سے۔وہ بولے۔
وہ رشتہ لایا تھا مگر ابا نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ تو ہماری برادری کا نہیں۔وہ اپنے باپ کو دیکھتے ہوئے بولی۔
ملک اقتدار نے جمشید کو دیکھا جو ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔
جمشید!یہ ذات برادری کیا ہوتا ہے یہ کافی نہیں وہ ایک شریف سلجھا ہوا بچہ ہے جو تیری بیٹی کو خوش رکھے گا اور حلال رزق کھلائے گا۔وہ اسکی طرف دیکھ کر بولے۔
ملک سائیں برادری ۔۔۔۔ابھی وہ اتنا ہی بولا تھا کہ انھوں نے اسکی بات کو کاٹا اور بولے۔۔
برادری کچھ نہیں یوتا نصیب سب اوپر سے لکھواکر آئے ہوئے ہیں۔سوہنے رسول نے بھی تو اپنی بیٹوں. کی شادی برادری سے باہر کی ۔ہم سب کے لیے نصیحت ہے چل اب کوئی اعتراض تو نہیں تجھے۔۔۔۔۔۔وہ بولے۔
وہ خاموش رہا۔کہنے سننے کو اب کچھ تھا ہی نہیں اس کے پاس۔
جا رشید! فیروز اور اس کے باپ کو بلا کر لا ۔انہوں نے ملازم کو حکم دیا جس کی تکمیل بھی کردی گئی۔
ملک سائیں! ہم سے کوئی غلطی ہوگئی معاف کردو۔۔۔کسان ان کے قدموں میں بیٹھ کر بولا ۔
دیکھ فیضان (کسان کا نام)ہم جمشید کی بیٹی کا تیرے بیٹے کے ساتھ نکاح کرنا چاہتے ہیں یہ بتا تو اسے کو خوش تو رکھے گا نہ۔۔۔۔انھوں نے پوچھا ۔
ہم تو دھی رانی کو اپنی پلکوں پر بٹھا کر رکھیں گے۔۔۔۔
وہ محبت پاش لہجے مہں بولے۔
اس کے اس لہجے نے جمشید کا دل بھی نرم کردیا اسی طرح کچھ دیر میں ان دونوں کا نکاح کرادیا گیا۔۔۔۔۔
سب ملک اقتدار کی عزت کرتے تھے کیونکہ وہ اپنا ہر فیصلہ انصاف سے کرتے اور لوگوں میں برابری کا کرتے ۔انکے اس فیصلے سے بھی سب خوش تھے۔
لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس برادری کی بنا پر انہوں نے کسی کی زندگی برباد کردی۔۔۔۔۔۔
سیٹی بجاتے ہوئے اپنے کمرے میں داخل ہوا
سارا کمرہ بکھرا پڑا تھا ۔کتابیں بک شیلف میں موجود ہونے کی جگہ صوفہ کم بیڈ کی زینت بنی ہوئی تھیں بیڈ شیٹ آدھی بیڈ پر آدھی زمین پر تھی۔اور بیڈ کے نیچے سے دو ٹانگیں نظر آرہی تھیں۔
وہ آگے بڑھا اور ان ٹانگوں کو بیڈ کے نیجے سے نکالا۔
کیامسئلہ ہے۔رافع جھنجلا کر بولا ۔
تو ہے میرا مسئلہ اور یہ تو بیڈ لے نیچے کیا ڈھونڈ رہا ۔شافع کمر پر ہاتھ رکھ کر بولا ۔
کچھ نہیں یار وہ میری لکی واچ نہیں مل رہی ۔رافع کھڑا ہوکر اپنی شرٹ ٹھیک کرتے ہوئے بولا۔۔
اسکی بات سن کر وہ تھوڑا پریشان ہوگیا۔
سبے تو ٹینشن نہ لے میرا انٹرویو بہت اچھا ہوگا ۔آخر کو تیرا بھائی اتنا انٹیجلنٹ ہے۔وہ کالر جھارتے ہوئے بولا ۔
اچھا اچھا اب جا۔شافع اسے چڑھانے والے لہجے میں بولا۔
انہہ جیلیس پیپل ۔وہ ایک سٹائل سے کہتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔
اس کے جانے کے بعد اس نےوہ واچ نکالی جو اس نے کچھ ہی دنوں پہلے اس سے چھپ کر اٹھائی تھی اور اب وہ جو سلور کلر کی تھی وہ گولڈن کلر میں تبدیل ہوچکی تھی۔اسکے شیطانی دماغ میں کیا چل رہا تھا ۔صرف وہی جانتا تھا ۔
اوہ شٹ!!!ٹائم دیکھتے ہی اسے کچھ یاد آیا اور وہ جلدی میں گھر سے نکلا۔
ائیر پورٹ پر کھڑا وہ سب کی نظروں کا مرکزبنا ہوا تھا۔۔
لمبا قد،دودھیا رنگت،تیکھے نین نقوش اوپر سے اس کا یہ مغرور پن اسے اور دلکش بنارہا تھا ۔
اس نے اپنی ویسٹ واچ پر ٹائم دیکھا اور دوبارہ داخلی راستے پر دیکھا ۔
کچھ ہی دیر میں وہاں سے ایک لڑکی آتی ہوئی دیکھائی دی اس نے نظریں ادھر ادھر دوڑائی۔
گندمی رنگت ،پرکشس نین نقوش اور سر پر سلیقے سے لیا یوا حجاب اسے بھی دلکش بنارہا تھا۔
وہ متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھا اور اپنے مطلوبہ شخص کے نظر آنے پر وہ اس جانب بڑھ گئی جہاں وہ کب کا اس کا انتظار کررہا تھا۔
اس کے قریب جاکر اس کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
تھینک گاڈ! اس نےسکھ کا سانس لیا ۔
اسکی بات سن کر اس کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکان آئی۔
وہ دونوں اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے ۔
مرال! ۔یہ ڈریس کتنا پریٹی ہے نہ۔اس نے ایک وائٹ کلر کی میکسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ جس کے اوپر خوبصورت پرل کا کام ہوا تھا ۔
اس نے موبائل سے نظر ہٹا کر ڈریس کو دیکھا آنکھوں میں ایک چمک آئی غرور کی اور بولی ۔
میرے اسٹینڈرڈ کا نہیں ہے۔وہ مغرورانہ لہجے اور واک آؤٹ کر گئی۔
غرور اسکی رگ رگ میں تھا یا شائد اسے وراثت میں ملا تھا۔
مرال مصطفی کا یہ ماننا تھا کہ وہ دنیا کی ہر شے اپنی دولت کی بنیاد پر خرید سکتی ہے۔
وہ سب کام ختم کرکے اندر داخل ہوئی تو دیکھا ماہنور کنزہ بیگم کے ساتھ باتوں میں مصروف ہے انھیں یوں مصروف دیکھ کر وہ بھی انھی کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
مشی !کل لسٹ لگنی ہے یونیورسٹی میں۔میں آجاؤں گی تیار رہنا ۔خدا کے لیے ۔وہ التجائیہ لہجے میں بولی ۔
اس کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ آئی۔
ماہی سفارش پر ہوتا ہے سب کچھ ۔یہ پیسے کی ہی لالچ ہوتی ہے کہ انسان اس کے دھن میں اندھا ہوکر اپنا ایمان تک بیچ دیتے ہیں۔اس ملک میں ایڈمیشن میرٹ پر نہیں پیسوں پر بکتے ہیں اور اس کے خریدار بھی بہت ہیں۔۔۔۔
اب دنیا میں میرے خیال سے ایسا کچھ نہیں رہا جس کی قیمت نہ ہو۔ ۔۔یہاں تک کہ محبت کو بھی پیسوں کے ذریعے خریدا جاسکتا ہے چاہے وہ کسی کی ہی کیوں نہ ہو۔وہ بولی اس کے لہجے سے نفرت صاف واضح ہورہی تھی ۔اسکی بات سن کر وہ دونوں خاموش ہوگئیں ۔وجہ وہ دونوں بھی جانتی تھیں۔۔
غازی کہاں ہے؟آج کل نظر نہیں آرہا ۔کنزہ بیگم نے پوچھا ۔
خالہ نوکری لگ گئی ہے نہ تو بس وہی مصروف ہیں ۔۔ ماہ نور بولی ۔
ماشاءاللّٰه ۔کامیابی نصیب ہوں میرے بچے کو اسے کہنا چکر لگائے خالہ یاد کررہی ہے ۔وہ شفقت سے بولی ۔
جی کہہ دوں گی اب میں چلتی ہوں ۔یہ کہہ کر وہ مشعل سے ملنے لگی۔
کتنی دیر لگادی تم نے ہم سب نکلنے لگے تھے ۔۔عجوہ بیگم فریال سے ملتے ہوئے بولی ۔
بس فلائٹ لیٹ ہوگئی نہ میری اس میں کیا غلطی ۔وہ معصومیت سے بولی ۔
اسکا چہرہ دیکھ کر انھیں بہت پیار آیا۔
بیگم! اب آجائیں کافی ٹائم ہوگیا ہے۔۔۔ارشاد صاحب کی آواز آئی۔
آرہی ہوں۔عجوہ بیگم نے جواب دیا اور فریال سے ملتے ہوئے نکل گئیں ۔
سب گھر والے کدھر کوئی بھی نظر نہیں آرہا ۔فریال بولی۔
تمہاری آمد کا ان کر بھاگ گئے۔زہرام نے جواب دیا ۔۔۔۔
آپ بھی مذاق کرتے ہیں۔اس نے ٹھوڑی پر انگلی رکھ کر مزاقیہ لہجے میں بولا۔
اسکی بات سن کر اسکے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔
اچھابتاؤ نہ کہاں ہیں سب؟؟اس نے دوبارہ پوچھا ۔
شافع زرنیش کو لینے گیا ہوا ہے ۔رافع انٹرویو دینے گیا ہے۔
شموئل بھائی آفس میں ہیں۔۔
چچا چچی حیدرآباد ہیں۔دادا گاؤں گئے ہوئے اور امی ابو تمہارے سامنے خالہ کی عیادت کے لیے چلے گئے۔اس نے ڈیٹیل بتائی۔
ہممم چلو میں ریسٹ کرلو تھک گئی ہوں ۔وہ بولی اور کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔
شافع! یہ کہاں سے لے جا رہے ہو تم مجھے ۔زرنیش تلملا کر شافع سے بولی جو مزے سے گاڑی چلا رہا تھا۔
ایڈونچر ۔۔۔یہ کہتےہوئے اس نے اس چھوٹے سے محلے کی تنگ گلیوں میں داخل ہوگیا۔وہ جیسے ہی ایک گلی میں مڑا گاڑی ایک لڑکی سے ٹکرا گئی ۔
اوہ نو!زرنیش گاڑی سے باہر نکلی ۔
اس کے پیچھے شافع بھی منہ بناتا نکل پڑا ۔
ماہ نور جواپنے گھر کی طرف جا رہی تھی اپنی گلی میں داخل ہوتے ہی اس گاڑی سے ٹکرا گئی ۔۔۔۔
آپ ٹھیک تو ہے نہ۔زرنیش نے پوچھا ۔
ماہ نور کے پاؤں میں موچ آئی تھی اور بازو میں خراشیں آئی تھیں ۔
اوہ کم۔آن سسٹر ان لوگوں کے لیے یہ سب کامن ہے۔ان لوگوں کے ساتھ روز کوئی نہ کوئی حادثہ ہوتا رہتا ہے اور یہ کوئی اتنی بڑی چوٹ نہیں ۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور کچھ پیسے نکالے اور اسکی طرف پھینک دیے۔۔۔۔۔۔زرنیش یہ سب ایک خاموش تماشائی کی طرح دیکھ رہی تھی۔شافع نے اسے پکڑا گاڑی میں بٹھایا اور زن کرکے گاڑی کو وہاں سے لے گیا۔
اوئے انور! وہ شخص بھاگا بھاگا آیا اور اس شخص کو مخاطب کیا جو منہ میں سیگرٹ دبائے بیٹھا تھا۔۔۔۔۔۔
اسکی پکار سن کر اس نے آنکھیں کھولیں ۔لال آنکھیں ۔
انکھوں کے گرد حلقے۔چہرے پر بڑھی ہوئی پونچھیں اسے خوفناک بنارہی تھیں۔۔۔۔۔
ہاں بول ۔۔۔۔وہ بھاری بھرکم لہجے میں بولا ۔
تو ادھر بیٹھا ادھر تیری منگ کو وہ فیروز بیاہ لے گیا ۔۔۔۔۔
اسکی بات سن کر طیش میں آگیا اور اسکا گریبان پکڑ لیا۔
پتہ بھی ہے کیا بکواس کررہا ہے۔وہ غرایا ۔
ج۔جی ابھی دیکھ کر اایا ہوں ۔وہ ملک سائیں کی محفل میں ان دونوں کا نکاح ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ گھبرا کر جلدی جلدی بولا ۔
اس ملک سائیں کی تو ایسی کی تیسی۔۔۔وہ اسکو دھکا دے کر بولا ۔۔۔
اب دیکھے گا یہ گاؤں انور کی غیرت ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چلا کر بولا ۔
انکھوں میں قہر تھا۔
کس بات کا غرور ہوتا ہے ان بڑے لوگوں کو کہ ان کے پاس پیسہ ہے۔اسی لیے یہ ہم جیسے انسانوں کو انسان نہیں سمجھتے۔شاید مشی ٹھیک کہتی ہے ۔پیسہ ہی سب کچھ ہوتا جس کے پاس پیسہ ہے وہی سب کچھ ہے۔وہ بادشاہ ہے۔ وہ جو چاہے وہ خرید سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
وہ گھٹنوں میں سر دیے ۔بیٹھے انھی سوچوں میں گم تھی۔۔
کمرا اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔اس کے ذہن میں یہی سوچیں گردش کررہی تھیں ۔
دروازہ کھولا اور عافیہ بیگم اندر داخل ہوئیں۔۔۔۔
تجھے کچھ عقل بھی ہے مغرب کا وقت ہے اور تو یہ گھپ اندھیرا کیے بیٹھی ہے۔یہ کہتے ہوئے انھوں نے کمرے کی لائٹیں جلائیں۔
جب تقدیر میں ہی اندھیرا ہو تو ان اندھیروں سے کیا فرق پڑتا ہے۔وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی ۔
عافیہ بیگم اس کی آواز سن کر پلٹی اس کے پاس آئیں اس کے چہرے کو دیکھا آ نسو کےنشان گالوں پر لکیر کی طرح تھے۔
کیا ہوا چندا کیوں مایوسی کی باتین کرہی ہے۔چل میرا بیٹا اٹھ اور رب کے سامنے سجدہ کر اور اس کا شکر ادا کر ۔۔وہ پیار سے بولیں۔
امی کس بات کا شکر ادا کروں کہ اس نے ہمیں غریب پیدا کیا ۔ہر چیز ہمیں ہمیں تڑپ تڑپ کر ملتی ہے۔دال روٹی کھانے کو ملتی مہینہ دو مہینہ گزرجاتا ہے تب کہیں جا کر گوشت دیکھنے کو ملتا ہے۔امی یہ ناانصافی کیوں ؟ اَللّٰهُ نے کچھ لوگوں کو اتنادیا ہے لیکن وہ شکر نہیں کرتے تو ہمیں کیا ملا ہے جو ہم شکر ادا کریں ۔وہ رندھی آواز میں بولی اسکی آواز میں کرب ہے۔
عافیہ بیگم کو تشویش ہوئی۔
طبیعت ٹھیک ہے تیری ۔کیا ہوا ہےکیوں ایسی باتیں کررہی ہے۔۔وہ اسے ہلا کر بولی۔۔
امی کچھ نہیں حقیقت معلوم ہوگئی۔امی یہ تو بتائیں۔ اللّٰه آزمائش امتحان اور آنسو کیوں دیتا ہے اور صرف ہمیں ہی کیوں دیتا ہے۔ان بنگلوں میں رہنے والوں کے لیے کیوں نہیں ہوتی۔وہ انکی آنکھوں میں جھانک کر بولی آنسو ابھی بھی آنکھوں چھلک رہے تھے ۔
اللّٰه امتحان دیتا تاکہ تم صابر بنو۔
آزمائش میں ڈالتا تاکہ شکر گزار بنو۔
آنسو دیتا ہے تاکہ تمہارا دل صاف ہو۔
لیکن وہ چپ بھی کرواتا ہے تاکہ اس پر یقین رکھو۔
ان بنگلوں والوں کے لیے ان کے بنگلے ہی آزمائش ہوتے ہیں اور ہمارے لیے ہمارے یہ آنسو اور صبر ہی بخشش کا سامان ہے۔۔۔۔
وہ اس کا ماتھا چوم کر بولیں۔
اور ہربات کو دل پر نہ لگایا کر چل جھلی نہ ہو تو ۔انھوں نے اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگاکر کہا ۔۔
انکی بات سن کر وہ مسکرائی۔