منیب نے اسے مرکزی شاہراہ سے مڑتے دیکھ کر بیتابی سے چلانا شروع کر دیا۔۔۔۔ آ رہی ہے ! آ رہی ہے!
ہماری طرف ہی آ رہی ہے۔! روحیل جلدی کر۔!
منیب نالائق تاڑو انسان تھوڑا سا دم لے لے ۔! اگر مجھے اتنی دور سے میری خدمات حاصل کرنے کے لیے بلایا ہے تو اعتبار بھی کر لے۔! روحیل نے اپنے مخصوص انداز میں گاڑی کے بونٹ سے اٹھتے ہوئے ہاتھ جھاڑے اور منہ میں دبا تنکا نکال پھینکا۔۔۔
چوڑا سینہ ، دراز قد کاٹھ کے ساتھ ساتھ بھلے نین نقوش والا روحیل لڑکیاں پھانسنے میں ماہر گردانا جاتا تھا۔۔۔
یار روحیل۔! آج اس لڑکی کی ساری اکڑ نکال باہر پھینک۔ اس دوٹکے کی لڑکی کے پیچھے مجھے اس کے بھائی نے دھو ڈالا تھا، جسمانی چوٹوں کو آرام آنے میں نجانے کتنے ہفتے لگے تھے ۔ منیب نے غیض و غضب میں دل کے پھپھولے نکالنا شروع کر دیئے۔۔
روحیل جو گہری سوچ میں گم صرف ہوں ہاں میں گردن ہلا کر رہ گیا۔
یار روحیل تو بولتا کیوں نہیں ہے؟ وہ ہمارے قریب آتی جا رہی ہے ؛ یار تو نے کچھ سوچا ہے اسے کیسے گھیرنا ہے؟؟ منیب نے روحیل کو کندھوں سے جھنجھوڑا۔ یار کتنے طویل انتظار کے بعد آج ہمیں اکیلی نظر آئی ہے اور میں یہ موقع ہاتھ سے قطعاً جانے نہیں دوں گا۔
منیب ضدی بچے کی طرح روحیل کو جھنجھوڑے جا رہا تھا۔۔۔
منیب تجھے بولا ہے یہ میرے اوپر چھوڑ دے۔! میں کوئی ٹٹ پونجیا نہیں ہوں۔!! کھلاڑی ہوں کھلاڑی۔!!!
وہ جو دونوں اندر کمرے میں براجمان عریاں لڑکیوں کے نظاروں کا شغل فرما رہے ہیں انہیں بھی باہر بلا لے .! روحیل نے لاپرواہی سے بولتے ہوئے تقریباً دس گز کے فاصلے پر آتی دوشیزہ جو کہ سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوئی تھی دفعتاً نظریں گاڑھ لیں۔۔۔
روحیل وہ کھلے مال کو چھوڑ کر ڈھکے کو دیکھنے کے لیے کبھی بھی باہر نہیں آئیں گے۔!
تو بس جلدی سے کچھ کر ۔!
اگر کہتا ہے تو شروعات میں کر لیتا ہوں؟! منیب نے بےچینی سے پوچھا۔
پاس تو آنے دے پھر دیکھتے ہیں ڈھکا چھپا مال کتنے پانی میں ہے۔۔۔
یار بتا تو سہی کرنا کیا ہے ؟؟ یار اگر کچھ گڑ بڑ ہو گئی تو ؟ اگر کسی کا چوکیدار نکل آیا تو ؟ منیب فکر مندی سے بنا سانس روکے بولے چلا جا رہا تھا۔
اوہ کاٹھ کے الو اس موسم میں چوکیدار گلی کی پہرہ داری نہیں کرنے والا اور ویسے بھی اگر باہر آ بھی گیا تو یہ تو مجھ پر چھوڑ دے۔
زینہ جو پہلے سے ہی اکیلے چلنے پر خوفزدہ تھی دور سے ہی ان لفنگوں کو دیکھ کر ٹانگوں میں جان نکلتی محسوس ہونے لگی ، ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے ٹانگوں کے ساتھ کسی نے وزنی لوہا باندھ دیا ہے ۔ جس قدر رفتار بڑھانے کی کوشش کرتی اس قدر پاؤں لڑکھڑا جاتے۔
دسمبر کے مہینے کی اس خوفناک سہ پہر میں دبلا پتلا جسم پسینے میں بھیگنے لگا۔۔ دل ہی دل میں اپنی خیر وعافیت کی دعائیں مانگنے لگی۔ گلا مکمل طور پر خشک ہو چکا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ چیخنے چلانے کی صلاحیت بھی مفقود ہو چکی ہے۔۔
تھر تھر کانپتے وجود کو گھسیٹتے ہوئے ان آوارہ مزاجوں کے پاس سے گزرنے کے لمحات قریب سے قریب تر ہوتے چلے جا رہے تھے۔
جی میں آیا کہ ادھر سے ہی پلٹ جائے مگر آسمان پر چھائی سیاہ بدلیاں کسی بھی وقت برسنے کے لیے تیار تھی ۔ سرد ہوا کے تھپیڑے جسم میں آر پار ہوتے ہوئے اسکا حجاب اڑائے جا رہے تھے۔
امیر زادوں کے کشادہ گھروں کے باہر مکمل سناٹا چھایا ہوا تھا ، ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ علاقہ مکین گھروں سے فرار ہو چکے ہیں یا پھر یہ امیر زادوں کے کشادہ گھروں کا مزاج تھا کہ اہل محلہ کی خبر گیری نا رکھنا معمول تھا۔زینہ کا جب کبھی بھی اس علاقے سے گزر ہوا خاموشی ، ویرانی اور اداسی اپنے پنجے گاڑھے استقبال کرتی۔۔۔
زینہ اس مختصر مسافت کے انتخاب پر پچھتانے لگی۔کاش میں مرکزی شاہراہ سے چلی جاتی مگر اس موسم نے مجھے مجبور کر دیا کہ گھر جلدی پہنچ جاؤں گی۔۔۔ہائے کاش میرے ساتھ سامعہ ہوتی تو وہ ان آواروں کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیتی۔
کاش میں سامعہ جیسی بہادر بن جاؤں۔
طرح طرح کی سوچیں دماغ میں ہتھوڑے کی طرح برسنے لگیں۔۔۔
گاہے بگاہے بادلوں کی گڑگڑاہٹ اور سرد موسم کے تیور نے ساری گلی کو ہمیشہ کی طرح سنسان بنا رکھا تھا۔زینہ اپنی باطنی حالت پر قابو پانے کیلئے کوشاں تھی۔
گردن جھکائے ، لرزتے ہاتھوں میں اپنے بستے کو جکڑے اس عذاب سے بچنے کے لیے گریہ زاری کے ساتھ ساتھ اپنی منزل مقصود کی طرف رواں دواں تھی کہ اچانک عقب سے کانوں میں اجنبی مردانہ آواز گونجی۔۔۔
اے لڑکی رکو۔! گرج دار آواز سے زینہ کی بچی کھچی ہمت بھی جواب دے گئی۔۔
بنا پلٹے زینہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے جلد از جلد یہاں سے بھاگ جانے کی ناکام کوشش کی۔
اے لڑکی میں نے بولا ہے رکو۔!!!
مردانہ قدموں کی چاپ قریب سے قریب تر ہونے لگی۔ زینہ تو گویا اگلے لمحے بیہوش ہو کر گرنے والی تھی۔۔۔
اپنے کمزور وجود کو گھسیٹتے ہوئے بنا پلٹے آگے بڑھنے لگی۔ اے۔!! میں نے کچھ بولا ہے ۔ جواب کیوں نہیں دیتی ہے؟!
مجھے لگتا ہے تجھے شرافت کی زبان سمجھ نہیں آتی ۔ روحیل نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا زینہ کی کلائی دبوچ لی۔۔۔
اس اچانک افتاد پر زینہ کی آنکھیں خوف کے مارے پتھراء گئیں، آواز نکالنے کی صلاحیت تو گویا مکمل طور پر سلب ہو چکی تھی۔۔۔
اس اجنبی نے دونوں بازوؤں میں جکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کر لیا۔
زینہ کو اپنا جسم انگاروں پر لوٹتا ہوا محسوس ہونے لگا۔۔۔
ایک تو نامحرم اور اوپر سے اس قدر قریب ۔ تھر تھر کانپتا وجود چھڑانے کی تگ و دو کرنے لگی۔۔۔
مزاحمت کے لیے بمشکل چند کلمات زبان سے ادا کر پائی۔
چھوڑ دو مجھے۔! مجھے گھر جانا۔! گلے میں رندھی آواز کا اس آوارہ مزاج پر رتی برابر اثر نہ پڑا۔۔۔
تم یہاں سے ایک قدم بھی نہیں ہل سکتی ہو۔جب تک میں نہ چاہوں۔! اس سنسان گلی کو دیکھ رہی ہو نا ؟؟
کوئی بھی ذی روح اس وقت گھر سے قدم باہر نکالنے کا سوچے گا بھی نہیں کیونکہ گرج چمک کے ساتھ بارش کے پانی نے ہر طرف جھل تھل کر دینا ہے ۔ اور کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ اپنا ایک قیمتی ہفتہ نزلے کی نظر کر دے۔! روحیل نے رکھائی سے بولا۔
روحیل کے ہاتھوں میں قید زینہ پانی سے نکلی مچھلی کی طرح مسلسل تڑپ رہی تھی، اپنی کلائیوں کو چھڑوانے کی تگ و دو میں دائیں بائیں سے بالکل بے خبر تھی ۔۔۔
روحیل مجھے لگتا ہے یہ ایسے قابو نہیں آئے گی ،اسے اٹھا اور گھر لے چلتے ہیں۔ منیب نے للچائے لہجے میں بولا تو زینہ نے اچانک اس آواز پر جھکا سر اوپر اٹھایا ۔۔
منیب تو خاموش ہو جا۔!
یہ میری ذمہ داری ہے ۔! روحیل نے پاس آتے منیب کو آنکھ کے اشارے سے روک دیا اور خود زینہ کی کلائیاں آزاد کر کے پتلون کے نیفے میں اڑسا چھوٹا سا پستول نکال کر زینہ کی کنپٹی پر رکھ دیا ۔
پتا ہے میرا صرف ایک شوق تھا یا یوں سمجھو کہ ایک جنون تھا ، ایک ضد تھی کہ دیکھوں تو سہی ، ان دبیز تہوں میں چھپی ہستی آسمان سے اتری حور ہے یا پھر ملکہ حسن ہے جو ہر ذی شعور مرد سے چھپتی پھرتی ہے۔۔۔؟ روحیل نے کاٹ دار لہجے میں زینہ حیات کی روح چھلنی کی۔۔
آئے دن میرا یہ جگری دوست تمہارے بارے میں قصے سناتا رہا ہے بس اسی خبر رسانی میں میری دلچسپی ایسی بڑھی کے مجھے دوسرے شہر سے لوٹنا پڑا ۔
ویسے تمہیں کیا ضرورت تھی اپنے بھائی سے اس شریف شہری کو پٹوانے کی ؟؟ اب دیکھو تمہارا بھائی ساتھ نہیں ہے تو ہمیں تمہاری خدمت کی سعادت مل گئی ہے۔ روحیل نے آنکھوں کو گول گول گھماتے ہوئے ہاتھ میں تھامے پستول کے ساتھ زینہ کے چاروں اطراف چکر کاٹنا شروع کر دیئے جبکہ منیب ایک طرف خاموش کھڑا کسی نئی مہم جوئی کا منتظر تھا۔
پلکوں کی گرتی اٹھتی باڑ اور کپکپاتا لہجہ اس بات کا شاہد تھا کہ رہائی کے تمام راستے مسدود ہو چکے ہیں۔
مجھے راستہ دیں۔! مجھے دیر ہو رہی ہے۔! زینہ نے بمشکل خشک گلے میں پھنسے ہوئے چند کلمات نکالنے کی بھرپور کوشش کی۔
راستہ اس وقت تک نہیں ملے گا جب تک اپنے مکھڑے کا دیدار نہیں کرواؤ گی۔! روحیل ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا پلٹتی زینہ کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو گیا۔۔۔
مجھے لگتا ہے آپکو شرافت کی زبان سمجھ نہیں آتی ہے؟! پسینے سے شرابور زینہ نے ڈبڈبائی آواز میں بولا۔۔
اوہ تو تم بول بھی لیتی ہو ؟ اور وہ بھی اتنا تیکھا؟؟
میرے دوست کو تمہاری وجہ سے کتنے دن ہسپتال کے بستر پر گزارنے پڑے تھے۔
بول رہا ہوں چہرہ دکھاؤ؟!
ورنہ جتنے دن یہ ہسپتال میں پڑا رہا ہے اتنے دن تم ہمیں میزبانی کے فرائض نبھانے دو۔ زینہ پر تانی چھوٹی پستول کے ساتھ روحیل نے شیطانی لہجے میں بولا۔۔۔
آخری موقع دے رہا ہوں۔!
اور یاد رکھنا میرے ہاتھ میں پستول دیکھ کر کسی میں اتنی جرآت نہیں ہو گی کہ وہ تمہیں آکر بچائے۔!
نقاب اتارو .! ورنہ مجھے اتارنا آتا ہے ۔! روحیل نے دھاڑتے ہوئے زینہ کے چہرے کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا۔۔۔
نہیں نہیں نہیں۔! اللہ کا واسطہ ہے مجھے مت چھووو ۔! زینہ کا مزاحمتی لب و لہجہ ہنوز برقرار تھا مگر ناتواں جسم کا لرزا بےقابو ہونے لگا۔
کپکپاتے ڈھکے ہاتھ نقاب میں چھپے چہرے کی طرف بڑھنے لگے۔
زار و قطار روتے ہوئے زینہ نے اپنا نقاب ہٹا دیا مگر شرم وحیا کی پیکر زینہ کا چہرہ جھکتا ہی چلا گیا۔۔۔
چہرہ اوپر اٹھاؤ ۔!!!! روحیل نے کمینگی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے للچائی نظروں سے گرکا۔
ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا منیب تو بیوقوف انسان اس کالی کلوٹی کے لیے مرا جا رہا تھا ۔ روحیل تمسخرانہ انداز میں گلا پھاڑنے لگا۔۔
اوئے کمینے اس کالی کلوٹی نے اپنی کالک کو چھپانے کے لیے چہرہ ڈھکا ہوا ہے۔۔۔
اے لڑکی!!! اپنی شکل آئینے میں جا کر دیکھ۔!!!
یہ پردہ وردہ چھوڑ دے .! تجھے کسی نے گھاس بھی نہیں ڈالنی۔!
چل ادھر سے نو دو گیارہ ہو جا .! ایسے ہی میرا قیمتی وقت تجھ کالی کلوٹی کی وجہ سے ضائع ہو گیا ہے۔ کلو نہ ہو تو۔!
ایک منٹ رکو۔! کچھ یاد آتے ہی روحیل نے دوبارہ زینہ کا رستہ روک لیا ۔
منیب ادھر آ .! تو بھی اپنی دلی مراد پوری کر لے۔!
قریب سے دیکھ لے اپنی اس محبوبہ کو .!
دیکھ لے اپنی اس نشیلی آنکھوں والی کو جس کی مستانی چال پر نجانے تو کتنی چالیں چل چکا ہے ۔!
نہیں یار تو نے دیکھا ، میں نے دیکھا ایک ہی بات ہے۔ ! منیب نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔
بس اسکی اکڑ توڑنا مقصود تھی وہ ٹوٹ چکی ہے بلکہ تو نے تو اسکی کمر ہی توڑ دی ہے۔۔۔ منیب نے قہقہہ لگاتے ہوئے روحیل کو دیکھ کر آنکھ دبائی۔ جبکہ لاچار زینہ اپنی جگ ہنسائی پر اشکبار تھی۔۔اس قدر تذلیل اور اپنی بےبسی پر جی چاہ رہا تھا کہ سامنے کھڑے ان دو آوارہ لڑکوں کے سر پھاڑ دے مگر وہ اتنی ہمت کہاں سے لاتی۔۔۔
ہمیشہ سے دبو اور ڈر پوک زینہ اس وقت بھیڑیوں کے چنگل میں بری طرح پھنس چکی تھی۔
چل جا۔!!! ابھی بھاگ یہاں سے ورنہ ادھر کوئی اور منظر نہ چل پڑے۔۔ روحیل نے حزن و ملال میں ڈوبی زینہ کو مذید ڈرانا چاہا۔
موقع غنیمت پاتے ہی زینہ نے بنا پلٹے ویران گلی میں لرزتی ٹانگوں کے ساتھ رفو چکر ہونے میں عافیت جانی۔۔۔
یخ بستہ ہوائیں اور دسمبر کی بارش کے بڑے بڑے قطرے اسکے برقعے کو بھگونے لگے۔۔ لرزتی ، ہانپتی کانپتی زینہ بمشکل ان آواروں کی گلی سے بازیاب ہو پائی۔
باقی کا سارا راستہ رونے کی نظر ہو گیا۔
دس منٹ کی مسافت طویل تر محسوس ہونے لگی، بارش کے قطرے ناتواں جسم پر برچھیوں کی طرح وار کرنے لگے۔۔
************************************
زینہ کدھر چلی گئی ہے؟ ارے لڑکی جب سے آئی ہے لحاف میں دبکی پڑی ہے۔ نا کچھ کھایا ہے اور نہ کچھ پیا ہے۔ اٹھ جلدی۔!!!! اٹھ جا زینی۔!!
امی نے کھانستے ہوئے اندھیرے میں ڈوبے کمرے میں چالیس وولٹ کا بلب جلایا۔
آٹھ میری بچی ۔! امی ہانپتے ہوئے زینہ کی چارپائی کے ایک کونے پر ٹک گئیں۔۔۔
جوشاندہ قہوہ سب پی لیا مگر اس کھانسی نے جان نہیں چھوڑی، ابھی تو سینے کا پنجر (پسلیاں) بھی دکھنے لگا ہے ۔۔۔ امی ادھر ہی بیٹھی خودکلامی کئے جا رہی تھیں۔ جبکہ زینہ لحاف میں چہرہ چھپائے اپنی جگ ہنسائی پر اشکبار تھی۔۔۔
دل میں درد کی ٹھیسیں اٹھ رہی تھیں۔ ایسے لگ رہا تھا کہ اب کبھی بھی وہ سر اٹھا کر جی نہیں پائے گی۔ زینہ کی نظر میں سبھی مرد ہوس پرستی کا شکار ہیں،بھیڑئے ہیں ، صرف عورت کو نوچتے ہیں ۔۔ دوبارہ سے خون کھولنے لگا مگر بوڑھی ماں کو پریشان کرنا بھی گوارہ نہ تھا۔ یہ تو زینہ کی کم عمری کی عادت تھی ،کم گو ، اپنے کام سے کام رکھنے والی ، تنگ نظری کی شکار زینہ نے جوانی کی دہلیز پر پہلا قدم رکھتے ہی خود کو پردوں میں چھپا لیا ۔ جوں جوں علم و شعور میں فراوانی ہوئی حجاب و نقاب کو عبادت سمجھ کر اپنانے کی ٹھان لی۔۔۔
زینہ اٹھ جا میری بچی! میں نے سالن بنا دیا ہے ،کچھ دیر میں تمہارا بھائی آنے والا ہوگا لہذا فوراً اٹھ اور چاول ابال لے ۔
دن میں تیری آپا کا بھی فون آیا تھا کہہ رہی تھی زینہ کو چند دن کے لئے بھجوا دیں ۔ تجھے دو دن کی چھٹی ہے جاکر بہن کے گھر کے فالتو کام نپٹا آنا ۔۔۔ ارے تو جانتی ہے اسکی حالت کیسی ہے۔حمل کے آخری دن چل رہے ہیں۔ بول رہی تھی اگر زیادہ دن رکنا پڑ گیا تو ذیشان تجھے یونیورسٹی بھی چھوڑ آیا کرے گا۔
ذیشان کا نام سنتے ہی زینہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔
امی آپکو پتا ہے کہ ذیشان بھائی میرے لئے نامحرم ہیں ، مجھے انکے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار ہو کر کہیں بھی جانا پسند نہیں ہے۔
زینہ نے سوجھی آنکھوں اور سوگوار چہرے سے اپنی کوشش کر ڈالی۔۔۔
اے زینہ ! یہ کیا حالت بنا رکھی ہے ؟ روتی رہی ہے جو آنکھیں لال انگارہ ہوئے جا رہی ہیں؟؟
ماں نے تڑپ کر پوچھا۔
امی بس طبیعت ٹھیک نہیں ہے، بس سر میں درد ہے ، بہانہ گھڑتے ہوئے زینہ کی زبان لڑکھڑائی اور آنکھوں میں موتی جھلملانے لگے۔
چل ادھر آ ! میں تیرا سر دباتی ہوں۔! پہلے کیوں نہیں بتایا مجھے ؟؟؟
بس سلام جھاڑ کر آتے ہی بستر میں دبک گئی ہے۔
امی نے بڑبڑاتے ہوئے زینہ کی پیشانی پکڑی تو وہ تپش محسوس ہوئی۔۔۔
ہائے ربا ! زینہ تو تو آگ کی بھٹی میں جل رہی ہے ،تجھے تو تیز بخار ہے ۔
ہائے پگلی۔!!! ہمیشہ کی طرح صحت کے معاملے میں لاپرواہ لڑکی میں تجھے اسی وقت چائے گولی دیتی تو فوراً آرام آ جاتا۔
ماں نے گود میں زینہ کا سر رکھتے ہوئے فکر مندی سے دبانا شروع کر دیا۔جبکہ زینہ کی آنکھیں دغا دینے لگیں۔
ارے اتنی بڑی ہوگئی ہے اور سر درد اور بخار پر روتی ہے۔؟ پگلی نا ہو تو۔!
تو ادھر ہی لیٹ میں تیرے لیے کھانا اور دوائی لاتی ہوں۔
نہیں امی ! زینہ نے ماں کا ہاتھ تھام لیا۔ آپ ایسے ہی پریشان ہو رہی ہیں، اصل میں کافی عرصے بعد سردرد اور بخار ہوا ہے تو زیادہ محسوس ہونے لگا ہے ۔
کل رات بھی رات گئے تک تو نوٹس بناتی رہی ہوں۔ زینہ نے کمزور آواز میں ماں کو ایک نیا عذر پیش کیا۔
زینہ مجھے تو تیری سمجھ نہیں آتی باقی لڑکیاں بھی تو ہیں جو ایم اے اسلامیات کر رہی ہیں ،پر تو میری بچی نرالی ہے۔۔۔ ماں نے لاڈ سے زینہ کے ریشمی بالوں میں انگلیاں پھنسا کر نرمی سے سہلانا شروع کر دیا۔۔
مجھے کیا پتا تھا تیری طبیعت اتنی بگڑ جائے گی وگرنہ شہلا کو منع کر دیتی۔
امی کس بات پر منع۔؟؟
ارے وہ بول رہی تھی کہ ذیشان سیدھا کام سے ادھر تجھے لینے آئے گا۔
امی جی آپکو اور آپا کو بارہا بولا ہے مجھے ذیشان بھائی کے ساتھ اکیلے سفر نہیں کرنا ، امی یہ سب جائز نہیں ہے۔۔۔ زینہ نے لاچارگی سے بولا۔۔
اے زینہ! باقی دنیا بھی تو اسلامیات پڑھتی ہے، میں نے تو آج دن تک کسی کو ایسی سختی کرتے نہیں دیکھا ہے ۔ دیکھا نہیں سارے خاندان میں لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں۔
میں پردے سے منع نہیں کرتی مگر ذیشان تو اپنا بچہ ہے ، تیری بہن کا گھر والا ہے۔ بھائی ہے تیرا۔!!
یاد نہیں ہے جب پچھلی بار تیری خالہ آئی تھی تو تیرا ذیشان کے ساتھ ہاتھ نہ ملانے( مصافحہ) پر کتنا واویلا مچا تھا۔
امی جی ۔!! چاہے جو مرضی ہو جائے۔میں اللہ کی مقرر کردہ حدوں کو پار نہیں کروں گی۔
اے زینہ!! چھوڑ دے یہ شدت پسندی.!
امی جی پردہ کرنا شدت پسندی نہیں ہے یہ اللہ کا حکم ہے اور پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں۔
کائنات کی بہترین متقی عورتوں نے بہترین متقی مردوں سے پردہ کیا ہے تو پھر اس پر انگلی اٹھانے والے اور اعتراض کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں۔؟؟؟
زینہ نے نحیف لہجے میں ہمیشہ کی طرح ماں کو سمجھانے کی بھرپور کوشش کی۔ نڈھال زینہ نے رسانیت سے ماں کو دوبارہ سے یاددہانی کروانا ضروری سمجھا۔۔۔
اچھا چل۔! ابھی لیٹ میں تیرے لیے دوا لاتی ہوں۔!! پہلے ہی بخار میں پھنک رہی ہے اور اوپر سے یہ پردے والی بحث بھی چھیڑ دی ہے ۔ ہم نے تو نہ ایسا پردہ دیکھا ہے اور نہ سنا ہے ۔ہمارے باپ دادا نے تو سادہ سی زندگی گزاری ہے۔ یہ زینہ پتا نہیں کتابیں پڑھ پڑھ کر باؤلی ہوئے جا رہی ہے ۔ امی نے بڑبڑاتے ہوئے کمرے سے نکل کر باورچی خانے کا رخ کیا۔۔۔
حالات کی ستائی لاغر زینہ دوبارہ بستر میں دبک گئی۔
پانچ منٹ بعد کانوں میں مردانہ آواز گونجی۔ دل دہل گیا ۔ یہ آواز بھائی کی تو نہیں ہے۔
میرے مالک! تو رحم فرما.! مجھے اس نئی آزمائش میں نہ ڈال، میں بہت کمزور ہوں ،میں ان تمام لوگوں سے نہیں لڑ سکتی ہوں۔آمین ۔۔
آنسوؤں کی لڑیاں دھکتے رخساروں کو بھگونے لگیں۔۔۔
بخار میں پھنکتی زینہ کا دل کسی انہونی کا سندیسہ سنانے لگا ۔
مردانہ آواز قریب سے قریب تر ہونے لگی۔۔
بخار میں پھنکتی زینہ کا دل کسی انہونی کا سندیسہ سنانے لگا ۔
مردانہ آواز قریب سے قریب تر ہونے لگی۔۔
چر کی آواز سے لکڑی کا دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور ذیشان بھائی ہمیشہ کی طرح بنا اجازت دھکم پیل کرتے زینہ کے سرہانے پر آن کھڑے ہوئے۔۔۔ صد شکر زینہ منہ سر لپٹے لحاف میں دبکی پڑی تھی وگرنہ انکی یہ جارحانہ عادتیں زینہ کو سخت ناپسند تھیں ۔۔
ذیشان بھائی کی پیروی میں امی بھی آن پہنچیں ۔۔۔
ارے بیٹا۔!! چلو ادھر آؤ بیٹھک میں بیٹھتے ہیں، میں تمہارے لیے کھانے کا بندوست کرتی ہوں۔ ارے نہیں خالہ میں تو بس زینہ کو لینے آیا ہوں آپ تو جانتی ہیں کہ شہلا کو ان دنوں مدد کی اشد ضرورت ہے ۔۔۔ جب سے تبادلہ ادھر ہوا ہے اماں کو گاؤں سے یہاں شہر میں آنا بہت کٹھن لگتا ہے۔۔۔
اے زینہ۔! ذیشان نے آگے بڑھ کر زینہ کا لحاف کھینچنے کی پرزور کوشش کی جسکو امی نے لپک کر فوراً ناکام بنا دیا۔۔۔
ارے نہیں بیٹا۔! اسے ادھر ہی رہنے دو ، یونیورسٹی سے واپسی پر بارش میں بھیگ کر آئی ہے اور ابھی شدید بخار میں پھنک رہی ہے۔۔۔۔
تو کیا ہوا خالہ ؟؟ میں اسے گھر لے جاتے ہوئے ڈاکٹر کو دکھاتا ہوا لے جاؤں گا۔ آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔۔۔۔
اے زینہ اٹھو۔!!!
زینہ جو کہ دن والے وقوعے سے ہراساں تھی اب باقی کی کسر بہنوئی صاحب نے نکالنا شروع کر دی۔۔۔
بیٹا چلو ادھر بیٹھک میں چلتے ہیں کچھ چائے پانی پیو۔!!
زینہ کو ادھر ہی گھر پر رہنے دو!! ایسا کرو مجھے اپنے ساتھ لے چلو ، میرے سے جتنا ہو سکا شہلا کی مدد کر دوں گی۔۔۔
ارے خالہ آپ کی بوڑھی ہڈیوں میں اتنا دم کہاں ہے ، آپ کو تو آرام کی ضرورت ہے۔۔۔
اصل بات بتائیں خالہ ۔ یہ اس زینہ نے تو منع نہیں کیا ہے؟؟؟
ذیشان نے جانچتی نظروں سے خالہ کو دیکھا۔۔
ارے نہیں بیٹا یہ کیا منع کرے گی ، وہ تو اسے میں نے آرام کا بولا ہے۔۔۔امی نے لجاجت سے واضح کیا۔۔
زینہ بے حس و حرکت لحاف لپیٹے ٹس سے مس نہ ہوئی۔وہ یہی چاہ رہی تھی کہ کسی طرح بہنوئی والا عذاب سر سے اتر جائے۔۔۔جبکہ بہنوئی صاحب کسی طرح بھی یہ موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتے تھے۔۔
خالہ آپ کو سچی بتاؤں آپ کی بیٹی شدت پسند ہے۔میں آپ کو لکھ کر دیتا ہوں اسکی شادی نہیں ہونے والی۔! اگر یہ دنیا سے ایسے کٹ کر ریے گی تو کہیں کی بھی نہیں رہنے والی ہے۔۔۔۔ ذیشان ڈھیٹ پنے کی حدیں پار کرتے ہوئے کمرے میں پڑی کرسی پر ڈھیر ہو گیا۔۔
خالہ خود سوچیں اب اپنے سگے خالہ زاد بہنوئی سے کیسا پردہ ؟؟
خالہ میں بتا رہا ہوں اس پر ابھی قابو پا لو تو ٹھیک ورنہ پھر ہم سے شکایت نہ کرنا کہ ہم نے آپکو بتایا نہیں ہے۔ ذیشان تو گویا موقع کی تلاش میں تھا ۔۔ جلتی پر تیل ڈالنا شروع کر دیا۔۔۔
ارے بیٹا۔! میں تو اسے اٹھتے بیٹھتے سمجھاتی ہوں مگر یہ قرآن و حدیث کا رٹا لگائے رکھتی ہے۔۔۔