افففففففف یہ کیا بد تمیزی ہے ریحان کوئی ایسا کرتا ہے اتنا ٹھنڈا پانی مجھ پر ڈال دیا اپ نے۔۔
جب حورعین سکون کی نیند سو رہی تھی تو ریحان نے ایک ٹھنڈے پانی کا جگ اس پر پلٹا دیا جس وجہ سے وہ گھبرا کر اٹھی اور اس پر چلانے لگی حور سر سے پاؤں تک بھیگ چکی تھی۔۔۔
یہ ہی طریقہ ہے اٹھانے کا اب تمھیں عادت دالنی پرے گی کیونکہ کل سے اگر تم مجھ سے پہلے نا اٹھی تو کل پوری بالٹی دالو گا سمجھی۔۔۔
ریحان نے اس کے چہرے پر آنے والی گیلی
لٹوں کو پیچھے کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کیا تمھارا دماغ خراب ہے اتنی صبح وہ بھی پانچ بجے۔۔حورعین نے سامنے دیوار پر لگی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے ماتھے پر بل دال کر کہا۔۔۔
جی ہاں ۔۔۔کیونکہ میں اسی وقت جاگتا ہو۔
اور تمھیں بھی جاگنا ہوگا یہ تمھارے پاپا کا گھر نہیں ہے کے تم گھوڑے بیچ کر سوتی رہو گی تمھیں بہت شوق ہے نا میری بیوی بن کر رہنے کا تو چلو پھر بیوی کے حقوق بھی پورے کرو۔آج سے تم سارے کپرے بھی دھوگی استری بھی کرو گی کھانا بھی بناوگی اور سارے کام کروگی جو ایک بیوی کرتی ہے۔۔۔ اور میں واش روم سے باہر آؤ تو میرے کپرے ریڈی ہونے چاہیے۔۔۔
ریحان نے اسکی تھوڑی پکرتے ہوئے کہا اور واش روم چلا گیا۔۔۔
حورعین اسکی طرف حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
تم جتنا بھی غصہ کرلو ریحان جتنا بھی ٹارچر کرلو لیکن میں ہر امتحان سے گزرو گی اور تمھارا دل جیت کر ہی دم لوگی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام علیکم انکل کسے ہے آپ۔۔
راشد جب کھانے کی میز پر ناشتہ کرنے کے لئے بیٹھا تو حورعین نے انہیں سلام کیا لیکن وہ کچھ جواب دیئے بغیر ناشتہ کرنے لگے۔۔
ایک منت تم یہاں نہیں بیٹھ سکتی تمھاری جگہ وہاں ہے۔۔
حورعین جب ریحان کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے لگی تو راشد نے پاوں سے کرسی کو پیچھے گیراتے سامنے زمین پر اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔
سب راشد کی طرف دیکھنے لگے۔۔
یہ کیا طریقہ ہے راشد کوئی بہو کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے۔۔
شیخ نے راشد کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔
تم کچھ نہیں جانتے شیخ اس لڑکی سے اور اس کے باپ سے میں کتنی نفرت کرتا ہو اور کونسی بہو یہ میری بہو نہیں اس گھر کی ملازمہ ہےاور اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوگا اور میری بات سن لو سب کان کھول کر اس لڑکی کو تازہ کھانا نہیں دینا بچا ہوا باسی کھانا دینا ہے سمجھے۔۔۔
حورعین کو اس روایہ کی امید نہیں تھی۔۔یہ سب ریحان سے برداشت نہیں ہوا اور وہ آٹھ کر کمرے میں چلا گیا ۔۔حورعین بھی روتی ہوئی کمرے میں چلی گئی ۔۔اور بیڈ پر بیٹھ کر تیز تیز رونے لگی ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
یہ لو ان سے آنسو پونچ لو ابھی تو اور بھی بہت کچھ سہینا ہے یہ تو شروعات ہے۔۔ حورعین کو روتا دیکھ کر سامنے صوفے پر بیٹھے ریحان کو بہت برا لگا اور وہ خود کو روک نہیں پایا تو آٹھ کر اس کے پاس آیا اور اسکی طرف ٹیشو برھاتے ہوئے بولا ۔۔۔
جو اس کی طرف دیکھنے لگی اور کچھ کہے بغیر اس نے اس سے ٹیشو لیا اور اپنے انسو صاف کرنے لگی۔۔
اس کی آنکھیں اور ناک سرخ پر گئی تھی ۔۔ ۔۔۔ریحان کو بہت دکھ تھا کے وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پا رہا ۔۔۔
اس لئے یہ چاہتا تھا کے حورعین واپس یہاں نا آئے کیونکہ وہ جانتا تھا کے راشد اس سے ٹھیک سلوک نہیں کرنگے ۔۔
لیکن وہ کیا کرتا حورعین کی ضد کے آگے اسے جھکنا پرا۔۔لیکن اب یہ سلوک بھی تو برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔۔
تم فکر مت کرو حورعین بہت جلد میں تمھیں اس عذاب سے نکال کر رہو گا ۔۔
ریحان نے حورعین کی طرف دیکھتے ہوئے دل میں سوچا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
نجانے اور کیا سلوک کرنے والا تھا راشد اس سے کیا ریحان اس کو بچا پائے گا کیا یہ دونوں کبھی ایک دوسرے کے قریب آپا ینگے۔یا ایسے ہی حورعین کو ہر تکلیف سے گزرنا پریگا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
تم نے کچھ کھایا۔۔جب ریحان کمرے میں واپس آیا تو حورعین ویسے ہی گھٹنوں کے بل بیٹھی اپنا چہرا چھپاے رو رہی تھی۔
۔تو ریحان نے اس سے پوچھا۔۔۔۔
مجھے کچھ نہیں کھانا۔۔اور آپ کو میری فکر کیو ہونے لگی۔۔
حورعین نے اسکی طرف دیکھے بغیر کہا۔۔
مجھے تمھاری فکر نہیں یے بس اس لئے بول رہا ہو کے تمھیں تو اس گھر کے ہر امتحان سے گزرنا ہے اور یہ کھالی پیٹ تو ہونے نہں لگا سو اس لئے درامے بند کرو اور۔۔یہ لو کھالو جلدی سے اس سے پہلے پھر بابا آجاے۔۔۔
ریحان نے ایک برگر اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔جو یہ باہر سے اسکے لئے لایا تھا۔۔۔م
ریحان جانتا تھا کے اسے برگر بہت پسند ہے اس لئے وہ اس کے لئے باہر سے لینے گیا تھا۔۔۔
حورعین نے کچھ کہے بغیر اس کے ہاتھ سے برگر لیا اور کھانے لگی۔
۔کیونکہ اس وقت اسے بہت بھوک لگی تھی اس لئے یہ کچھ درامہ نہیں کرنا چاہتی تھی اس لئے اس نے چپ چاپ برگر لیا اور کھانے لگی۔۔۔
اسکو اس طرح دیکھ کر ریحان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی جسے دیکھ کر حورعین کچھ حیران سی ہوئی کے جو شخص کل اس پر اتنا غصہ تھا اور اب اسکی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔۔۔
کیوں مسکرا رہے ہے آپ۔۔۔حورعین پوچھے بغیر نا رہے سکی۔۔۔۔
میں یہ سوچ کر مسکرا رہا ہو کے تم اور کتنی دیر تیکو گی یہاں پر کیونکہ تم سے تو اور کچھ برداشت ہونے والا نہیں آگے کیا کروگی۔۔۔
ریحان نے طنزیہ انداز سے کہا۔۔۔
اس بات کی آپ فکر مت کرے انشاءاللہ ہر امتحان سے گزرو نگی چاہے مجھے اپنی جان کی قربانی کیو نا دینی پڑے۔۔
حورعین نے بھی جھٹ سے جواب دیا۔۔۔
اور اپنی جگہ پر جا کر لیٹ گئ۔۔۔۔
ریحان کتنی دیر تک اسکی طرف دیکھتا رہا جو نجانے کن سوچو میں گم تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
تم کیو نہیں سمجھتی حور کے یہ سب سخت لہجا میں تمھاری بہتری کے لئے کر رہا ہو مجھے بھی بہت برا لگ رہا ہے ۔۔
پلیز تم واپس چلی جاؤ ورنہ بابا تم پر ظلم کر کر کے تمھیں ہلاک کردینگے۔۔۔
ریحان نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا جو اب نیند میں تھی اور ٹھنڈ سے لرز رہی تھی جب ریحان نے اسے ٹھنڈ سے لرزتے دیکھا تو آٹھ کر اس پر کمبل دالا اور اس کے ماتھے پر بوسہ دے کر واپس جا کر لیٹ گیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
ہیلو سر کچھ خبر ملی۔۔حنان نے پولیس اسٹیشن کال کر کے پوچھا۔۔۔
جی جی حنان سکندر اپکے لئے ایک خوش خبری ہے۔۔ہمیں پتا چلا ہے عبدالقدیر ایر پورٹ پر درگزز اسمگلنگ کرتا ہوا پکرا گیا ہے۔ہم وہاں ہی جا رہے ہے انشاءاللہ اس سے ہانیہ کی بھی کوئی خبر ضرور ملے گی۔۔۔۔
انسپکٹر نے حنان سے کہا جس نے سکھ کا سانس لیا۔۔اور جانے کے لئے نکلا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
ناظرین آپکو ایک خبر سے اگاہ کیا جاتا ہے کے کتنے سالوں بعد اخر کار درگز اسمگلر عبدالقدیر جو کے لاہور کا جانا مانا دون ہے آج رنگے ہاتھوں لڑکیوں کے ساتھ درگرز اسمبگلنگ کرتا پکڑا گیا یے ۔۔۔اس کے اور بھی ساتھی جلد ہی پکرے جائنگے ہم اپکو ہر خبر سے اگاہ کرتے رہے گے تو ہمارے ساتھ ہی رہیئے گا۔۔۔
ہیلو عبدالقدیر پکڑا گیا ہے اور ہوسکتا یے وہ پولیس کو سب سچ بتا دے اس سے پہلے لڑکیوں کو دوسری جگہ ریپلیس کرو میں پہنچ رہا ہو۔۔۔۔
ٹی وی پر خبر دیکھ کر ارسلان سکندر نے بہادر کو کال ملا کر کہا اور خود بھی جانے لگا کے سامنے کھڑی سونیا بیگم کو دیکھ کر روک گیا جو اسکی طرف غصیلی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔
بس کرے خدا کا خوف کرے چھوڑ دے اس گناہ کو میں آپکے آگے ہاتھ جورتی ہو۔۔
سونیا بیگم نے روتے ہوئے ان کے سامنے ہاتھ جورتے ہوئے کہا۔۔
پیچھے ہٹو یہاں سے مجھے کچھ سمجھانے کی ضرورت نہیں سمجھی۔۔۔
ارسلان سکندر نے سونیا بیگم کو دھکا دیتے ہوئےکہا جو زمین پر جا کر گیری۔۔۔
یاالہ اب سب بچیوں کی زندگی تیرے ہاتھ میں ہے انہیں بچالے۔۔۔۔
سونیا بیگم نے ہاتھ اٹھائے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بتاؤ تمھارا ادا کہا ہے اور باقی کی لڑکیوں کو کہا چھپا رکھا ہے اور کون کون شامل ہے تیری گینگ میں بول ورنہ ایسے ہی مار دالینگے تجھے۔۔
انسپکٹر نے عبدالقدیر کو جیل میں راسیوں سے باندھ کر پیت پیت کر پوچھنے کی کوشش کی لیکن وہ کچھ بتانے کو تیار نا تھا۔۔۔
تم جو مرضی کرلو انسپکٹر میں تمھیں کچھ نہیں بتاونگا تم کچھ بھی کرلو سمجھے۔۔۔۔۔
عبدالقدیر نے کانپ کر بولتے ہوئے کہا۔۔۔۔اور بے ہوش ہوگیا۔۔۔ ۔
بہت ڈھیٹ انسان ہے مار کھانے کے لئے تو تیار ہے لیکن بتانے کے لئے نہیں لیکن آپ فکر مت کرے ہم جگہ کا پتا لگا کر رہی رہے گے۔۔۔
انسپکٹر نے حنان سے کہا۔۔۔
اوکے سر آپ اپنا کام کرے ۔۔مجھے اللہ پر پورا یقین ہے کوئی نا کوئی سوراخ ضرور ملے گا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے لڑکیوں چلو اٹھو یہاں سے دوسری جگہ جانا ہے۔۔
بہادر نے اکر سب لڑکیوں سے کہا جو اس کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔
ک ک کہا لے کر جا رہے ہو اب ہمیں۔۔
ہانیہ نے بہادر سے پوچھا۔۔
چٹاخخخ۔۔۔۔ششششش کوئی سوال نہیں۔۔۔
ہانیہ نے جب پوچھا تو سلیم نے آتے ہی اس پرایک زوردار تھپر رسیدہ کیا۔۔۔
تھوووووو ہے تمھارے جسے باپ پر جو اپنی ہی بیٹی کا سودا کردے۔۔
ہانیہ نے زمین پر تھوکتے ہوئے سلیم سے کہا۔۔۔
ہاہاہاہا باپ کونسہ باپ ۔۔۔میں تمھارا کوئی باپ واپ نہیں ہو ارے تم تو میری اولاد ہی نہیں ہو تم تو اس شیخ اور مریم کی اولاد ہو جس شیخ کی تم اولاد ہو اس نے ہی تمھارا سودا مجھ سے کیا تھا بچپن میں بیچ گیا تھا تمھیں۔۔جب تمھارے باپ نے تمہارا سودا کردیا تو میں کیو نہیں کر سکتا۔۔۔
سلیم نے ہانیہ کے بالوں کو کھنچتے ہوئے کہا جو حیرانی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی اسے خود پر شرم آرہی تھی کے وہ ایک ایسے باپ کی بیٹی ہے جس نے خود ہی اپنی بیٹی کو بیچ دیا چھیییییی شرم آتی ہے مجھے ان پر۔۔۔۔
م م مطلب میری ماں زندہ یے۔۔۔
ہانیہ نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے کہا۔۔۔
فالتو بکواس کا ٹائم نہیں ہمارے پاس چل بہادر ان سب کو گاری میں بیٹھا وہ سالی پولیس کو اگر یہاں کے ادے کا پتہ چل گیا تو ہم سب پکرے جاینگے۔۔۔ سلیم نے بہادر سے کہا جو ساری لڑکیوں کو گاری میں بیٹھا رہا تھا۔۔پتا نہیں یہ بیچاری لڑکیاں اب کہا جاینگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔