مسٹر ارسلان سکندرررررر کہا ہو باہر نکلو۔۔
حنان جب ہر جگہ سے ناکام رہے گیا تو اس کو آخری ذریعہ ارسلان سکندر ہی نظر آیا جو جانتا تھا کے ہانیہ کہا ہے۔۔
کیا طریقہ ہےبات کرنے کا باپ سے۔۔
سونیا بیگم نے حنان کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
موم آپ آج ہم دونوں کے بیچ میں نہیں آئے گی بہت ہوگیا ڈیڈ بتائے ہانیہ کہا ہے۔۔۔
حنان نے انکے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔۔
مجھے کیا پتا کہا ہے تمھاری مشوکہ ہے تم سمبھالو اسے بھاگ گئی ہوگی کسی یار کے ساتھ۔۔
ارسلان سکندر نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
بس ڈیڈ بکواس بند کرے اس کے اگے کچھ مت کہے گا ورنہ میں بھول جاونگا کے آپ جیسا نیچ انسان میرا باپ ہے چھیییییی مجھے شرم آرہی ہے خود پر کے میں آپ جسے انسان کا بیٹا ہو۔۔۔حنان نے غصے سے کہا۔۔
تو میرے پاس کیا لینے آئے ہو میں کچھ نہیں جانتا کے وہ لڑکی کہا ہے میرے پاس فالتو ٹائم نہیں جو میں اس لڑکی کی خبر لیتا پھیرونگا۔۔
بس کرے درمہ سلیم مجھے سب بتا چکا ہے آپ مجھے طریقے سے بتاتے ہے یا میں اپنا طریقہ استمعال کرو۔۔
حنان نے غصے سے زمین پر پاؤں پھتکتے ہوئے کہا۔۔۔
ہاہاہاہا تو تم سچائی جان ہی چکے ہو تو سن لو تمہاری وہ مشوکہ کو ایسی جگہ بھیج چکا ہو جہاں سے وہ کبھی واپس نہیں آسکتی۔۔
ارسلان سکندر نے ایک بلند قہقہہ لگاتے ہوئے کہا اور کمرے میں چلا گیا۔۔
حنان پریشان زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اپنا چہرا چھپاے رونے لگا۔۔
بیٹا صبر رکھو سب ٹھیک ہوجائے گا ہانیہ کا پتہ چل جائے گا۔۔
سونیا بیگم نے حنان کو گلے لگاتے ہوئے کہا جو سسک سسک کے رو رہا تھا وہ ہر پل اپنی محبت کو ترس رہا تھا۔۔
ماں میں خود کو بہت بے بس محسوس کر رہا ہو میں ڈیڈ کو پولیس کے حوالے بھی تب تک نہیں کر سکتا جب تک میرے پاس ثبوت نہیں ہوگا اور ثبوت کے طور پر اس سلیم کا ملنا بہت ضروری ہے لیکن نا جانے وہ کہا چھپا بیٹھا ہے۔۔۔
حنان نے روتے ہوئے کہا۔۔
بیٹا اللہ بہت بڑا ہے وہ سب کچھ ٹھیک کردے گا انشاءاللہ اللہ سب جاننے والا ہے۔۔
سونیا خاتون نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔۔
۔۔۔۔۔۔
تم کیابات کر رہی ہو مریم شانزے ہماری تیسری بیٹی ہے جو تم نے عائشہ کو دی تھی اور اسے راشد نے اپنےمفاد کے لئے قید کر رکھا ہے۔۔۔
جب شیخ نے مریم کی بات سنی تو اسے یقین ہی نا آئے کے راشد ایسی حرکت کر سکتا ہے ۔۔۔
آپ پلیز کسی بہانے سے راشد کے ادے پر پہنچے اور پتا لگائے کیونکہ وہ آپکو پکا آپنے منصوبوں کے بارے میں بتائے گا۔۔۔
مریم نے روتے ہوئے شیخ سے کہا جو حیران پریشان مریم کی باتیں سن رہا تھا۔۔۔
میں کچھ کرتا ہو تم رونا بند کرو ۔۔اگر ایسا ہے تو میں اپنی بیٹی کو واپس لا کر ہی رہو گا چاہئے کچھ بھی ہوجائے۔۔۔
شیخ نے مریم کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راشد سناو یار کیا کام کر رہے ہو آج کل ۔۔
شیخ نے راشد کے سامنے والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا جو لان میں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔۔
کیا سناو یار اپنا وہی دھندا ہے درگز سمگلنگ۔۔
راشد نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
اچھا تو ابھی تک کوئی چھاپہ نہیں پرا۔۔شیخ نے حیرانی سے کہا۔
ہاہاہاہا کیا بات کر رہے ہو یار کوئی ایسا پیدا نہیں ہوا جو راشد کے کام پر چھاپہ دال سکے کیونکہ میں لڑکیوں کے ذریعے یہ کام کر رہا ہو۔۔
راشد نے بلند قہقہہ لگاتے ہوئے شیخ سے کہا۔۔
کیا لڑکیوں کے ذریعے ۔
ہاں جی ان کے ذریعے ۔۔ان لڑکیوں کو اغوا کرکے ان میں درگز سپلائی کرتا ہو۔۔
راشد نے چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
کیا مجھے دیکھاوگے۔۔۔شیخ نے بے تابی سے کہا۔۔
ارے یار کیو نہیں ویسے بھی تمہیں ایک بات بھی بتانی ہے۔۔
راشد نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
بتاو نا کیا بات ہے ۔شیخ نے راشد سے کہا۔۔
ابھی نہیں بعد میں ۔۔
نجانے کیا بات تھی جو راشد شیخ سے کرنے والا تھا کیا تھا اسکے دماغ میں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
یہ دیکھوں شیخ یہ میرا ادا ہے اور یہ وہ لڑکیاں جہنے میں درگز سپلائی کے طور پر استعمال کرتا ہو۔۔
راشد نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا ۔۔
سب لڑکیاں چپ چاپ بیٹھی ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔۔
شیخ نے ساری لڑکیوں کی طرف نظر گھمائی اس کی تلاش شانزے تھی جو اس بات سے بے خبر تھا کے شانزے کے ساتھ ہانیہ بھی یہاں ہی موجود ہے۔۔
پھر آگیا گندہ ادمی۔۔شانزے نے راشد کی طرف دیکھتے ہوئے دھیرے سے ہانیہ سے کہا۔۔۔۔
شششش شانزے خاموش رہو یہ بہت خطرناک انسان ہے۔۔۔اور ایک اور ادمی کو لایا ہے پتا نہیں اب کس کی موت کی باری ہے۔۔
ہانیہ نے شیخ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔
ادھر آؤ شیخ۔یہ لڑکی دیکھ رہے ہو اسکا نام شانزے ہے۔۔یہ میرے بہت کام کی بچی ہے جانتے ہو یہ میری بیوی کی منہ بولی بیٹی یے ۔جو تیرا سال سے میرے قبضے میں یے۔۔۔
راشد نے شانزے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔
جسے دیکھ کر شیخ کی آنکھوں میں نمی آنے لگی۔۔لیکن اس وقت یہ مجبور تھا اسے بہت سوچ سمجھ کے ہر قدم اٹھانا تھا۔۔
اور یہ لڑکی ہانیہ ہے ۔۔ہمارے ادمی سلیم کی بیٹی۔۔جس نے اسکا سودا عبدلقدیر سے کر دیا جو کچھ دن میں واپس اکر اس سے نکاح کرےگا بیچاری ہاہاہاہا۔۔۔۔۔
راشد نے ہانیہ کی طرف دیکھ کر طنزیہ قہقہہ لگایا۔۔۔لیکن اب کی بار شیخ کی دھڑکن بے قرار تھی کیونکہ اسے اسکی پہلی بیٹی بھی مل گئ تھی لیکن کتنا بد نصیب باپ تھا جو اپنی دونوں بیٹیوں کو گلے بھی نہیں لگا سکتا تھا۔۔اسکو اس سلیم پر غصہ آرہا تھا جو اتنا کمینہ انسان نکلا اسے اب کچھ بھی کرکے ان سب بچیوں کو یہاں سے آذاد کروانا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو تمھاری ہمت بھی کسے ہوئی اس گھر میں قدم رکھنے کی میں نے تمہیں منا کیا تھا نا کے میرا تم سے کوئی رشتہ نہیں لیکن تم پھر بھی آگئی ۔۔۔
حورعین جب گھر واپس آئی تو ریحان نے غصے سے اس سے کہا۔۔
تم جو بھی کرلو میں یہاں سے کہی نہیں جاونگی میں بیوی ہو تمہاری سمجھے پھوپھو سمجھاے نا اسے۔۔
حورعین نے عائشہ بیگم کے گلے لگتے ہوئے کہا۔۔
ہال میں بس مریم موجود تھی جو یہ سلسلہ دیکھ کر حیرانی سے ان تینوں کی باتیں سن رہی تھی۔۔
ریحان بس حورعین کہی نہیں جائے گی یہ بیوی ہے تمھارے تم سے اتنی محبت کرتی ہو اور تم اسے کچھ نہیں کہو گے۔۔بس تم معاف کردو اسے ۔۔اسے کسی کو نہیں ترپاتے۔۔
عائشہ بیگم نے ریحان سے کہا۔۔۔
ماں لیکن یہ پہلے کیو گئ تھی کیو میری محبت نہیں سمجھی کیو مجھے ترپایا۔۔
پر آپ کچھ بھی کرلے اسے رہینا ہے نا شوق سے رہے، لیکن میں اسے اپنی بیوی تسلیم نہیں کروگا۔۔ریحان غصے سے کہتا گھر سے باہر چلا گیا۔۔
پھوپھو دیکھیے نا کتنا ناراض ہے مجھ سے میں جانتی ہو میری غلطی تھی مجھے اس طرح یہاں سے نہیں جانا چاہیے تھا لیکن میں کیا کرو اس وقت میں تو کچھ نہیں جانتی تھی۔حورعین نے گلے لگتے ہوئے کہا۔۔
ارے میری بچی ایسے نہیں روتے وہ زیادہ دیر تک تم سے ناراض نہیں رہے سکتا بہت محبت کرتا ہے تم سے بس تم صبر رکھو۔۔
اچھا یہ بتاؤ کس کے ساتھ آئی ہو اور بھائی جان نہیں آئے تم سے ملنے۔۔۔
عائشہ بیگم نے بلال صاحب کا پوچھا۔۔۔
نہیں پھوپھو پاپا نہیں آئے میری کزن ہے وہ اغوا ہوئی ہے اس لئے اس کی تلاش میں ہے ۔۔یہ تو آج صبح ماما نے مجھے کہا کے تم اپنے گھر چلی جاؤ کیونکہ وہ نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے راشد انکل شانزے کو نقصان پہنچائے ،اس لئے اب میں آگئی ہو نا تو بس شانزے کو واپس لے کر آؤنگی۔۔
اچھا تم سب چھوڑو ان سے ملو یہ میری دوست ہے مریم اور شانزے ان کی ہی بیٹی ہے۔۔
اوہ سو سوری انتی آپ فکر مت کرے میں اب شانزے کو واپس لا کر ہی دم لوگی۔۔
حورعین نے ان سے گلے لگتے ہوئے کہا۔۔۔۔
لیکن ایک بات کا خیال رکھنا بیٹا اس بات کا کسی کو بھی علم نہیں ہونا چاہیے ۔۔
عائشہ بیگم نے اسے منا کیا۔۔
جی پھوپھو اپ بے فکر رہے۔۔۔
حورعین نے انکی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔
for kind ur informationt this is my room so plzz get lost from here...
(تمھاری معلومات کے لئے میں بتادو کے یہ میرا کمرا ہے تو مہربانی فرماکر یہاں سے دفعہ ہوجاؤ۔۔۔)
ریحان نے جب کمرے میں حورعین کو بیڈ پر بیٹھا دیکھا تو اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے انگلش میں کہا۔۔۔
اووو ہووووو اتنا غصہ پیارے پیا جی اتنا غصہ نہیں کرنا چاہیے۔۔
حورعین نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے شرارت سے کہا۔۔
دور ہٹو مجھے ہاتھ بھی مت لگانا۔۔
ریحان نے اسے پیچھے کرتے ہوئے کہا۔۔
تم جو مرضی کرلو پیارے پیا جی میں تو کہی نہیں جانے والی تم کچھ بھی کرلو۔۔
حورعین نے بیڈ پر ٹانگیں پھیلا کر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔
نہیں نکلو گی نا تو مت نکلو میں ہی نکل جاتا ہو۔۔
تو میری بات سن لو باہر جانے سے پہلے سوچ لینا کے اگر پھوپھو نے تمہیں کمرے سے باہر دیکھ لیا تو انہیں بہت برا لگے گا تمھیں کہی جانے کی ضرورت نہیں یے تم ایسا کرو یہاں اجاو لیٹ جاؤ میں صوفے پر سو جاونگی۔۔
حورعین نے کشن لیتے ہوئے کہا اور صوفے پر جا کر لیٹ گئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریحان نے بھی اپنی کالے کلر کی جیکیٹ اتار کر بیڈ پر پھینکی اور اس آرام سے لیٹ گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
راشد صاحب خدا کے لئے اب تو شانزے کا پتہ بتا حورعین تو اب واپس اگئی ہے۔۔
عائشہ نے راشد سے کہا جو ابھی ابھی گھر واپس آیا تھا تو عائشہ نے حورعین کی واپسی کا بتادیا۔۔
تو اخر وہ واپس آہی گئ ہے تو جب تک تم اس پر ظلم نہیں کر لیتی اسے ترپا نہیں لیتی اور جب تک میں بلال کی آنکھوں میں ترپ نہیں دیکھو گا تو تمہاری بیٹی تمھیں نہیں ملے گی تو کل سے آپنے کام پر شروع ہوجاؤ۔۔
راشد نے عائشہ سے کہا جو رو رو کر اس سے شانزے کا پوچھ رہی تھی۔
۔تم نے ایک کام کرنا ہے کل حورعین سے کہے کر اپنے بھائی کو گھر بلواؤ تاکہ مجھے بھی اس کی خدمت کرنے کا موقع ملے۔۔۔ ناجانے کیا چل رہا تھا اس کے دماغ میں پتا نہیں وہ کیا کرنے والا تھا۔۔بس یہ ظالم انسان تو ابھی حورعین اور بلال کو ترپانا چاہتا تھا۔۔۔ ۔ ۔۔