یااللہ مجھے کوئی راستہ دکھا اس انجان راستے میں کوئی منزل دیکھا ۔۔۔
اگر مجھے تو یہاں تک لایا ہے تو اگے کا راستہ بھی دیکھا دے اے میرے اللہ میں ایک کمزور لڑکی ہو مجھے طاقت دے ۔۔۔۔۔۔
ہانیہ اسلام آباد کے پارک کے باہر بینچ پر بیٹھی اپنے ہاتھوں میں اپنا چہرا چھپائے بس روتی جارہی تھی، ہر طرف کوئی بندے کی ذات تو کیا کوئی پرندہ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔۔
رات کا اندھیرا چھایا تھا ،
رات کے دس کا ٹائم تھا ،اس بیچاری لڑکی کو کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا ،کوئی ایسا نہیں تھا جو اس کی مدد کرتا سارا دن ادھر ادھر چلتی رہی۔۔
یہاں تک کے رات کا اندھیرا بھی چھاگیا، رات کے اس پہر میں ہانیہ بھوکی پیاسی اللہ سے دعا مانگ رہی تھی کے اسے کوئی راستہ دیکھا دے اسکی کچھ مدد کردے۔۔۔۔
بہت مشکل ہوتا ہے ایک اکیلی لڑکی کے لئے ان سب مشکلوں کاسامنا کرنا وہ بھی اس وقت جب کوئی اپنا پاس موجود نا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار وہ دیکھ کیا لڑکی ہے ۔۔۔جب ہانیہ اکیلی بیٹھی اس رات کے پہر میں آنسو بہا رہی تھی تو دو لڑکوں کی آواز سے وہ انکی طرف متوجہ ہوئی ۔۔۔۔
وہ دونوں لڑکے نشے کی حالت میں تھے ،پھٹے پرانے کپرے ہاتھوں میں شراب کی بوتلیں پکر رکھی تھی ،
جو چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے اب اسکی طرف بڑھ رہے تھے ،کے وہ گھبرا کر اٹھی اور وہاں سے بھاگنے لگی۔اوے بھاگ رہی ہے پکر اسے۔۔۔۔
جب ایک لڑکے نے اسے بھاگتے ہوئے دیکھیا تو اسکے پیچھے بھاگنے لگے۔۔۔۔
وہ رات کے اس پہر میں آنکھوں میں آنسو لئے پاگلوں کی طرح بھاگتی رہی ۔۔۔۔
وہ دونوں لڑکے بھی اسکے پیچھے بھاگتے رہے ۔۔۔
وہ بھاگتی بھاگتی ایک کالے کلر کی ہنڈا گاڑی کی دیکی میں چھپ گی۔۔۔۔۔۔۔
ادھر دیکھو وہاں ہوگی۔۔۔۔
گاڑی کے پاس ایک جوان لڑکا بیٹھا تھا ،
یہ لڑکا دیکھنے میں پچیس سال کی عمر کا تھا ،
اس کا سانولا سا رنگ تھا ،گول سا چہرا چھوٹی چھوٹی آنکھیں جن کا کلر بلیک تھا ۔۔اور بالوں کی بوے کٹنگ کی گئی تھی اور چہرے کی ہلکی سی فرینچ دارھی اسکی شخصیت پر گہرا ثر رکھتی تھی ۔۔۔
اس نے بلو کلر کی جینز پر بلیک کلر کی شرٹ پہن رکھی تھی اور اس پر سرخ کلر کی ہالف سلیبوس جیکیٹ پہن رکھی تھی ۔۔
اس کے بال اس کے ماتھے پر بکھرے تھے جن سے وہ اور بھی پیارا لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں لڑکے اس کے پاس آئے اور اسکی طرف دیکھتے ہوئے بد تمیزی سے بولے۔۔۔۔۔
اےےے سالے یہاں کسی لڑکی کو دیکھیا تو نے۔۔۔۔۔
اس نے پہلے ان دونوں لڑکوں کا جائزہ لیا اور پھر کھڑا ہوا اور ان دونوں کا گلا دباتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
سالا ہوگا تیرا باپپپپپپپ ۔۔۔۔۔
اس نے دانت پیستے ہوئے زور سے کہا۔۔۔۔
آئی ایم حنان سکندر ۔۔۔۔
حنان نے ان دونوں کو دھکا دیتے ہوئے کہا،
دونوں لڑکے دور جا کر زمین پر گیرے ایک لڑکا حنان کی طرف چاقو لے کر بھاگا حنان نے اس کے پیٹ میں زور سے لاٹ ماری۔۔۔۔۔۔۔
اوے بھاگ یہاں سے یہ تو کوئی پاگل ادمی ہے مار دالے گا ،،
پھر دوسرا لڑکا کہتا ہوا بھاگا۔۔۔
دونوں لڑکے دم دبا کر وہاں سے اپنی جان بچا کر بھاگے ۔۔۔
یہ منظر دیکی سے دیکھ کر ہانیہ اور بھی گھبرا او تھی ۔۔۔۔۔
حنان نے گاڑی کی دیکی کھولی اور ہانیہ کوہاتھ سے پکر کر باہر نکالا۔۔۔۔۔
ایک منت کے لئے حنان اس معصوم لڑکی کو دیکھتا رہے گیا ،
اس کے لمبے بال اسکے چہرے پر بکھرے پرے تھے ۔
چہرے پر ہلکی سی چوٹ لگی تھی۔
کالے کلر کی شلوار قمیض اور سر پر دوپتہ لے رکھا تھا۔۔۔۔۔۔
کون ہو تم اور اتنی رات کو میری گاڑی میں کیا کر رہی ہو۔۔۔۔۔
حنان چینخ کر بولا۔۔۔۔۔
تم جیسی لڑکیوں کی بے شرمی کی وجہ سے باقی لڑکیاں بھی بدنام ہے ۔
تم لوگوں کو کیا ملتا ہے اس رات کے پہر میں اس طرح اکیلے گھوم کر۔۔۔۔
حنان تھا کے بولی جا رہا تھا جبکہ ہانیہ اپنا سر جھکاے کچھ بولے بغیر آنسو بہا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
و و وہ۔۔۔۔۔
ہانیہ بس اتنا ہی بول سکی۔
کیا وہ جواب دو۔۔
حنان نے زور سے اس کے بازو جھنجھوڑنے ہوئے کہا۔
حنان کے اس انداز پر اس دری سہمی ہانیہ نے تیز تیز رونا شروع کردیا۔۔
حنان نے ہانیہ کو اس طرح روتا دیکھ کر خود کے انداز پرقاپو پایا اور اسے گاڑی میں بیٹھنے کا کہا۔۔۔
س سوری پلیز آپ گاڑی میں بیٹھے میں آپکو گھر دروپ کردو،
ورنہ وہ غندے پھر آجاے گے۔
حنان نے دھیمے لہجے میں گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔۔
ہانیہ کو یہ بندہ اعتبار والا لگا اور وہ کچھ بولے بغیر ارام سے گاڑی میں بیٹھ گئ۔۔
جی کہا جانا ہے آپ کو۔۔
حنان نے فرنت میرر سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا ،جو ابھی تک بے آواز رویی جارہی تھی۔۔
اکسکیوس می میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہو کہا جانا ہے تمھیں ۔کوئی گھر بھی ہے کے نہیں۔
ہانیہ کا جواب نا پاکر حنان نے پھر پوچھا۔
ہانیہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کے وہ اسے کیا جواب دے۔
ج ج جی م مم ۔۔۔۔
اوفففف تمہیں ہکلانے کی بیماری ہے کیا سیدھی طرح سوال کا جواب نہیں دے سکتی ۔۔
حنان نے اب کی بار غصے سے کہا۔
ہانیہ نے پھرسے زور دار روناشروع کردیا۔جسے دیکھ کر حنان کا پھر دل کڑا اور وہ بولا۔اب پھر کیوں رو رہی ہو۔
آپ بات بات پر چلاتے کیوں ہے آرام سے نہیں بول سکتے۔
ہانیہ نے سوجی آنکھوں سے اپنے انسو صاف کرتے ہوئے کہا۔
اوففففففف میرے اللہ یہ کہا پھسا دیا۔۔
حنان اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر بولا۔
اس کا بس نہیں چل رہا تھا کے اس لڑکی کو گاڑی سے باہر دھکا دے دیں۔
یہ اس وقت کو کوس رہا تھا، جب اس نے اسے لفت دی۔۔
دیکھو لڑکی۔میں اب ارام سے پوچھ رہا ہو کے کہا جانا ہے تمھیں۔
حنان نے اپنے غصے پر قاپو پاتے ہوئے کہا۔
پتا نہیں۔۔۔۔
ہانیہ دھیمے لہجے میں اپنی نظریں جھکاتی ہوئی بولی۔۔
حنان کو اس سے اس سوال کی امید نہیں تھی اسے بہت غصہ آیا اس پر۔۔
اور پھر بولا۔۔
پتا نہیں ہے تو اتنے سالوں سے کہا رہے رہی ہو یہاں کیوں گھوم رہی ہو پھر۔۔
حنان نے پھر اسکی طرف غصے سے گھورتے ہوئے کہا۔۔
ج ج جی میں ل لاہور سے آئی ہو۔۔۔۔۔لیکن میرا یہاں کوئی نہیں ہے جسے میں جانتی ہو۔۔۔
ہانیہ نے اب اہنے ہاتھوں کی انگلیوں کو مرورتے ہوئے اسکی طرف دیکھتے ہوئےکہا۔۔
لیکن یہاں پھر کیوں آئی ہو کسی کو نہیں جانتی تو۔
حنان نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔۔
جی کچھ غندے میرے پیچھے پرے تھے میں ان سے جان چھرا کر یہاں آئی لیکن یہاں بھی دوسرے غندے میرے پیچھے پر گیےم مم میں تھک گئی ہو بھاگ بھاگ کر۔۔۔۔
حنان اس سے پہلے اس سے کچھ اور پوچھتا۔۔
ہانیہ ہاتھوں میں اپنا چہرا چھپائے رونے لگی۔
حنان پھر سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا اور تب تک چپ رہا جب تک ہانیہ کا رونا ختم نہیں ہوا۔
بس رولیا یا اور رونا ہے۔۔اگر رونا ختم ہوگیا ہو تو یہ لو ان سے چہرا صاف کرلو۔۔
حنان نے اسکی طرف ٹیشو پیپر بڑھاتے ہوئے کہا۔۔
ہانیہ جب رو رو کر چپ ہوئی تو حنان نے اس سے کہا۔
رو رو کر ہانیہ کی ناک اور آنکھیں سرخ پر گئ تھی۔۔
اس نے ٹیشو لیا اور چہرا صاف کیا۔۔
اب رونا مت اور میں جو پوچھ رہا ہو اسکا جواب دو۔
حنان نے اب بہت پیار سے اسے کہا۔۔
میں تمھیں اپنی کزن کے گھر چھوڑ رہا ہو کچھ ٹائم کے لئے۔
تم تب تک وہاں ہی رہینا اوکے پھر میں کچھ اور انتظام کرونگا تمھارے رہنے کا سمجھ آئی۔۔۔
ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔
حنان نے اپنی جیب سے موبائل نکالا اور اس پر نمبر ملانے لگا۔
دوسری طرف پہلی بیل پر ہی کال اٹھائی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو کوجے کسے ہو۔۔اگنی کزن کی یاد۔۔
دوسری طرف ایک لڑکی شرارت سے بولی۔۔۔
ہاں ہیلو حور کسی ہو۔ یار ایک فیور چاہئے تم سے۔۔
حنان نے حور کا جواب دیئے بغیر ہی کہا۔۔۔
حور جو بیڈ پر التی ہو کر لیتی تھی سیدھی ہوکر بیٹھی۔۔۔
ہاں جی بولو کیا بات ہے۔
حور نے بھی حنان سے سوال کیا۔۔
حور یار ایک لڑکی ہے اکیلی ہے بیچاری بہت پروبلم میں ہے۔
اسکے رہینے کا بھی کوئی انتظام نہیں۔ کیا تم اس کچھ ٹائم اپنے گھر میں رہنے دوگی کب تک اسکا انتظام نا ہوجائے۔۔۔
ک ککون لڑکی۔۔
حور نے اپنی بھنوے چرھاتے ہوئے کہا۔۔
یار یہ سب میں بعد میں سمجھاونگا پہلے جو میں پوچھا اسکا جواب دو۔۔۔۔
حنان نے غصے سے کہا۔۔۔
اوکے اوکے لے آؤ غصہ تو مت کرو۔۔
حور کو حنان کے اس انداز پر بہت غصہ آیا اس لئےاس نے اس سے اور کچھ نہیں ہوچھا اور موبائل کو بیڈ پر رکھ کر واش روم فریش ہونے چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔