عمر ہانیہ کے سامنے بیٹھا سچ سننے کا منتظر تھا اور ہانیہ جس بھی رخ سے بتانا شروع کرتی قصوروار خود ہی کو پا رہی تھی وہ موت کو کوستی جو آج بھی اسے زندگی کے حوالے چھوڑ گئی تھی عمر کے سامنے اپنے بچپن سے اب تک کے تمام باب کھول گئی تھی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہ رہے تھے اور پہلی بار عمر خیام نے اسکے چہرے کو غور سے دیکھا تھا۔
جس پر غیر ضروری حد تک موہکوں کی بھرمار کے باوجود ایک الوہی چمک تھی۔ اس وقت سب کچھ لٹ جانے کے بعد اس کی وہی کیفیت تھی جو کبھی عمر خیام کی تھی۔ خود میں اور ہانیہ میں اتنی مماثلت ابراہیم کو اسکے ماضی میں کھینچ لائی تھی
۔۔۔۔۔۔۔
لالہ آپ آج بھی مجھے لینے دیر سے ہی آئے ہو۔ میں نے بولا تھا آپ مجھے لینے دیر سے آو گے تو بس اب میں کبھی سکول نہیں جاوں گی
گڑیا نے منہ بسورتے سکول چھوڑنے کا فیصلہ سنایا تھا جو کہ وہ روز ہی سناتی تھی اور عمر کان پکڑ کر اس کے سامنے دوزانو بیٹھ گیا تھا اچھا کل سے لیٹ نہیں ہونگا پککا۔ آج کھیتوں میں کام تھا تو وہ ختم کرتے لیٹ ہو گیا۔
لالہ آپ روز ایسے ہی کہتے ہو بس میں نے نہیں جانا سکول اب بسسسس۔۔۔
وہ حکم صادر کرتے کپڑے بدلنے کمرے میں چلی گئی تھی
گڑیا عمر کی چھوٹی بہن تھی جو گاوں کے اکلوتے لڑکیوں کے سکول کی آٹھویں کلاس کی سٹوڈنٹ تھی۔ عمر 10 سال کا تھا اور ہانیہ 2 سال کی جب اسکی ماں وفات پا گئی تھی باپ نشے کی لت میں ڈوبا ہوا تھا۔ بس تب لاشعوری طور پر عمر نے خود کو ماں کی جگہ دی تھی۔ ماں کے نام کچھ زمین تھی جسے کرائے پہ دیا گیا تھا اور اسی کرائے سے گھر کا خرچ چلتا تھا۔ عمر نے گاوں کے سکول سے میٹرک کیا تھا اور گڑیا کی خاطر پڑھائی کو خیرباد کہ دیا تھا کیونکہ کالج گاوں سے بہت دور تھے جہاں پڑھنے کے لئے گاوں چھوڑنا پڑتا اور گاوں چھوڑنے کا مطلب گڑیا کو چھوڑنا تھا جو عمر کو ہرگز قبول نہ تھا
زمین واپس لے کر اس نے کھیتی باڑی شروع کردی تھی اور محنت کا پھل بہترین کاشت کی صورت میں ملنے لگا تھا۔ انہی دنوں میں سے ایک میں اسکا باپ نشے کی زیادتی کی وجہ سے موت کے منی میں چلا گیا تھا اور عمر کا کل اثاثہ صرف گڑیا رہ گئی تھی۔ گڑیا سکول جاتی تھی اور عمر زمینوں پہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گریا کی سکول سے چھٹی کا ٹائم ہوا تو عمر سب کام چھوڑ جلدی سے موٹر سائیکل کی طرف بڑھا تاکہ گڑیا کو سکول سے لا سکے۔ کھیتوں سے سکول کا فاصلہ موٹرسائیکل پر 8 منٹ کا تھا اور پیدل 20 منٹ کا پر اف موٹر سائیکل میں کوئی خرابی ہوگئی تھی وہ سٹارٹ ہونے کا نام ہی نیہں لے رہی تھی۔ وہ موٹرسائیکل کو وہیں چھوڑتا پیدل سکول کی طرف روانہ ہوا تھا۔ راستے میں ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی تھی۔ مائی شیداں نے عمر کو دیکھا تو راستے میں ہی روک کر اپنی غربت کی کہانیاں سنانا شروع کردیں جو وہ ہر کسی کو سناتی تھیں تاکہ لوگ اسکی مالی مدد کر دیں۔ عمر نے بھی جیب سے کچھ نوٹ نکالے اور مائی شیداں کو دے کر آگے بڑھ گیا۔ سکول پہنچنے تک 30 منٹ گزر چکے تھے وہ جلدی سے گیٹ کیپر کے پاس آیا اور گڑیا کو بلانے کا کہا پر گیٹ کیپر کے جواب نے اسے گنگ کر دیا
پا جی وہ تو کب کی جا چکی یہاں سے آپ لیٹ تھے تو وہ خودی چلی گئی
کیسے چلی گئی اور کہاں گئی میں اسی راستے سے تو آیا ہوں وہ ہوتی تو مجھے مل نہ جاتی۔ تم دیکھو وہ سکول میں ہی ہے۔ عمر نے اسکی بات کو رد کرتے پھر سے ہانیہ کو ڈھونڈنے کو کہا تھا۔
بھاگ گئی ہوگی اپنے کسی یار کے ساتھ جو گھر نہیں پہنچی یہاں نہیں ہے وہ۔ چوکیدار نے روائتی جملے بول کر اکڑ دکھائی تھی اور عمر نے اسکا گریبان پکڑ کر اس کے منہ پہ دو جڑ دیں تھیں۔ چوکیدار کو پیچھے دھکیلتے وہ خود سکول میں داخل ہوا تھا۔ پورے سکول میں گڑیا کو آوازیں دیتا وہ تیسری منزل پہ پہنچ چکا تھا۔ یہ سکول کی چھت تھی جہاں صرف ایک سٹور روم تھا اور بس۔۔گڑیا کہیں نہیں تھی اب وہ تیزی سے اسکی دوستوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جن میں سے کسی کے پاس وہ گئی ہو شائد۔ وہ واپسی کے لئے پلٹ رہا تھا پر اسے سٹور روم میں کسی کے ہونے کا شک گزرا تھا۔ وہ تیزی سے سٹور روم کی طرف بڑھا تھا۔
عمر خیام کے جسم میں خون گرم لاوے کی طرح گردش کیا تھا جب اس نے پرنسپل کو بھوکے کتے کی طرح گڑیا پہ جھپٹے دیکھا تھا۔اس نے دونوں ہاتھوں سے پرنسپل کو گڑیا سے الگ کیا تھا اور اس کا سر پوری قوت سے دیوار سے مار دیا تھا وہ اب بھی جارہانہ طور پر اسے مار رہا تھا جب پاس سے گزرتی گڑیا کا عکس اسے حوش میں لایا تھا۔ وہ تیزی سے گڑیا کے پیچھے لپکا تھا پر بہت دیر ہو گئی تھی۔ اسکی چھوٹی سی گڑیا
اسکی زندگی اسکی بیٹی چھت سے چھلانگ لگا چکی تھی۔
جس گڑیا کو وہ ہلکی سی خراش نہیں آنے دیتا تھا وہ منہ کے بل زمین پہ گری پڑی تھی۔ خون نے بارش کے پانی میں مل کر وہاں کربلا سا برپا کر دیا تھا۔ ہر آنکھ خوفزدہ تھی جیسے وہاں اس ہی کی کوئی محبوب ہستی پڑی ہو۔
پولیس تفتیش ہوئی تھی اور پتا چل گیا تھا کہ یہ چوکیدار اور پرنسپل کی ملی سازش تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر سارا وقت گڑیا کی قبر پہ گزارتا تھا۔ وہ جو کبھی نہیں رویا تھا گڑیا کی قبر پہ دھاڑے مار کر روتا تھا۔ گڑیا کے لئے وہ ایک ماں بن چکا تھا اور ماں سے اولاد کے بچھڑنے کی بدترین اذیت اس سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ وہ قبر کے پاس سو جاتا اور وہی جاگتا۔ لوگ اسے سمجھاتے دلاسہ دیتے اسے زندگی کی طرف لوٹنے کو کہتے پر وہ گڑیا کی قبر سے لپٹ جاتا۔ وہ مٹی کے ساتھ مٹی ہو جانا چاہتا تھا پر زندگی ابھی باقی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
نیند میں عمر کو کسی کے رونے کی آواز آئی تھی وہ گھبرا کر اٹھا تھا سامنے گڑیا بیٹھی رو رہی تھی۔
گڑیا۔۔گڑیا تم کیوں رو رہی ہو ؟
عمر نے اسے پکارا تھا
آپ لیٹ کیوں آئے تھے لالہ؟
گڑیا نے شکوہ بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا۔
معاف کر دے دیکھ کان پکڑتا ہوں اب کبھی لیٹ نہیں ہونگا معاف کردے
عمر گڑیا کے سامنے کان پکڑے معافی کی بھیک مانگ رہا تھا
میں نے نہیں جانا سکول بسس ۔ گڑیا نے درشتی کے ساتھ کہا تھا
نہیں جا کبھی نہ جا سکول بس واپس آجا اپنے لالہ پاس
واپس۔۔؟ یہاں سے کوئی واپس نہیں آتا لالہ میں بھی نہیں آ سکتی۔ گڑیا نے قبر کی طرف اشارہ کیا تھا۔
تو مجھے بلا لے گڈی مجھے تیرے پاس آنا ہے۔ نہیں لالہ یہاں کوئی اپنی مرضی سے نہیں آتا تو بھی نہیں آسکتا
عمر دھاڑے مار کر رونے لگا تھا۔
چپ کر لالہ کیوں روتا ہے۔۔؟
میں وہیں ہوں جہاں سب آتے ہیں اور سب نے آنا ہے۔میں یہاں خوش ہوں پر تو روتا ہے تو مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ کیوں مجھے تکلیف دیتا ہے مت رو جا چلا جا یہاں سے۔
گڑیا کی کرخت آواز عمر کی سماعت سے ٹکرائی تھی
عمر کسی چھوٹے بچے کی طرح سہم گیا تھا۔
اب روئے گا۔؟
گڑیا نے سوال کیا تھا جس پر عمر نے بلکل بچوں کی طرح نا میں سر ہلایا تھا۔
گڑیا مسکرائی تھی اور عمر کے کرلاتے دل میں سکون کی لہر اتر آئی تھی۔
اسکی آنکھ کھلی تو موذن فجر کی صدا دے رہا تھا۔ اس نے آخری بار گڑیا کی قبر کو اپنے ہاتھ سے چھو کر اسکا لمس محسوس کیا تھا اور گاوں چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے شہر آگیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ بہت حیرانگی سے عمر کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ رہی تھی۔ آنسو عمر کی آنکھوں کے بند توڑ کر اسکی رخسار بھگو چکے تھے۔ ہانیہ نے اپنے باپ کے علاوہ کسی مرد کی آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں دیکھے تھے۔ وہ بھی کبھی کبھی ہانیہ کے سر پر ہاتھ رکھتے اور پیشانی پہ بوسہ لیتے تو دو آنسو انکی آنکھون سے بہ جاتے۔ اپنی اکلوتی لخت جگر کا معاشرے کے لئے ناقابل قبول ہونا کسی بوجھ کی طرح انکے سینے پہ ہاوی تھا جس نے جلد ہی انکے دل کی دھڑکن روک دی تھی اور وہ ہانیہ کو اسکی ماں سمیت اکیلے دنیا کو جھیلنے کے لئے چھوڑ گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیں ہانیہ میں آپکو گھر چھوڑ دوں۔ آپکی والدہ آپکے لئے بہت پریشان ہیں۔ میں نے انہیں بتا دیا تھا کہ آفس سے نکلتے آپکا گاڑی سے چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ اب آپ گھر جا کر آرام کریں۔ ایک دو دن جتنے آپ چاہیں آرام کریں لیکن پھر آفس واپس آجائیں۔ جو ہوا بہت برا ہوا پر جو ہونا تھا ہو چکا۔ زندگی اور موت دینا اللہ کے اختیار میں ہے بس۔ آپ جتنی مرضی کوشش کرلیں مقررہ وقت سے پہلے مر نہیں سکتی تو خودکشی کی کوشش کرکے اللہ کے اختیارات میں شریک ہونے کی کوشش نہ کریں۔ آپ جانتی ہیں اللہ شرک سے نفرت کرتا ہے۔
اب چلیں دیر ہو رہی ہے۔
عمر کمرے سے نکل گیا تھا اور ہانیہ کے پاس شکریہ کے لئے الفاظ نہیں بچے تھے۔ عمر انسان کے روپ میں کوئی فرشتہ ہی تھا جس کا شکر ادا کرنا ہانیہ کے بس سے باہر تھا۔ وہ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گئی تھی اور گاڑی واپسی کے راستے پہ گامزن۔
۔۔۔۔۔۔۔
دو دن بعد ہی ہانیہ نے واپس آفس جوائن کر لیا تھا اور عمر نے معمول کے مطابق ہی اسے خوش آمدید کہا تھا۔
دن خاموشی سے گزر رہے تھے پر ہانیہ کی طبیعت بوجھل رہنے لگی تھی اور دو ماہ بعد پریگننسی چیک کرنے والی سٹک پہ پریگننسی سائن دیکھ کر اس نے اپنے بال نوچ لئے تھے۔
کئی بار ابراہیم کا نمبر ملا کر وہ ڈیلیٹ کر چکی تھی۔ ابراہیم سے اچھائی کی امید اسے نہیں تھی پر اور کوئی راستہ بھی اسکے پاس نہیں تھا۔ اس نے ابراہیم کا نمبر ملایا تھا
ہیلو ۔۔ابراہیم کی آواز موبائل پہ ابھری تھی۔
ہانیہ نے کرب سے آنکھیں بند کی تھیں اور کال کاٹ دی تھی
اب وہ میسیج ٹائپ کر رہی تھی I m pregnant Ibrahim
جواب میں who you کا میسیج پڑھ کر ہانیہ کا دل چاہا وہ ابراہیم کا سر پھاڑ دے۔ پر اس نے بےبسی کے ساتھ ہانیہ ٹائپ کرکے send کا بٹن press کر دیا۔