ریحان ریحان میری بات سنو کہا جا رہے ہو پلیز روکو،
جب حورعین نے ریحان کو کالج کے باہر دیکھا تو وہ اس کے پیچھے چلنے لگی لیکن وہ اسے اگنور کرتا چلتا گیا ، اس نے حورعین کی آواز نا سننے کا درامہ کیا۔۔۔۔۔
رہحان تمھیں سمجھ نہیں آرہی میں کیا بول رہی ہو، بس آگے بھاگنے کی پری ہے تمھارے پیروں کے نیچے پہیے لگے ہوگے، لیکن میرے نہیں ہے آرام سے یہاں روکو اور میری بات سنو۔۔
حورعین نے ریحان کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی حورعین بلال۔تم آب ازاد ہو اور انشاءاللہ میں بہت جلد تمھیں آزاد بھی کردونگا۔۔بہت بری غلطی ہوئی مجھ سے جو میں نے تم سے ہیار کیا۔۔
ریحان نے غصے کی نگاہ سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔
میں سمجھتی ہوریحان مجھ سے غلطی ہوئی ہے کیونکہ میں پہلے کچھ نہیں جانتی تھی لیکن اب سب جان چکی اور اور اب میں شانزے کو دھوندنے میں تمھاری مدد کرونگی مجھے ایک موقع دو پلیز ۔
میں اب غلطی کا کفارہ کرنا چاہتی ہو اور مجھے کوئی آزاد نہیں ہونا تمھارے ساتھ ہی رہنا ہے مجھے سمجھے آئی لو یو۔۔
حورعین نے اسکے قریب جاکر اس کے کان میں کہا۔۔۔
لیکن میں اب تم سے پیار نہیں کرتا نفرت کرتا ہو تم سے اور کرتا رہو گا سمجھی ہٹو یہاں سے مجھے اب اپنی شکل بھی مت دیکھانا۔۔۔
ریحان نے اس کے بازو سے پکر کر اسے پیچھے کرتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔۔
میں تمھیں راضی کر کے ہی دم لو گی اور انشاءاللہ میں بہت جلد تمہارے پاس اونگی ۔۔بس ایک بار میری ہانیہ اپی کا پتا چل جائے تو پھر میں تمہارے پاس اونگی اور تمھارے دل میں دوبارہ اپنے لئے پیار جگاونگی اور یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔۔
حورعین نے جاتے ہوئے ریحان کو دیکھ کر زیر لب کہا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
یہ تم کیا بات کر رہی ہو بیٹا تم جان چکی ہو کیا جان چکی ہو بتاو مجھے۔
جب حورعین کالج سے واپس آئی تو اس نے سوچ لیا تھا کے وہ اب اپنے گھر والوں کو سب کچھ بتا دیگی اس لئے اس نے اتے ہی اپنے والدین سے کہا کے وہ سب جان چکی ہے جو حیران ہو کر اس سے پوچھ رہے تھے۔
ماما بابا عائشہ پھوپھو ریحان راشد انکل۔ان سب کے بارے میں۔
ک ک کیا لیکن کک کسے۔۔
حورعین کی بات سن کے بلال صاحب نے حیرانی سے پوچھا۔۔۔
بابا میرا جب اکسیدینٹ ہوا تھا تو تب سے میں پھوپھو کے گھر ہی تھی اور میں ساری سچائی سے واقف ہو چکی ہو۔۔۔
حورعین نے شروع سے لے کر اخر تک اپنے ماں باپ کو سب کچھ بتادیا تھا جو حیرانی سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔
اتنا کچھ ہوگیا بیٹا لیکن بتایا بھی نہیں۔۔۔
بلال صاحب نے بہت افسردہ ہوتے ہوئے پوچھا۔۔
میں بتانا چاہتی تھی بابا اور بتانے بھی آئی تھی لیکن اپی کی پریشانی میں تھے آپ اس لئے نہیں بتا سکی۔۔۔
میری عائشہ کسی ہے۔۔بلال نے اپنی بہین کا پوچھا۔۔۔
پاپا وہ بہت پریشان ہے اسے اور ریحان کو راشد انکل بہت ترپا رہے ہے شانزے کے لئے۔۔۔
حورعین نے راشد یے بارے میں بھی انہیں سب بتا دیا تھا۔۔۔۔
یہ راشد اتنا کمینہ بھی کسے ہو سکتا ہے مجھے اس سے یہ امید نہیں تھی۔۔۔
بلال صاحب نے غصے سے کہا۔۔۔
بابا ماما ایک بات اور ہے جو میں نے نہیں کہی آپ سے۔۔
حورعین نے دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔
جو اس کے اگلے دھماکے کے انتظار میں تھے۔۔۔
بابا ریحان مجھ سے شادی کر چکا ہے میں اب بیوی ہو اس کی۔۔
کیاااااااااا حورعین کی بات سن کر دونوں میاں بیوی نے حیرانی سے کہا۔۔۔
جی بابا ماما۔۔اور یہ بھی ریحان نے مجبوری میں کیا تھا، وہ ایسا نہیں ہے بہت اچھا ہے حورعین کی آنکھوں میں ریحان کے لئے پیار چھلک رہا تھا۔ایک الگ ہی چمک تھی اس کی آنکھوں میں لیکن اس کی اس بات سے بلال اور حنا کے ہوش ہی اورھ گئے تھے۔۔
تم کیا چاہتی ہو اب۔۔بلال صاحب نے حورعین کا رادعمل پوچھا۔۔۔
بابا میں بھی ریحان کو پسند کرتی ہو اور اسکی بیوی بن کر اس کے ساتھ ہمیشہ رہنا چاہتی ہو۔۔
بیٹا یہ کسے ہوسکتا ہے اس راشد نے مجھ سے بدلہ لینے کے لئے تمھاری شادی ریحان سے کروائی کیا تم خوش رہے پاوگی۔۔۔
بلال صاحب نے حورعین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
جی بابا مجھے اپنے ریحان پر پورا یقین ہے وہ مجھے کوئی تکلیف نہیں ہونے دیگا ۔۔
حورعین نے مسکراہتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
اوکے بیٹا ٹھیک ہے ہم ایک بار ہانیہ کو دھوند لے پھر میں خود چلونگا تمھارے ساتھ اپنی بہین سے بھی ملونگا۔۔۔۔۔۔
سچ پاپا تھینک یو سو مچچ بابا بہت شکریہ اپکا۔۔
انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا جو ان کے گلے لگ کر بولی۔۔۔
بلال صاحب اور والدین کی طرح نہیں تھے جو اپنی مرضی اولاد کے سر پر تھوپتے انہیں بس اپنی بیٹی کی خوشی عزیز تھی اور وہ جان چکے تھے کے حورعین کی خوشی ریحان میں ہے ۔۔۔اس لئے انہوں نے حورعین کی مرضی کو ترجیح دی۔۔۔۔
ارے حنان آؤ بیٹا کسے ہو کچھ پتا چلا ہانیہ کا۔۔بلال صاحب نے جب حنان کو اندر اتے دیکھا تو اس سے پوچھا۔۔۔
جی انکل پتا چل گیا ہے میں اب وہاں ہی جا رہا ہو بس آپ کو بتانے آیا تھا۔۔۔
یااللہ تیرا شکر ہے۔۔سب نے ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔۔۔
میں بھی چلونگا بیٹا۔۔۔بلال صاحب نے حنان سے کہا۔۔
نہیں انکل میں اکیلا جاونگا وہاں اور بھی لوگ ہو سکتے ہے اور میں اپکو کسی مصیبت میں نہیں دال سکتا اور پلیز اپنا خیال رکھے میں انشاءاللہ ہانیہ کو واپس لے کر ہی اونگا۔۔
اور ویسے بھی پولیس میرے ساتھ ہی ہے تو بس اپ سب بے فکر رہے میں چلتا ہو۔۔۔
حنان یہ کہے کر چلا گیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
انسپکٹر وہ گھر ہے اس سلیم کا چلے آئے۔۔۔
حنان نے سامنے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔
یہ کیا یہاں تو کوئی بھی موجود نہیں ہے۔۔
جب یہ لوگ اندر گئے تو کوئی بھی موجود نہیں تھا۔۔۔
شیتتتتت۔۔۔بھاگ گیا۔۔حنان نے دیوار پر موکا مارتے ہوئے کہا۔۔
آپ فکر مت کرے مسٹر حنان ہم اسکو تلاش کر ہی لے گے آپ بس صبر رکھے وہ زیادہ دور نہیں بھاگ سکتا ہم نے اپنی ساری ٹیم ہر جگہ پھیلا دی ہے۔
کیونکہ اب اس سلیم کی تلاش میں مشکل نہیں ہوگی کیونکہ اپکی انفارمیشن کے مطابق جس عبدلقدیر کی بات آپ کر رہے یے وہ لاہور کا برا دون ہے ہم اسے گرفتار نہیں کر سکے کیونکہ ہمارے پاس کوئی صبوط نہیں تھا لیکن اب اس عبدلقدیر کو بھی ہم ہراست میں لے گے اور آپ کی کزن بھی اس کی قید سے رہا ہوجائے گی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بہادر میری بات سنو عبدلقدیر کہا ہے۔۔سلیم نے اڈے پر آتے ہی کہا۔۔
وہ تو کچھ دن کے لئے شہر سے باہر گئے ہے کیو کیا ہوا۔۔عبدلقدیر کے آدمی نے سلیم سے کہا۔۔۔
یار پولس کو پتاچل گیا ہے کے میں نے ہانیہ کو اغوا کروایا، بہت مشکل سے جان بچا کر بھاگا ہو اور عبدلقدیر کا موبائل بھی بند آرہا ہے۔
انہیں کسی بھی طرح اطلاع دو کے ہانیہ کو لے کر یہاں سے نکلے کیونکہ پولیس کسی بھی وقت مجھ تک پہنچ سکتی ہے اور وہ لوگ زبردستی مجھے یہاں تک لے اےنگے کیونکہ ان کی ٹیم ہر جگہ موجود ہے۔
سلیم نے بہادر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
نمبر تو بوس کا بند رہے گا کیونکہ وہ جب بھی جاتے ہے نمبربند کرتے ہے ہاں ایک کام ہو سکتا ہے اس لڑکی کو اپنے دوسرے ڈیرے پر لے جاتے ہے ۔۔
اس بہادر نے دوسری جگہ لیجانے کا کہا۔۔۔
ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔۔تم ایسا کرو اسے بےہوش کردو اور اسکو برکھا پہنا کر لے جاؤ۔۔سلیم نے اسے برکھا دیتے ہوئے کہا جو خود پولیس سے بچنے کے لئے پہنے گھوم رہا تھا۔۔۔
۔۔۔۔
اے لڑکے گاڑی روک۔۔جب بہادر گاری چلا رہا تھا تو پولیس نے اسے گاڑی روکنے کا کہا۔۔۔
کہا جا رہے ہو اور یہ خاتون کون ہے۔۔۔
پولیس نے پہلے گاڑی کا جائزہ لیا اور پھر برخے والی کا پوچھا۔۔۔۔
جی صاحب میری بیوی ہے۔۔۔بہادر نے خود ہر کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔۔۔
جانے دے سر اسے یہ بھی نہیں ہے۔۔۔حنان نے انہیں جانے کا کہا۔۔۔یہ سب گاڑیاں اس لئے روک رہے تھے کے حنان سلیم کی جانچ کر سکے لیکن سلیم انکو نہیں ملا۔۔۔۔۔
بہادر گاری لے کر جلدی سے نکلا اور موبائل نکال کر کال کرنے لگا۔۔۔
ہیلو سلیم یہاں تو ہر جگہ تجھے پکرنے کے لئے پولیس کھڑی ہے تم ہوشیار رہنا۔۔۔
بہادر نے کال ملا کر سلیم کو ہوشیار رہنے کا کہا اور موبائل بند کردیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آہ میرا سر ہانیہ جب ہوش میں آئی تو وہ ایک کمرے میں موجود تھی جہاں اور لڑکیاں بھی موجود تھی۔۔۔
کک کون ہو تم سب اور م م میں کہا ہو۔۔۔
ہانیہ نے جب بہت سی لڑکیوں کو دیکھا تو گھبراتے ہوئے بولی۔۔
دی دی میرا نام شانزے ہے ہم سب کو ان لوگوں نے اغوا کر رکھا یے اور روزانہ یہ لوگ اتے ہے اور دو لڑکیوں کو لے کر جاتے ہے اور ان میں درگز چھپا کر باہر کے ملک بھیج کر درگز سپلاے کرتے ہے۔۔۔
ہانیہ جب پریشانی سے ادھر اودھر دیکھ رہی تھی تو ایک اٹھارہ سال کی لڑکی نے اس کے پاس آتے ہوئے کہا۔۔۔
سب لڑکیاں لائن پر کھڑی ہوجاؤ کوئی بھی اپنی جگہ سے ہیلی تو اس گولی سے ماردالونگا۔
جب شانزے ہانیہ کو سب کچھ بتا رہی تھی تو اچانک سے دو ادمی دروازہ کھول کر اندر آئے اور لڑکیوں سے کہا۔
سب لڑکیاں دری سہیمی ہوئی ایک لائن بنا کر کھڑی ہوگئ۔ناجانے آج کس کی بلی چرنے والی تھی۔
ہیلو گریا کیسی ہو۔جب شانزے ہانیہ کے ساتھ دری سہمی کھڑی تھی تو ایک ادمی شانزے کے پاس اتے ہوئے بولا۔
ہاتھ مت لگائے آپ بہت گندے ہے اتنے سالوں سے مجھے یہاں قید کر رکھا ہے اخر چاہتے کیا ہے اپ مجھ سے۔
ہاہاہاہا تم سے نہیں گریا تمھاری اس منہ بولی ماں سے جو روزانہ تمھارے لئے ترپتی ہے بس جو میں چاہتا ہو وہ مجھے مل جائے پھر تمھیں ہمیشہ کے لئے اللہ کے پاس بَھیج دونگا۔
راشد نے بلند قہقہہ لگاتے ہوئے شانزے سے کہا جو اس درگز گینگ میں شامل تھا اور شانزے کو یہاں چھپا رکھا تھا۔
یہ لڑکی کون ہے بہادر۔۔راشد نے ہانیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
نیا مال ہے صاحب ۔۔بوس اسکا دیوانہ ہے اسے کچھ نہیں کرنا درگز کے لئے ان لائن میں کھڑی لڑکیوں کو پسند کرلے کیونکہ ان دو لڑکیوں کا تو الگ حساب ہے یہ ایک اپکی ہے اور دوسری بوس کی۔بہادر نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔تو پھر آج کون جانا پسند کرےگی اس ملک سے باہر۔
راشد نے لائن میں کھڑی لڑکیوں کے پاس جاتے ہوئے کہا۔۔
آج کوئی نہیں جائے گی سمجھے شرم کرو باپ کی جگہ ہو ان سب کے کیو یہ غلط کام کر رہے ہو تم جسے انسان کو موت بھی نہیں آئے گی۔۔
جب راشد لڑکیوں کا جائزہ لے رہا تھا تو شانزے نے چلاتے ہوئے کہا۔۔
آڑے وہاں شانزے گریا تمھاری بھی آواز نکل آئی ہے تو چلو اس آواز کو بند کر دیتے ہے۔۔
راشد نے شانزے کے سر پر پستول رکھتے ہوئے کہا کے اچانک سے پستول کی گولی راشد نے لائن میں کھڑی لڑکی کے سینے کے پار کردی۔۔۔
سب لڑکیاں اور بھی خوفزہ ہوگئ۔۔۔
تو اور بھی کچھ کہنا ہے تمھیں گریا۔۔
اب کوئی بھی آواز نکلی نا تو اس کے بعد تمھاری باری ہے۔۔
راشد نے شانزے کی کن پوٹلی پر پستول رکھتے ہوئے کہا جو در کر ہانیہ کے پیچھے چپ گئ۔۔۔۔
اے لڑکی تم اور تم دونوں باہر آؤ۔۔
راشد نے دو لڑکیوں کو باہر آنے کا کہا وہ دونوں دری سیمی اس کے پیچھے پیچھے جانے لگی اور سب لڑکیاں انہیں دیکھ کر رونے لگی۔۔
بہادر اس لڑکی کی لاش کو کسی جگہ پھینک آؤ۔۔۔
راشد نے زمین پر گیری لڑکی کی لاش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور ان دونوں لڑکیوں کو لے کر چلا گیا۔۔۔۔
بہت ہی ذلت تھی اللہ جانے کب سے ان بیچاری لڑکیوں کو اغوا کرکے درگز سپلائے کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔۔۔
جس نے بھی اس درگز کا سلسلہ شروع کیا اللہ کرے جلد ہی دنیا سے اسکا خاتمہ ہوجائے ۔۔
یہ ایک پروپیگنڈہ ہے جو ہماری نسل کو تباہ کر رہا ہے۔۔
اللہ کرے ان درگز سپلاے والوں کو ایسی سزا ملے کے دوبارہ اس زہر کو پھیلانے کا بھی نا سوچے۔۔
کہا جاتا ہے کے سیگریٹ صحت کے لیے منحصر ہے ۔ اتنا ہی دنیا میں اس کی ڈیمانڈ زیادہ ہے ۔
۔اگر منصحر ہے تو کیو اس زہر کو بیچا جا رہا ہے کتنی جانے اس سیگریٹ نشے کی وجہ سے تباہ ہے ارے میں کہتی ہو اگر درگز کوکین ہیروئن پر ایکشن لیا جاتا ہے تو اس سیگریٹ پر کیو نہیں آج کل جسے دیکھیو چھوٹے سے چھوٹے بچے جگہ جگہ اس سیگریٹ کو پی رہے ہے ۔۔
حکومت اس سیگریٹ کو ختم کیو نہیں کر دیتی کیونکہ اس چھوٹی سی سیگریٹ سے ہی ہماری نسل برے بڑے درگز اور نشے کا شکار ہوتے ہے۔۔۔۔
کیا گزرتی ہوگی ان والدین پر جن کے بچے جوان ہونے سے پہلے ہی اس نشے سیگریٹ کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہے یا کیا گزرتی ہوگی ان بیویوں پر جو بڑھی جوانی میں بیوہ ہوگئ یا کیا قصور ہے ان معصوم بچوں کا جنہوں نے اپنے والد کے بغیر ہی بچپن گزار دیا۔۔
خدار دار اس چھوٹے سے نشے سیگریٹ نسوار کو ختم کرے تو برے برے نشے خود ختم ہوجائے گے۔۔
اگر کوئی اپنے ملک کی نسل کو مستقبل کو بچانا چاہتا ہے تو پلیز میری حکومت سے درخواست ہے اس سیگریٹ اور نسوار جسے نشے کو ختم کرے ۔۔۔۔ کچھ ایکشن لے کیونکہ ہماری نسل کی بربادی کی زیمدار یہ حکومت ہی ہے کیونکہ یہ لوگ اگر سیگریٹ جسے چھوٹے نشے کو ختم نہیں کر سکتے تو ان لوگوں سے درگز کےختمے کی بھی امید رکھنا بےقار ہے۔۔
کہتے ہے ہمارا پورا مستقبل ہمارے وزیراعظم کے ہاتھ میں ہے تو یہ کروناوایرس سے بچاؤ کے لئے لاگ داون لگا سکتے ہے تو جان کے بچاؤ کے لئے نسل کے مستقبل کے بچاؤ کے لئے سیگریٹ پر کیو نہیں۔۔
ہر کوئی اپنی زندگی کے مست ماحول میں ہے کوئی یہ کیو نہیں سوچتا کے کچھ ایکشن لے اپنی نسل کو تباہ ہونے سے بچائے۔۔۔۔