موبائل کی بپ فجر کا آلارم بجا رہی تھی ہانیہ نے نیند سے بوجھل آنکھوں کو بمشکل کھول کر الارم بند کیا اور آنکھیں پھر سے بند کر لیں پر اندر کہیں کوئی جاگ چکا تھا
فجر کی اذان ہو چکی ہے اٹھ جائو نماز پڑھو۔۔ضمیر نے اسکے نیم سوئے وجود کو جنبش دی تھی۔
اف ابھی تو سوئی تھی اب پھر اٹھوں؟ دل نے دہائی دی تھی۔
نماز پڑھ کے پھر سو جانا۔۔ضمیر نے دل کو دلاسہ دیا تھا۔
پر باہر سردی بہت ہے گرم بستر سے نہیں نکلنا پلیز۔۔دل چھوٹے بچے کی طرح گرم بستر کے لئے مچلا تھا۔
سوچ لو نماز چھوڑی تو قبر اس سے بھی زیادہ ٹھنڈی ملے گی۔۔ اس بار ضمیر نے قبر کے عذاب سے ڈرایا تھا۔
ظہر پڑھ لیں گے کچھ نہیں ہوتا معافی مانگ لیں گے اللہ سے۔۔دل نے ڑھٹائی کے ساتھ خوف کا اثر ذائل کرنے کی کوشش کی تھی۔
ظہر تک زندہ رہنے کی گارنٹی ہے بھلا۔۔؟ ضمیر نے دل کی بیوقوفی پہ افسوس سے پوچھا اور اس بات پہ دل لاجواب ہو گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فجر پڑھ کر ہانیہ بستر میں واپس گھسی موبائل ڈیٹا آن کئے جاب ووکینسیز چیک کرنے لگی نیند کا خمار اتر چکا تھا پر بستر کی گرمائش دسمبر کے آخری بھیگے دنوں میں کافی فرحت بخش تھی۔
اس کا بی ایس سی کمپیوٹر سائنس کا رزلٹ آتے ہی اس نے مختلف کمپنیز میں اپنی سی ویز میل کردی تھیں اور اب اسکا انباکس ایک کمپنی کی انٹرویو میل لئیے جگمگا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اطراف کا جائزہ لیتے وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی سیکنڈ فلور پہ موجود اپنی مطلوبہ کمپنی پہنچی۔ کمپنی کا گلاس ڈور کھول کے وہ اندر داخل ہوئی لیفٹ سائیڈ پہ بہت سے صوفے رکھے تھے جن پہ کچھ لڑکیاں پہلے سے موجود تھیں۔ یقینن یہ سب بھی انٹرویو کے لیے آئیں ہیں۔ ہانیہ نے دل میں سوچا اور خود بھی ایک صوفے پہ براجمان ہو گئی۔ غیر ارادی طور وہ اپنا اور انکا موازنہ کرنے لگی۔ ہر لڑکی اپنے لباس اور خوبصورتی میں دوسری کو مات دے رہی تھی۔ گورا رنگ سٹائلش لباس اور نازک ادائیں کوئی بھی ضرورت مند نہیں تھی۔ ہانیہ کے سامنے آفس روم کا گلاس ڈور تھا جس میں وہ اپنے عکس کو بغور دیکھنے لگی۔
رنگ اتنا گورا تھا کہ وہاں کوئی بھی لڑکی اسکے مقابلے میں نہیں آ سکتی تھی۔ خندہ پیشانی، بھوری انکھیں، تیکھی ناک، ملائم جلد اور سادگی کی آمیزش۔ بیشک وہ وہاں موجود ہر لڑکی سے کہیں زیادہ خوبصورت تھی پر بنانے والے نے اسے اتنا خوبصورت بنا کر اسکے چہرے پر کالے موٹے تلوں کی بارش کردی تھی شائد نظر لگنے سے بچانے کے لئے۔ اور ساری خوبصورتی ان تلوں کی اس قدر آمیزش سے بدصورتی میں ڈھل گئی تھی۔
ہانیہ خود اپنے آپ میں سب سے شرمندہ سی محسوس کرنے لگی اسکا دل چاہا وہ انٹرویو دیئے بغیر ہی وہاں سے چلی جائے پر باپ کی وفات کے بعد گھر میں ڈیرے ڈالے بیٹھی غربت نے اسکے پیر جکڑ لئے۔
مس ہانیہ خان۔۔ اس کے نام کی پکار پہ وہ چونکی اب اسکے انٹرویو کی باری تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے اکیڈمک ریکارڈ کی فائل سینے سے لگائے وہ آفس روم میں داخل ہوئی جہاں انٹرویو لیا جا رہا تھا۔
اسلام و علیکم! مے آئی کم ان
ہانیہ کے اجازت لینے پر سامنے بیٹھے شخص نے موبائل پہ نظریں جمائے ہی یس کہا تھا۔ ہانیہ کو دس منٹ گزر چکے تھے پر اس شخص کی نظریں ہنوز موبائل پہ ہی ٹکی تھیں۔ سامنے بیٹھا شخص اتنا خوبصورت تھا کہ ہانیہ کا اس سے نظریں ہٹانا مشکل ہو رہا تھا۔ بھورے بال، گورا رنگ، بڑی بڑی آنکھیں گلابی ہونٹوں پہ گھنی بھوری مونچھیں اور کچھ کچھ ماتھے پہ گرتے بال۔ وہ مبہوت سی اسے دیکھے جا رہی تھی جب اسکی نظروں کی تپش محسوس کرتے اس شخص نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔ اور تبھی خوبصورت چہرے پہ ناگواری کی کئی لکیریں بیک وقت ابھری تھیں۔ ہانیہ شرمندگی سے نظر چرا گئی تھی۔ یہ پہلی بار نہیں تھا اکثر ہی اسکی بدصورتی لوگوں کے چہرے پہ ایسے تاثرات لے آتی تھی۔
جی مس کیا کام ہے؟ آپ کسی خیراتی ادارے سے آئیں ہیں تو معذرت میں آپکی کوئی مدد نہیں کر سکتا پلیز لیو۔
ہانیہ حیران تھی یہ شخص کیا کہ رہا ہے او اس نے جلدی سے اپنے ڈاکومینٹس اسکی طرف بڑھائے۔
سر آپ غلط سمجھے ہیں میں جاب کے لئے آئی ہوں مجھے جاب کی شدید ضرورت ہے آپ میرا اکیڈمک ریکارڈ دیکھ لیں پلیز
ہانیہ ایک ہی سانس میں اپنی بات مکمل کر کے اب اس شخص سے جواب کی منتظر تھی جو پھر سے موبائل میں بزی ہو چکا تھا
سر پلیز۔۔ہانیہ نے پھر اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی اور ردعمل میں اس شخص نے انتہائی جارحیت کے ساتھ موبائل میز پہ پٹخا تھا
بی بی شکل دیکھی ہے اپنی۔۔ اتنی بدصورت عورت کو کوئی پاگل ہے جو اپنے آفس میں رکھے گا۔ گھبراہٹ ہو رہی ہے مجھے تو تمہارا چہرا دیکھ کر ہی۔ پیسوں کی بڑی ضرورت ہے تو فقیرنی بن جائو لوگ ترس کھا کر دے دیں گیں پیسے میرا دماغ نہ کھائو نکلو یہاں سے۔
اور ہانیہ کا دل چاہا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ ایک ہی پل لگا تھا اور وہ خوبصورت شخص ہانیہ کے لئے دنیا کا بدصورت ترین شخص بن گیا تھا۔
آج تک بہت سب لوگوں نے اس کے لئے نا پسندیدگی کا اظہار کیا تھا پر ایسی تذلیل۔ غصے سے اسکا پٹھانی خون کھول اٹھا تھا اور اسی غصے میں وہ ایک جھٹکے سے اٹھی تھی اور سامنے بیٹھے شخص پہ تھوک دیا تھا۔
لعنت بھیجتی ہوں میں آپ پر اور آپکی اس جاب پر ۔
آپ کو لگتا ہے میں بدصورت ہوں۔۔پاگل ہو آپ آپکی دیکھنے والی نظر بدصورت ہے۔ اور وہ غصے سے بپھری دروازے کی طرف بڑھی تھی پر دل کو ابھی بھی سکون نہیں ملا تھا۔ دروازہ کھول کر باہر نکلتے وہ پھر مڑی تھی اور سب کے سامنے پھر سے اس شخص سے مخاطب ہوئی تھی۔۔
دنیا میں بہت سے بدصورت انسان دیکھے پر تم جتنا بدصورت انسان پہلے کبھی نہیں دیکھا۔۔گھن آ رہی ہے مجھے تم سے اخ تھو اور وہ سب کو اپنی جگہ ساکت چھوڑ کے کمپنی سے نکل گئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ کیا ہوا میری گڑیا کو؟ ہانیہ کی والدہ ممتاز بیگم نے اسکے بالوں میں پیار سے انگلیاں چلاتے پوچھا۔ اور ہانیہ کی سسکیاں بلند ہو گئیں بس ایک ہی سوال زبان پہ آیا میں مر کیوں نہیں جاتی زندگی اور کتنی ابھی باقی ہے میں جینا نہیں چاہتی امی۔۔
بری بات ہانی زندگی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرو کچھ لوگوں کی جہالت کی وجہ سے اللہ کی ناشکری مت بنو بیٹا۔ ممتاز بیگم کو اندازہ ہو گیا تھا آج پھر کسی نے انکی بیٹی کے ظاہر کا تمسخر اڑایا ہے۔
کچھ لوگ۔؟امی ہر کوئی ہی مجھے حقارت سے دیکھتا ہے ہر کوئی ہی اور ہانیہ کو اس شخص کی آنکھوں سے چھلکتی حقارت نے پھر سے کرلانے پر مجبور کر دیا تھا
ہر کوئی نہیں ہانی کیا میری آنکھوں میں بھی تمہیں ایسا کچھ محسوس ہوا کبھی؟ تم میری جان ہو چندا اس دنیا میں سب سے زیادہ پیاری۔ میری نظر تمہارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔۔؟ ممتاز بیگم نے شکوہ کناں آنکھوں سے اسکی طرف دیکھا تھا
نہیں امی آپ کی نظر اور آپ ہی میرے لئے اہمیت رکھتے ہو بس اور ہانی نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دی تھیں۔
بس پھر طے ہوا تم خود کو جب بھی دوسروں کی نظر سے دیکھنا چاہو تو میری نظر سے دیکھنا سمجھی۔۔؟؟ اوکے۔ ہانیہ کا دل ماتم کدہ تھا پر ماں کی بات کا مان رکھنا لازم تھا۔ امی اب کھانا کھائیں بہت بھوک لگی ہے ہانی نے مسکرا کر بات کا رخ بدلا تھا اور ممتاز بیگم مطمئین ہو گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رٹے رٹائے انداز میں فجر کی نماز پڑھی گئی تھی بلکل ویسے جیسے پہلی جماعت کا بچہ 2 کا پہاڑا پڑھتا ہے۔ نہ مطلب سے آگاہ نہ فائدے سے آشنا نہ محبت کا کوئی تاثر بس ایک ذمہ داری ایک بوجھ جس کی ادائگی لازم ہو اور بس۔
خالی دماغ سے ہانی دعا کے لئے اٹھائے گئے ہاتھوں کو گھور رہی تھی۔ کیا مانگے۔۔ موت کے علاوہ تو کچھ بھی نہیں جس کی اسے خواہش ہو
زندگی ایک بوجھ ہے جسے ڈھونا اب میرے بس کی بات نہیں میرے اللہ پلیز آپ تو سب جانتے ہو وہ بھی جو میں نہیں جانتی آپ جانتے ہو دنیا میں میری اوقات کیا ہے کیسے لوگ مجھے دھتکارتے ہیں کیسے میری ذات کے پرخچے اڑاتے ہیں مجھے اس عذاب سے نجات دلا دو میرے اللہ پلیز۔
ہانیہ کی گھٹی گھٹی سسکیاں ممتاز بیگم کی آنکھیں بھی بھگو چکی تھیں پر انہوں نے موت کے بجائے اپنی لخت جگر کے لئے خوشیاں ہی مانگی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کے 9 بجے ہانیہ کی آنکھ موبائل کی رنگنگ ٹون پہ کھلی تھی۔ پتہ نہیں کون پاگل اسے کال کر رہا ہے یہی سوچتے اس نے دکھتے سر کے ساتھ کال رسیو کی۔
اسلام و علیکم! مس ہانیہ واستھی؟ کسی نے سوالیہ انداز میں اس سے ہانیہ ہونے کی تصدیق چاہی تھی
جی جی میں ہانیہ ہوں آپ کون؟
میں عمر خیام LPG COMPANY کا مالک۔۔
آپ نے کل میرے آفس میں جاب کے لئے اپلائی کیا تھا۔ ہمیں اپنی کمپنی میں کمپیوٹر آپریٹر کی ضرورت ہے اگر آپ جوائن کرنا چاہیں تو کل سے آ جائیں۔
وہ اب ہانیہ کے جواب کا منتظر تھا
اور ہانیہ کا دماغ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر۔ تب ایک دم اسے یاد آیا ہاں اس کمپنی سے نکل کر جب وہ سڑک پر آئی تھی تو سامنے ایک اور کمپنی کا جگمگاتا بورڈ دیکھ کر محض خود کو مزید اذیت دینے کے لئے وہ وہاں بھی انٹرویو دینے گئی تھی لیکن وہاں موجود شخص کی آنکھوں میں اسے دیکھ کر ایک لمحے کے آخری حصے کے لئے ہی الجھن ضرور آئی تھی پر دوسرے ہی لمحے وہ نرمی سے اسے بیٹھنے کا اشارہ بھی کر چکا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ضرورت ہوئی تو میں آپ کو ضرور کال کروں گا اور کال آ چکی تھی
مس ہانیہ۔۔؟ عمر خیام کی آواز نے اسے حال میں واپس کھینچا تھا
جی جی میں کل سے ہی جوائن کر لوں گی آپ کا بہت بہت شکریہ سر۔۔ ہانیہ نے خشک ہوتے ہونٹوں پہ زبان پھیرتے کچھ رسمی جملوں کی ادائیگی کی اور موبائل بیڈ پہ پھینک کے ماں کے کمرے کی طرف دوڑ لگا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔