ہانی دودھ کا پورا گلاس پیو ابھی کے ابھی اور یہ پراٹھا بھی پورا کھائو تم جاب پہ جا رہی ہو توانائی نہ ہوئی تو کام کیسے کرو گی۔
ممتاز بیگم نے زبردستی پراٹھے کا نوالہ ہانیہ کے منہ میں ڈالتے ہوئے اسے حکم دیا تھا۔
امی بس اور نہیں کھا سکتی پلیز میں کمپیوٹر آپریٹ کرنے جا رہی ہوں جھاڑو پوچا نہیں کہ توانائی کم پڑ جائے پلیز اب مجھے جانے دیں میں لیٹ ہو جاوں گی پلیز۔ اور ممتاز بیگم نے آیتالکرسی پڑھ کر اس پہ دم کرتے اسے جانے کی اجازت دے دی تھی
ہانیہ ناشتے سے الرجی آج بھی ایسے ہی بھاگ جاتی پر ممتاز بیگم ناشتہ کی ٹرے لئے اس کے سر پہ کھڑی ہو گئی تھیں۔ ناشتہ نہیں کرو گی تو میں جاب پہ جانے کی اجازت نہیں دونگی اور ہانیہ نے بے بسی کے ساتھ آدھا پراٹھا اور دودھ کے چند گھونٹ اندر اتار ہی لئے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام و علیکم سر میں اندر آجاوں؟۔ ہانیہ نے دروازے میں کھڑے اپنی عادت کے مطابق سلام سے ہی بات کا آغاز کیا تھا
وعلیکم اسلام ورحمةالله جی آئیے مس ہانیہ اور ہانیہ سارا کانفیڈنس اکٹھا کرکے آگے بڑھتی ویزیٹرز چئیر تک پہنچی
بیٹھیں عمر نے کل کی طرح ہی آج بھی نرمی سے اسے بیٹھنے کو کہا
چائے پئیے گی یا کافی؟
نہیں کچھ نہیں میں ابھی ناشتہ کر کے آئی ہوں پلیز آپ بس مجھے میری جاب سے ریلیٹڈ بتائیں۔ ہانیہ متانت سے منع کرتے اسے اصلی موضوع پر لائی تھی۔
جی ضرور! میرا LPG کا اپنا کاروبار ہے۔ میں پورے شہر میں گیس کے سلنڈرز سپلائی کرواتا ہوں۔ میرا گودام ہے جہاں LPG کے سلنڈر ہوتے ہیں۔ایک ہفتہ پہلے میری کمپیوٹر آپریٹر نے اپنی شادی کی وجہ سے جاب چھوڑی ہے اور اب مجھے یہاں کمپیوٹر آپریٹر کی ضرورت ہے جو کمپیوٹر پہ ریکارڈ بنا سکے کہ میں روزانہ کی بنیاد پہ اوسطن کتنے سلنڈر بیچتا ہوں اور اس پہ سالانہ مجھے کتنی آمدنی ہوتی ہے اور اس میں کتنی بچت ہے اور کتنا نقصان۔۔ اس کے علاوہ آپکو فون آپریٹ بھی کرنا ہے۔ اکثر گاہک فون پر ہی آرڈر دیتے ہیں۔ ان کے آرڈرز بک کرنے، ایڈریس لینا اور رقم کی ڈیل بھی آپ نے ہی کرنی ہے۔ شام 4 بجے کے بعد کوئی آرڈر نہیں لینا اور بس یہی آپ کا کام ہے۔ سامنے لیفٹ سائیڈ کا ٹیبل آپکا ہے جائیں اپنا کام شروع کریں۔
عمر خیام اپنی بات ختم کر کے آفس سے نکل گیا تھا۔
ہانیہ جزبز سی اپنی سیٹ پہ آکے بیٹھی تھی۔ سیلری کی کوئی بات ہی نیہں کی سر نے اور ابھی کیا کروں۔
اس نے ٹیبل پہ پڑا لیپ ٹاپ آن کیا۔ پاس ہی ایک رجسٹر پڑا تھا اسے کھولا اور سمجھ گئی ابھی اسے کیا کرنا ہے۔ اس رجسٹر میں پچھلے ایک ہفتے کی ڈیلنگز کا ریکارڈ موجود تھا ہانیہ نے MS EXCEL کھولا تو باقی کے پورے سال کا ریکارڈ وہاں موجود تھا اور وہ جلدی سے اس ہفتے کا ڈیٹا درج کرنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔
دن ایسے ہی پر لگا کر اڑ رہے تھے ہانیہ اپنے کام میں ماہر ہو چکی تھی اور مطمئین بھی۔
عمر خیام لگ بھگ 28 سال کے ایک سلجھے ہوئے سادہ انسان ہیں اس بات کا اندازہ ہانیہ کو پہلے ہفتے ہی ہوگیا تھا اور سیلری کا معاملہ اس نے قسمت پہ چھوڑ دیا تھا۔ اسے مصروف رہنا ہی غنیمت لگا تھا۔
اسلام و علیکم ہانیہ بات کر رہی ہوں LPG Company سے۔ آپ کون۔؟
میں ابراھیم ہوں آپ کیسی ہیں؟
آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں؟ ہانیہ نے لہجے میں سختی بھر کر سوال کیا تھا۔
تین ہفتے گزر چکے تھے اس جاب پر پر آج پہلی بار کسی نے اس سے کام کی بات کرنے کے بجائے حال پوچھا تھا
ارے ہانیہ آپ تو ناراض ہو گئیں۔۔ میں تو بس ایسے ہی ایک دوست کی حیثیت سے آپکا احوال پوچھ رہا تھا
پہلی بار بات ہوئی ہے جانتی نہیں میں اسے اور یہ مجھے دوست کہ رہا ہے مائی فٹ
اور ہانیہ نے کھڑاک سے رسیور کریڈل پہ پٹخا لیکن بیل دوبارہ شروع ہو چکی تھی۔
اسلام و علیکم ہانیہ بات کر۔۔ارے آپ نے فون بند کیوں کیا؟ وہ ہانیہ کے پروفیشنل جملے بیچ میں ہی روک چکا تھا
آپ شائد مجھے غلط سمجھ رہی ہیں۔ میرا مقصد آپ کو تنگ کرنا نہیں ہے میں تو بس۔۔ اتنے دن سے میں روز آپ کو آفس آتے جاتے باقاعدگی سے دیکھتا ہوں۔ آپ بہت صاف دل کی بہت معصوم لڑکی لگی مجھے۔ میرا دل چاہا میں آپ سے دوستی کروں آپ سے بات کروں آپکے ساتھ رہوں ہر اچھے اور برے وقت میں آپ کے ساتھ ہوں اچھے دوست کی طرح اگر آپکو یہ بات غلط لگی تو سوری میں آئندہ کبھی آپکو کال نہیں کرونگا آئی پرامس پر پلیز ہو سکے تو میری دوست بن جائیں میرا کوئی دوست نہیں ہے لیکن مجھے ایک اچھے دوست کی شدید ضرورت ہے پلیز۔
ابراہیم ایک ہی سانس میں اپنی بات مکمل کئے اب ہانیہ کے فیصلے کا منتظر تھا
اور ہانیہ خود اپنی تنہائیوں کی اذیت سے گھائل زیادہ مذمت نہیں کر پائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو ہانی کیسی ہو
ہیلو نہیں اسلام و علیکم بولا کرو ابراہیم
ہاہاہا وہ میں دل میں بول لیتا ہوں نا ڈونٹ وری یار۔ خیر کیسی ہے میری ہانی
اور ہانیہ کا دل ایک لمحے کے لئے بہت زور سے دھڑکا تھا
ابراہیم اکثر اسے میری ہانی بولتا تھا اور پھر ہانیہ اسی جملے کا ورد پورا دن کرتی تھی اور دل ایک الگ ہی لے میں دھڑکنے لگتا تھا۔
میں ٹھیک ہوں تم کیسے ہو؟
دل کو سنبھالتے ہانیہ نے انتہائی نارمل لہجے میں جواب دیا تھا پر لفظوں میں گھلی ارتعاش سامنے والے کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ بکھیر گئی تھی۔
تمہاری آواز سن لی تو اب بلکل ٹھیک ہوں بہت خوش ہوں۔
ابراہیم نے محبت پاش لہجے میں اسے جواب دیا تھا
آہاں مسٹر ابراہیم میری آواز میں ایسا کیا جو سن کر آپ ٹھیک ہو جاتے ہو اور بہت خوش بھی؟
ابراہیم کا جاندار قہقہہ بلند ہوا تھا اور پھر اس نے بہت جذب کی کیفیت میں کہا تھا
زندگی ہے تمہاری آواز میں ہانی میری زندگی میری خوشیاں میرا سب کچھ اور صرف تمہاری آواز نہیں تم خود سب کچھ ہو میرا آئی لو یو ہانی آئی لو یو سو مچ۔۔
ہانیہ کے پاس لفظ نہیں تھے کیا کہے۔
ہانی۔۔؟ ابراہیم کی آواز سن کر بھی کچھ کہنے کا حوصلہ اس میں نہیں تھا سو اس نے کال کاٹ کر خود کو بستر پر گرا دیا۔
وہ بری طرح کانپ رہی تھی اور جسم جنوری کی ٹھٹھرتی سردی میں بھی پسینے سے شرابور تھا۔ کیا کوئی اس سے بھی محبت کر سکتا ہے۔؟ وہ جو ہمیشہ لوگوں کے تمسخر کا شکار رہی تھی کیسے کوئی اس سے محبت کا دعوہ کر سکتا ہے۔ وہ رو رہی تھی اور ابراہیم کی بار بار آنے والی کالز کو کاٹ رہی تھی تب ابراہیم نے اسے میسیج کیا تھا
یو آر بیوٹیفل اونلی آ بیوٹیفل گرل ان دس ورلڈ فار می۔ آئی لو یو ہانی لو یو اے لوٹ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سب بچے ہانیہ سے ڈر کر ادھر ادھر بھاگ رہے تھے جب نرسری کی ٹیچر نے سختی سے بچوں کو انکی سیٹس پہ بٹھایا اور ہانیہ کو کلاس میں سب سے الگ آخری سیٹ پہ بیٹھنے کو کہا۔
شروع شروع میں بچے اس سے ڈرتے رہے اور پھر اسکا نام چڑیل رکھ دیا گا جہاں سے بھی وہ گزرتی اسے چڑیل یا بھوت کہ کر مذاق اڑایا جاتا۔ وہ روز گھنٹوں ممتاز بیگم کی گود میں بیٹھ کر روتی اور ممتاز بیگم اپنی محبت سے اسکے زخموں پہ مرحم لگاتی۔
اسی طرح وقت گزرتا گیا اور 4 کلاس میں آنے تک ہانیہ نے نقاب کرنا شروع کر دیا اور اسکا سکول چینج کردیا گیا۔
لیکن گرلز سکول میں صرف گرلز ہونے کی بیس پہ اکثر نقآب شرارت میں کھینچ دیا جاتا۔اور پھر سکول چینج۔
اس دن بھی ایسا ہی ہوا تھاF.sc پارٹ ٹو میں جب گرلز نے اسکا نقاب کھینچ دیا اور پھر بڑی کراہیت سے ہانیہ کے موہکوں سے بھرے چہرے کو دیکھ کر سوال کیا تھا۔ آخ یہ کیا اففف توبہ تمہیں کوئی بیماری ہے اففف چھوت تو نہیں؟ ہمیں بھی لگ جائے کہیں اور سب گرلز اس سے ایسے avoid کرنے لگیں جیسے واقعی موہکے اس کے چہرے سے اڑ کر ان کے چہروں سے چپک جائیں گے۔
F.sc میں کالج چینج نہیں ہو سکا تھا لیکن B.sc کے لئے اس نے کو ایجوکیشن کالج منتخب کیا تھا تاکہ کوئی اسکا نقاب نہ اتارے اور وہ رہتی بھی بوائز گیدرنگ کے پاس ہی تھی۔
زندگی کچھ آسان ہوئی تھی۔ چہرے کی بدصورتی نہیں دیکھی جا سکتی تھی تو اسکے ہاتھوں کی خوبصورتی پہ نظر ٹھرنے لگی تھی۔ نرم مخملی مخروطی لمبی انگلیاں، گوری دودھ سی چمکتی جلد اور اس پر مہندی کا ہلکا سا کوئی نقش لڑکوں اور لڑکیوں دونوں میں یہ تاثر پیدا کر چکا تھا کہ وہ بہت خوبصورت ہے۔
اور تب ہی اس نے اپنے سے سینئیر کلاس فیلو شرجیل کو اکثر خود پہ نظر جمائے محسوس کیا۔
ہانیہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس کی غلط فہمی ہے یا واقعی شرجیل اسکے پاس رہنے اور اسے مخاطب کرنے کے موقعے تلاش کرتا ہے۔
وہ صبح ہلکی گیلی تھی بہار کا موسم ہوا کے ساتھ ہر جگہ رنگ بکھیر رہا تھا۔ پھول پودے اور درخت بھی ہوا کے ساتھ جھوم رہے تھے۔ ہانیہ بہت محویت سے پھولوں کو ر قصاں دیکھ رہی تھی جب کسی نے اس کے قریب بینچ پہ بیٹھتے سلام کیا تھا۔ ہانیہ کی محویت ٹوٹی تھی اور ساتھ بیٹھے شخص کو دیکھ کر خوف کی ایک لہر اسکے دل میں اٹھی تھی۔ سامنے شرجیل تھا۔ ویل ڈریسڈ، ویل مینرڈ ہلکا سا مسکراتا ہوا وہ گلاب کے بہت سے پھولوں سے بنا گلدستہ ہانی کی طرف بڑھا رہا تھا۔
یہ پھول تم سے زیادہ خوبصورت تو نہیں ہونگے پر پھر بھی تمہیں دیکھتا ہوں تو دل چاہتا ہے ان پھولوں سے تمہارا دامن بھر دوں اور پھر ان پھولوں سے سجائے تمہیں ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی میں لے آؤں۔ ہانیہ I love you will you marry me please ۔
ہانیہ کا دل چاہا ہاں کہ دے پر وہ خاموشی سے وہاں سے اٹھی اور اپنی کلاس کی طرف چلی گئی۔ یہ شرجیل کے لئے انکار تھا اسکی طرف سے کیونکہ وہ جانتی تھی شرجیل نے اسکا چہرہ نہیں دیکھا لیکن ہاں کی صورت میں چہرہ دکھانا پڑے گا اور پھر حاصل صرف اذیت ہوگی۔
۔۔۔۔۔